ابن جمال
محفلین
اس میں کوئی شک نہیں کہ عصرحاضر میں نوجوانوں کی دین سے دلچسپی بڑھی ہے اور وہ دینی امور کی جانب راغب ہونے لگے ہیں۔ کالج کے طلبہ اوراعلیٰ تعلیم پانے والے افراد دینی امور میں دلچسپی لیتے ہیں اورنماز ودیگر عبادات کو انجام دیتے ہیں۔اسی کے ساتھ یہ بات بھی بہت خوش آئند ہے کہ مذہبی احکام کے علاوہ لباس ،وضع قطع میں بھی بہت سارے نوجوان مذہبی رنگ کو پسند کرنے بلکہ اختیار کرنے لگے ہیں لیکن اسی کے ساتھ تشویش کا دوسرارخ یہ ہے کہ ہماراوہ طبقہ جو روشن خیال ہے جس نے اعلیٰ تعلیم پائی ہے وہ دین کے تعلق سے بہت سارے شکوک وشبہات کا شکار ہے۔ اس کے شکوک وشبہات یوں توبہت سارے مذہبی احکام میں ہیں مثلایہ کہ مردوں کو چارشادی کی اجازت کیوں ہے، عورت کو کیوںنہیں، عورت کو وراثت میں مرد کےمقابلہ میں آدھاحصہ کیوں ملتاہے اوراسی طرح کے دیگراعتراضات۔
حقیقت یہ ہے کہ ان سب اعتراضات کی ایک بنیاد ہے اگرہم اس بنیاد پر گفتگو کریں اوراس بنیادکوختم کریں جہاں سے یہ سارے شکوک وشبہات پیداہوتے ہیں توان کے اس طرح کے تمام اعتراضات پیداہوجائیں گےورنہ فرداًفرداًاگراعتراضات کا جواب دیاجائے تواس کی جگہ نیااعتراض پیداہوتارہے کیونکہ اعتراض کی بنیاد اپنی جگہ برقراررہے گی۔ہم نے ان کو سمجھادیاکہ عورت کے جسم کی بناوٹ اوربچہ کے نسب وغیرہ کے اختلاط کی وجہ سے وہ بیک وقت چارشوہر نہیں رکھ سکتی، کمانے کی ذمہ داری مرد پر ہے اس لئے اسے وراثت مین زیادہ حصہ دیالیکن اس سے صرف اتناہوگاکہ ایک حکم پر اس کا اعتراض ختم ہوگا لیکن دوسرے اسلامی حکم پر بعینہ ایساہی اعتراض اسے پھر سے ہوگا۔لہذا بہتر یہی ہے کہ اعتراضات کا علیحدہ علیحدہ جواب دینے کے بجائے اعتراض کی بنیاد کیاہے اس پر بات کی جائے اوراس کا جواب دیاجائےتاکہ شکوک وشبہات کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔
کچھ لوگ توایسے ہیں جویہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام عقل اورفہم پر مبنی ہیں کوئی بات ایسی نہیں*ہے جو عقل کے دائرے سے باہر ہو،وہ ہرحکم کی حکمت جانناچاہتے ہیں ،وجہ اورسبب معلوم کرناچاہتے ہیں دوسرے لفظوں میں عقل کو مذہب پر حاکم بنایاجاتاہے۔یعنی اگرکوئی حکم عقل کے دائرہ میں آرہاہے اس کی حکمت سمجھ مین آرہی ہے تواسے تسلیم کریں گے ورنہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اگرہمیں یہ سمجھ میں آتاہے کہ مذہب نے عورت کو نصف حصہ کیوں دیاتومانیں گے ورنہ اس حکم کو حکم ماننے سے ہی انکار کردیں گے۔ اگرہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ عورت کی دیت کی مقدار مرد کی دیت سے کم کیوں ہے توہم اس کو صنفی امتیاز اورعدم مساوات قراردے کر مسترد کردیں گے۔پھریہیں سے بسااوقات اس کی بھی تحریک چلنے لگتی ہے کہ اسلام کے فلاں حکم کی چونکہ فلاں علت ہے اور وہ اس دور مین ختم ہوچکی ہے لہذا اب وہ اسلامی حکم باقی نہیں رہا۔بقول انشاایک صاحب بحثنے لگے کہ پہلے سورگندگی کھاتاتھاس لئے حرام قراردیاگیاتھالیکن اب فارم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے لہذا اب حرام نہیں ہوناچاہئے۔
