عقلمند کسان

عقلمند کسان
محمد مقبول الہی، ہری پور​
ایک گاؤں میں ایک کسان رہتا تھا۔ وہ صبح سے شام تک کھیتوں میں کام کرتا تھا۔ کھیتوں کی مکمل پہرے داری کرتا تھا، مگر جب فصل پک کر تیار ہوجاتی تو گاؤں کا سردار اس کی ساری فصل زبردستی لے لیتا اور اسے تھوڑا سا حصہ دے دیتا۔ کسان اور اس کی بیوی کی بڑی مشکل سے گزر اوقات ہوتی تھی۔
ایک دن کسان کھیت میں کھدائی کر رہا تھا۔ بےخیالی میں وہ زیادہ زمین کھود گیا۔ اچانک ہی اسے محسوس ہوا کہ زمین کے اندر کچھ ہے۔ اس نے بڑی مشکل سے وہاں سے ایک صندوق نکالا۔ وہ بڑا حیران ہوا۔ اس نے صندوق کھولا۔ اس کی خوشی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ صندوق ہیرے اور جواہرات سے بھرا ہوا تھا۔ اس نے سوچا کہ اس بات کا علم گاؤں کے سردار کو نہ ہونا چاہیے ورنہ وہ اس کو زبردستی چھین لے گا۔
وہ خزانے کو چھپتے چھپا کر گھر لے گیا۔ اس نے اپنی بیوی سے پوچھا، "اس دولت کو کہاں چھپایا جائے؟"
بیوی نے جواب دیا، "اس کو ہم صحن میں دفن کر دیتے ہیں۔"
کسان نے ایسا ہی کیا۔ کچھ دیر بعد اس کی بیوی کہنے لگی، "میں پانی بھرنے جارہی ہوں۔"
بیوی کے جانے کے بعد کسان سوچ میں پڑ گیا۔ وہ اپنے دل میں کہنے لگا کہ میری بیوی اس دولت کا ذکر دوسری عورتوں سے ضرور کرے گی اور پھر اس راز کا علم سردار کو بھی ہوجائے گا۔ یہ خیال آتے ہی کسان اٹھا اور ہیروں سے بھرا صندوق صحن سے نکالا اور گھر سے باہر ایک خفیہ جگہ میں دفن کردیا اور واپس آگیا۔ جب اس کی بیوی گھر آئی تو اس نے سنجیدگی سے کہا، "کل ہم جنگل سے مچھلیاں پکڑ کر لائیں گے۔"
بیوی نے حیران ہو کر کہا، "مچھلیاں اور جنگل سے؟ خوشی سے تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہو گیا؟"
کسان مسکرا کر بولا، "کل جب تم جنگل جاؤ گی تو خود دیکھ لینا۔"
اگلے دن کسان سورج نکلنے سے پہلے گھر سے نکلا اور گاؤں کے مچھیرے سے بہت ساری تازہ مچھلیاں خرید لایا۔ اس نے تندور کی روٹیاں بھی خریدیں اور جنگل کی طرف چل پڑا۔ وہاں ایک جگہ دیکھ کر اس نے مچھلیاں زمین پر پھیلا دیں اور کچھ آگے جا کر درختوں پر روٹیاں لٹکا دیں۔ یہ سب کام کر کے وہ گھر واپس آگیا۔ اس کی بیوی ابھی تک سورہی تھی۔
جب سورج نکلا تو کسان اپنی بیوی کو لے کر جنگل کی طرف چل پڑا۔ اس کی بیوی نے زمین پر مچھلیاں دیکھیں تو حیران رہ گئی۔ پھر اس نے سب مچھلیوں کو اپنی ٹوکری میں رکھ لیا۔ آگے جاکر درختوں پر روٹیاں دیکھیں تو کسان سے کہنے لگی، "درختوں پر روٹیاں لگی ہوئی ہیں۔"
کسان نے کہا، "یہاں روٹیوں کی بارش ہوتی ہے۔ کچھ روٹیاں درختوں پر اٹک جاتی ہیں۔"
اس کی بیوی بڑی حیران ہو رہی تھی۔
کسان اور اس کی بیوی کے دن پھر گئے۔ اب وہ پہلے سے زیادہ اچھا کھاتے تھے۔ تھوڑے دن بعد ہر طرف یہ بات پھیل گئی کہ کسان کو کوئی خزانہ مل گیا ہے۔ اب یہ راز بھی نہیں رہا تھا۔ ہر کوئی جانتا تھا کہ خزانہ اس نے گھر کے صحن میں چھپا رکھا ہے۔ پھر بھلا یہ بات سردارسے کیسے چھپی رہ سکتی تھی۔ پہلے اس نے کسان کی بیوی کو اور پھر کسان کو اپنے ہاں بلوایا۔ کسان جب سردار کے پاس گیا تو سردار نے کہا، "کیا یہ سچ ہے کہ تمہیں ہیرے جواہرات سے بھرا صندوق ملا ہے؟"
کسان نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا، "یہ بالکل جھوٹ ہے۔"
سردار نے گرج کر کہا، "تمہاری بیوی مجھے سب کچھ بتا چکی ہے۔"
کسان نے ہاتھ جوڑ کر کہا، "میری بیوی کا تو دماغ خراب ہوگیا ہے۔ یہ تو آج کل الٹی سیدھی باتیں کرنے لگی ہے۔"
جب کسان کی بیوی نے یہ سنا کہ اس کا شوہر اسے پاگل کہہ رہا ہے تو وہ غصے سے بولی، "حضور! جو کچھ میں نے بتایا ہے وہ حقیقت ہے۔ یہ صندوق ہمارے صحن میں دفن ہے۔"
سردار نے خوش ہو کر پوچھا، "یہ ہیرے جواہرات کا صندوق کس دن ملا تھا؟"
کسان کی بیوی نے کہا، "اس دن صبح کو جس کے ایک دن بعد ہم جنگل سے مچھلیاں پکڑنے گئے تھے۔ یہ سچ ہے۔ یہ وہ دن تھا جب آسمان سے پکی پکائی روٹیوں کی بارش ہوئی تھی۔"
"یہ عورت تو واقعی پاگل ہے۔" سردار نے مسکراتے ہوئے اپنے ساتھیوں سے کہا۔
سردار کے ایک خادم نے سردار کے کان میں کچھ کہا۔ سردار نے اپنے خادموں کو حکم دیا کہ کسان کے گھر جاؤ اور صحن کھود کر خزانے کا پتا لگاؤ۔
خادموں نے سارا صحن کھود ڈالا، مگر وہاں انہیں کوئی خزانہ نظر نہ آیا۔ وہ سب واپس چلے گئے۔ یوں غریب کسان اپنی عقلمندی سے نہ صرف ظالم سردار کے ظلم سے بچ گیا، بلکہ اپنا خزانہ بھی بچالیا۔
×××​
 

