انیس الرحمن
محفلین
علامہ دانش کے کارنامے
معراج
ہمدرد نونہال (١٩٨٧ ء)
٢ ۔ پراسرار غار میں
ہم نے علامہ دانش کے ساتھ بہت سے سفر کئے۔ ہر دفعہ ہم کوئی نہ کوئی بات دریافت کرکے واپس لوٹے۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوا کہ ہم کسی خبر کی تصدیق کے لئے اس جگہ پہنچے تو بات کچھ اور ہی نکلی۔ایک دن علامہ نے اطلاع دی کہ ہمیں بورینو چلنا ہے۔
کپتان مرشد نے پوچھا، "کس لئے؟"
علامہ نے اپنے بیگ سے ایک اخبار کا تراشہ نکالا۔ اس میں کسی صاحب نے جن کا نام رضوان شومیر تھا، ایک مضمون لکھا تھا۔ یہ ملایا میں کاشت کار تھے اور دریائے لی لانگ کے ساتھ ساتھ ان کا ربر کا فارم پھیلا ہوا تھا۔ مضمون میں لکھا تھا کہ ایک قریبی پہاڑ میں ایک غار ہے۔ ایسا غار دنیا میں کہیں اور نہیں ہے۔ اس غار میں موجود ہر چیز سفید ہے، بالکل دودھیا سفید رنگ کی۔ یعنی جو چمگادڑیں غار میں رہتی ہیں وہ بالکل سفید ہیں۔ سانپ، کیڑے مکوڑے اور دوسرے حشرات بھی سفید رنگ کے ہیں۔ غار کے آس پاس جھاڑیاں، پودے، درخت، گھاس پھونس غرض یہ کہ ہر چیز بالکل دودھیا سفید ہے۔ جب یہ مضمون اخبار میں چھپا تو لوگوں نے اسے ایک دلچسپ افسانہ سمجھا اور اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی۔
کپتان مرشد نے پوچھا، "کیا آپ کا ارادہ ملایا چلنے کا ہے؟ ممکن ہے یہ غار والی بات نری بکواس ہو۔"
میں نے کہا، "یہ اخبار کا تراشہ بھی کوئی پچاس سال پرانا ہے۔ ممکن ہے کہ مضمون نگار اب تک مر کھپ چکا ہو۔ پھر اس بات کی تصدیق کون کرے گا؟"
علامہ دانش نے مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ پھر انہوں نے بیگ سے کچھ خطوط اور کاغذ نکالے اور بولے، "بھئی میں کسی کام میں تصدیق کئے بغیر ہاتھ نہیں ڈالتا۔ میں نے حکومت ملایا سے رضوان شومیر کے متعلق دریافت کیا۔ وہاں سے یہ اطلاع ملی کہ وہ تو کچھ عرصہ پہلے انتقال کر چکا ہے۔ اس کا بیٹا فریدون شومیر اب ان زمینوں کا مالک ہے۔ پھر میں نے فریدون شومیر کو خطوط لکھے اور اس سے پوچھا کہ یہ پراسرار غار اب تک موجود ہے یا ختم ہوچکا؟ اگر یہ غار موجود ہے تو اس کے قریب کوئی ایسی جگہ ہے جہاں ہمارا ہیلی کاپٹر اتر سکے؟"
کپتان مرشد نے پوچھا، "پھر اس خط کا کوئی جواب موصول ہوا؟"
علامہ بولے، "جی ہاں، فریدون شومیر نے لکھا ہے کہ وہ غار اب تک موجود ہے۔ اس نے غار کو خود نہیں دیکھا۔ اس کے فارم پر کام کرنے والے لوگ بھی غار کا رخ کرنے سے بچتے ہیں۔ فریدون شومیر کے گھر کے پاس ایک دریا گزرتا ہے۔ غار وہاں سے بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ اس نے لکھا ہے کہ ہماری مہمان نوازی کرکے اسے خوشی ہوگی۔"
کپتان مرشد ہنس کر بولا، "لیجئے مسئلہ تو حل ہوگیا۔ اب کوئی دشواری باقی نہیں رہی۔"
