سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
پانچواں صفحہ : 16 - 17
پہلی پروف ریڈنگ : مکمل : ماوراء
"تمھاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔!
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔لٰہذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔وہ کہتا رہا۔"میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریہ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔لٰہذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہار ِخیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمھارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔وہ اٹھ گئی۔
فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!"مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کرپوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ہلوڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔!"
"شش شاید۔۔۔۔میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے۔!"
"دواخانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے۔! "
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آرہا ہوں۔۔۔۔ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آرہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔فیاض کو
پہلی پروف ریڈنگ : مکمل : ماوراء
بار دوم: جویریہ مسعود
"تمہاری دانست میں کیا وجہ ہو سکتی ہے۔!"
"آپ عام طور پر خود کو مذہبی آدمی ظاہر کرتے ہیں۔"
"ہمیں کیڑوں مکوڑوں کے درمیان رہ کر ہی زندگی بسر کرنی چاہئے۔!"
"یہ میں بھول گئی تھی۔!" یاسمین کے لہجے میں کسی قدر تلخی پیدا ہو گئی۔
"حالانکہ ہمیں اپنا مشن ہر وقت یاد رکھنا چاہئے۔!"
یاسمین کچھ نہ بولی۔ بدستور سر جھکائے بیٹھی رہی۔ اُس نے یہ گفتگو علامہ سے آنکھیں ملا کر نہیں کی تھی۔ اس سے آنکیں ملا کر گفتگو کرنا آسان بھی نہیں تھا۔۔۔ مقابل کی زبان لڑکھڑاجاتی تھی اور اگلا جملہ ذہن سے محو ہو جاتا تھا۔ اس سے پوری بات اسی طرح کی جاسکتی تھی کہ اس کی آنکھوں میں نہ دیکھا جائے۔
"مذہب!" وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔ "محض بعض رسوم کی ادائیگی ہی تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ لٰہذا اسے کیڑوں مکوڑوں ہی کے لئے چھوڑ دو۔!"
"مم۔۔۔۔ میں سمجھتی ہو جناب!"
"میں نے ابتدا میں لوگوں کو مذہب کی حقیقی روح سے روشناس کرانا چاہا تھا لیکن انہوں نے کہنا شروع کر دیا کہ میں شایدکسی نئے مذہب کی داغ بیل ڈالنا چاہتا ہوں، مجھ پر کفر بکنے کا الزام لگایا گیا تھا۔۔۔۔ لہٰذا میں نے مذہب کو بریانی کی دیگ میں دفن کر دیا۔"
یاسمین کچھ نہ بولی۔۔۔۔ وہ کہتا رہا۔ "میرے بس سے باہر تھا کہ وہ غلاظتوں کے ڈھیر لگاتے رہیں اور میں ان میں دفن ہوتا چلا جاؤں۔ نہ وہ مذہب کی حقیقی روح تک پہنچنے کے لئے تیار ہیں اور نہ کوئی نیا نظریۂ حیات اپنانے پر آمادہ۔۔۔۔ لہٰذا ان کیڑوں مکوڑوں کو فنا کر دینا ہی میرا مشن ٹھہرا۔"
"میں اپنی غلطی پر نادم ہوں جناب!" وہ گھگھیائی۔
"غلطی نہیں، میرے بارے میں غلط فہمی کہو۔!"
"جج۔۔۔۔جی۔۔۔۔ ہاں۔ بعض اوقات مجھے اظہارِ خیال کے لئے الفاظ نہیں ملتے۔"
"اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ تمہارے ذہن میں ابھی تک کھچڑی پک رہی ہے۔ نہ مذہب کی طرف سے مطمئن ہو اور نہ میرے مشن پر یقین رکھتی ہو۔"!
"میری سمجھ میں کچھ نہیں آتا۔"
"فکر نہ کرو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جاؤ آرام کرو۔!"۔۔۔۔۔ وہ اٹھ گئی۔
فون کی گھنٹی بجی تھی اور کیپٹن فیاض نے ہاتھ بڑھا کر ریسیور اٹھایا تھا۔ دوسری طرف سے جانی پہچانی سی نسوانی آواز آئی تھی۔!" مم میں ایک دشواری میں پڑ گئی ہوں کیپٹن۔!"