کیاکسی چیز کو صرف اس لئے ماننے سے انکار کردیناچاہئے کہ وہ ہماری عقل کے دائرے سے باہر ہے۔ دنیا میں ہرایک کی عقل متفاوت ہے توکیاکسی قانون کی حکمت اگرکسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ صرف اس لئے ماننے سے انکار کردے کہ اس کی حکمت اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگرکوئی ایساکرے کہ ملک کے کسی قانون کی یہ کہہ کرخلاف ورزی کرے کہ اس قانون کی حکمت اس کی سمجھ میں نہیں آئی لہذا وہ اس کے ماننے کا پابند نہیں تواسے لوگ احمق اوردیوانہ قراردیں گے لیکن اسی چیز کو مذہب کے باب میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیاجاتاہےاوراس مذہبی حکم کو تسلیم کرنے والوں پر طعنے کسے جاتے ہیں۔یہ کیسی دوہری روش ہے کہ ملکی قانون جو ہم جیسے انسانوں*نے بنایاہے وہ اگرسمجھ میں نہ آئے پھر بھی اس کی تعمیل ضروری لیکن خداجوقادرمطلق ہے اس کے قانون کو ہم اپنی عقل پر تولتے ہیں اوراگرہماری عقل کی حدود سے وہ قانون باہر ہواتوپھرہم انکار کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔دوسرے لفظوں*میں کہیں تو گویاہم اپنی عقل کو اللہ میاں پر نافذ کرناچاہتے ہیں کہ اللہ میاں وہی قانون بنائیں جو ہماری عقل میں سماتی ہو،یہ کتنی بڑی گستاخی ہے۔یہ گستاخی ہے اللہ کی قدرت کے ساتھ، یہ گستاخی ہے اللہ کے علیم وحکیم ہونے کے ساتھ ،یہ گستاخی ہے اپنے آپ کے ساتھ کہ ہم اپنی ناقص اورمحدود عقل کی بنیاد پر اللہ کے احکام کی حکمت متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ سوچنے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ہماری ناقص عقل میں حکمت سمجھ میں نہیں آتی لیکن جس حکیم وعلیم وخبیر نے یہ قانون بنایاہے اس نے ہمارے مصالح اورفوائد کیلئے ہی یہ قانون یہ اورحکم نافذ کیاہے۔
اپنے آپ سے گستاخی سے مراد یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جس چیز کی جوحد ہواس حد سے اس کو آگے بڑھانااس کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے۔ ابن خلدون نے اچھی مثال دی ہے کہ جس ترازو میں سونے اورچاندے تولے جاتے ہوں اس میں پہاڑ نہیں تولے جاسکتے، جس عقل میں ابھی ہم نے روز مرہ کی چیزوں کی حقیقت وماہیت دریافت نہیں کی ہے اس عقل سے احکام الہی کی حکمت جاننے اورنہ جاننے پر ماننے سے انکار کرنے لگیں*توکیایہ آپ آپ سے اوراپنی عقل سے گستاخی نہیں*ہے؟
ہوسکتاہے کہ آپ یہ کہیں کہ یہ تومذہبی ملاکی بات ہے اس کی تودن رات کی گردان ہی یہی ہے لیکن یہ صرف مذہبی دیوانے کی بات نہیں ہے ادیبوں نے بھی اسی کو تسلیم کیاہے۔اقبال کاحوالہ دوں توآپ کہیں کہ وہ توخود نیم ملانے تھے اس لئے ہم دوسرے ادیب ممتاز مفتی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ممتاز مفتی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔
’’ڈاکٹر عفت سے ایک غیرملکی کرنل نے پوپوچھا’’آپ کے مذہب میں سورکھاناکیوں حرام ہے‘‘؟ڈاکٹرعفت نے کہایہ ایک حکم ہے میراکام حکم کی تعمیل کرناہے۔ کرنل صاحب،حکم کی وجہ جانناضروری نہیں، اسے مانناضروری ہے
