حسان خان
لائبریرین
گذشتہ دنوں کراچی میں یومِ اقبال کے موقع پر متعدد مشاعرے اور ادبی اجتماعات منعقد ہوئے اور یہ سلسلہ کئی دن تک جاری رہا۔ یومِ اقبال کے ان اجتماعات میں وہ اجتماع خاص طور پر قابلِ ذکر ہے جو اقبال اکیڈمی کی جانب سے ہوٹل میٹروپول میں انعقاد پذیر ہوا۔ اقبال اکیڈمی کو پاکستان کے علمی اداروں میں ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ علامہ اقبال کے افکار و نظریات کی نشر و اشاعت کے سلسلے میں اس نے جو خدمات انجام دی ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ اس کے ساتھ ہی اقبالیات کی شرح و تفسیر کے ضمن میں اس نے اپنے قارئین کو بہت سے ان دقیق علمی مسائل اور فلسفیانہ مباحث سے بڑی حد تک روشناس کرا دیا ہے جن کے اصل ماخذوں کا مطالعہ کرنا آج کل کے سہولت پسند قاری کے لیے ایک عذاب ناک مشقت سے کسی طرح کم نہیں اور یہ بلاشبہ ایک خدمت ہے۔
لیکن علامہ اقبال کی تخلیقات کو اقبال اکیڈمی جس انداز سے اپنا موضوع قرار دیتی ہے اس انداز سے ہمیں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ اقبال کی حقیقی عظمت ان کے فن کی ادبی اور جمالیاتی اقدار میں پوشیدہ ہے۔ مختصر یہ ہے کہ ان کی عظمت کا اصل مظہر ان کی شاعری ہے لیکن اکیڈمی انہیں ایک عظیم شاعر کے بجائے ایک 'مجدد' کی حیثیت سے پیش کرتی ہے حالانکہ وہ ایک ہی زبان نہیں بلکہ بیک وقت دو زبانوں کے عظیم ترین شاعر تھے چنانچہ علامہ اقبال کے نظریات کی تشریح میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا تعلق علامہ اقبال کی شاعری سے صرف اسی قدر ہے کہ ان میں جا بجا علامہ اقبال کا نام آ جاتا ہے لیکن اگر ان کے نام کی جگہ شاہ ولی اللہ یا مجدد الف ثانی کا نام لکھ دیا جائے تو صورتِ حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہ ان کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ ایک دوسرے درجے کے شاعر کے ساتھ اگر یہ طریقہ روا رکھا جائے تو شاید اس کا کوئی جواز نکل آئے لیکن اقبال جو اول و آخر ایک شاعر تھے اور قدرِ اول کے شاعر، اُن کے ساتھ یہ غیر شاعرانہ برتاؤ کسی طرح بھی مناسب نہیں اور اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
صورت یہ ہے کہ ان کی مخصوص تعلیمات اور فلسفۂ حیات سے ہر شخص متفق نہیں ہو سکتا لیکن ان کی شاعری، ان کے فن کی جمالیاتی اقدار اور ان اقدار کے پیچھے زندگی کی جو امنگیں بال کشا ہیں، ان کے عظیم حسن و جمال سے کوئی بھی انکار نہیں کرے گا۔ لیکن اس پہلو کی طرف توجہ کرنے کے بجائے ان کے کلام کی اخلاقی، فقہی، سیاسی اور روحانی توجیہات پر سارا زور صرف کر دیا جاتا ہے۔ وہ توجیہات جو ایک غیر متعلق قاری کے لیے کوئی جاذبیت نہیں رکھتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال ایک ہی حلقے میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں جب کہ ان کے فن کی اپیل عالمگیر ہے۔ اگر دنیا کے عظیم شاعروں کی ایک فہرست مرتب کی جائے اور ہم سے پوچھا جائے کہ تم اس فہرست میں اردو کی طرف سے کن شاعروں کے نام شامل کرو گے تو ہم بلا تامل جن شاعروں کا نام لیں گے ان میں اقبال و غالب سرِ فہرست آتے ہیں۔ اب اس کے بعد جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلامی فقہ کی تشکیلِ جدید اور احیائے ملت کی تحریک کے ضمن میں تو اقبال کے تمام اجتہادات گنائے جا رہے ہیں مگر ان کی شاعری کا کوئی ذکر نہیں تو ہمیں تعجب بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کی تعلیمات پر اظہارِ خیال نہ کیا جائے کہ یہ بہرحال خود علامہ اقبال اور ان کے نظریات سے اتفاق رکھنے والے مبصرین اور مصنفین کا ایک ایسا حق ہے جسے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ادب کے ان بے شمار قارئین کے حق کی بھی کچھ رعایت ملحوظ رکھی جائے جو اقبال کی شاعری سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں یا لطف اندوز ہو سکتے ہیں مگر ان کے مخصوص نظریات کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کر سکتے۔
اب تک اقبال اکیڈمی کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش یہ رہی ہے کہ دنیا اور خاص طور پر اسلامی دنیا اقبال کی تعلیمات سے پوری طرح واقف ہو جائے۔ اس کوشش نے اقبال کی فنی قدروں ہی کو نقصان نہیں پہنچایا، انہیں ملک کے ادبی سماج سے بھی کافی دور کر دیا ہے۔ ہمیں ایک بات کو نہیں بھولنا چاہیے وہ یہ کہ تمام تفصیلات کو چھوڑکر اگر ان کی تعلیمات اور پیام کے بارے میں مجملاً کچھ کہا جائے تو وہ یہ ہے کہ ان کی اساس اسلامی قومیت کے خالص روحانی تصور پر قائم ہوئی ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلامی ممالک میں اسلامی قومیت کا یہ تصور 'عرب قومیت' کے مقابلے میں کتنی مقبولیت حاصل کر سکتا ہے؟ وہ اسلامی ممالک، تاریخِ اسلامی کے وہ سابقینِ اولین جن کی 'نامسلمانی' کا پاکستان جیسے 'نومسلم' ممالک تک کو گلہ ہے، صورتِ حال بالکل واضح ہے عرب صرف عرب قومیت، افغانی صرف افغانی قومیت اور ایرانی صرف ایرانی قومیت کا مفہوم سمجھتے ہیں اس کے علاوہ قومیت کا کوئی تصور ان کے لیے قطعاً ناقابلِ فہم ہے۔ اب رہی غیر مسلم دنیا تو ظاہر ہے کہ غیر مسلم دنیا کو اسلامی قومیت اور اس کے پس منظری اور پیش منظری افکار و نظریات سے کیا تعلق، لیکن یہ تمام حلقے کلامِ اقبال کی مشترک انسانی اور فنی قدروں کی پوری طرح قدردانی کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہم اس گفتگو کے دوران مختلف تضادات سے دوچار ہوئے ہوں، ممکن ہے کہ ہماری یہ تحریر متعدد تناقضات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہو، لیکن ہم نے کہنا یہی چاہا ہے کہ ادب کے قارئین کا اسی طرح اقبال پر بھی کچھ حق ہے جس طرح حافظ، خیام، دانتے، ابوالعلا معری، ملٹن اور غالب پر، چاہے ان اکابرِ فن کے عقائد و افکار سے ان قارئین کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔
