ٹائپنگ مکمل عظیم بیگ چغتائی کے افسانے۔ ص 9-13

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 9

انگوٹھی کی مصیبت

میں نے شاہدہ سے کہا۔ "تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔"
شاہدہ نے کہا۔ "آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔"
میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک خادمہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میں چپکے سے برابر ولاے کمرے میں پہنچی اور مسہری کے تکیہ کے نیچے سے کنجی کا گچھا لیا۔ سیدھی کمرے پر واپس آئی اور شاہدہ سے کہا۔"جلدی چلو۔"
ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی، اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لئے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔
"وہ دیکھ! وہ دیکھ!، وہ اچھا ہے" شاہدہ نے کہا۔
"نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ادھر سے۔" یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہو گی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔
"یہ لے!" شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط۔"
میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ "کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟"
"کمبخت یہ دوہاجو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجئو۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 10

دے تو میرا نام پلٹ کر رکھ دیجئو۔ دیکھتی نہیں کہ بس کی گانٹھ کتنا شریر ہے۔ اور پھر راتوں کو تیری سوت خواب میں الگ آ کر گلا دبائے گی۔"
"تو تو پاگل ہو گئی ہے۔" میں نے کہا۔ "شاہدہ ڈھنگ کی باتیں کر۔"
شاہدہ ہنستے ہوئے بولی۔ "میری بلا سے۔ کل کی کرتی تو آج کر لے میری دانست میں تو اس پروفیسر کو بھی کوئی ایسی ہی ملے تو ٹھیک رہے جو دو تین موذی بچے جہیز میں لائے۔ اور وہ اس کے چھوکرے کو مارتے مارتے اتو کر دیں۔ چل رکھ اس کو۔۔۔دوسری دیکھ۔"
پہلی تصویر پر یہ ریمارکس پاس کئے گئے اور اس کو جوں کا توں رکھ کر دوسری تصویر اٹھائی۔ اور شاہدہ سے پوچھا ۔"یہ کیسا ہے؟"
شاہدہ غور سے دیکھ کر بولی۔" ویسے تو ٹھیک ہے مگر ذرا کالا ہے۔ کون سے درجے میں پڑھتا ہے؟"
میں نے تصویر دیکھ بھال کر کہا۔"بی۔اے میں پڑھتا ہے۔ کالا تو ایسا نہیں ہے۔"
شاہدہ نے کہا۔" ہوں! یہ آخر تجھے کیا ہو گیا ہے، جسے دیکھتی ہے اس پہ عاشق ہوئی جاتی ہے۔ نہ کالا دیکھتی ہے نہ گورا، نہ بڈھا دیکھتی ہے نہ جوان!" میں نے زور سے شاہدہ کے چٹکی لے کر کہا۔" کمبخت میں نے تجھے اس لئے بلایا تھا کہ تو مجھے تنگ کرے! غور سے دیکھ۔"
غور سے تصویر دیکھ کر اور کچھ سوچ کر شاہدہ بولی "نہ بہن یہ ہر گز ٹھیک نہیں، میں تو کہہ چکی، آئندہ تو جانے۔"
میں نے کہا۔" خط تو دیکھ بڑے رئیس کا لڑکا ہے۔" یہ تصویر ایک طالب علم کی تھی جو ٹینس کا بلا لئے بیٹھا تھا۔ دو تین تمغے لگائے ہوئے تھا اور دو تین جیتے ہوئے کپ سامنے میز پر رکھے ہوئے تھے۔
