محمد امین
لائبریرین
270
کہاں دیکھا تھا۔ وہ خود رک گیا۔ سیاہ خضاب کی ہوئی داڑھی۔ ستواں ناک۔ گورا رنگ۔ آنکھوں میں حیرانی اور پریشانی۔ مجھے دیکھ کر رک گیا۔ میں خود رک گیا اور حواس بجا کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا۔ "السلام علیکم۔" میں نے جواب دیا۔
"آپ کون ہیں؟"
وہ بولے۔ "میں۔۔۔۔ میں۔ وہ آپ۔۔۔۔۔ اسٹیشن پر۔۔۔۔۔"
"اوہو۔" میں نے پہچانتے ہوئے کہا۔ "معاف کیجیے گا۔ یہ کہہ کر میں چلا یہ وہ حضرت تھے جو میری بیوی کو گھور رہے تھے۔
ایک دم سے وہ بولے۔ "سنیے تو۔۔۔۔۔ آپ کا نام کیا ہے؟"
میں نے بتایا۔ جس کے سنتے ہی وہ دیوانہ وار چمٹ ہڑے۔ "عائشہ کہاں ہے؟"
میں نے کہا "کون عائشہ؟" اس لیے کہ میری بیوی کا نام عائشہ نہیں تھا۔
"میری بیٹی۔" انہوں نے کہا۔ "میرا نام محمد خان ہے۔۔۔۔"
"ارے!" میرے منہ سے نکلا۔ یہ واقعہ تھا کہ یہ میری خسر تھے۔ میں نے سب حال کہا۔ معلوم ہوا کہ بد قسمت باپ نے بیٹی کو دیکھ لیا تھا اور چونکہ بیٹی اپنی ماں کی سچ مچ کی تصویر تھی لہٰذا غیر معمولی شباہت کے سبب بیچارے اپنی بیٹی کو گھور گھور کر دیکھ رہے تھے اور چاہتے تھے کہ اچھی طرح دیکھ لیں اور اپنی بیوی کو شبہ مٹانے کی غرض سے لانے ہی والے تھے کہ میں نے آ کر لتاڑا۔ ان کی بیوی ویٹنگ روم میں بیٹھی تھیں۔
ہا میرے اللہ! میں سر پکڑ کر بیٹھ گیا ور میں نے اس نا مراد نا شاد لڑکی کا قصۂ غم سنایا، آہ! وہ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے کسی تڑپتی تھی۔باپ کی آنکھوں سے آنسوؤں کا دریا بہہ رہا تھا۔ میں نے اس قدر تکلیف دہ باتیں کاہے کو کبھی سنی ہوں گی۔ قبل اس کے کہ قبر پر کے چلوں، انہوں نے مجھ س کہا کہ میں اپنی خوش دامن کے پاس چلوں! کوں؟ وہی دلہن جس کو میں نے بیس برس پہلے دیکھا تھا۔
میں عرض نہیں کر سکتا کہ میرا کیا حال ہوا اور ان کا کیا حال ہوا۔ میں نے دیکھا کہ چشمِ زدن میں ان کے چہرے پر بڑھاپا آ گیا۔ میں نے یاد دلایا کہ میں کون ہوں اور غم کی ماری نے مجھے بیتاب ہو کر سینے سے لگا لیا، گھنٹوں وہ رویا کیں اور میں تسلی دیتا رہا۔ انہوں نے کہا کہ میں بغیر اپنی بیٹی کو دیکھے زندہ نہیں رہ سکتی۔ سوال یہ تھا کہ اب کیسی ممکن ہے۔
رات کا سناٹا۔ ہو کا عالم تھا۔ قدم قدم پر قبریں تھیں اور دور تک میدان چلا گیا تھا۔ فاصلے پر ریلیف والوں کی چہل پہل لالٹینوں کی جنبشوں سے عیاں تھی۔ میں نے تیزی سے مٹی ہٹانا شروع کی۔ بیگار کا کام تھا۔ چشمِ زدن میں مٹی ہٹ گئی اور لکڑیاں ہٹا کر میں نے غار کی طرف
271
دیکھا۔ باوجود تعفن کے میں اندر اتر گیا۔ میرے خسر بجلی کی ٹارچ ساتھ لائے تھے۔ وہ میرے ہاتھ میں تھی۔ میں نے قبر کے اندر روشن کی۔ چہرے پر روشنی ہوئی۔ بجلی کی تیز روشنی میں ای کدم سے میں نے اس نازنین کے چہرے پر نظر ڈالی۔ اس کی ناک اور منہ پر چاول سے سفید سفید رکھے دکھائی دئے۔ غور سے جو دیکھتا ہوں تو الامان! میرے منہ سے ایک چیخ نکلی۔ کیڑے ناک اور منہ میں بجبجا رہے تھے! میں بد حواس ہو کر ایک دم قبر کے باہر اچھلا ہوں کہ ایک چیخ کے ساتھ میری خوش دامن اندر گریں۔ لیکن میں جو سر پر پیر رکھ کر بھاگا ہوں تو میرے خسر نے روکا۔ میرے ہوش بجا نہ تھے اور میں بھاگ آیا اور ایسا بھاگا ہوں کہ پچھلے مہینے جو ذرا ہوش ٹھیک ہوئے تہ اپنے خسر سے ملنے گیا، ان کے وطن میں۔ دیکھوں تو چہرہ ہونق! مجھ سے ملے تو نہ دعا نہ سلام بولے۔ "بل۔۔۔۔ لی!" میں غور سے دیکھا۔ نوکر نے کہا۔ دماغ خراب ہو گیا۔ معلوم ہوا کہ میری خوش دامن جو قبر میں گریں تو پھر نہ کنلیں۔ مر چکی تھیں۔ اور ماں بیٹیاں ایک ہی قبر میں سو گئیں۔ وہاں سے یہ لوٹے تو دیوانے ہو گئے۔
میں ٹھنڈی سانسیں لیتا واپس آیا۔ شکر ہے خدا کا زندہ ہوں۔ لیکن حال یہ ہے کہ چاول اگر کھانے میں آ جائیں تو معاً وہی قبر کا سین سامنے آ جاتا ہے۔ منہ سے ایک چیخ نکلتی ہے اور معلوم ہوتا ہے کیڑے بجبجا رہے ہیں۔ ویسے دماغ ٹھیک ہے۔ دنیا کے کاروبار کرتا ہوں اور میری اس کمزوری کا کسی کو بھی علم نہیں ہے۔ لیکن عرض نہیں کر سکتا۔ اپنی بیوی کی چند روزہ صحبت کی یاد میرے دل سے کبھی محو نہ ہوگی۔ میرا اس کا ساتھ محض چند روزہ رہا لیکن اپنی لا فانی محبت کا نقش میرے دل پر چھوڑ گئی۔ اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے وہ کیسی بیتان تھی اور کیسی بے چین تھی! بس یہ سمجھ لیجیے کہ پانی کے باہر کو کبھی مچھلی دیکھ لیتا ہوں تو وہی حالت پیشِ نظر ہو جاتی ہے اور صدمی مجھے اس کا ہے کہ حیف ڈس حیف وہ ناکام ہو گئی۔ جوانی اور ناکام محبت! میں سر دھنتا ہوں۔ جب اس امر ہر غور کرتا ہوں کہ تقدیر کی خوبی تو دیکھیے کہ ماں باپ اور بیٹی تینوں کے تینوں ماہیٔ بے آب، ایک ہی جگہ جمع تھے اور نہ مل سکے
272نیکی جرم ہے
پہلے میں کہتا تھا کہ نیکی کرنا کوئی جرم نہیں لیکن اب کہتا ہوں کہ نیکی کرنا جرم ہے اور وہ بھی قابلِ دست اندازیٔ پولیس۔ لوگ کہتے ہیں کہ تم احمق ہو اور میں کہتا ہوں کہ تم! لہٰذا اب میں اپنا قصہ سنا کر آپ کی عقل کا بھی امتحان لیتا ہوں۔
(1)
ایک روز کا ذکر ہے کہ میں اسکول سے واپس گھر آ رہا تھا۔ یہ جب کا ذکر ہے کہ میری عمر بارہ یا تیرہ سال کی ہوگی۔ ایک کنویں پر سے گزر ہوا۔ دہ تین عورتیں پانی گھر رہی تھیں۔ آپس میں ہنس بول رہی تھیں۔ میں نے نظر اٹھا کر دیکھا۔ ان میں سے ایک عورت پر نظر پڑی۔ اور وہ گڑ کر رہ گئی۔ ایسی کہ رفتار اہستہ پڑ گئی۔ دیکھ تو رہا یوں کنویں کی طرف اور دل آگے کی طرف رہا ہوں۔ ایک دم سے رک گیا۔ کھڑا ہو کر دیکھنے لگا۔ عمر کا یہ پہلا تجربہ تھا، اس سے پہلے کبھی کسی عورت میں مجھے دلچسپی نظر نہیں آئی تھی اور میں حیرت زدہ کھڑا دیکھ رہا تھا۔
قد میں کتنی دلکشی تھی اور ہر جنبش سے ایک سرکشی عیاں تھی۔ سڈول بازو، پھنسی ہوئی نیم آستین سے بغاوت کر رہا تھا۔ اعضاء کی ہر جنبش میں رعنائی کی جلوہ گری اور ایک دلکش لچک تھی۔ رنگ اور روپ میں جوانی چمک رہی تھی۔
میں قریب آیا، پانی پینے کے لیے اور چپ کھڑا دیکھنے لگا۔ اب صرف ایک عورت اور تھی اور میں اور آگے بڑھا۔ میں نے پانی مانگا۔ دوسری عورت اپنا ڈول اٹھا چکی تھی، رسی کا لچھا بنا رہی تھی لہٰذا وہ کچھ نہ بولی اور اپنا گھڑا بھر کر چلتی ہوئی۔ اب میں کھڑا قریب سے دیکھ رہا تھا۔ اس نے اپنا ٹین کا ڈول بھرا۔ مجھ سے میری ذات پوچھی۔ میں غافل سا اس کے چہرے میں ڈوباہوا دلربا لرزشوں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے بتایا اور کہا "کائستھ ہوں۔"
