ایک قبا زیر ِ قبا اور ایک چہرہ پہ دوسرا چہرہ
حسن نثار
28 جنوری ، 2021
بہت ہی شانت، نرم و گداز، اجلی، دھلی دھلی کوزی سی صبح ہے اور میں اپنے فیورٹ ٹیرس پر بیٹھا اخبار پڑھتے ہوئے سوچ رہا ہوں....کیا لکھوں؟ گزشتہ چند کالم کچھ سٹریل قسم کے تھے لیکن قصور میرا بھی نہیں کیونکہ ’’پھوڑی‘‘ پر بیٹھ کر مسکرانا مناسب نہیں، صف ِ ماتم پہ تو ماتم ہی اچھا لگتا ہے اور ماتم کا موسم ہے کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ ایک عذاب ختم نہیں ہوتا کہ دوسرے کی آمد کا اعلان شروع ہو جاتا ہے۔
ایف نائن پارک اسلام آباد کے بجائے اسلام آباد کلب گروی رکھنے کی بلین ڈالر تجویز پڑھ کے بہت مسرور ہوں کہ ’’تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آ گئی ہے‘‘۔ اسلام آباد کلب کے بعد اسلام آباد بھی گروی رکھ دیں تو ’’تبدیلی‘‘ تاریخی قسم کا یوٹرن مکمل کر لے گی لیکن ممکن ہو تو اسلام آباد کے بعد اسلام کو گروی رکھنے سے گریز کریں کہ اس کیلئے ہمارے دیگر ’’برادران‘‘ ہی کافی ہیں جو اوپر نیچے اسرائیلی عشق میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ یوں تو قرضوں کے عوض ہماری آئندہ نسلیں بھی گروی پڑی ہیں کہ پیدا ہونے والا بچہ بھی دو لاکھ کا مقروض ہے سو جو چاہیں گروی یعنی مزید گروی رکھ دیں۔
کون کہتا ہے غلامی اور غلاموں کی نیلامی ختم ہو گئی۔ ہم نے بردہ فروشی کی وہ قسم ’’ایجاد‘‘ کی ہے کہ سیدنا بلالؓ کی روح بھی داد دیتی ہو گی۔ رواج تو یہ تھا کہ غلام پیدا ہونے کے بعد بیچے خریدے جاتے تھے۔ ہم نے پیدائش سے پہلے ان کے بیعانے پکڑ لئے اور ایون فیلڈ، سرے محل میں ’’سرمایہ کاری‘‘ کر دی کیونکہ ہمارے پاس ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں۔ ہند سندھ میں کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔ کون احمق کہتا ہے کہ اپنا ملک بیچ بیچ کر بیرونِ ملک اثاثے بنانا جرم ہے۔ بیوقوف سمجھ ہی نہیں رہے کہ یہ بھی ترقی یافتہ دنیا کو ’’فتح‘‘ کرنے کا ایک طریقہ ہے۔ ذرا ٹھنڈے دل سے سوچو کہ لندن کی ساری یا بیشتر جائیدادیں اگر نظریاتی و انقلابی نواز شریف وغیرہ خرید لیں تو بھلا انگلینڈ کے پلے کیا رہ جائے گا؟ یہ تھی اور ہے نواز شریف اور ان جیسوں کی عظیم اقتصادی پالیسی و حکمت عملی جو بہت سے نالائقوں کو سمجھ نہیں آ رہی لیکن خیر ہے..... یار زندہ صحبت باقی۔ پہلی جلاوطنی نے کیا بگاڑ لیا تھا جو یہ والی بگاڑ لے گی۔
ترقی یافتہ دنیا کو ’’مغلوب‘‘ کرنے کی اس سٹرٹیجی کی کچھ نہ کچھ قیمت تو بہرحال ادا کرنا ہو گی۔ سو اگر رواں سال مہنگائی کی شرح 7.2سے 8.2فیصد رہنے کی توقع ہے اور پٹرول ڈیزل وغیرہ پر او ایم سی ڈیلر مارجن بڑھانے کی سمری بھی تیار ہے تو.....
