علامہ اقبال کی شہرہء آفاق نظم شمع اور شاعر کے پہلے حصے شاعر کا منظوم ترجمہ

سیما علی

لائبریرین

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
جناب الف عین صاحب استاد محترم اور جناب محمد وارث صاحب
اب ملاحظہ کیجیے اور اپنی قیمتی آراء سے مطلع فرمائیے۔ وارث صاحب کے مصرع نے چار چاند لگا دییے ہیں۔
اپنے ویراں گھر کی جلتی شمع سے میں نے کہا
تابداری سب تری منت کشِ پروانہ ہے
میں، کہ صحرا میں کھِلا ہو پھول کوئی تابدار
جس کی قسمت میں نہ محفل اور نہ ہی کاشانہ ہے
مدتوں تیری طرح میں بھی جلا، پر یہ بتا!
میری لو پر آنے والا بھی کوئی پروانہ ہے؟
میری آہیں اِس جہاں میں جلوے پیدا کرگئیں
لیکن اِس محفل میں تنہا بس دلِ دیوانہ ہے
لی کہاں سے آتشِ دِل سوز جو ایسے جلے
بے حقیقت ایک پروانے کو موسیٰ کرچلے
ماشاءاللہ، ماشاءاللہ
خلیل بھائی مزا آ گیا، بہت خوب
 
Top