ٹائپ کردہ: زہرا علوی
پروف ریڈ اوّل: سعود ابن سعید
--------- متن شروع ---------
دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر اس کی طرف بڑھی۔
“وہ لوگ دوا خانوں میں ہیں۔ دواؤں کی الماریوں کو سیل کر رہے ہیں۔!”
ضابطہ کی کاروائی میں دخل اندازی نہیں کی جا سکے گی۔! فیاض نے کہا۔ “پہلے تم بتاؤ معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟”
“پرسوں میری ایک مریضہ اچانک مر گئی تھی۔!”
“کس طرح۔ کیا یہیں ڈسپنسری میں۔!”
“نہیں اپنے گھر پر۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ دوا کی شیشی۔۔۔۔ یہیں ڈسپنسری سے دی گئی تھی۔ اعصاب کو سکون دینے والی ٹکیاں تھیں۔ بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ میرے پاس کچھ شیشیاں پہلے کی پڑی ہوئی تھیں۔ ایک میں نے اسے دے دی تھی۔۔۔۔!”
“اوہ۔۔۔۔ کہیں تم اس لڑکی یاسمین کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔۔۔!”
“وہی۔۔۔۔ وہی۔۔۔۔!”
“خداوندا۔۔۔۔ تو وہ ٹکیاں تم نے فراہم کی تھیں۔!”
“ہاں۔۔۔۔ اس وقت اس کی بڑی بہن دردانہ بھی ساتھ تھی۔!”
فیاض سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ وہ اس کیس سے واقف تھا۔۔۔۔ لڑکی نے اپنے گھر ہی پر بیگ سے دوا کی شیشی نکالی تھی۔ دو ٹکیاں کھائی تھیں۔ اور ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی تھی۔
“اگر شیشی تم نے فراہم کی تھی تو۔۔۔۔” وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔
“شیشی سر بند تھی۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اس میں کیا ہے۔ اس پر لیبل اسی دوا کا موجود تھا جس کی اسے ضروت تھی۔۔۔۔ اس کی بہن کو یاد نہیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں یہیں میرے سامنے کھائی تھیں۔ میری نرس شہادت دے گی کہ وہ اس کے لیے گلاس میں پانی لائی تھی۔”
“تم نے اسے شیشی کب دی تھی۔!”
“مرنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔!”
“ٹکیوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ان میں پوٹاشیم سائنائیڈ کی آمیزش تھی اور بناوٹ کے اعتبار سے وہ اصل ٹکیوں سے مماثل تھیں۔!”
“کیا ساری ٹکیاں۔۔۔۔؟” ڈاکٹر زہرہ جبیں نے پوچھا۔!
“جتنی بھی اس وقت شیشی میں تھیں۔!”
“دو دن تک وہ انہیں ٹکیوں کو استعمال کرتی رہی تھی۔!”
“تم نے بہت دیر میں مجھے مطلع کیا۔!” فیاض مضطربانہ انداز میں بولا۔
“میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔ ابھی ایک گھنٹہ پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور دواؤں کی الماریوں کو سیل کرنا شروع کر دیا۔”
“خیر میں دیکھتا ہوں۔ کیا وہ سب ڈسپنسری ہی میں ہیں۔؟”
زہرہ جبیں نے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔ “اب کیا ہو گا۔”
“فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ مرنے سے دو دن قبل بھی اس شیشی کی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔!”
فیاض مطب سے اٹھ کر ڈسپنسری میں آیا جہاں ضابطے کی کاروائی جاری تھی۔ حلقے کے تھانے کے انچارج کی نگرانی میں ساری ادویات سیل کر دی گئی تھیں۔ فیاض کو دیکھ کر وہ پذیرائی کے لیے آگے بڑھا۔
“کیا وارنٹ بھی ہے۔” فیا ض نے پوچھا۔
“نہیں جناب عالی۔۔۔۔!” ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
“ٹھیک ہے۔”
“ویسے گرفتاری کا بھی امکان ہے۔!”
“ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ وارنٹ تمہارے پاس ہی آئے گا۔!”
“جی ہاں۔!”
“اس کا خیال رکھنا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔!”
“آپ بے فکر رہیں جناب۔ آپ کو اطلاع دیئے بغیر کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔!”
“شکریہ۔!”
“میں تو خادم ہوں جناب!”
فیاض پھر مطب میں واپس آ گیا۔
--------- متن تمام ---------
ٹائپ کردہ: زہرا علوی
پروف ریڈ اوّل: سعود ابن سعید
بارِ دوم: جویریہ مسعود
دیکھتے ہی غیر ارادی طور پر اس کی طرف بڑھی۔
“وہ لوگ
دوا خانے میں ہیں۔ دواؤں کی الماریوں کو سیل کر رہے ہیں۔!”
