"پولیس اُس کے بارے میں کیا معلوم کرنا چاہتی تھی۔!"
"آخری ٹکیاں استعمال کرنے سے پہلے وہ کہاں سے آئی تھی۔!"
"ہاں۔۔۔۔ یہ ضروری سوال ہے۔!" علامہ نے پُر تفکّر لہجے میں کہا۔
"سر کیوں نہ ہم اپنے طور پر پتہ لگانے کی کوشش کریں۔!"
"وقت ضائع کرنے سے کیا فائدہ۔۔۔۔ وہ واپس تو نہیں آ سکتی۔!"
"میں اس کے لئے بہت مغموم ہوں۔!"
"شیلا۔!" وہ تیز لہجے میں بولا۔ "یہ جہالت کی بات ہے۔! کسی کے مرنے کا غم اسے ہونا چاہئے جسے خود نہ مرنا ہو۔!"
"مم ۔۔۔۔ میں نہیں سمجھی۔!"
"ایک دن ہم سب مر جائیں گے۔ لہٰذا کسی کے مرنے کا غم احمقانہ اندازِ فکر ہے۔"
"یہ تو ٹھیک ہے جناب۔!"
"شعور نے جہاں ہمیں ذہانت عطا کی ہے۔ وہیں کچھ احمقانہ کیفیتیں بھی ہم پر مسلط کر دی ہیں۔ ہمیں ان سے پیچھا چُھڑایا چاہئے۔"
شیلا کچھ نہ بولی۔!
"یقیناً کوئی اس کا دشمن تھا جس کا علم خود اسے بھی نہیں تھا۔!"
"وہ بہت اچھی لڑکی تھی۔ سر کوئی بھی اسے ناپسند نہیں کرتا تھا۔ حتٰی کہ سوتیلی ماں کی لاڈلی تھی۔!"
"سوتیلی ماں دوسری بہن کو بھی اسی طرح ختم کرا دے گی اور دوسرے اسے فرشتہ شمجھتے رہیں گے۔ یہی ہے ذہانت۔۔۔۔ واہ۔"
"میں تصور بھی نہیں کر سکتی۔!"
"اس کی سوتیلی ماں کو میرے خصوصی حلقے میں ہونا چاہئے تھا۔!"
شیلا پھر خاموش رہی۔ اس کے چہرے پر تکدر کے آثار تھے۔
علامہ اسے گھورتا ہوا بولا۔! "تم یقین نہیں کرو گی۔ وہ بہت ذہین عورت معلوم ہوتی ہے۔ پولیس اس کے خلاف کچھ بھی ثابت نہیں کر سکے گی۔ بہرحال اب تم اس معاملے کی طرف سے اپنا ذہن ہٹا لو۔ اگر پولیس کیمپنگ کے بارے میں پوچھے تو تم صفائی سے پر بات بتا سکتی ہو۔ میری کیمپنگ کوئی پوشیدہ معاملہ نہیں ہے۔!"
"میری زبان سے ہر گز نہ نکل سکے گا کہ میں شاہ دار کے بہانے کہیں اور لے گئی تھی۔"
"تمہارا ذاتی معاملہ ہے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔! لیکن اس کا افسوس ہمیشہ رہے گا کہ میں نے نادانستگی میں ایک بڑی غلطی کی تھی۔!"
"کیسی غلطی جناب۔!"
"یہی کہ ایک بیک ورڈ گھرانے کی لڑکی کو اپنے خصوصی حلقے میں جگہ دے دی تھی۔"
"مجھے اس پر شرمندگی ہے جناب۔!"
"خیر آئندہ احتیاط رکھنا۔"بس اب جاؤ۔۔۔۔ پولیس سے اس لئے خائف ہونے کی ضرورت نہیں کہ یاسمین تمہارے حلقے سے تعلق رکھتی تھی۔"
"میں خائف نہیں ہوں جناب صرف اس لئے آئی تھی کہ آپ کو آگاہ کر دوں۔"
"اگر پولیس کو یہ علم ہو بھی گیا کہ تم اسے وہاں نہیں لے گئی تھیں جہاں کا بہانہ کیا تھا۔ تو بھی اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ایک ہفتہ پہلے جو کچھ بھی ہوا تھا۔ اس کا اس کی موت سے کیا تعلق۔"
شیلا چلی گئی تھی اور علامہ نے فون پر کسی کے نمبر ڈائیل کئے تھے اور دوسری طرف سے جواب ملنے پر ماؤتھ پیس میں بولا تھا۔
"پیٹر کو فون پر بلا دیجئے۔" تھوڑی دیر بعد پیٹر کی آواز آئی تھی۔
"تم کتنی دیر میں مجھ تک پہنچ سکتے ہو۔!" علامہ نے پوچھا۔
"زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ میں۔"
"بس تو پھر آ جاؤ۔"
"بہت بہتر جناب۔!"
علامہ نے ریسیور کریڈل کر رکھ کر طویل سانس لی تھی اور ایک آرام کرسی پر نیم دراز ہو کر پیٹر کا انتظار کرنے لگا تھا۔
پیٹر ٹھیک تیرہ منٹ بعد کمرے میں داخل ہوا۔
"تم بہت شاندار جا رہے ہو پیٹر۔" علامہ سیدھا بیٹھتا ہوا بولا۔
"شکریہ جناب۔!"