فرحت کیانی
لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
ص 9
انگوٹھی کی مصیبت
میں نے شاہدہ سے کہا۔ "تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔"
شاہدہ نے کہا۔ "آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔"
میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک خادمہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میں چپکے سے برابر ولاے کمرے میں پہنچی اور مسہری کے تکیہ کے نیچے سے کنجی کا گچھا لیا۔ سیدھی کمرے پر واپس آئی اور شاہدہ سے کہا۔"جلدی چلو۔"
ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی، اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لئے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔
"وہ دیکھ! وہ دیکھ!، وہ اچھا ہے" شاہدہ نے کہا۔
"نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ادھر سے۔" یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہو گی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔
"یہ لے!" شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط۔"
میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ "کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟"
"کمبخت یہ دوہاجو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجئو۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال
ص 9
انگوٹھی کی مصیبت
میں نے شاہدہ سے کہا۔ "تو میں جا کے اب کنجیاں لے آؤں۔"
شاہدہ نے کہا۔ "آخر تو کیوں اپنی شادی کے لئے اتنی تڑپ رہی ہے؟ اچھا جا۔"
میں ہنستی ہوئی چلی گئی۔ کمرہ سے باہر نکلی۔ دوپہر کا وقت تھا اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ اماں جان اپنے کمرہ میں سو رہی تھیں اور ایک خادمہ پنکھا جھل رہی تھی۔ میں چپکے سے برابر ولاے کمرے میں پہنچی اور مسہری کے تکیہ کے نیچے سے کنجی کا گچھا لیا۔ سیدھی کمرے پر واپس آئی اور شاہدہ سے کہا۔"جلدی چلو۔"
ہم دونوں نے چپکے سے چلتے ہوئے کہ کہیں کوئی پیر کی آہٹ نہ سن لے زینے کی راہ لی، اور ابا جان والی چھت پر داخل ہوئی۔ وہاں بھی حسب توقع سناٹا پایا۔ سب سے پہلے دوڑ کر میں نے دروازہ بند کر دیا جو باہر زینے سے آنے جانے کے لئے تھا۔ اس کے بعد یہ دروازہ بھی بند کر دیا جس سے ہم دونوں داخل ہوئے تھے۔ سیدھی ابا جان کے کمرہ میں پہنچ کر ان کی الماری کا تالہ کھولا۔ کیا دیکھتی ہوں کہ سامنے بیچ کے تختہ پر تمام خطوط اور تصویریں رکھی ہیں۔
"وہ دیکھ! وہ دیکھ!، وہ اچھا ہے" شاہدہ نے کہا۔
"نہیں شروع سے دیکھو۔۔۔ادھر سے۔" یہ کہہ کر میں نے شروع کا بنڈل کھولا اور اس میں سے تصویر نکالی۔ یہ ایک پروفیسر صاحب کی تصویر تھی۔ جن کی عمر پینتیس سال کی ہو گی۔ یہ نہایت ہی عمدہ سوٹ پہنے بڑی شان سے کرسی کا تکیہ پکڑے کھڑے تھے۔ کرسی پر ان کا پانچ سال کا بچہ بیٹھا تھا۔ ان کی پہلی بیوی مر چکی تھیں۔ اب مجھ سے شادی کرنا چاہتے تھے۔ نام اور پتہ وغیرہ سب تصویر کی پشت پر موجود تھا۔
"یہ لے!" شاہدہ نے کہا۔ پہلی ہی بسم اللہ غلط۔"
میں نے تصویر کو دیکھتے ہوئے کہا۔ "کیوں؟ کیا یہ برا ہے؟"
"کمبخت یہ دوہاجو ہے، بہن اس سے بھول کے بھی مت کیجئو۔ تو تو اپنی طرح کوئی کنوارا ڈھونڈھ۔ اری ذرا اس لونڈے کو دیکھ! اگر نہ تیرا یہ ناک میں دم کر دے اور نتھنوں میں تیر ڈال