"آپ کون ہیں!" فیاض نے پیشانی پر بل ڈال کرپوچھا۔
"ڈاکٹر زہرہ جبیں"
"اوہ۔۔۔ ہیلو ڈاکٹر۔۔۔۔کیا پریشانی ہے۔۔۔۔؟"
"شش شاید۔۔۔۔ میں گرفتار کر لی جاؤں۔۔۔!"
"خیریت۔۔۔۔؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے! کیا آپ میری ڈسپنسری تک آ سکیں گے۔!"
"میں پہنچ رہا ہوں لیکن بات کیا ہے؟"
"دوا خانہ بند کر کے سیل کیا جا رہا ہے اور تفتیش کرنے والے آفیسر کے تیور اچھے نہیں ہیں۔!"
"کیا کوئی مریض غیر متوقع طور پر مر گیا ہے؟"
"ایسی ہی کچھ بات ہے۔!"
"اچھا میں آرہا ہوں۔۔۔۔ ویسے وارنٹ کے بغیر تمہیں کوئی گرفتار نہیں کر سکتا۔کیا آفیسر کے پاس وارنٹ موجود ہیں؟"
"میں نہیں جانتی۔ لیکن خدا کے لئے آپ جلد پہنچئے۔!"
"میں آرہا ہوں۔" فیاض نے کہا اور دوسری طرف سے سلسلہ منقطع ہو جانے کی آواز سن کر خود بھی ریسیور کریڈل پر رکھ دیا۔ پھر وہ اٹھ کر آفس سے باہر آیا تھا۔
تھوڑی دیر بعد اس کی گاڑی محکمہ سراغ رسانی کے دفاتر کے کمپاؤنڈ سے سڑک پر نکل آئی۔
ڈاکٹر زہرہ جبیں اس کی خاص دوستوں میں سے تھی۔ خوش شکل اور پُر کشش عورت تھی۔
عمر تیس سال سے زیادہ نہیں تھی لیکن اس وقت چالیس سے بھی متجاوز لگ رہی تھی۔ فیاض کو
تمہاری کو تمھاری ٹائپ کیا گیا تھا
لہٰذا کو لٰہذا
نظریۂ کو نظریہ
ہیلو کو ہلو
دوا خانہ کو دواخانہ
اظہارِ خیال کو اظہار ِخیال
زیادہ کو زیادہ ٹائپ کیا گیا تھا
باقی غلطیاں جو کہ بہت عام ہیں وہ یہ ہیں
؟ کی جگہ ! ٹائپ کرنا، فقرے کی آخر میں سپیس دے فل سٹاپ ٹائپ کرنا اور اگلا فقرے کو فل سٹاپ کے بعد سپیس نہ دے کر شروع کرنا
ایک اہم غلطی یہ ہے کہ "اور" سے پہلے بے جا طور پر فل سٹاپ لگانا
ہیلو کو ہلو ۔ صفحہ میں یہی لکھا تھا
دوا خانہ کو دواخانہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ یہ دو الگ الگ الفاظ ہیں۔
(؟ کی جگہ ! ٹائپ کرنا(من و عن تحریر کیا تھا اس لئے، صفحہ میں یہی لکھا تھا
)فقرے کی آخر میں سپیس دے فل سٹاپ ٹائپ کرنا(ایسا کہیں ہے تو نہیں، ماوراء اور اعجاز انکل سے پوچھئےکہیں آپ کے براؤزر میں مسئلہ تو نہیں۔میں Bbc Aisatype Font استعمال کرتا ہوں۔اور محفل کے بکس میں ہی تحریر کرتا ہوں۔ ( اور اگلا فقرے کو فل سٹاپ کے بعد سپیس نہ دے کر شروع کرنا (کہیں کہیں ایسا ہے۔)
ایک اہم غلطی یہ ہے کہ "اور" سے پہلے بے جا طور پر فل سٹاپ لگانا (سمجھ نہیں آیا۔)
فل سٹاف (جسے ہم اردو میں وقفہ اور عربی میں وقفِ تام کہتے ہیں) اس وقت لکھتے ہیں جب فقرہ پورا ہوجائے۔ جب کوئی لفظ "اور" لاتا ہے تواس کا مطب ہے کہ کہنے والے کی بات ختم نہیں ہوئی (یعنی ابھی فقرہ مکمل نہیں ہوا )اور وہ کچھ اور بھی کہنا چاہتا ہے۔ لہذا یہ اصول یاد رکھیں کہ "اور" سے پہلے فل سٹاپ لگانا غلط ہے اسی طرح "لیکن" اور "مگر" سے پہلے بھی فل سٹاپ نہ لگائیں