کرنل ہنسا اوربولاجس حکم کوآپ سمجھتی نہیں،اس پر عمل کرنے کا مقصد
ڈاکٹرعفت ہنسیں ،بولیں حیرت ہے کرنل صاحب کہ آپ فوجی افسر ہوتے ہوئے حکم کے مفہوم سے واقف نہیں، کرنل کھسیاناہوگیا۔
عفت بولیں کرنل صاحب،ہرکلب کے اصول ہوتے ہیں جن کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔مذہب بھی ایک کلب ہے یاتوآپ کلب کے ممبربنیں یانہ بنیں یہ آپ کی مرضی پرموقوف ہے لیکن رکن بن جائیں توپھر چوں وچراکی گنجائش نہیں رہتی۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ مغرب کے زیراثرہم عقل کے اس قدردیوانے بنے بیٹھے ہیں کہ کچھ حد نہیں، حالانکہ ہرفرد جسے تھوڑی سے سوجھ بوجھ بھی حاصل ہے اس حقیقت کو جانتاہے کہ زندگی میں بہت کم باتیں ایسی ہیں جن پر عقل حاوی ہے اوربہت زیادہ باتیں ایسی ہیں جوعقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ عقل کو ہم نے بت بنارکھاہے اس حد تک کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ قدرمطلق ہے ہم عقل کے معیار کو اللہ تعالیٰ پربھی عائد کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یوں نہیں کرناچاہئے تھااللہ تعالیٰ کے حکم کے پیچھےضرورکوئی ایسی حکمت ہوگی جوہم عقل کے زورپرسمجھ سکتے ہیں اس لئے ہم اس کی تلاش کرنے لگتے ہیں اوراگرکامیاب نہ ہوں توحکم پر شک کرنے لگتے ہیں‘‘۔
(رام دین ،ممتاز مفتی، جلد اول صفحہ14)
سوچنایہ چاہئے کہ کیا اسلامی شریعت کے کسی حکم میں صرف وہی حکمت کارفرماہے جو ہماری سمجھ میں آئی ہے اس کے علاوہ دوسری حکمتیں کارفرمانہیں ہیں۔ایک انسان ایک کام کرتاہے توایک مقصد پیش نظررہتاہے اس سےزیادہ عقل مندشخص ایک کام کرتاہے اورایک پنتھ دوکاج اس کے پیش نظررہتے ہیں اس سے بھی زیادہ عقل مند شخص ایک کام کرتاہے اورکئی مقاصد اس کے پیش نظررہتے ہیںتوپھر وہ ذات جو حکیم ،علیم اورخبیر ہے اپنے بندوں*کے تمام مصالح اورفوائد کو بخوبی جانتاہے ،وہ ذات جو حکمت کاسرچشمہ ہے اورعقل کاخالق ہے توکیااس کے حکم میں صرف اتنی ہی مصلحت ہوگی جوہماری سمجھ میں آرہی ہے؟
جب ایک انسان کے کسی کام میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہوسکتی ہیں اورسبھی کاذہن اس جانب نہیں جاسکتاتوپھر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کا انسانی عقل کیسے احاطہ کرسکتی ہے جب کہ انسانی عقل روزمرہ پیش آنے والے حالات اورمعاملات کاہی احاطہ نہیں کرسکتی۔حد تویہ ہے کہ اس نے ابھی جوکچھ جاناہے سمجھاہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ نہیں جواس نے نہیں جاناہے اورپھر کسی چیز کے بارے میں سطحی معلومات ہی حاصل کی گئی ہیں ۔حقیقت تک رسائی کسی چیز میں بھی نہیں ہوسکی ہے۔کرنٹ سے ہم کام لیتے ہیں لیکن کرنٹ کی حقیقت کیاہے یہ معلوم نہیں،انسانی جسم میں روح کی حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں لیکن روح کیاہے ہم نہیں جانتے، دماغ کے بے شمار خانے ایسے ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ہے کہ اس کا کام کیاہے اوروہ کیسے کام کرتاہے۔