"ضابطہ کی کاروائی میں دخل اندازی نہیں کی جا سکے گی۔" ! فیاض نے کہا۔ “پہلے تم بتاؤ معاملہ کیا ہے۔۔۔۔؟”
“پرسوں میری ایک مریضہ اچانک مر گئی تھی۔!”
“کس طرح۔ کیا یہیں ڈسپنسری
میں؟”
“نہیں اپنے گھر پر۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔ دوا کی شیشی۔۔۔۔ یہیں ڈسپنسری سے دی گئی تھی۔ اعصاب کو سکون دینے والی ٹکیاں تھیں۔ بازار میں دستیاب نہیں تھی۔ میرے پاس کچھ شیشیاں پہلے کی پڑی ہوئی تھیں۔ ایک میں نے اسے دے دی تھی۔۔۔۔!”
“اوہ۔۔۔۔ کہیں تم اس لڑکی یاسمین کی بات تو نہیں کر رہیں۔۔۔۔؟”
“وہی۔۔۔۔ وہی۔۔۔۔!”
“خداوندا۔۔۔۔ تو وہ ٹکیاں تم نے فراہم کی تھیں۔!”
“ہاں۔۔۔۔ اس وقت اس کی بڑی بہن دردانہ بھی ساتھ تھی۔!”
فیاض سر پکڑ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ وہ اس کیس سے واقف تھا۔۔۔۔ لڑکی نے اپنے گھر ہی پر بیگ سے دوا کی شیشی نکالی تھی۔ دو ٹکیاں کھائی
تھیں اور ایک گھنٹے کے اندر ختم ہو گئی تھی۔
“اگر شیشی تم نے فراہم کی تھی تو۔۔۔۔” وہ تھوڑی دیر بعد بولا۔
“شیشی سر بند تھی۔۔۔۔ میں نہیں جانتی تھی کہ اس میں کیا ہے۔ اس پر لیبل اسی دوا کا موجود تھا جس کی اسے ضروت تھی۔۔۔۔ اس کی بہن کو یاد نہیں لیکن مجھے اچھی طرح یاد ہےکہ اس نے شیشی کھول کر دو ٹکیاں یہیں میرے سامنے کھائی تھیں۔ میری نرس شہادت دے گی کہ وہ اس کے لیے گلاس میں پانی لائی تھی۔”
“تم نے اسے شیشی کب دی
تھی؟”
“مرنے سے دو گھنٹے پہلے کی بات ہے۔!”
“ٹکیوں کا تجزیہ کرنے پر معلوم ہوا ہے کہ ان میں پوٹاشیم سائنائیڈ کی آمیزش تھی اور بناوٹ کے اعتبار سے وہ اصل ٹکیوں سے مماثل تھیں۔!”
“کیا ساری ٹکیاں۔۔۔۔؟” ڈاکٹر زہرہ جبیں نے پوچھا۔!
“جتنی بھی اس وقت شیشی میں تھیں۔!”
“دو دن تک وہ انہیں ٹکیوں کو استعمال کرتی رہی تھی۔!”
“تم نے بہت دیر میں مجھے مطلع کیا۔!” فیاض مضطربانہ انداز میں بولا۔
“میرے فرشتوں کو بھی علم نہیں۔ ابھی ایک گھنٹہ پہلے انہوں نے مجھ سے پوچھ گچھ کی اور دواؤں کی الماریوں کو سیل کرنا شروع کر دیا۔”
“خیر میں دیکھتا ہوں۔ کیا وہ سب ڈسپنسری ہی میں ہیں۔؟”
زہرہ جبیں نے سر کو اثباتی جنبش دیتے ہوئے پوچھا۔ “اب کیا ہو
گا؟”
“فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں۔ وہ مرنے سے دو دن قبل بھی اس شیشی کی ٹکیاں استعمال کرتی رہی تھی۔!”
فیاض مطب سے اٹھ کر ڈسپنسری میں آیا جہاں ضابطے کی کاروائی جاری تھی۔ حلقے کے تھانے کے انچارج کی نگرانی میں ساری ادویات سیل کر دی گئی تھیں۔ فیاض کو دیکھ کر وہ پذیرائی کے لیے آگے بڑھا۔
“کیا وارنٹ بھی ہے؟” فیا ض نے پوچھا۔
“نہیں جناب عالی۔۔۔۔!” ڈاکٹر صاحب کے اعتراف کے بعد یہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔
“ٹھیک ہے۔”
“ویسے گرفتاری کا بھی امکان ہے۔!”
“ہاں ہو سکتا ہے۔۔۔۔ وارنٹ تمہارے پاس ہی آئے گا۔!”
“جی ہاں۔!”
“اس کا خیال رکھنا کہ ضمانت قبل از گرفتاری کی کوشش کی جا رہی ہے۔!”
“آپ بے فکر رہیں جناب۔ آپ کو اطلاع دیئے بغیر کوئی کاروائی نہیں کروں گا۔!”
“شکریہ۔!”
“میں تو خادم ہوں جناب!”
فیاض پھر مطب میں واپس آ گیا۔