انتہا
محفلین
عقل وعشق
اقبالؔ نے جا بجا عقل کو بری طرح لتاڑا ہے۔ کہیں اسے حیل جو، کہیں بت خانۂ تصورات ، کہیں بو لہب اور کہیں آتش نمرود کہا ہے،
خرد آتشِ فروزد، دل بسوزوہمیں تفسیر نمرود وخلیل است
اور ساتھ ہی بار بار ترغیب دی ہے کہ عقل کے پیچھے مت چلو۔ یہ رہ ورسم ِ منزل سے نا آشنا ہے،
نشانِ راہ زِعقلِ ہزار حیلہ مپرس
بیا کہ عشقِ کمالے زیک فنی وارد
اس کی پرواز سرحدِ محسوسات تک ہے اور حدودِ مکاں میں یہ پر نہیں مار سکتی،
عقل گو آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
یہ ایک“جوئے تنک مایہ” ہے، جس میں موتیوں کی تلاش بے سود ہے،
بگذر از عقل وبیا دیز بہ موج یمِ عشق
کہ وراں جوئے تنک مایہ گہر پیدا نیست
یا
دہِ عاقلی رہا کن کہ بہ اُو تواں رسیدن
بہ دلِ نیاز مندے، بہ نگاہِ پاک بازے
یہ غلامِ تخمین وزن ہے، جھگڑالو اور باتونی ہے۔ زائیدۂ منطق اور بنت الکتاب ہے،
علم نے مجھ سے کہا عشق ہے دیوانہ پن
عشق نے مجھ سے کہا علم ہے تخمین وزن
بندۂ تخمین وزن! کرمِ کتابی نہ بن
عشق سراپا حضور، علم سراپا حجاب
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر عقل اتنی ہی حقیر وکم مایہ چیز تھی تو اللہ نے بار بار اس سے کام لینے کی تاکید کیوں کی، اور علم وعقل کی بنیاد پرآدم کو کیوں مسجودِ ملائک بنایا؟
بات یہ ہے کہ عقل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو مادیات میں الجھی ہوئی، عالم ماورأ سے قطعا بے خبر،وارادتِ دل سے ناآشنا اور لذات جسمانی کو منتہائے تگ ودو سمجھتی ہو۔ساتھ ہی مکار، حیلہ جو، بزدل اور جھگڑالو ہو۔
دوسری وہ جو ضمیرِ کائنات میں غوطہ زن، دل کی معاون اور عشق کی ہم رکاب ہو۔
پہلی عقلِ برہانی ہے اور دوسری نورانی۔عقلِ برہانی کی انتہا حیرت ہے اور عقلِ نورانی سوزومستی، نیازوگداز اور ایمان ویقین کی امین،
اک دانش نورانی، اک دانش برہانی
ہے دانشِ برہانی، حیرت کی فراوانی
عقلِ نورانی اور وجدان ایک دوسرے کی تکمیل کرتے ہیں۔ ایک کا تعلق مظاہرات سے ہے، اور دوسری کا قلبی واردات سے۔ ایک پابند زمان ومکان ہے اور دوسری ان قیود سے آزاد۔ برگساں ؔکا خیال یہ ہے کہ وجدان ایک بلند تر عقل کا نام ہے جو ضمیرِ وجود میں اتر جاتی ہے،
اے خوش آں عقل کہ پہنائے دو عالم با اوست
نورِ افرشتہ وسوزِ دلِ آدم با اوست
آج مغرب کے پاس نہ عقلِ نورانی ہے، نہ وجدان اور نہ عشق۔ نتیجتاً ان کا برہانی علم، جس کے کمند میں ساری کائنات گرفتار ہے، نوعِ انسانی کے لیے ایک مصیبت بنا ہوا ہے،
من دروں شیشہ ہائے عصرِ حاضر دیدہ ام!
آں چناں زہرے کہ از وے مارہا در پیچ وتاب
انقلاب اے انقلاب
طورِ مغرب پر علم کے جلوے تو بے شک رقصاں ہیں لیکن وہاں کوئی کلیم نظر نہیں آتا اور نہ وہاں کے شعلوں میں کوئی خلیل دکھائی دیتا ہے۔ شاہراہِ عشق پہ سب سے زیادہ خوف ناک رہزن وہ عقل ہے جو ہم رکابِ دل نہ ہو،
جلوۂ او بے کلیم وشعلۂ او بے خلیل
عقل بے پروا متاعِ عشق را غارت گر است
عقل خورد بیں دگر وعقلِ جہاں دگر است
بالِ بلبل دگر وبازوئے شاہیں دگر است
عقل مقام فکر ہے۔ ہماری کشادِ کار فکر میں نہیں بلکہ ذکر میں ہے جو کرشمۂ عشق ہے۔ علم مقامِ خبر ہے، اور عشق مقامِ نظر۔ رازی حکمتِ قرآں کا درس تو دے سکتا ہے، لیکن رومی وعطار کی نظر عطا نہیں کر سکتا،
مقاماتِ ذکر، کمالاتِ رومی وعطار
مقامِ فکر، مقالاتِ بُو علی سینا
مقامِ فکر ہے، پیمائشِ زمان ومکاں
مقامِ ذکر ہے سبحان ربی الاعلیٰ
زرازی حکمتِ قرآں بیا موز
چراغے از چراغ او بر افروز
ولے ایں نکتہ را از من فروگیر
کہ نتواں زیستن بے مستی وسوس
جب عقل، عشق سے کچھ جلوے مستعار لے لیتی ہے تو پھر اس کے نور سے حیات کے درودیوار جگمگا اٹھتے ہیں۔ حیرتِ فارابی کی سرحدیں سوزِ رومی سے مل جاتی ہیں اور ضمیرِ روح میں ایک آسمانی چین مچلنے لگتا ہے،
عقلے کہ جہاں سوزویک جلوۂ بے با کش
از عشق بیا موزو آئینِ جہاں تابی
عشق است کہ در جانت ہر کیفیت انگیزد
از تاب وتبِ رومی تا حیرتِ فارابی
ایں حرفِ نشاط آور می گویم ومی رقصم
از عشقِ دل آساید با ایں ہمہ بے تابی
(“من کی دنیا”، صفحہ:185، ڈاکٹر غلام جیلانی برق)