وہ لوگ جو بزعم خود کسی حکم الہی کی حکمت سمجھتے ہیں اورپھر خود ہی موجودہ دور میں اس کی ضرورت کے نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کی روش نہایت خطرناک ہے۔ان کاحال اسی نادان لڑکے جیساہوگا جس کی مثال شیخ شرف الدین منیری نے بیان کی ہے۔
’’اس کو ایساسمجھوکہ ایک شخص نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محل تعمیر کیا،وہاں انواع واقسام کی نعمتیں جمع کیں جب اس کا اخیر وقت ہوا تواس نے لڑکے کو وصیت کی کہ اس محل میں جو ترمہم وتصرف چاہناکرنالیکن ایک خوشبودار گھانس کاایک حصہ جو میں چھوڑ کر جارہاہوں وہ چاہے خشک ہوجائے اس کو باہر نہ کرنا،جب پہاڑ کی چوٹی پر بہارآئی تو پہاڑ ومیدان سب سرسبز ہوگئے،بہت سی تازہ اورخوشبودارگھانس پیداہوگئی جو اس پرانی گھانس سے زیادہ تروزتاہ تھی، اس میں بہت سی گھانس اورپھول اس محل میں آئے جن کی خوشبو نے سارے محل کو معطر کردیااوران کے سامنے اس پرانی سوکھی گھانس کی خوشبودب گئی،لڑکے نے سوچاکہ میرے والد نے یہ پرانی گھانس اس محل میں اس لئے رکھی تھی کہ اس کی خوشبوپھیلے اوریہ جگہ اس سے معطر ہو ،اب یہ سوکھی گھاس کام آئے گی اس نے حکم دیاکہ اس گھانس کو باہر پھینک دیاجائے،جس وقت محل اس گھانس سے خالی ہوگیا،ایک کالے سانپ نے سوراخ سے سرنکااورلڑکے کو ڈس لیااوراس کاکام تمام ہوگیا، سبب اس کایہ تھاکہ اس گھاس کےدوفائدے تھے ایک یہ کہ وہ خوشبودے اوردوسرے اس میں خاصیت تھی کہ وہ جہاں ہوتی ہے سانپ اس کے قریب نہیں جاسکتاگویاوہ سانپ کا تریاق تھی یہ خاصیت کسی کو معلوم نہیں تھی۔لڑکے کو اپنی ذہانت پر ناز تھا،وہ سمجھاکہ جواس کےمعلومات کے دائرہ میں نہ ہو گویاکہ قدرت خداوندی کے خزانہ میں موجود نہیں،اس کو اس آیت کامفہوم نہیں معلوم تھاومااوتیتم من العلم الاقلیلاوہ اپنی ذہانت کے غرہ میں ماراگیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت صفحہ3/155)
اس کے علاوہ اگرہم قرآن کریم کوغوروفکر سے پڑھیں توہمیں معلوم ہوگاکہ قرآن کریم نے کوئی بھی حکم دیاہے تویہ نہیں کہاہے کہ اس کوجانواورسمجھوبلکہ صرف اتناہے کہ اس کومانو،ہرجگہ قرآن کریم کا یہی انداز تخاطب ہے اے لوگوں جنہوں نے مانااورتسلیم کیاہے(یاایھاالذین آمنو)لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بعض لوگوں نے جاننے اورماننے کا یہ فرق نظروں سے اوجھل کردیا۔قرآن یہ کہتاہے کہ یہ حکم ہے اسے مانو اورتسلیم کرو(یاایھاالذین آمنوآمنو)لیکن ہمارااصرار اورمطالبہ ہوتاہے کہ ہم سمجھیں گے تو مانیں گے ہم جانیں گے تومانیں گے۔
مولانامناظراحسن گیلانی اسی تعلق سے لکھتے ہیں
’’مذہب اورمذہبی حقائق وامور کے متعلق مذکورہ بالااصول ایک ایسی جانی پہچانی بات ہے کہ مختلف مذاہب کے مقابلہ وموازنہ میںعمومادنیااسی اصول سے کام لیتی رہی ہے ۔پچھلے دنوں یورپ کے ارباب فکرونظرنے اسی سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے مذہبی حلقوں*میں کچھ ایسی باتیں پھیلادیں کہ جاننے اورماننے کافرق خام کاروں کے سامنے سے کچھ ہٹ ساگیا اورمذہب جس کی طرف سےہمیشہ آمنو یعنی ماننے کا مطالبہ پیش ہوتارہایعنی دنیا سے کہاجاتاتھاکہ مانو لیکن سننے والے کہنے لگے کہ ہم تو ان چیزوں کونہیں جانتے،گویاگلاب کے پھول کو پیش کرکے کہاجائے کہ اس کو سونگھواورجواب میں کہہ دیاجائے کہ گلاب کی خوشبو کوہم سن نہیں رہے ہیں۔