میں نے پوچھا، "اب سفر کب شروع ہوگا؟"
علامہ بولے، "جلد ہی۔"
لیکن چھوٹے چھوٹے کام ایسے در پیش آئے کہ ہم ایک مہینے تک اس مہم پر نہ جاسکے۔ آخر ہم فریدون شو میر کے ہاں پہنچے۔ فریدون بہت ہی ملنسار اور خوش اخلاق شخص ثابت ہوا۔ وہ ہم سے مل کر بے حد خوش ہوا۔ اس نے کہا، "یہ غار یہاں سے کوئی بارہ کلو میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ وہاں پہنچنے کا راستہ ایک جنگل سے گزرتا ہے۔ جنگل کے بعد وہ پہاڑ ہے جہاں یہ غار ہے۔ آٹھ ہزار فیٹ کی بلندی پر چڑھنے کے بعد دودھیا سفید رنگ کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔ تھوڑی دور آگے جائیں تو غار نظر آنے لگتا ہے۔"
علامہ نے پوچھا،"کیا اس مہم پر آپ ہمارے ساتھ نہیں چلیں گے؟"
فریدون شومیر نے کہا، "مجھے ضروری کام سے شہر جانا ہے، اس لئے میں آپ کا ساتھ نہ دے سکوں گا۔ البتہ میرا گائڈ غار تک آپ کی رہنمائی کرے گا۔"
اگلے روز ہم غار کی تلاش میں نکلے۔ جنگل کا سفر بہت تکلیف دہ ثابت ہوا۔ گرمی بہت شدید تھی۔ ہمارے جسم سے پسینے کی دھاریں بہنے لگیں۔ بانس کا جنگل بہت گھنا تھا۔ اس میں سے گزرتے وقت مچھروں نے یلغار کردی۔ سانپوں کی کثرت تھی، جس کی وجہ سے ہر ایک قدم احتیاط سے رکھنا پڑتا تھا۔ سب سے بڑی مصیبت جونکیں تھیں جو کپڑوں میں گھس جاتیں اور جسم سے چپک کر خون چوسنے لگتیں۔ ان سے چھٹکارا پانے کے لئے بار بار ٹھہرنا پڑتا۔
ہم نے وہاں قدرت کی گل کاریوں کا نمونہ دیکھا۔ بے شمار رنگوں کے لا تعداد پھول کھلے ہوئے تھے۔ ان پر تتلیاں منڈ لاتی تھیں۔ وہاں صراحی دار پودے بھی تھے۔ جوں ہی کوئی بھونرا یا تتلی ان پر بیٹھتی، صراحی کا ڈھکنا خود بخود بند ہو جاتا۔ صراحی دار پودا اسے ہڑپ کر جاتا۔
جنگل ختم ہوا تو پہاڑی سلسلہ شروع ہوگیا۔ چھ ہزار فٹ کی بلندی پر چڑھنے کے بعد اچھی خاصی سردی محسوس ہونے لگی۔ ایک جگہ پہنچ کر ہمارا گائڈ (راستہ دکھانے والا) ٹھہر گیا اور کپکپاتی ہوئی آواز بولا، "جناب، میں اس جگہ سے آگے نہیں جاؤں گا۔"
اس نے انگلی کے اشارے سے ہمیں راستہ بتایا اور کہا، "آپ اس راستے پر چلتے رہیں۔ وہ غار یہاں سے ایک کلو میٹر دور ہے۔ میں یہاں آپ کا انتظار کروں گا۔ اگر آپ شام تک واپس نہ لوٹے تو میں سمجھوں گا کہ آپ شیطان روحوں کی بھینٹ چڑھ گئے ہیں۔"
مرشد جھنجلا کر بولا، "تم لوگ پڑھ لکھ کر بھی جنگلی اور جاہل ہی رہے۔"
علامہ دانش بولے، "پہاڑی پر چڑھنے کی نسبت اترنا زیادہ آسان ہوتا ہے۔ میرے خیال میں ہم تین بجے تک واپس لوٹ آئیں گے۔"
کپتان مرشد گھڑی میں وقت دیکھ کر بولے، "ہمارے پاس کام کرنے کے لئے تین گھنٹے کے قریب وقت ہے۔"
