خرم شہزاد خرم
لائبریرین
عظیم بیگ چغتائی کے افسانے
میر صاحب پھر بولے۔ "تمہیں ماننا پڑے گی۔ نہیں تو پھر آجاؤ۔۔۔۔ابھی۔۔۔۔قسم توٹوٹے ہی گی۔۔۔خیر لیکن بازی۔"
میں نے کچھ سوچا یہ واقعہ تھا کہ اگر کھیلوں تو میر صاحب بھلا کیا جیت سکتے تھے۔ لٰہذا میں نے میر صاحب سے طے کرلیا کہ بس ایک بارزی پر معاملہ طے ہے۔ میں ہار جاؤں یا وہ ہاریں تو ہمیشہ ہارے کہلائیں گے۔ سودا اچھا تھا۔ لہٰذا میں نے سائیکل موڑلی۔
خان صاحب کے اخلاق کو دیکھئے۔ کنڈی کھٹکھٹاتے ہی کھانا کھانے سے اٹھا کر آئے اور "بھئی واللہ!" کہہ کر پھر اندر گس گئے اور پھر جو آئے تو لالٹین اور کھانے کی سینی ہاتھ میں لئے بہت کچھ معذرت کی۔ مگر بیکار' خان صاحب نے زبردستی کھلایا' اور پھر شاباش ہے خان صاحب کی بیوی کو۔ انڈے جلدی سے تل کر فوراََ تیار کئے۔ کھانا وغیرہ کھا کر ہم دونوں نے اپنا معاملہ خان صاحب کے سامنے پیش کیا۔ قصہ مختصر شطرنج جم گئی۔ مجھے جانے کی بڑی فکر تھی کہ خانم کیا کہے گی' مگر ایک بازی کا کھیلنا ہی کیا۔
شروع ہی سے میری بازی چڑھ گئی اور تابڑ توڑ دو چار تیز چالیں نکال کے اپنے رخ سے میر صاحب کا وزیر عروب میں لے لیا۔ میر صاحب نے یہ کہہ کر مہرے پھنک دیے کہ یہ "اتفاق کی بات ہے نظر چوک گئی۔" میں اٹھ کر چلنے لگا کہ دیر ہو رہی ہے۔ خان صاحب نے ہاتھ پکڑا کہ ایک بازی اور سہی۔ میر صاحب چپ تھے کہ میں نے کہا۔ "اب ہم دونوں برابر ہوگئے' اب کوئی ضرورت نہیں۔' خان صاحب ہنس کر بولے کہ " واہ یہ طے ہو جانا چاہیے کہ کون زبردست کھلاڑی ہے' برابر رہنا ٹھیک نہیں۔" ادھر میر صاحب نے کہا کہ اب اس اتوار والی بازی کو پھر شمار کر لیا جائے ' جس سے وہ دستبردار ہوگئے تھے' اور کہنے لگے ہیں کہ ایک اب بھی مجھ سے جیتے ہیں۔ ادھر خانم کا ڈر لگا ہوا' ادھر میر صاحب کی ضد اور خان صاحب کی کوشش۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بس ایک بازی اور ہو اور طے ہو جائے۔ قسمت کی خوبی کہ بازی جمائی جو قائم اٹھی۔ پھر دوسری بازی بچھی اس کومیں بڑی کامیابی کے ساتھ کھیلا اور میں نے سوچا پیدل کی مات کروں گا۔ پورا مہرہ زائد تھا' مگر بدقسمتی سے میر صاحب کا بادشاہ زچ ہوگیا اور یہ بھی قائم اٹھی۔ میں گھبرا گیا۔ بڑی دیر ہوگئی تھی۔ جاڑوں کے دن تھے۔ گھڑی پر نظر کی' ساڑے بارہ بجے تھے۔
(4)
میں گھبرا کر اٹھا۔ بڑی دیر ہوگئی۔ اب کیا ہوا؟ خانم کیا کہے گیَ خوب لڑے گی۔ بڑی گڑبڑ کرے گی' غالباََ صبح تک لڑتی رہے گی۔ کیا کیا جائے؟ کچھ دیر کھڑا سوچتا رہا۔ ایک تڈبیر سمجھ میں آ گئی' سیدھا بزاز کی دکان پر پہنچا۔ دوکان بند تھی۔ مکان معلوم تھا' رات کو لالہ کو جاکھٹکھٹایا۔ لالہ گھبرائے ہوئے باہر نکلے۔ میں نے مطلب بیان کیا کہ"وہ عمدہ والی ساڑی دے دو۔ ابھی ابھی چاہئے۔" لالہ صاحب گھبرائے' کہا۔ "خیر تو ہے؟" مگر میں نے کہا کہ ابھی دو۔ لالہ نے بہانے کے' مگر میں کب ماننے والا تھا۔ لالہ نے اپنے دو آدمی ساتھ لئے اور میں نے وہی عمداہ والی ساڑی لے لی اور جو پہلے لے گیا تھا وہ واپس کر دی۔ اب سیدھا گھر کا رخ کیا۔ جیسے ہی پھاٹک میں داخل ہوا انجن روک دیا اور پیدل گاڑی کو گھسیٹتا لے چلا۔ گاڑی کھڑی کر کرے اور چپکے سے دراوزے کا رخ کیا کہ اپنے ہی کتے نے ٹانگ لی۔ اسے چپکا کیا اور برآمدے میں پہنچ کر راستہ تلاش کیا۔ سب درازے بند تھے۔ خیال آیا کہ غسل خانے کی چٹنخی ڈھیلی ہے، مگر وہاں بھی ناکامی ہوئی۔ صحن کی دیوار پر چڑھنے کی ٹھانی۔ نیم کے نیچے بھینس بندھتی تھی۔ اس کی ناندپر کھڑے ہو کر ایک پیر دروازہ پر رکھ کر دوسرے ہاتھ کا سہارا لے کر اندر داخل ہوا۔ دھیرے دھیرے سونے کے کمرے کی طرف چلا۔ چاروں طرف سناٹا تھا اور میں چپکے سے کپڑے بدل کر کمرے میں داخل ہو گیا۔ اور بڑی پھرتی سے لحاف کے اندر گھس گیا۔
میں سمجھا کہ خانم سورہی ہے، مگر وہ جاگ رہی تھی۔ وہ جھوٹ موٹ کھانسی گویا یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ"میں جاگتی ہوں، ادھر میں کھنکارا کہ جاتی ہو تو کیا کر لو گی۔ میرے پاس بڑھیا والی شاڑی ہے۔ ایک اور کروٹ انہوں نے لی اور پھر بڑبڑائیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آیا۔ میں بھلا کب دبنے والا تھا۔ میں نے کہا۔ " کیوں ، کیا جاگتی ہو؟"
وہ بولیں۔ "تمہاری بلاسے۔ تم شطرنج کھلنے جاؤ، میں کل جاتی ہوں۔"
"تم بھی عجیب عورت ہو!" میں نے ڈانٹ کر کہا۔ "بزاز کے یہاں گیا وہاں پر خان صاحب مل گئے اور زبردستی انہوں نے وہی پیازی رنگ والی ساڑی دلوا دی۔ بہت کچھ میں نے کہا کہ دام نہیں مگر۔۔۔۔"
"پھر؟" خانم نے بات کاٹ کر کہا۔ "پھر وہ ساڑی کیا ہوئی؟" اٹھ کر وہ لحاف میں بیٹھ گئیں۔
"ہوئی کیا۔۔۔ وہاں سے ساڑی لے کر خان صاحب کے یہاں گیا، کھانا انہوں نے کھلایا، دو چار آدمی۔۔۔"
"ہوگا۔" خانم نے کہا۔"ہوںگے آدمی،پھر وہ ساڑی وہی پیازی رنگ والی۔"
"یہ لو۔" یہ کہہ کر میں نے بنڈل لا پرواہی سے خانم کے لحاف پر مارا ۔ لیمپ کی روشنی فوراََ تیز کر کے انہوں نے تیزی سے بنڈل کھولا۔ ساڑی کو کھول کر جلدی سے دیکھا پھر میری طرف بجائے غصہ کے ان کی آنکھوں سے محبت آمیز شکریہ ٹپک رہا تھا۔ شطرنج پر اعتراض تو کجا نام تک نہ لیا۔ "وہ مارا اناڑی کو۔" میں نے دل میں کہا۔
بہت دن تک تو جناب اسی ساڑی کی بدولت خوب دیر کر کے آیا۔ خوب شطرنج ہوتی رہی جیسے بیشتر ہوتی تھی۔ فرق تھا تو یہ کہ بجائے میرے گھر کے اب خان صاحب کے گھر پر جمتی۔
مگر رفتہ رفتہ غیر حاضری اور شطرنج بازی پر پھر بھویں چڑھنے لگیں۔ بجائے ملائمت کے ترش روئی اور سختی! دراصل استانی جی خانم کو بھڑکاتی رہتی تھیں۔ آہستہ آہستہ خانم نے پیچ کسنا شروع کیا۔ مگر شطرنج کسی نہ کسی طرح ہوتی ہی رہی۔