اس کے بعد اب ہم یومِ اقبال کے اس اجتماع کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں جو اکیڈمی کی جانب سے ہوٹل میٹروپول میں منعقد ہوا تھا۔ اکیڈمی سے ہماری یہ گفتگو خالص قومی نوعیت کی حامل ہے۔ ہمارے خیال میں وہاں جس ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا وہ اس عظیم شخصیت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی جس کا ہر شعر غلامانہ ذہنیت کے خرمن میں ایک شعلے کی حیثیت رکھتا تھا۔ سب سے پہلے تو ہوٹل میٹروپول کا انتخاب ہی قابلِ اعتراض ہے۔ کیا اس طرح ان عوام کے جذبات کی توہین نہیں کی گئی جو اقبال سے محبت کرتے ہیں لیکن ہوٹل میٹروپول کے آئینہ خانے کو اپنے کہنہ اور گرد آلود لباس کے عکس سے میلا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے اور اس جرأت کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اور کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اقبال چند سرکاری افسروں اور صوفہ نشینوں کے شاعر تھے اور عوام سے ان کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ یہ صوفہ نشین، یہ شہر کے معززین جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنی جہالت اور احساسِ کمتری کو چھپانے کے لیے اس قسم کے جلسوں کی سرپرستی اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور جو مشاعروں میں احتیاطاً سب سے آگے جا کر بیٹھتے ہیں تاکہ فوٹوگرافروں کو شکایت نہ ہو، جو محفلِ سماع میں فارسی قوالی کی فرمائش کر کے ہر شعر کی داد دینا ضروری خیال کرتے ہیں تاکہ داد و تحسین کے اندھیرے کا کوئی نہ کوئی تیر تو نشانے پر لگ ہی جائے۔ اس جلسے میں شروع سے آخر تک صرف انگریزی دانی کا مظاہرہ کیا گیا۔ خطبۂ صدارت انگریزی میں پڑھا گیا، تقریریں انگریزی میں کی گئیں، کاروائی انگریزی میں ہوئی اور اس طرح بڑی خوش اسلوبی سے یہ ثابت کر دیا گیا کہ ہم انگریزی میں طاق اور شہرۂ آفاق ہیں۔ قوم نے بھی یہ مژدۂ جانفزا سنا اور اطمینان کا سانس لیا کہ 'ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں'۔
ڈاکٹر سید عبداللہ اس اجتماع کے واحد مقرر تھے جنہوں نے اپنی زبان میں تقریر کی اور مولانا ماہر القادری نے ایک نظم پڑھی۔ ملک کے ممتاز عالم اور اردو کے فاضل اہلِ قلم ڈاکٹر سید عبداللہ ہماری تعریف و تحسین کے محتاج نہیں۔ وہ ان بزرگوں میں شامل ہیں جن سے ہماری نسل نے بولنا اور لکھنا سیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس غیر سنجیدہ ماحول اور طفلانہ ذہنیت کے خلاف سخت احتجاج کر کے اپنا فرض ادا کیا لیکن اس کے جواب میں ایک ممتاز رکن نے یہ فرمایا کہ 'علامہ اقبال کا پیام صرف پاکستان یا اردو والوں کے لیے نہیں تھا بلکہ عالمگیر تھا پھر یہ کہ یہاں غیر ملکی حضرات بھی تشریف رکھتے ہیں اس لیے جلسے کی کاروائی انگریزی ہی میں ہونا چاہیے تھی'۔ اظہار کی یہ جرأت یقیناً قابلِ داد ہے اور ہم سب کو اس سے سبق لینا چاہیے، ہم جو اپنی جرأتِ اظہار کو بری طرح گنوا بیٹھے ہیں۔ بہرحال ہم نے جب اس روداد کو سنا تو کچھ زیادہ حیران نہیں ہوئے لیکن اس وقت ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سید عبداللہ کے علاوہ ہمارے سلسلے کے کئی مشائخ اور قبیلے کے کئی اور شیوخ بھی وہاں موجود تھے جن کا کسی اجتماع میں موجود ہونا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ اجتماع قومی آداب، قومی تہذیب اور قومی اندازِ نظر کا مظہر ہوگا اور یہ کہ یہ حضرات صرف وہاں موجود ہی نہیں تھے بلکہ یومِ اقبال کی تقریب میں انگریزی زبان دانی کا یہ مقابلہ انہی کی نگرانی میں اختتام پذیر ہوا۔ ان محترم بزرگوں میں جناب ممتاز حسن، ڈاکٹر محمود حسین اور اے ڈی اظہر صاحب کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں بلکہ ڈاکٹر محمود حسین نے تو اس اجتماع میں صدارت کے فرائض انجام دیے۔ یہ حضرات ہمارے معاشرے کے ان ذمے دار اور حساس بزرگوں میں شامل ہیں جنہوں اپنے نوجوانوں کو قومی شعور اور قومی زبان کے حق میں کتنی ہی دلیلیں سکھائی ہیں، کتنے ہی نکات تعلیم کیے ہیں اور اس طرح اپنے فرائضِ منصبی کو انجام دیا ہے۔ ہمارا یہ منصب نہیں ہے ہم ان کے ان بزرگانہ فرائض کو انجام دیں۔ ہمارے لیے خاموش رہنا مناسب ہے۔
لیکن علامہ اقبال کی تخلیقات کو اقبال اکیڈمی جس انداز سے اپنا موضوع قرار دیتی ہے اس انداز سے ہمیں اختلاف ہے۔ ہمارے خیال میں علامہ اقبال کی حقیقی عظمت ان کے فن کی ادبی اور جمالیاتی اقدار میں پوشیدہ ہے۔ مختصر یہ ہے کہ ان کی عظمت کا اصل مظہر ان کی شاعری ہے لیکن اکیڈمی انہیں ایک عظیم شاعر کے بجائے ایک 'مجدد' کی حیثیت سے پیش کرتی ہے حالانکہ وہ ایک ہی زبان نہیں بلکہ بیک وقت دو زبانوں کے عظیم ترین شاعر تھے چنانچہ علامہ اقبال کے نظریات کی تشریح میں جو کتابیں لکھی گئی ہیں ان کا تعلق علامہ اقبال کی شاعری سے صرف اسی قدر ہے کہ ان میں جا بجا علامہ اقبال کا نام آ جاتا ہے لیکن اگر ان کے نام کی جگہ شاہ ولی اللہ یا مجدد الف ثانی کا نام لکھ دیا جائے تو صورتِ حال میں کوئی فرق واقع نہیں ہوگا۔ ہمارے خیال میں یہ ان کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔ ایک دوسرے درجے کے شاعر کے ساتھ اگر یہ طریقہ روا رکھا جائے تو شاید اس کا کوئی جواز نکل آئے لیکن اقبال جو اول و آخر ایک شاعر تھے اور قدرِ اول کے شاعر، اُن کے ساتھ یہ غیر شاعرانہ برتاؤ کسی طرح بھی مناسب نہیں اور اس کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جا سکتا۔
صورت یہ ہے کہ ان کی مخصوص تعلیمات اور فلسفۂ حیات سے ہر شخص متفق نہیں ہو سکتا لیکن ان کی شاعری، ان کے فن کی جمالیاتی اقدار اور ان اقدار کے پیچھے زندگی کی جو امنگیں بال کشا ہیں، ان کے عظیم حسن و جمال سے کوئی بھی انکار نہیں کرے گا۔ لیکن اس پہلو کی طرف توجہ کرنے کے بجائے ان کے کلام کی اخلاقی، فقہی، سیاسی اور روحانی توجیہات پر سارا زور صرف کر دیا جاتا ہے۔ وہ توجیہات جو ایک غیر متعلق قاری کے لیے کوئی جاذبیت نہیں رکھتیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اقبال ایک ہی حلقے میں محدود ہو کر رہ جاتے ہیں جب کہ ان کے فن کی اپیل عالمگیر ہے۔ اگر دنیا کے عظیم شاعروں کی ایک فہرست مرتب کی جائے اور ہم سے پوچھا جائے کہ تم اس فہرست میں اردو کی طرف سے کن شاعروں کے نام شامل کرو گے تو ہم بلا تامل جن شاعروں کا نام لیں گے ان میں اقبال و غالب سرِ فہرست آتے ہیں۔ اب اس کے بعد جب ہم یہ دیکھتے ہیں کہ اسلامی فقہ کی تشکیلِ جدید اور احیائے ملت کی تحریک کے ضمن میں تو اقبال کے تمام اجتہادات گنائے جا رہے ہیں مگر ان کی شاعری کا کوئی ذکر نہیں تو ہمیں تعجب بھی ہوتا ہے اور افسوس بھی۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ ان کی تعلیمات پر اظہارِ خیال نہ کیا جائے کہ یہ بہرحال خود علامہ اقبال اور ان کے نظریات سے اتفاق رکھنے والے مبصرین اور مصنفین کا ایک ایسا حق ہے جسے کوئی بھی نہیں چھین سکتا۔ ہم تو صرف یہ کہتے ہیں کہ ادب کے ان بے شمار قارئین کے حق کی بھی کچھ رعایت ملحوظ رکھی جائے جو اقبال کی شاعری سے لطف اندوز ہونا چاہتے ہیں یا لطف اندوز ہو سکتے ہیں مگر ان کے مخصوص نظریات کے ساتھ کوئی مفاہمت نہیں کر سکتے۔
اب تک اقبال اکیڈمی کی سب سے بڑی خواہش اور کوشش یہ رہی ہے کہ دنیا اور خاص طور پر اسلامی دنیا اقبال کی تعلیمات سے پوری طرح واقف ہو جائے۔ اس کوشش نے اقبال کی فنی قدروں ہی کو نقصان نہیں پہنچایا، انہیں ملک کے ادبی سماج سے بھی کافی دور کر دیا ہے۔ ہمیں ایک بات کو نہیں بھولنا چاہیے وہ یہ کہ تمام تفصیلات کو چھوڑکر اگر ان کی تعلیمات اور پیام کے بارے میں مجملاً کچھ کہا جائے تو وہ یہ ہے کہ ان کی اساس اسلامی قومیت کے خالص روحانی تصور پر قائم ہوئی ہے۔ اب ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ اسلامی ممالک میں اسلامی قومیت کا یہ تصور 'عرب قومیت' کے مقابلے میں کتنی مقبولیت حاصل کر سکتا ہے؟ وہ اسلامی ممالک، تاریخِ اسلامی کے وہ سابقینِ اولین جن کی 'نامسلمانی' کا پاکستان جیسے 'نومسلم' ممالک تک کو گلہ ہے، صورتِ حال بالکل واضح ہے عرب صرف عرب قومیت، افغانی صرف افغانی قومیت اور ایرانی صرف ایرانی قومیت کا مفہوم سمجھتے ہیں اس کے علاوہ قومیت کا کوئی تصور ان کے لیے قطعاً ناقابلِ فہم ہے۔ اب رہی غیر مسلم دنیا تو ظاہر ہے کہ غیر مسلم دنیا کو اسلامی قومیت اور اس کے پس منظری اور پیش منظری افکار و نظریات سے کیا تعلق، لیکن یہ تمام حلقے کلامِ اقبال کی مشترک انسانی اور فنی قدروں کی پوری طرح قدردانی کر سکتے ہیں۔ ممکن ہے کہ ہم اس گفتگو کے دوران مختلف تضادات سے دوچار ہوئے ہوں، ممکن ہے کہ ہماری یہ تحریر متعدد تناقضات کا مجموعہ بن کر رہ گئی ہو، لیکن ہم نے کہنا یہی چاہا ہے کہ ادب کے قارئین کا اسی طرح اقبال پر بھی کچھ حق ہے جس طرح حافظ، خیام، دانتے، ابوالعلا معری، ملٹن اور غالب پر، چاہے ان اکابرِ فن کے عقائد و افکار سے ان قارئین کو کتنا ہی اختلاف کیوں نہ ہو۔
اس کے بعد اب ہم یومِ اقبال کے اس اجتماع کا ذکر بھی ضروری سمجھتے ہیں جو اکیڈمی کی جانب سے ہوٹل میٹروپول میں منعقد ہوا تھا۔ اکیڈمی سے ہماری یہ گفتگو خالص قومی نوعیت کی حامل ہے۔ ہمارے خیال میں وہاں جس ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا وہ اس عظیم شخصیت سے کوئی مناسبت نہیں رکھتی جس کا ہر شعر غلامانہ ذہنیت کے خرمن میں ایک شعلے کی حیثیت رکھتا تھا۔ سب سے پہلے تو ہوٹل میٹروپول کا انتخاب ہی قابلِ اعتراض ہے۔ کیا اس طرح ان عوام کے جذبات کی توہین نہیں کی گئی جو اقبال سے محبت کرتے ہیں لیکن ہوٹل میٹروپول کے آئینہ خانے کو اپنے کہنہ اور گرد آلود لباس کے عکس سے میلا کرنے کی جرأت نہیں کر سکتے اور اس جرأت کا حق بھی نہیں رکھتے۔ اور کیا اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اقبال چند سرکاری افسروں اور صوفہ نشینوں کے شاعر تھے اور عوام سے ان کا کوئی تعلق بھی نہیں تھا۔ یہ صوفہ نشین، یہ شہر کے معززین جن میں اکثریت ان لوگوں کی ہے جو اپنی جہالت اور احساسِ کمتری کو چھپانے کے لیے اس قسم کے جلسوں کی سرپرستی اپنا فرضِ منصبی سمجھتے ہیں اور جو مشاعروں میں احتیاطاً سب سے آگے جا کر بیٹھتے ہیں تاکہ فوٹوگرافروں کو شکایت نہ ہو، جو محفلِ سماع میں فارسی قوالی کی فرمائش کر کے ہر شعر کی داد دینا ضروری خیال کرتے ہیں تاکہ داد و تحسین کے اندھیرے کا کوئی نہ کوئی تیر تو نشانے پر لگ ہی جائے۔ اس جلسے میں شروع سے آخر تک صرف انگریزی دانی کا مظاہرہ کیا گیا۔ خطبۂ صدارت انگریزی میں پڑھا گیا، تقریریں انگریزی میں کی گئیں، کاروائی انگریزی میں ہوئی اور اس طرح بڑی خوش اسلوبی سے یہ ثابت کر دیا گیا کہ ہم انگریزی میں طاق اور شہرۂ آفاق ہیں۔ قوم نے بھی یہ مژدۂ جانفزا سنا اور اطمینان کا سانس لیا کہ 'ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں'۔
ڈاکٹر سید عبداللہ اس اجتماع کے واحد مقرر تھے جنہوں نے اپنی زبان میں تقریر کی اور مولانا ماہر القادری نے ایک نظم پڑھی۔ ملک کے ممتاز عالم اور اردو کے فاضل اہلِ قلم ڈاکٹر سید عبداللہ ہماری تعریف و تحسین کے محتاج نہیں۔ وہ ان بزرگوں میں شامل ہیں جن سے ہماری نسل نے بولنا اور لکھنا سیکھا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے اس غیر سنجیدہ ماحول اور طفلانہ ذہنیت کے خلاف سخت احتجاج کر کے اپنا فرض ادا کیا لیکن اس کے جواب میں ایک ممتاز رکن نے یہ فرمایا کہ 'علامہ اقبال کا پیام صرف پاکستان یا اردو والوں کے لیے نہیں تھا بلکہ عالمگیر تھا پھر یہ کہ یہاں غیر ملکی حضرات بھی تشریف رکھتے ہیں اس لیے جلسے کی کاروائی انگریزی ہی میں ہونا چاہیے تھی'۔ اظہار کی یہ جرأت یقیناً قابلِ داد ہے اور ہم سب کو اس سے سبق لینا چاہیے، ہم جو اپنی جرأتِ اظہار کو بری طرح گنوا بیٹھے ہیں۔ بہرحال ہم نے جب اس روداد کو سنا تو کچھ زیادہ حیران نہیں ہوئے لیکن اس وقت ہماری حیرت کی کوئی انتہا نہیں رہی جب ہمیں یہ معلوم ہوا کہ ڈاکٹر سید عبداللہ کے علاوہ ہمارے سلسلے کے کئی مشائخ اور قبیلے کے کئی اور شیوخ بھی وہاں موجود تھے جن کا کسی اجتماع میں موجود ہونا ہی اس بات کی ضمانت ہے کہ وہ اجتماع قومی آداب، قومی تہذیب اور قومی اندازِ نظر کا مظہر ہوگا اور یہ کہ یہ حضرات صرف وہاں موجود ہی نہیں تھے بلکہ یومِ اقبال کی تقریب میں انگریزی زبان دانی کا یہ مقابلہ انہی کی نگرانی میں اختتام پذیر ہوا۔ ان محترم بزرگوں میں جناب ممتاز حسن، ڈاکٹر محمود حسین اور اے ڈی اظہر صاحب کے اسمائے گرامی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں بلکہ ڈاکٹر محمود حسین نے تو اس اجتماع میں صدارت کے فرائض انجام دیے۔ یہ حضرات ہمارے معاشرے کے ان ذمے دار اور حساس بزرگوں میں شامل ہیں جنہوں اپنے نوجوانوں کو قومی شعور اور قومی زبان کے حق میں کتنی ہی دلیلیں سکھائی ہیں، کتنے ہی نکات تعلیم کیے ہیں اور اس طرح اپنے فرائضِ منصبی کو انجام دیا ہے۔ ہمارا یہ منصب نہیں ہے ہم ان کے ان بزرگانہ فرائض کو انجام دیں۔ ہمارے لیے خاموش رہنا مناسب ہے۔
ہزار گونہ شکایت بضمنِ خاموشیست
(انشا، جون ۱۹۶۱)