قدم بڑھائو نواز شریف ہم تمہارے ساتھ تھے
قدم بڑھائو عمران خان ہم تمہارے ساتھ ہیں
کتنی دلچسپ دنیا ہے ہم پاکستانیوں یعنی غیوروں، باشعوروں کی کہ حافظ حسین احمد جیسا ذہین شخص بھی کہتا ہے کہ ’’بلاول اور مریم کے ہاتھوں مولانا فضل الرحمٰن کی جیب کٹ گئی۔‘‘ حافظ صاحب سے کوئی پوچھے کہ حضرت! مولانا کی جیب میں اپنا تھا ہی کیا جو جاتا رہا؟ یہ
درست کہ دونوں بچوں کو ’’جیب تراشی‘‘ کی تربیت ماہر ترین اساتذہ سے ملی ہے لیکن مولانا کی مقدس جیب میں تو اپنا تھا ہی کچھ نہیں اور یوں بھی کچھ لوگوں کی جیبوں کے اندر جیبیں ہوتی ہیں جیسے اکثر واعظ درست کہتے ہیں کہ ’’اک قبا اور بھی وہ زیرِ قبا رکھتے ہیں‘‘
جیسے ’’ایک چہرے پر کئی چہرے سجا لیتے ہیں لوگ‘‘۔
’’اک قبا زیر ِ قبا‘‘..... ’’ایک چہرے پر دوسرا چہرہ‘‘۔ یہ ہے اسلامی جمہوریہ پاکستان کا اصل نظام جس میں پٹرول، ڈیزل مزید مہنگا ہونے کی نوید مسرت آپ کی منتظر ہے۔ کھوکھر پیلس گرانے کے ڈی سی لاہور کے حکم پر عملدرآمد معطل ہو چکا اور خواجہ آصف عرف خواجہ اقامہ کی جیل میں بی کلاس کیلئے درخواست بھی درِ انصاف پر دستک دے رہی ہے جس کے نتیجہ میں ’’مظلوم‘‘ کو جیل کی دہلیز پر فوری انصاف مل جانے کی امید ہے۔ درخواست منظوری کے بعد خواجہ کو گھر کا کھانا، ہیٹر اور طبی سہولیات فراہم کر دی جائیں گی۔
ہر قیدی کیلئے گھر کے کھانے کی نوبت اس لئے نہیں آتی کیونکہ اکثر عام قیدیوں کے گھروں میں اتنا کھانا ہوتا ہی نہیں کہ اپنے قیدی کو پہنچا سکیں کہ گھر سے جیل تک کھانا پہنچانے کے اخراجات اور ’’اوور ہیڈز‘‘ علیحدہ۔
کبھی کبھی سوچتا ہوں کہ پاکستان کی تمام جیلوں کے ان تمام قیدیوں کا سروے کیا جائے جو مختلف قسم کے چوری چکاری، مالی جرائم میں ملوث تھے۔ ان پر عائد الزامات فراڈ+ چوری+ ڈکیتی+ ڈاکہ زنی+ رہزنی وغیرہ سے حاصل شدہ رقوم کا ٹوٹل کر کے کسی بھی مقتدر حرام خور کی دولت سے اس کا موازنہ کریں تو انکشاف یہ ہو گا کہ مرغی چور عام لوگوں مع ڈبل شاہوں کی زندگی بھر کے حرام کا گرینڈ ٹوٹل کسی بھی ایک ’’معزز مقتدر‘‘ حرام خور کی ایک دن کی ’’کمائی‘‘ سے بھی کم ہے۔ تو یہ ہے وہ آدم خور نظام جس کے بارے میں قسم اٹھا کر کہا جا سکتا ہے کہ
’’اک قبا اور بھی یہ زیر ِ قبا رکھتا ہے‘‘
اور اس کے ایک چہرہ پر، دوسرا، تیسرا، چوتھا چہرہ بھی موجود ہے جو سیانوں کو بھی دکھائی نہیں دیتا اور وہ اس فراڈ کو ہی ’’جمہوریت‘‘ سمجھے جا رہے ہیں۔
ایک قبا زیر ِ قبا اور ایک چہرہ پہ دوسرا چہرہ