محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
علامہ اقبال کی شہرہء آفاق نظم شمع اور شاعر کے پہلے حصے شاعر کا منظوم ترجمہ
منظوم ترجمہ::محمد خلیل الرحمٰن
رات میں نے یوں کہا تھا شمعِ ویراں سے مری
تابداری سب تری منت کشِ پروانہ ہے
دور صحرا میں کھِلا ہو پھول کوئی تابدار
جس کی قسمت میں نہ محفل اور نہ ہی کاشانہ ہے
مدتوں تیری طرح میں بھی ہوں بس تنہا جلا
میری لو پر آنے والا بھی کوئی پروانہ ہے
میری آہیں اِس جہاں میں جلوے پیدا کرگئیں
لیکن اِس محفل میں تنہا بس دلِ دیوانہ ہے
ہے کہاں وہ آتشِ دِل سوز جو ایسے جلے
بے حقیقت ایک پروانے کو موسیٰ کرچلے
شاعر
دوش می گفتم بہ شمع منزل ويران خويش
گيسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم
نے نصيب محفلے نے قسمت کاشانہ اے
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن
بر نمی خيزد ازيں محفل دل ديوانہ اے
از کجا ايں آتش عالم فروز اندوختی
کرمک بے مايہ را سوز کليم آموختی