ہم تیزی سے پہاڑی راستے پر چلنے لگے۔ آخر ہم غار تک جا پہنچے۔ غار کے آس پاس دور دور تک سفید کاہی کے ڈھیر لگے ہوئے تھے۔ یہ کاہی ریت کی طرح نرم تھی۔ غار کے اندر سے ایک سفید رنگ کا اژدھا نکلا۔ یہ بھی سفید رنگ کا تھا۔ یہ کچھ بیمار سا معلوم دیتا تھا، اسی لئے بہت مشکل سے آہستہ آہستہ رینگ رہا تھا۔ وہ ہم پر حملہ آور ہونے کے بجائے ایک طرف ہوکر چلا گیا۔ جلد ہی ہم پر یہ حقیقت واضح ہوگئی کہ مرحوم رضوان شومیر نے اپنے مضمون میں جو کچھ لکھا تھا، وہ سو فیصد ٹھیک تھا۔ ہم نے اپنی ٹارچیں روشن کیں اور غار میں داخل ہو گئے۔ غار کے اندر ہر چیز دودھیا سفید رنگ کی تھی۔ میں ایک سفید جھاڑی میں جا گھسا، آزونا نے ایک سفید رنگ کے سانپ پر پاؤں رکھ دیا۔ وہ سانپ ہس ہس کرتا ہوا ایک طرف کو چلا گیا۔ روشنی کی وجہ سے چمگادڑیں پھڑ پھڑا کر اڑنے لگیں۔ دو تین سفید چمگادڑیں علامہ دانش سے ٹکرائیں۔ غار کی دیواروں پر کہیں کہیں سفید رنگ کی گھاس تھی۔ وہاں سفید رنگ کی مکھیاں، تتلیاں اور چھپکلیاں بھی تھیں۔ علامہ نے جھک کر ایک کیڑے کو اٹھایا اور ہتھیلی پر رکھ کر دیکھنے لگے۔ سفید غبار لگنے سے ان کی ہتھیلی سفید ہوگئی تھی۔ میں نے ایک سفید پتا توڑا۔ میرا ہاتھ بھی غبار لگنے سے بالکل سفید ہوگیا تھا۔
علامہ بولے، "میرے خیال میں یہ کوئی دھات ہے۔"
میں نے پوچھا، "کون سی؟"
علامہ بولے، "یہ تو مجھے بھی نہیں معلوم۔"
انہوں نے غار کی دیوار کو دو تین بار سونگھا اور بولے، "یہ دھات لوہے یا تانبے جیسی سخت ہے۔ ہم اس کا ایک ٹکڑا توڑ کر باہر لے چلتے ہیں تاکہ اس کا اچھی طرح معائنہ کرسکیں۔"
مرشد نے کلہاڑی مارکر ایک چھوٹا سا ٹکڑا دیوار سے توڑا۔ میں نے اسے اٹھانا چاہا۔ اللہ کی پناہ، یہ تو بہت بھاری ہے۔ میں نے علامہ سے کہا، "شاید آپ میری بات کا یقین نہ کریں گے۔ یہ ماچس کی ڈبیا کے برابر ٹکڑا تو کئی من وزنی ہے۔"
علامہ، مرشد اور آزونا نے باری باری اس ٹکڑے کو اٹھانا چاہا لیکن وہ اس کوشش میں ناکام رہے۔
میں نے کہا، "شاید یہ دنیا کی سب سے بھاری دھات ہے"
علامہ دانش کے منہ سے بے ساختہ نکلا، "آرچی کل دھات۔ دنیا کی وہ شے جو کئی برس سے لوگوں کی نظروں سے پوشیدہ تھی۔"
میں اور آزونا، دونوں ماچس کی ڈبیا کے برابر ٹکڑے کو دھکیلتے ہوئے غار سے باہر لائے۔ اس کا جو حصہ باہر کی طرف تھا وہ دودھیا سفید رنگ کا تھا لیکن تازہ کٹا ہوا حصہ گہرا گلابی، بلکہ چمکدار سرخ رنگ کا تھا۔ یہ کسی قسم کی دھات ہی تھی۔
علامہ بار بار بڑبڑاتے، "آرچی کل دھات، دنیا کی نایاب ترین چیز۔"
میں نے غور سے علامہ کی طرف دیکھا۔ ان کا رنگ بھی دودھیا سفید ہورہا تھا۔
کپتان مرشد نے میری طرف دیکھ کر پوچھا، "تم بہت خوف زدہ اور پریشان دکھائی دیتے ہو؟"
میں نے کہا، "تم سر سے پاؤں تک بالکل سفید ہو رہے ہو۔"
کپتان مرشد مسکرا کر بولا، "بہت خوب، کیا آپ نے اپنا رنگ بھی ملاحظہ فرمایا؟"