ساری خدائی ایک طرف، خانم کا بھائی ایک طرف۔ وجہ شاید اس کی یہ تھی کہ خانم کے بھائی اصلی معنی میں بھائی تھے۔ یعنی صورت شکل ہو بہو ایک، بالکل ایک ذوہ بھر بھی فرق نہ تھا۔ صرف گھنٹہ بھر بڑے تھے۔ جڑواں بہن بھائیوں میں بیحد محبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے خانم کی مناسبت سے مجھے بھی خانم کے بھائی بیحد عزیز ہیں۔ پلی مرتبہ بہن کے یہاں آئے۔ بہن کا نام سنتے ہی یہ حال ہوگیا کہ ننگے پیر دوڑ کر بھائی سے لپٹ گئی، بھائی خود بیتاب تھا، سینہ سے لگا کر بہن کی گردن کو بوسہ دیا۔ بھائی بہن نے گھنٹوں جم کر یکسوئی کے ساتھ اس طرح باتیں کیں کہ مجھے خیال ہونے لگا کہ دونوں دیوانے ہیں۔ بہن اپنے بھائی کو کتنا چاہتی تھی۔ اس کا اندازہ اس سے ہوسکتا ہے کہ میں خانم کو بائی سے محبت دیکھ کر رشک کر رہا تھا۔
یہ شائد بھائی کی محبت کا ہی تقاضا تھا کہ خانم نے مجھے کونے میں لے جا کر بڑے پیار سے کہا کہ " دیکھو اب دو چار روز شطرنج نہ کھیلنا۔"
میں نے خانم کے خوبصورت چہرے کو دیکھا۔ کس طرح اس نے محبت سے مجھ سے کہا۔ " شاید اسی طرز و انچاز نے بت پرشتی و شرک کی بنا ڈالی ہے! مظلوم غریب کیا کرے، ظالم کے کہنے کو کیسے رد کرے؟ خانم کی آنکھ کے نیچے کسی چیز کا ذرہ لگا ہوا تھا۔ میں نے اس کو ہٹانے کے لیے انگلی بڑھائی۔ آنکھیں جھپکا کر خانم نے خود رومال سے اس کو پاک کیا، پھر ہاتھ پکڑ کر اور بھی زیادہ صفائی سے زور دے کر شطرنج کو منع کیا۔
قبل اس کے کہ میں کچھ کہوں۔ خانم کے بھائی پکارے۔ بجو۔۔"
بیتاب ہو کر خانم نے کہا۔"بھیا۔۔" اور بے تحاشہ مجھ سے توڑا کہ بھاگی کہ بھیا خود آگئے۔ "کیا کر رہی ہو؟ خانم کے بھائی نے اپنے خوبصورت چہرہ کو جیب جنبش دے کر مسکراتے ہوئے کہا۔
ایک ٹھنڈی سانس بھر کر خانم نے اس طرح کہا جیسے کوئی دکھ بھری داستان کا حوالہ تھا۔ "شطرنج کو منع کر رہی ہوں۔۔ شطرنج۔۔"
"کیوں؟""دن دن بھر کھیلتے ہیں۔ رات رات بھر کھیلتے ہیں اور وہ کم بخت خان صاحب ہیں کہ ۔۔"
"بھائی خدا کے واسطے شطرنج چھوڑیے۔ آپ برج نہیں کھیلتے؟۔۔۔ برج کھیلا کیجئے۔" بھیا نے کہا۔ " ہاں برج کھیلیں مگر یہ شطرنج تو۔۔"
"بڑی خراب چیز ہے بھائی۔" بجو (بہن سے اپنی مخاطب کر کے کہا) تو ان کی شطرنج جلا ڈال۔"
"رہا کھٹکا نہ چوری کا دعا دیتا ہوں رہزن کو۔" میں نے کہا۔ "بھیا میرے پاس۔۔۔" خانم ذرا چیخ کے بولی۔ "وہ کم بخت خان صاحب ایسے ہیں کہ ان کے ہاں جاجا کر کھیلتے ہیں۔۔۔"
مجھ سے مخاطب ہو کر خانم نے کہا۔ "وعدہ کیجئے جب تک بھیا ہیں بالکل نہ کھیلئے گا۔" چنانچہ پختہ وعدہ کر لیا، پختہ!
(5)
چلتے وقت خانم نے مسکرا کر انگلی گھما کر کہا تھا۔ "ادھر سے جائے گا۔۔ ادھر سے ۔۔ "بھیا کی طرف میں نے مسکرا کے دیکھا۔ "دیکھتے ہو تم ان کا پاگل پن۔"
بھیا کچھ نہ سمجھے کہ ان باتوں کا یہ مطلب ہے کہ خان صاحب کی طرف ہو کے مت جانا۔ میں تو چل دیا۔ بہن اپنے بھائی کو سمجھاتی رہی ہوگی کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
"وہ بھئی واہ! غضب کرتے ہو۔" یہ کہتے ہوئے خان صاحب ہاتھ کا سگنل سامنے کئے ہوئے کھڑے تھے۔ " ایسا بھی کیا کہ پھٹ پھٹ کرتے بھاگتے جاتے ہو، سنتے ہی نہیں۔"
میں نے گاڑی تو روک لی، مگر اترا نہیں اور ویسے ہی کنارے ہوکر کہا۔"کام سے جا رہا ہوں، کام سے۔"
"ایسا بھی کیاہے!" خان صاحب نے بازو پکڑے ہوئے کہا۔ "ذرا بیٹھو۔"