صفحہ 52 - 53
دینا چاہتی ہوں۔ میرے دل پر بڑا بوجھ ہے۔۔۔ میں نہیں سمجھ سکتی کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔؟"
عمران ہمہ تن توجہ بن گیا۔! وہ اسے علامہ دہشت کے بارے میں بتاتی رہی۔ اُس بچے کی کہانی بھی سنائی جس کے والدین زندہ جلا دیئے گئے تھے۔۔۔!۔
"بڑی دلچسپ کہانی ہے۔!"
"میں آپ کو یہ سب کچھ کبھی نہ بتاتی۔۔۔ لیکن میرے دماغ کی رگیں پھٹ جائیں گی۔ سوچتے سوچتے۔ میں اپنے باپ کو قتل نہیں کر سکتی۔ خواہ وہ کیسا ہی ہو۔!"
"لیکن علامہ نے تو امتحاناً آپ سے ایسی گفتگو کی تھی۔!"
"پتا نہیں کیو۔۔۔ مجھے اس میں سچائی نظر آئی تھی۔!"
"تو آپ نے اس کے خصوصی حلقے سے نکل جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔!"
"نکل چکی! اس نے خود ہی نکال دیا ہے۔۔۔!"
"ذرا ٹھہریئے۔۔۔ کیا آپ کی سہیلی نے بھی کبھی اس سے کوئی اختلاف کیا تھا۔؟"
شیلا چونک پڑی اور اس طرح آنکھیں پھاڑے اسے دیکتھی رہی جیسے اس کے سر پر اچانک سینگ نکل آئے ہوں۔
"آپ نے میرے سوال کا جواب نہیں دیا۔!"
"اس کی طرف تو میں نے دھیان ہی نہیں دیا تھا۔!" وہ آہستہ سے بڑبڑائی۔
"غور کیجئے۔ شائد ایسی کوئی بات یاد آ جائے۔!"
"مجھے یاد آ رہا ہے۔۔۔ اسی کیمپنگ کے دوران میں یاسمین کی زبان سے مذہب کا نام نکل گیا تھا۔ اس پر وہ بھڑک اٹھا تھا۔ اور شائد یہ بھی کہا تھا کہ یاسمین ابھی کچی ہے اور اس کے حلقے کے لئے موزوں نہیں۔۔۔ وہ مذہب کو ارتقأ کی صرف ایک کڑی سمجھتا ہے۔ اور علیحدگی میں یاسمین سے اس سلسلے میں باتیں کی تھیں۔۔۔!"
"کس قسم کی باتیں۔۔۔؟"
"نہ اس نے مجھے بتایا تھا اور نہ میں نے پوچھا تھا۔!"
"آپ سے علامہ کی آخری بات چیت کب ہوئی تھی۔۔۔؟"
"آج ہی اور میں اسی کی کوٹھی سے نکل کر سیدھی اسی طرف چلی آئی تھی۔ دراصل میرا ذہن اس طرح الجھا ہوا تھا کہ غیر شعوری طور پر شاہدارا کی سڑک پر نکلی چلی آئی تھی۔"
"مظلوم بچے کی کہانی وہ ایسے ہی شاگردوں کو سناتا ہو گا۔ جن پر اسے کلی طور پر اعتماد ہو۔"
"باقاعدہ طور پر اعتماد ظاہر کر کے سناتا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہتا جاتا ہے کہ اگر وہ اس کا ڈھنڈورا بھی پیٹ دے تو پولیس اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی کیونکہ اس نے یہ سارے جرائم ذہانت سے کئے ہیں۔ کیڑوں مکوڑوں کا سا انداز اختیار نہیں کیا تھا۔"
"اچھا تو محترمہ اب آپ کی بھی خیر نہیں۔!"
"کیا مطلب۔۔۔؟"
"اپنی سہیلی ہی کی طرح آپ کا بھی پتا نہیں چل سکے گا کہ کب مر گئیں۔"
"نن۔۔۔ نہیں۔۔۔!" اس کا چہرہ فق ہو گیا۔
"لیکن میں آپ کو بچا لوں گا۔!"
"آپ؟"
"جی ہاں۔۔۔ آپ غائب ہو گئیں۔! مطلب یہ کہ خود کو غائب سمجھئے۔ اونہہ کس طرح آپ کو سمجھاؤں۔! بس یہ سمجھئے کہ میں نے آپ کو غائب کر دیا۔"
"مم ۔۔۔ میں نہیں سمجھی۔!"
"آپ شہر واپس نہیں جائیں گی۔ کسی ایسی جگہ بھی نہیں رہیں گی جہاں آپ تک علامہ کا ہاتھ پہنچ سکے۔!"
"اب تو مجھے خوف معلوم ہو رہا ہے۔۔۔!"
"میں آپ کے لئے سب کچھ کر گزروں گا۔۔۔!"
"آخر آپ کیوں کریں گے میرے لئے اتنا کچھ۔ آج ہی تو ہماری جان پہچان ہوئی ہے۔!"
"نہ تو میں ذہین ہوں اور نہ خود کو کیڑوں مکوڑوں میں شمار کرتا ہوں۔۔۔ بس بیوقوف ہوں اور حماقت کی تبلیغ کرنا میرا مشن ہے۔۔۔!"
"آپ کیا کریں گے۔!"
"آپ دراصل میرے قبیلے سے تعلق رکھتی ہیں۔!"
"میں بالکل نہیں سمجھ رہی۔۔۔!"