شاہدہ بولی۔" ویسے تو لڑکا بڑا اچھا ہے۔ عمر میں تیرے جوڑ کا ہے۔ مگر ابھی پڑھتا ہے اور تیرا بھی شوکت کا سا حال ہو گا کہ دس روپے ماہوار جیب خرچ اور کھانے اور کپڑے پر نوکر ہو جائے گی اور دن رات ساس نندوں کی جوتیاں، یہ تو جھگڑا ہے۔"
میں نے کہا۔" بی اے میں پڑھتا ہے، سال دو سال میں نوکر ہو جائے گا۔" "ٹینس کا جمعدار ہو رہا ہے تو دیکھ لیجئو دو تین دفعہ فیل ہو گا اور ساس نندیں بھی کہیں گی کہ بیوی پڑھنے نہیں دیتی
اور پھر دوڑنے دھوپنے کا شوقین، تجھے رپٹا مارے گا۔ ویسے تو لڑکا اچھا ہے، صورت بھی بھولی بھالی ہے اور ایسا ہے کہ جب شرارت کرے، اٹھا کر طاق پر بٹھا دیا۔ مگر نہ بابا میں رائے نہ دوں گی۔"
اس تصویر کو بھی رکھ دیا اور اب دوسرا بنڈل کھولا اور ایک اور تصویر نکلی۔
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 11
"آخاہ! یہ موا پان کا غلام کہاں سے آیا۔" شاہدہ نے ہنس کر کہا۔" دیکھ تو کمبخت کی ڈاڑھی کیسی ہے اور پھر مونچھیں اس نے ایسی کتروائی ہیں کہ جیسے سینگ کٹا کر بچھڑوں میں مل جائے!"
میں بھی ہنسنے لگی۔ یہ ایک معزز رئیس آنریری مجسٹریٹ تھے اور ان کی عمر بھی زیادہ نہ تھی۔ مگر مجھ کو یہ ذرہ بھر پسند نہ آئے۔
غور سے شاہدہ نے تصویر دیکھ کر پہلے تو ان کی نقل بنائی اور پھر کہنے لگی۔ "ایسے کو بھلا کون لڑکی دے گا؟"۔نہ معلوم اس کے کتنی لڑکیاں اور بیویاں ہوں گی۔ پھینک اسے۔"
یہ تصویر بھی رکھ دی گئی اور دوسرا بنڈل کھول کر ایک اور تصویر لی۔ " یہ تو گبرو جوان ہے؟ اس تو فورا کر لے" شاہدہ تصویر دیکھ کر بولی "یہ ہے کون!ذرا دیکھ۔"
میں نے دیکھ کر بتایا کہ ڈاکٹر ہے۔
"بس بس، یہ ٹھیک، خوب تیری نبض ٹٹول ٹٹول کے روز تھرمامیٹر لگائے گا۔ صورت شکل ٹھیک ہے۔" شاہدہ نے ہنس کر کہا۔ "میرا میاں بھی ایسا ہی ہٹا کٹا موٹا تازہ ہے"
میں نے ہنس کر کہا۔ "کمبخت آخر تو ایسی باتیں کہاں سے سیکھ آئی ہے، کیا تو نے اپنے میاں کو دیکھا ہے؟"
"دیکھا تو نہیں مگر سنا ہے کہ بہت اچھا ہے"
"بھدا سا ہو گا۔" شاہدہ نے چیں بچیں ہو کر کہا۔"اتنا تو میں جانتی ہوں کہ جو کہیں تو اسے دیکھ لے تو شاید لٹو ہی ہو جائے۔"
میں نے اب ڈاکٹر صاحب کی تصویر کو غور سے دیکھا اور نکتہ چینی شروع کی۔ نہ اس لئے کہ مجھے یہ ناپسند تھے ، بلکہ محض اس لئے کہ کچھ رائے زنی ہو سکے۔ چنانچہ میں نے کہا" ان کی ناک ذرا موٹی ہے۔"
"سب ٹھیک ہے۔" شاہدہ نے کہا۔ ذرا اس کا خط دیکھ۔"
میں نے دیکھا کہ صرف دو خط ہیں۔ پڑھنے سے معلوم ہوا کہ ان کی پہلی بیوی موجود ہیں مگر پاگل ہو گئی ہیں۔
پھینک پھینک اسے کمبخت کو پھینک۔" شاہدہ نے جل کر کہا۔ :جھوٹا ہے کمبخت کل کو تجھے بھی پاگل خانہ میں ڈال کے تیسری کو تکے گا۔"
ڈاکٹر صاحب بھی نامنظور کر دیے گئے اور پھر ایک اور تصویر اٹھائی۔
شاہدہ نے اور میں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا۔ یہ تصویر ایک نو عمر اور خوبصورت جوان کی تھی۔ شاہدہ نے پسند کرتے ہوئے کہا۔ "یہ تو ایسا ہے کہ میری بھی رال ٹپکتی پڑ رہی ہے۔ دیکھ تو کتنا خوبصورت جوان ہے۔ بس اس سے تو آنکھ میچ کے کر لے اور اسے گلے کا ہار بنا لیجیو۔"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 12