پچھلے دنوں مغربی خیالات سے متاثرذہنیتوں میں الملائکۃ،الجنۃ،النار،البر زخ ،یہ اوراسی قسم کے مذہبی حقائق کے متعلق تذبذ ب اورشک کی جوکیفیت پیداکی گئی اس کی بنیاد جاننے اورماننے کے اس خلط مبحث ہی پر قائم تھی ،مذہب توکہتاتھاکہ فرشوںکو مانو لیکن خواہ مخواہ کی عقلیت کے مدعیوں*کی طرف سے کچھ ایسی باتیںپیش ہونے لگیںجن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم فرشتوںکو دیکھ نہیں رہے ہیں حالانکہ ان سے دیکھنے کامطالبہ ہی کب کیاگیاتھا‘‘۔
(دجال کا فتنہ اوراس کے خدوخال،مولانا مناظراحسن گیلانی)
حقیقت یہ ہے کہ ان سب اعتراضات کی ایک بنیاد ہے اگرہم اس بنیاد پر گفتگو کریں اوراس بنیادکوختم کریں جہاں سے یہ سارے شکوک وشبہات پیداہوتے ہیں توان کے اس طرح کے تمام اعتراضات پیداہوجائیں گےورنہ فرداًفرداًاگراعتراضات کا جواب دیاجائے تواس کی جگہ نیااعتراض پیداہوتارہے کیونکہ اعتراض کی بنیاد اپنی جگہ برقراررہے گی۔ہم نے ان کو سمجھادیاکہ عورت کے جسم کی بناوٹ اوربچہ کے نسب وغیرہ کے اختلاط کی وجہ سے وہ بیک وقت چارشوہر نہیں رکھ سکتی، کمانے کی ذمہ داری مرد پر ہے اس لئے اسے وراثت مین زیادہ حصہ دیالیکن اس سے صرف اتناہوگاکہ ایک حکم پر اس کا اعتراض ختم ہوگا لیکن دوسرے اسلامی حکم پر بعینہ ایساہی اعتراض اسے پھر سے ہوگا۔لہذا بہتر یہی ہے کہ اعتراضات کا علیحدہ علیحدہ جواب دینے کے بجائے اعتراض کی بنیاد کیاہے اس پر بات کی جائے اوراس کا جواب دیاجائےتاکہ شکوک وشبہات کی بنیاد ہی ختم ہوجائے۔
کچھ لوگ توایسے ہیں جویہ سوچتے ہیں کہ اسلام کے تمام احکام عقل اورفہم پر مبنی ہیں کوئی بات ایسی نہیں*ہے جو عقل کے دائرے سے باہر ہو،وہ ہرحکم کی حکمت جانناچاہتے ہیں ،وجہ اورسبب معلوم کرناچاہتے ہیں دوسرے لفظوں میں عقل کو مذہب پر حاکم بنایاجاتاہے۔یعنی اگرکوئی حکم عقل کے دائرہ میں آرہاہے اس کی حکمت سمجھ مین آرہی ہے تواسے تسلیم کریں گے ورنہ تسلیم نہیں کریں گے۔ اگرہمیں یہ سمجھ میں آتاہے کہ مذہب نے عورت کو نصف حصہ کیوں دیاتومانیں گے ورنہ اس حکم کو حکم ماننے سے ہی انکار کردیں گے۔ اگرہمیں یہ بات سمجھ میں نہیں آتی ہے کہ عورت کی دیت کی مقدار مرد کی دیت سے کم کیوں ہے توہم اس کو صنفی امتیاز اورعدم مساوات قراردے کر مسترد کردیں گے۔پھریہیں سے بسااوقات اس کی بھی تحریک چلنے لگتی ہے کہ اسلام کے فلاں حکم کی چونکہ فلاں علت ہے اور وہ اس دور مین ختم ہوچکی ہے لہذا اب وہ اسلامی حکم باقی نہیں رہا۔بقول انشاایک صاحب بحثنے لگے کہ پہلے سورگندگی کھاتاتھاس لئے حرام قراردیاگیاتھالیکن اب فارم میں اس کی پرورش کی جاتی ہے لہذا اب حرام نہیں ہوناچاہئے۔