میں نے چلو سے پانی پینا شروع کیا مگر نظر اس کے چہرے پر جو کہ قرب تھا۔ اس کے رخسار کے باریک روئیں روشنی میں سنہری رنگ کے ذروں کی طرح لرز رہے تھے۔ میں نے انکار نہیں کیا اور کل ڈول کا پانی خرچ ہوگیا۔ اور میں بدستور چلّو بنائے اسے گھور رہا تھا حالانکہ چلّو
273
اور ڈول خالی! وہ برابر مجھے دیکھ رہی تھی اور پیاس بھر پانی پی کر مجھے انکار کر دینا چاہیے تھا۔ خواہ ہاتھ اٹھا کر خواہ سر سے۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ میں کل ڈول پی گیا۔ اس نے میری حماقت کو نا پسند کر کے سر کو صرف جنبش دی۔
میں کچھ بھی نہ بولا اور وہیں کا وہیں کھڑا دیکھتا رہا۔ مجھے ہٹ جانا چاہیے تھا۔ لہٰذا س نے مجھ سے قدرے ترش روئی سے کہا۔ "ہوں! کیا دیکھتا ہے؟"
میں بھلا کیا جواب دیتا۔ کیا کہہ دیتا کہ تیرے چہرے کو دیکھتا ہوں اور چہرے میں جوانی اور رعنائی کی جلوہ آرائی دیکھتا یوں، میں ہٹ آیا تھا۔ بستہ بغل میں لیے کھڑا دیکھتا رہا تھا۔ وہ گھڑے بھر چکی تھی اور ڈول سنبھال کر رسی کا لچھا بان رہی تھی اور میں اس کی کلائی کی جنبش کو دیکھ رہا تھا، رسی کے ہر چکر پر ایک سی حرکت تھی۔ کس قدر دلچسپ کہ اس کلائی کی لچک سے بدن کو ہلکی سے جنبش ہوتی تھی۔ ایسی کہ معلوم ہو کہ دلکشی اور رعنائی کا چھلکتا ہوتا جام ہے۔
جب وہ چلی تو مجھے گویا کھینچتی ہوئی۔ میں اس کے ساتھ پھر واپس اسکول کی طرف چلنے لگا۔ اس کے بائیں ہاتھ کی کلائی کے خم پر نظریں جمائے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلا۔ وہ مجھے دیکھ رہی تھی اور میں خاموش تھا۔ "تو کہاں جا رہا ہے؟" اس نے مجھ سے پوچھا۔ "۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہے؟" میں نے سادگی سے کہہ دیا "تمہیں دیکھ رہا ہوں" وہ اپنے خوبصورت لبوں کو قدرے حیرت سے جنبش دے کر بولی۔ "مجھے۔۔۔۔۔۔! ہشت ۔۔۔۔۔! بھاگ!"
میں خاموش ہو گیا اور نظریکں نیچی کرلیں اور قدرے پیچھے رہ گیا۔ مگر نہیں۔ میں تو ساتھ ہی چلوں گا۔ اس کے پیچھے پیچھے چلا۔ وہ مجھے مڑ مڑ کر دیکھتی ہوئی اور میں اس پر نظریں جمائے۔ وہ گھر میں اپنے داخل ہوئی تو میں فاصلہ پر رک گیا۔ وہ غائب ہوگئی اور میں چلنے کو ہوا کہ وہ دروازے پر آئی اور اس نے پھر مجھے کھڑے دیکھا۔ دیکھ کر وہ واپس چلی گئی اور میں تھوڑی دیر انتظار کر کے واپس چلا آیا۔
گھنٹوں اس کے دلربا چہرے کا نقش سامنے رہا، گھنٹوں اس کے بدن کی جنبش سینما کی فلم کی طرح پیشِ نظر رہیں۔ اس کی عمر قریب بیس بائیس سال کی تھی۔
(2)
اس دن سے میرا دستور ہوگیا کہ میں کنویں پر پانی جرور پیتا۔ اسکول کا آخری گھنٹہ بڑی بے صبری سے کٹتا۔ کنویں پر وہ ضرور ملتی۔ اگر نہ ملتی تو میں کچھ دیر ٹھہر جاتا۔ اور بہت جلد میرے دل میں یہ احساس ہونے لگا کہ شاید میرے انتظار میں بیٹھی ہو۔
کبھی کبھار دو چار باتیں ہوئیں۔ یہ ایک اچھے گھرانے کی بیوہ برہمن تھی جو بہت چھوٹی عمر میں بیوہ ہوگئی۔ (آگے کا اسکین میں کٹا ہوا ہے۔)