حسینی
محفلین
علامہ اقبال اور جمال الدین افغانی کاموت کے بعدملاپ
زمانے کے اتفاقات بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کہاں کی خاک، کہاں کا خمیر! کہاں استنبول، کہاں لاہور اور پھر کہاں کابل! لیکن یہ فاصلے کبھی آن واحد میں دور بھی ہوجاتے ہیں اور دل بھی ایک ساتھ دھڑکنے لگتے ہیں۔ دسمبر ١٩٤٤ء کے آخری ایام کی ایک شام تھی۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس عصر حاضر کی جلیل القدر ہستیوں کا موت کے بعد ملاپ ہوا، اوریہ منظر لاہور اور بیرونجات کے ہزاروں فرزندان توحید نے وفور شوق کے عالم میں دیکھا۔بہت سے لوگوں پر رقت طاری ہوئی۔جوش جذبات سے اکثر آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ دیر تک یہ سماں رہا اور پھر ایک ہستی کا جسد خاکی جو استنبول سے لایا گیا تھا پشاور کے راستے کابل روانہ کیا گیا ۔ دوسری ہستی اپنے مرقد میں ، اہل عزم وہمت کی زیارت کا مرکز بنی، محو آرام رہی۔ یہ دو ہستیاں تھیں سید جمال الدین افغانی اورعلامہ شیخ محمد اقبال ۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ افغانی کی رحلت کے تقریبا ٤٨ سال بعد ترکی اور افغانستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ان کا جسد خاکی استنبول سے کابل لا کر دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک اعلی افغان وفد افغانی کے جسد خاکی کو تابوت میں رکھ کر بحری جہاز سے بمبئی پہنچا اور وہاں سے بذریعہ ٹرین براستہ دہلی لاہور اور پشاور کے راستے کابل پہنچا۔ لاہور میں افغانی کا تابوت یک شب وروز رہا۔ برکت علی ہال (بیرون موچی دروازہ) میں رات بھر زائرین آتے ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے، اور افغانی کی روح کو ایصال ثواب پہنچاتے رہے۔ پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی ہزاروں مسلمان زیارت کے لیے لاہور آئے۔ اگلے روز بعد نماز ظہر لاکھوں انسانوںکا جلوس کے ساتھ افغانی کا تابوت شہر سے گزر کر بادشاہی مسجد میں لے جایا گیا۔وہا ں دعائے مغفرت پڑھی گئی اور اس کے بعد تابوت کو مسجد سے باہر لا کر تھوڑی دیر کے لیے علامہ اقبال کے مرقد کے پہلو بہ پہلو رکھ دیا گیا۔ یہ منظر جو ناقابل فراموش یادوں سے معمور ہے، راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور آج تک قلب اس روح پرور نظارے کے سرور سے لذت یاب ہے۔
انتخاب از مقالہ : اقبال اور سید جمال الدین افغانی ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار
کتاب: اقبالیات کے سو سال ، ص ٩٠٣ ناشر:اکادمی ادبیات پاکستان
ویسے اس دھاگے کو اقبالیات میں ہونا چاہیے تھا، لیکن بندہ ناچیز کو ہنوز اقبالیات کے دھاگوں میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ معلوم نہیں کب اجازت ملنی ہے؟؟
زمانے کے اتفاقات بھی عجیب ہوتے ہیں۔ کہاں کی خاک، کہاں کا خمیر! کہاں استنبول، کہاں لاہور اور پھر کہاں کابل! لیکن یہ فاصلے کبھی آن واحد میں دور بھی ہوجاتے ہیں اور دل بھی ایک ساتھ دھڑکنے لگتے ہیں۔ دسمبر ١٩٤٤ء کے آخری ایام کی ایک شام تھی۔ لاہور کی بادشاہی مسجد کی سیڑھیوں کے پاس عصر حاضر کی جلیل القدر ہستیوں کا موت کے بعد ملاپ ہوا، اوریہ منظر لاہور اور بیرونجات کے ہزاروں فرزندان توحید نے وفور شوق کے عالم میں دیکھا۔بہت سے لوگوں پر رقت طاری ہوئی۔جوش جذبات سے اکثر آنکھیں پرنم ہوگئیں۔ دیر تک یہ سماں رہا اور پھر ایک ہستی کا جسد خاکی جو استنبول سے لایا گیا تھا پشاور کے راستے کابل روانہ کیا گیا ۔ دوسری ہستی اپنے مرقد میں ، اہل عزم وہمت کی زیارت کا مرکز بنی، محو آرام رہی۔ یہ دو ہستیاں تھیں سید جمال الدین افغانی اورعلامہ شیخ محمد اقبال ۔
تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ افغانی کی رحلت کے تقریبا ٤٨ سال بعد ترکی اور افغانستان نے جذبہ خیر سگالی کے تحت ان کا جسد خاکی استنبول سے کابل لا کر دفن کرنے کا فیصلہ کیا۔ ایک اعلی افغان وفد افغانی کے جسد خاکی کو تابوت میں رکھ کر بحری جہاز سے بمبئی پہنچا اور وہاں سے بذریعہ ٹرین براستہ دہلی لاہور اور پشاور کے راستے کابل پہنچا۔ لاہور میں افغانی کا تابوت یک شب وروز رہا۔ برکت علی ہال (بیرون موچی دروازہ) میں رات بھر زائرین آتے ، قرآن مجید کی تلاوت کرتے، اور افغانی کی روح کو ایصال ثواب پہنچاتے رہے۔ پنجاب کے دوسرے شہروں سے بھی ہزاروں مسلمان زیارت کے لیے لاہور آئے۔ اگلے روز بعد نماز ظہر لاکھوں انسانوںکا جلوس کے ساتھ افغانی کا تابوت شہر سے گزر کر بادشاہی مسجد میں لے جایا گیا۔وہا ں دعائے مغفرت پڑھی گئی اور اس کے بعد تابوت کو مسجد سے باہر لا کر تھوڑی دیر کے لیے علامہ اقبال کے مرقد کے پہلو بہ پہلو رکھ دیا گیا۔ یہ منظر جو ناقابل فراموش یادوں سے معمور ہے، راقم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا، اور آج تک قلب اس روح پرور نظارے کے سرور سے لذت یاب ہے۔
انتخاب از مقالہ : اقبال اور سید جمال الدین افغانی ، ڈاکٹر غلام حسین ذوالفقار
کتاب: اقبالیات کے سو سال ، ص ٩٠٣ ناشر:اکادمی ادبیات پاکستان
ویسے اس دھاگے کو اقبالیات میں ہونا چاہیے تھا، لیکن بندہ ناچیز کو ہنوز اقبالیات کے دھاگوں میں شرکت کرنے کی اجازت نہیں ہے۔ معلوم نہیں کب اجازت ملنی ہے؟؟