سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
صفحہ : 44 - 45
چہرے پر ایسے ہی تاثرات تھے۔
”کیا بات ہے؟“ شیلا نے تیکھے انداز میں پوچھا۔
وہ کچھ اور زیادہ بوکھلا گیا۔ منہ سے الفاظ ہی نہیںنکل رہے تھے۔ بس ہکلائے جارہا تھا اور پھر شیلا کو اس پر رحم آنے لگا۔!“
”بتایئے کیا بات ہے ۔ ۔ ۔!“ اس نے نرم لہجے میںپوچھا۔
اس ہکلاہٹ کے دوران میں اس کی آنکھوں سے آنسو بھی بہنے لگے تھے۔!
”مم ۔ ۔ ۔ میری گاڑی ۔ ۔ ۔ بند ہوگئی ہے۔!“ اس نے بدقت کہا۔!“ معافی چاہتا ہوں میں آپ کو مرد سمجھا تھا۔ ۔ ۔ ورنہ کبھی اس طرح نہ روکتا۔ ۔ ۔ معافی کردیجئے۔!“
”مرد سمجھ کر۔ ۔ ۔ !“ شیلا ہنس پڑی
”جج ۔ ۔ جی ہاں۔ ۔ ۔!“
”اور چونکہ مرد نہیںہوں اس لئے آپ کو معاف کردوں ۔ ۔ یعنی دوسرے الفاظ میں اپنا راستہ لوں۔!“
”میںگڑبڑا کر معافی مانگتا ہوں۔ ۔ ۔ !“
”میں ہرگز نہیں جاؤں گی۔ میں آپ کی مدد کروں گی۔“
”آپ ۔ ۔ ۔ آپ ۔ ۔ نہیں کہ آپ کیا مدد کرسکیں گی۔!“
”آپ گاڑی کے انجن کے بارے میں کچھ نہیںجانتے۔“
”جج ۔۔ ۔ ۔ جی نہیں۔ ۔ ۔ ۔!“
”میں جانتی ہوں!“ اس نے کہا اور اپنی کار سڑک کے کنارے لگانے لگی
”نہیں آپ جایئے۔ ۔ ۔ لوگ کیا سوچیں گے۔“
”کیا سوچیں گے۔!“
” مم ۔ ۔ ۔ میرا ۔ ۔ ۔ مطلب یہ کہ کہیں کچھ غغ۔ ۔ ۔ غلط نہ سوچ لیں ۔ ۔ ۔!“
وہ حیرت سے اس کی طرف دیکھنے لگی ۔ ادھر چہرے پر چھائی ہوئی حماقت کچھ اور گہری ہوگئی تھی ۔ شیلا بے ساختہ ہنس پڑی۔ اپنی نوعیت کا ایک ہی آدمی معلوم ہوتا تھا۔
وہ گاڑی سے اُتر کر اس کی گاڑٰ کے قریب جا کھڑی ہوئی
” بونٹ اٹھایئے۔ ! اس نے کہاِ
”” جج ۔ ۔ جی ۔ ۔ ۔بہت اچھا۔ !“اجنبی نے بوکھلائے ہوئے انداز میں تعمیل کی تھی۔
وہ تھوڑی دیر تک انجب ادھر ادھر ہاتھ لگانے کے بعد بعلی تھی ۔ آپ اسٹارٹ کیجئے لیکن پندرہ بیس منت گذر جانے کے بعد بھی گاڑی اسٹارٹ نہیں ہوئی تھی۔
اس دوران میں بہیتری گاڑیاں گذر گئی تھی ۔ لیکن شیلا نے اسے کسی اور کو روکنے کا مشورہ نہیں دیا تھا ۔وہ اسی قسم کی لڑکی تھی ۔ مردوں کے مقابلے میں شکست تسلیم کر لینا سیکھا ہی نہیں تھا۔
”اور ۔ ۔ ۔ ۔کسی کو ۔ ۔ ۔روکوں ۔ ۔ ۔!“اجنبی نے کچھ دیر بعد پوچھا۔
”میری توہین نہ کیجئے۔!“ وہ جھنجھلا کر بولی۔ ” آپ نے مجھے روکا ہے ۔ ۔ ۔ اس لئے میں ہی آپ کے لئے کچھ کروں گی۔!“
”جی بہت اچھا۔ !“ اجنبی نے شعادت مندانہ انداز میں کہا۔ جس میں بے بسی بھی شامل تھی شیلا کو اس کا یہ رویہ بہت بھایا تھا۔ پہلا مرد تھا جو اس سے کسی طرح کا اختلاف ہی نہیں کر رہا تھا۔
”آپ کو کہاں جانا ہے؟“
”شش شاہدارا۔ ۔ ۔ ۔!“
”بس تو پھر ٹھکھ ہے۔! میں بھی وہیں جا رہی ہوں ۔آپ کو بھی کھینچ لے چلوں گی۔!“
“کھک ۔ ۔ ۔ کھینچ ۔ ۔ !“
”ہاں ۔ ۔ ۔ ہاں۔ ۔ ۔ آپ کی گاڑی اپنی گاڑی سے باندھتی ہوں۔ ۔ ۔ ۔!“
”رسہ کہاں سے آئے گا۔ ۔ ۔ “ اجنبی نے پوچھا
”پٹ سن کی کاشت کریں گے ۔ ۔ ۔ ۔!“
”جی بہت اچھا۔“
اس بار شیلا نے اسے شبے سے دیکھا تھا۔! لییکن وہ سرجھکائے کھڑا رہا ۔ چہرے پر بناوٹ کا شئبہ تک نہیں تھا
”تو شروع کریں پٹ سن کی کاشٹ۔!“
”ضرور۔ ۔ ۔ ۔ ضرور ۔ ۔ مم ۔ ۔ مگر پٹ سن کیا چیز ہے۔ ۔ ۔ !“
”جوٹ۔ ۔ ۔ !“