کیاکسی چیز کو صرف اس لئے ماننے سے انکار کردیناچاہئے کہ وہ ہماری عقل کے دائرے سے باہر ہے۔ دنیا میں ہرایک کی عقل متفاوت ہے توکیاکسی قانون کی حکمت اگرکسی کی سمجھ میں نہ آئے تو وہ صرف اس لئے ماننے سے انکار کردے کہ اس کی حکمت اس کی سمجھ سے باہر ہے۔ اگرکوئی ایساکرے کہ ملک کے کسی قانون کی یہ کہہ کرخلاف ورزی کرے کہ اس قانون کی حکمت اس کی سمجھ میں نہیں آئی لہذا وہ اس کے ماننے کا پابند نہیں تواسے لوگ احمق اوردیوانہ قراردیں گے لیکن اسی چیز کو مذہب کے باب میں ٹھنڈے پیٹوں برداشت کرلیاجاتاہےاوراس مذہبی حکم کو تسلیم کرنے والوں پر طعنے کسے جاتے ہیں۔یہ کیسی دوہری روش ہے کہ ملکی قانون جو ہم جیسے انسانوں*نے بنایاہے وہ اگرسمجھ میں نہ آئے پھر بھی اس کی تعمیل ضروری لیکن خداجوقادرمطلق ہے اس کے قانون کو ہم اپنی عقل پر تولتے ہیں اوراگرہماری عقل کی حدود سے وہ قانون باہر ہواتوپھرہم انکار کرنے میں دیر نہیں کرتے ۔دوسرے لفظوں*میں کہیں تو گویاہم اپنی عقل کو اللہ میاں پر نافذ کرناچاہتے ہیں کہ اللہ میاں وہی قانون بنائیں جو ہماری عقل میں سماتی ہو،یہ کتنی بڑی گستاخی ہے۔یہ گستاخی ہے اللہ کی قدرت کے ساتھ، یہ گستاخی ہے اللہ کے علیم وحکیم ہونے کے ساتھ ،یہ گستاخی ہے اپنے آپ کے ساتھ کہ ہم اپنی ناقص اورمحدود عقل کی بنیاد پر اللہ کے احکام کی حکمت متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں اوریہ سوچنے کی زحمت گوارانہیں کرتے کہ ہماری ناقص عقل میں حکمت سمجھ میں نہیں آتی لیکن جس حکیم وعلیم وخبیر نے یہ قانون بنایاہے اس نے ہمارے مصالح اورفوائد کیلئے ہی یہ قانون یہ اورحکم نافذ کیاہے۔
اپنے آپ سے گستاخی سے مراد یہ ہے کہ ہم جانتے ہیں کہ جس چیز کی جوحد ہواس حد سے اس کو آگے بڑھانااس کی تکریم نہیں بلکہ توہین ہے۔ ابن خلدون نے اچھی مثال دی ہے کہ جس ترازو میں سونے اورچاندے تولے جاتے ہوں اس میں پہاڑ نہیں تولے جاسکتے، جس عقل میں ابھی ہم نے روز مرہ کی چیزوں کی حقیقت وماہیت دریافت نہیں کی ہے اس عقل سے احکام الہی کی حکمت جاننے اورنہ جاننے پر ماننے سے انکار کرنے لگیں*توکیایہ آپ آپ سے اوراپنی عقل سے گستاخی نہیں*ہے؟
ہوسکتاہے کہ آپ یہ کہیں کہ یہ تومذہبی ملاکی بات ہے اس کی تودن رات کی گردان ہی یہی ہے لیکن یہ صرف مذہبی دیوانے کی بات نہیں ہے ادیبوں نے بھی اسی کو تسلیم کیاہے۔اقبال کاحوالہ دوں توآپ کہیں کہ وہ توخود نیم ملانے تھے اس لئے ہم دوسرے ادیب ممتاز مفتی کا حوالہ دے رہے ہیں۔ ممتاز مفتی اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں۔
’’ڈاکٹر عفت سے ایک غیرملکی کرنل نے پوپوچھا’’آپ کے مذہب میں سورکھاناکیوں حرام ہے‘‘؟ڈاکٹرعفت نے کہایہ ایک حکم ہے میراکام حکم کی تعمیل کرناہے۔ کرنل صاحب،حکم کی وجہ جانناضروری نہیں، اسے مانناضروری ہے
کرنل ہنسا اوربولاجس حکم کوآپ سمجھتی نہیں،اس پر عمل کرنے کا مقصد
ڈاکٹرعفت ہنسیں ،بولیں حیرت ہے کرنل صاحب کہ آپ فوجی افسر ہوتے ہوئے حکم کے مفہوم سے واقف نہیں، کرنل کھسیاناہوگیا۔
عفت بولیں کرنل صاحب،ہرکلب کے اصول ہوتے ہیں جن کی پابندی لازمی ہوتی ہے۔مذہب بھی ایک کلب ہے یاتوآپ کلب کے ممبربنیں یانہ بنیں یہ آپ کی مرضی پرموقوف ہے لیکن رکن بن جائیں توپھر چوں وچراکی گنجائش نہیں رہتی۔