ہم دونوں نے غور سے اس تصویر کو دیکھا ہر طرح دونوں نے پسند کیا اور پاس کر دیا۔ شاہدہ نے اس کے خط کو دیکھنے کو کہا۔ خط جو پڑھا تو معلوم ہوا کہ یہ حضرت ولایت میں پڑھتے ہیں۔
"ارے توبہ توبہ، چھوڑ اسے۔" شاہدہ نے کہا۔
میں نے کہا"کیوں۔ آخر کوئی وجہ؟"
"وجہ یہ کہ بھلا اسے وہاں میمیں چھوڑیں گی۔ عجب نہیں کہ ایک آدھ کو ساتھ لے آئے۔"
میں نے کہا۔ "واہ اس سے کیا ہوتا ہے۔ احمد بھائی کو دیکھو، پانچ سال ولایت میں رہے تو کیا ہو گیا۔"
شاہدہ تیزی سے بولی "بڑے احمد بھائی احمد بھائی، رجسٹر لے کر وہاں کی بھاوجوں کے نام لکھنا شروع کرے گی تو عمر ختم ہو جائے گی اور رجسٹر تیار نہ ہو گا۔ میں تو ایسا جوا نہ کھیلوں اور نہ کسی کو صلاح دوں۔ یہ ادھار کا سا معاملہ ٹھیک نہیں۔"
یہ تصویر بھی ناپسند کر کے رکھ دی گئی اور اس کے بعد ایک اور نکالی۔ شاہدہ نے تصویر دے کر کہا۔ "یہ تو اللہ رکھے اس قدر باریک ہیں کہ سوئی کے ناکہ میں سے نکل جائیں گے۔ علاوہ اس کے کوئی آندھی بگولا آیا تو یہ اڑ اڑا جائیں گے اور تو رانڈ ہو جائے گی۔"
اسی طرح دو تین تصویریں اور دیکھی گئیں کہ اصل تصویر آئی اور میرے منہ سے نکل گیا۔ "اخاہ۔"
"مجھے دے۔ دیکھوں، دیکھوں۔" کہہ کر شاہدہ نے تصویر لے لی۔
ہم دونوں نے غور سے اس کو دیکھا۔ یہ ایک بڑی سی تصویر تھی۔ ایک تو وہ خود ہی تصویر تھا اور پھر اس قدر صاف اور عمدہ کھینچی ہوئی کہ بال بال کا عکس موجود تھا۔ شاہدہ نے ہنس کر کہا۔" اسے مت چھوڑیو۔ ایسے میں تو میں دو کر لوں۔ یہ آخر ہے کون؟۔۔۔"
تصویر کو الٹ کر دیکھا جیسے دستخط اوپر تھے ایسے ہی پشت پر تھے مگر شہر کا نام لکھا ہوا تھا اور بغیر خطوط کے دیکھے ہوئے مجھے معلوم ہو گیا کہ کس کی تصویر ہے۔ میں نے شاہدہ سے کہا "یہ وہی ہے جس کا میں نے تجھ سے اس روز ذکر کیا تھا۔"
"اچھا یہ بیرسٹر صاحب ہیں۔" شاہدہ نے پسندیدگی کے لہجہ میں کہا۔ "صورت شکل تو خوب ہے، مگر ان کی کچھ چلتی بھی ہے یا نہیں؟"
میں نے کہا۔"ابھی کیا چلتی ہو گی۔ ابھی آئے ہوئے دن ہی کتنے ہوئے ہیں۔"
"تو پھر ہوا کھاتے ہوں گے۔" شاہدہ نے ہنستے ہوئے کہا۔" خیر تو اس سے ضرور کر لے۔ خوب تجھے موٹروں پر سیر کرائے گا، سینما اور تھیٹر دکھائے گا اور جلسوں میں نچائے گا۔"
 