زبیر مرزا

محفلین
لُطف آگیا پڑھ کر اور پرائمری اسکول کے دن یاد آگئے جب تعلیمی سال کی ابتداء میں
کتابیں آتیں تو اس طرح کی کہانیاں پہلے پڑھتے اور پھر نظمیں پڑھ کران کو زبانی یاد کیا جاتا
بہت شکریہ انیس الرحمن
اگر کہیں سے وہ نظم جاڑا آیا ملے تو پوسٹ کریں :)
 

فرخ منظور

لائبریرین
لُطف آگیا پڑھ کر اور پرائمری اسکول کے دن یاد آگئے جب تعلیمی سال کی ابتداء میں
کتابیں آتیں تو اس طرح کی کہانیاں پہلے پڑھتے اور پھر نظمیں پڑھ کران کو زبانی یاد کیا جاتا
بہت شکریہ انیس الرحمن
اگر کہیں سے وہ نظم جاڑا آیا ملے تو پوسٹ کریں :)

"جاڑا آیا" نظم کس شاعر کی ہے؟
 

رانا

محفلین
واہ واہ انیس بھائی۔ چھاگئے ہو تُسی تے۔ یار یہ بہت زبردست سلسلہ شروع کیا ہے آپ نے۔ یہ کہانی بھی بچپن میں کبھی پڑھی تھی اب یاد نہیں کہ نونہال ہی میں شائد پڑھی ہو۔ بہت دلچسپ۔:)
اوپر وہ زبیر بھائی نے جاڑا آیا کا ذکر کرکے بھی کیا یادیں چھیڑ دیں۔ واقعی اگر کسی کو ملے تو ضرور شئیر کرے۔ بچپن کی بات ہی کچھ اور ہے۔ اس نظم کی ٹون شائد کچھ اسطرح تھی کہ جاڑا آیا جاڑا آیا، جاڑا دھوم مچاتا آیا۔۔۔:)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
اس کے بعد کسان نے وہ پورا گاؤں خرید لیا۔ اور سردار کو ہٹا کر خود سرادار بن بیٹھا۔ لوگ اسکی سرداری میں ہنسی خوشی رہنی لگے۔ کیوں کہ وہ خداترس سردار تھا۔ :ROFLMAO:
 

فلک شیر

محفلین
اس کے بعد کسان نے وہ پورا گاؤں خرید لیا۔ اور سردار کو ہٹا کر خود سرادار بن بیٹھا۔ لوگ اسکی سرداری میں ہنسی خوشی رہنی لگے۔ کیوں کہ وہ خداترس سردار تھا۔ :ROFLMAO:
کشادہ راستے، خوش لوگ، نیک دل حاکم​
میاں، وہ شہر کہاں ہے جہاں کی بات ہے یہ​
 

فلک شیر

محفلین
یہ شہر ستمبر 1988 کے ہمدرد نونہال میں ہے۔ :)
نونہال میں ہی ہوتا تھا نا نین بھائی........خوابوں سرابوں کی دنیا میں.......نہ آج کل خزانے ملتے ہیں نا بیویاں اتنی احمق ........اور نہ اسلام آباد میں بیٹھا "سردار" اتنا سیدھا، کہ اپنا حصہ وصول نہ کرے.........:)
 
زبردست۔۔اچھے ہوتے تھے یہ زمانے بھی جب کہانیاں واقعی ہی کہانیوں جیسا مزا دیا کرتیں تھیں ۔۔ورنہ آجکل کی کہانیاں بھی دہشت گرد،خودکش حملے ۔۔دھماکوں پر مشتعمل ہیں ۔۔شاید ہمارے بچوں کا ذوق بھی آجکل کے حالات جیسا ہو گیا ہے جو وہ اپنے اردگرد دیکھتے ہیں وہی دیکھتے رہنا اور پڑھتے رہنا پسند کرنے لگے ہیں ۔ بہت اچھی شئیرنگ ہیے۔
 
Top