ہماری مشکل یہ ہے کہ مغرب کے زیراثرہم عقل کے اس قدردیوانے بنے بیٹھے ہیں کہ کچھ حد نہیں، حالانکہ ہرفرد جسے تھوڑی سے سوجھ بوجھ بھی حاصل ہے اس حقیقت کو جانتاہے کہ زندگی میں بہت کم باتیں ایسی ہیں جن پر عقل حاوی ہے اوربہت زیادہ باتیں ایسی ہیں جوعقل کی دسترس سے باہر ہیں۔ عقل کو ہم نے بت بنارکھاہے اس حد تک کہ یہ مانتے ہوئے کہ اللہ قدرمطلق ہے ہم عقل کے معیار کو اللہ تعالیٰ پربھی عائد کرنے سے گریز نہیں کرتے۔ہم سوچتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو یوں نہیں کرناچاہئے تھااللہ تعالیٰ کے حکم کے پیچھےضرورکوئی ایسی حکمت ہوگی جوہم عقل کے زورپرسمجھ سکتے ہیں اس لئے ہم اس کی تلاش کرنے لگتے ہیں اوراگرکامیاب نہ ہوں توحکم پر شک کرنے لگتے ہیں‘‘۔
(رام دین ،ممتاز مفتی، جلد اول صفحہ14)
سوچنایہ چاہئے کہ کیا اسلامی شریعت کے کسی حکم میں صرف وہی حکمت کارفرماہے جو ہماری سمجھ میں آئی ہے اس کے علاوہ دوسری حکمتیں کارفرمانہیں ہیں۔ایک انسان ایک کام کرتاہے توایک مقصد پیش نظررہتاہے اس سےزیادہ عقل مندشخص ایک کام کرتاہے اورایک پنتھ دوکاج اس کے پیش نظررہتے ہیں اس سے بھی زیادہ عقل مند شخص ایک کام کرتاہے اورکئی مقاصد اس کے پیش نظررہتے ہیںتوپھر وہ ذات جو حکیم ،علیم اورخبیر ہے اپنے بندوں*کے تمام مصالح اورفوائد کو بخوبی جانتاہے ،وہ ذات جو حکمت کاسرچشمہ ہے اورعقل کاخالق ہے توکیااس کے حکم میں صرف اتنی ہی مصلحت ہوگی جوہماری سمجھ میں آرہی ہے؟
جب ایک انسان کے کسی کام میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہوسکتی ہیں اورسبھی کاذہن اس جانب نہیں جاسکتاتوپھر اللہ تبارک وتعالیٰ کے احکام کی حکمتوں کا انسانی عقل کیسے احاطہ کرسکتی ہے جب کہ انسانی عقل روزمرہ پیش آنے والے حالات اورمعاملات کاہی احاطہ نہیں کرسکتی۔حد تویہ ہے کہ اس نے ابھی جوکچھ جاناہے سمجھاہے وہ اس کے مقابلے میں کچھ نہیں جواس نے نہیں جاناہے اورپھر کسی چیز کے بارے میں سطحی معلومات ہی حاصل کی گئی ہیں ۔حقیقت تک رسائی کسی چیز میں بھی نہیں ہوسکی ہے۔کرنٹ سے ہم کام لیتے ہیں لیکن کرنٹ کی حقیقت کیاہے یہ معلوم نہیں،انسانی جسم میں روح کی حقیقت کوتسلیم کرتے ہیں لیکن روح کیاہے ہم نہیں جانتے، دماغ کے بے شمار خانے ایسے ہیں جہاں تک ہماری رسائی نہیں ہوسکی ہے کہ اس کا کام کیاہے اوروہ کیسے کام کرتاہے۔
وہ لوگ جو بزعم خود کسی حکم الہی کی حکمت سمجھتے ہیں اورپھر خود ہی موجودہ دور میں اس کی ضرورت کے نہ ہونے کا فیصلہ کرتے ہیں ان کی روش نہایت خطرناک ہے۔ان کاحال اسی نادان لڑکے جیساہوگا جس کی مثال شیخ شرف الدین منیری نے بیان کی ہے۔