فرحت کیانی

لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 13

میں نے کہا "کچھ غریب تھوڑی ہیں۔ ابھی تو باپ کے سر کھاتے ہیں۔"
شاہدہ نے چونک کر کہا "اری بات تو سن۔"
میں نے کہا "کیوں۔"
شاہدہ بولی۔ "صورت شکل بھی اچھی ہے۔ خوب گورا چٹا ہے۔ بلکہ تجھ سے بھی اچھا ہے اور عمر بھی ٹھیک ہے۔ مگر یہ تو بتا کہ کہیں کوئی میم ویم تو نہیں پکڑ لایا ہے۔"
میں نے کہا۔ "مجھے کیا معلوم۔ لیکن اگر کوئی ساتھ ہوتی تو شادی کیوں کرتے۔"
"ٹھیک ٹھیک۔" شاہدہ نے سر ہلا کر کہا۔ "بس اللہ کا نام لے کر پھانس" میں نے خط اٹھائے اور شاہدہ دوسری تصویریں دیکھنے لگی۔ میں خط پڑھ رہی تھی اور وہ ہر ایک تصویر کا منہ چڑا رہی تھی۔ میں نے خوش ہو کر اس کو چپکے چپکے خط کو کچھ حصہ سنایا۔ شاہدہ سن کر بولی "الا اللہ!" میں نے اور آگے پڑھا تو کہنے لگی۔ "وہ مارا۔" غرض خط کا سارا مضمون سنایا۔
شاہدہ نے خط سن کر کہا کہ "یہ تو سب معاملہ فٹ ہے اور چول بیٹھ گئی ہے۔ اب تو گڑ تقسیم کر دے۔"
پھر ہم دونوں نے اس تصویر کو غور سے دیکھا۔ دونوں نے رہ رہ کر پسند کیا۔ یہ ایک نوعمر بیرسٹر تھے اور غیر معمولی طور پر خوبصورت معلوم ہوتے تھے اور ناک نقشہ سب بے عیب تھا۔ شاہدہ رہ رہ کر تعریف کر رہی تھی۔ ڈاڑھی مونچھیں سب صاف تھیں اور ایک دھاری دار سوٹ پہنے ہوئے تھے۔ ہاتھ میں کوئی کتاب تھی۔
میں نے بیرسٹر صاحب کے دوسرے خط پڑھے، اور مجھ کو کل حالات معلوم ہو گئے۔ معلوم ہوا ہے کہ بیرسٹر صاحب بڑے اچھے اور رئیس گھرانے کے ہیں اور شادی کا معاملہ طے ہو گیا ہے۔ آخری خط سے پتہ چلتا تھا کہ صرف شادی کی تاریخ کے معاملہ میں کچھ تصفیہ ہونا باقی ہے۔
میں نے چاہا کہ اور دوسرے خط پڑھوں اور خصوصا آنریری مجسٹریٹ صاحب کا مگر شاہدہ نے کہا۔ " اب دوسرے خط نہ پڑھنے دوں گی۔ بس یہی ٹھیک ہے۔" میں نے کہا "ان کے ذکر کی بھنک ایک مرتبہ سن چکی ہوں۔ آخر دیکھ تو لینے دے کہ معاملات کہاں تک پہنچ چکے ہیں۔"
شاہدہ نے جھٹک کر کہا۔ "چل رہنے دے اس موذی کا ذکر تک نہ کر" میں نے بہت کچھ کوشش کی مگر اس نے ایک نہ سنی۔ قصہ مختصر جلدی جلدی سب چیزیں جوں کی توں رکھ دیں، اور الماری بند کر کے میں نے مردانہ زینہ کا دروازہ کھولا اور شاہدہ کے ساتھ چپکے سے جیسے آئی تھی ویسے ہی واپس ہوئی۔ جہاں سے کنجی لی تھی، اسی طرح رکھ دی۔ شاہدہ سے دیر تک بیرسٹر صاحب کی باتیں ہوتی رہیں۔ شاہدہ کو میں نے اسی لئے بلایا تھا۔ شام کو وہ اپنے گھر چلی گئی مگر اتنا کہتی گئی کہ خالہ جان کی باتوں سے بھی پتہ چلتا ہے کہ تیری شادی اب بالکل طے ہو گئی اور تو

اختتام ص 9-13
 
Top