تب میں نے غور سے اپنے ہاتھ پاؤں کو دیکھا۔ وہ بھی دودھیا سفید ہو رہے تھے۔
علامہ دانش اچانک بولے، "یہ سب اسی دھات کا اثر ہے۔ اگر ہم کچھ دیر اور یہاں ٹھہریں گے تو اس کا غبار ہمارے اوپر جم جائے گا۔"
پھر ایک عجیب بات رونما ہوئی۔ دھات کے ٹکڑے سے دھواں نکلنے لگا۔ میں نے اسے ہاتھ لگا کر دیکھا اور میری چیخ نکل گئی۔ دھات کا وہ ٹکڑا بے حد گرم ہورہا تھا۔ شاید روشنی اور حرارت کے اثر سے دھات نے آگ پکڑ لی تھی۔ چوں کہ غار کے اندر کافی ٹھنڈ تھی، شاید اس لئے وہاں دھات نہیں جلی تھی۔
مرشد نے تجویز پیش کی، "ہمیں یہاں سے فورا چل دینا چاہئے۔"
علامہ بولے، "میں اس نایاب دھات کا ٹکڑا لئے بغیر واپس نہیں جاؤں گا۔ آرچی کل، جسے آج تک کسی نے نہیں دیکھا۔"
ہم نے غار کی طرف دیکھا تو ہمیں ایک اور صدمہ ہوا۔ غار کے اندر سے دھواں نکل رہا تھا۔ دراصل وہ جگہ جہاں سے ہم نے دھات کا ٹکڑا توڑا تھا روشنی یا ہوا لگنے سے جل اٹھا تھا۔ ادھر جو ٹکڑا ہم لائے تھے اس میں بھی آگ لگ رہی تھی، اس کی چنگاری کاہی کے ڈھیر پر پڑی وہ بھی دھڑا دھر جلنے لگا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دور اور نزدیک ہر طرف آگ ہی آگ تھی۔ ہمیں جان بچانے کے لئے بھاگنا پڑا۔ ہم بہت دور تک بھاگتے ہی چلے گئے۔ ایک جگہ رک کر ہم نے پیچھے مڑ کر دیکھا۔ اللہ کی پناہ، غار سے دودھیا رنگ کی تیز روشنی نکل رہی تھی۔ جس کو دیکھنے سے آنکھیں چوندھیائی جا رہی تھیں۔ ہمارے پیچھے پگھلا ہوا لاوا بہتا چلا آرہا تھا۔ اب ایک اور مصیبت ہوئی۔ ہمارے جسموں پر جو سفید غبار لگا ہوا تھا، اس میں بھی سخت جلن ہونے لگی۔ کہیں کہیں پھنسیاں بن گئیں۔
ہم گرتے پڑتے پہاڑی سے نیچے اترے اور بہت مشکل سے فریدون کے بنگلے تک پہنچے۔ علامہ دانش نے بہت رنج اور افسوس سے کہا، "دوست، مثل مشہور ہے کہ نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہے۔ میں نے نادانی، بلکہ لا علمی سے تمہیں زبردست نقصان پہنچایا ہے۔ آرچی کل دنیا کی سب سے مہنگی اور نایاب دھات صرف میری وجہ سے ناپید ہوگئی۔"
فریدون شومیر نے کہا، "جب تک آپ واپس اپنے ملک نہ پہنچ جائیں، اس بات کا تزکرہ کسی سے نہ کیجئے گا۔ ورنہ ممکن ہے کہ حکومت کے اہل کار آپ کو تنگ کریں۔"
اگلے دن اخبارات میں ایک آتش فشاں کے پھٹنے کی خبر چھپی۔ اس کے کچھ دن بعد ہم نے قاہرہ کے اخبارات میں ایک مضمون چھپنے کے لئے دیا، جس کا عنوان تھا:
آرچی کل___ وہ دھات جو اب ناپید ہو چکی ہے۔
سنا ہے ہمارے بعد وہاں کئی پارٹیاں "آرچی کل" کی تلاش میں گئیں اور ناکام و نامراد واپس لوٹیں۔ شاید پتھروں کے ڈھیر تلے اب تک آرچی کل کا کچھ ذخیرہ باقی ہو لیکن اس کے لئے اب کون اپنی جان جوکھوں میں ڈالے!
٭٭٭