’’اس کو ایساسمجھوکہ ایک شخص نے ایک پہاڑ کی چوٹی پر محل تعمیر کیا،وہاں انواع واقسام کی نعمتیں جمع کیں جب اس کا اخیر وقت ہوا تواس نے لڑکے کو وصیت کی کہ اس محل میں جو ترمہم وتصرف چاہناکرنالیکن ایک خوشبودار گھانس کاایک حصہ جو میں چھوڑ کر جارہاہوں وہ چاہے خشک ہوجائے اس کو باہر نہ کرنا،جب پہاڑ کی چوٹی پر بہارآئی تو پہاڑ ومیدان سب سرسبز ہوگئے،بہت سی تازہ اورخوشبودارگھانس پیداہوگئی جو اس پرانی گھانس سے زیادہ تروزتاہ تھی، اس میں بہت سی گھانس اورپھول اس محل میں آئے جن کی خوشبو نے سارے محل کو معطر کردیااوران کے سامنے اس پرانی سوکھی گھانس کی خوشبودب گئی،لڑکے نے سوچاکہ میرے والد نے یہ پرانی گھانس اس محل میں اس لئے رکھی تھی کہ اس کی خوشبوپھیلے اوریہ جگہ اس سے معطر ہو ،اب یہ سوکھی گھاس کام آئے گی اس نے حکم دیاکہ اس گھانس کو باہر پھینک دیاجائے،جس وقت محل اس گھانس سے خالی ہوگیا،ایک کالے سانپ نے سوراخ سے سرنکااورلڑکے کو ڈس لیااوراس کاکام تمام ہوگیا، سبب اس کایہ تھاکہ اس گھاس کےدوفائدے تھے ایک یہ کہ وہ خوشبودے اوردوسرے اس میں خاصیت تھی کہ وہ جہاں ہوتی ہے سانپ اس کے قریب نہیں جاسکتاگویاوہ سانپ کا تریاق تھی یہ خاصیت کسی کو معلوم نہیں تھی۔لڑکے کو اپنی ذہانت پر ناز تھا،وہ سمجھاکہ جواس کےمعلومات کے دائرہ میں نہ ہو گویاکہ قدرت خداوندی کے خزانہ میں موجود نہیں،اس کو اس آیت کامفہوم نہیں معلوم تھاومااوتیتم من العلم الاقلیلاوہ اپنی ذہانت کے غرہ میں ماراگیا۔(تاریخ دعوت وعزیمت صفحہ3/155)
اس کے علاوہ اگرہم قرآن کریم کوغوروفکر سے پڑھیں توہمیں معلوم ہوگاکہ قرآن کریم نے کوئی بھی حکم دیاہے تویہ نہیں کہاہے کہ اس کوجانواورسمجھوبلکہ صرف اتناہے کہ اس کومانو،ہرجگہ قرآن کریم کا یہی انداز تخاطب ہے اے لوگوں جنہوں نے مانااورتسلیم کیاہے(یاایھاالذین آمنو)لیکن بدقسمتی یہ رہی ہے کہ بعض لوگوں نے جاننے اورماننے کا یہ فرق نظروں سے اوجھل کردیا۔قرآن یہ کہتاہے کہ یہ حکم ہے اسے مانو اورتسلیم کرو(یاایھاالذین آمنوآمنو)لیکن ہمارااصرار اورمطالبہ ہوتاہے کہ ہم سمجھیں گے تو مانیں گے ہم جانیں گے تومانیں گے۔
مولانامناظراحسن گیلانی اسی تعلق سے لکھتے ہیں
’’مذہب اورمذہبی حقائق وامور کے متعلق مذکورہ بالااصول ایک ایسی جانی پہچانی بات ہے کہ مختلف مذاہب کے مقابلہ وموازنہ میںعمومادنیااسی اصول سے کام لیتی رہی ہے ۔پچھلے دنوں یورپ کے ارباب فکرونظرنے اسی سلسلے میں غلو سے کام لیتے ہوئے مذہبی حلقوں*میں کچھ ایسی باتیں پھیلادیں کہ جاننے اورماننے کافرق خام کاروں کے سامنے سے کچھ ہٹ ساگیا اورمذہب جس کی طرف سےہمیشہ آمنو یعنی ماننے کا مطالبہ پیش ہوتارہایعنی دنیا سے کہاجاتاتھاکہ مانو لیکن سننے والے کہنے لگے کہ ہم تو ان چیزوں کونہیں جانتے،گویاگلاب کے پھول کو پیش کرکے کہاجائے کہ اس کو سونگھواورجواب میں کہہ دیاجائے کہ گلاب کی خوشبو کوہم سن نہیں رہے ہیں۔پچھلے دنوں مغربی خیالات سے متاثرذہنیتوں میں الملائکۃ،الجنۃ،النار،البر زخ ،یہ اوراسی قسم کے مذہبی حقائق کے متعلق تذبذ ب اورشک کی جوکیفیت پیداکی گئی اس کی بنیاد جاننے اورماننے کے اس خلط مبحث ہی پر قائم تھی ،مذہب توکہتاتھاکہ فرشوںکو مانو لیکن خواہ مخواہ کی عقلیت کے مدعیوں*کی طرف سے کچھ ایسی باتیںپیش ہونے لگیںجن سے معلوم ہوتاہے کہ وہ کہہ رہے ہیں کہ ہم فرشتوںکو دیکھ نہیں رہے ہیں حالانکہ ان سے دیکھنے کامطالبہ ہی کب کیاگیاتھا‘‘۔
(دجال کا فتنہ اوراس کے خدوخال،مولانا مناظراحسن گیلانی)