علامہ دہشت ناک صفحہ 26
داری حزب اختلاف پر ڈالنا چاہتے ہیں۔!“
اور یہ بھی کہ خود اس سے فرمائش کی تھی کہ اپنے باپ کو محض اس لئے قتل کردے کہ وہ بااہل ہونے کے باوجود بھی سیاست میں حصہ لیتا ہے!“ علامہ کہہ کر ہنس پڑا۔
“جج۔۔۔۔جی ہاں۔۔۔۔!“
“مجذوب کی بڑ۔۔۔۔صرف اسی کا بیان۔۔۔۔شہادت کے لیے تم آٹھوں کے نام لے گی۔ کیا تم لوگ اس کے بیان کی تصدیق کردو گے۔!“
سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ ہم اس کا مضحکہ اُڑائیں گے۔!“
“لہذا اس کی تو فکر ہی نہ کرو۔۔۔۔ لیکن یہ بہت ضروری ہے کہ وہ پاگل ہوجائے۔! اس طرح یاسمین کی کہانی اس کی ذات سے آگے نہ بڑھ سکے گی۔!“
“آخر جائے گی کہاں اور کتنے دن روپوش رہ سکے گی۔ ہم دیکھ لیں گے۔۔۔۔!“
“ٹھہرو!“ علامہ کچھ سوچتا ہوا بولا۔ “سب سے پہلے ہیں یہ دیکھنا چاہئے کہ پولیس واقعی ہماری طرف متوجہ بھی ہے یا نہیں۔!“
“وہ کس طرح دیکھیں گے جناب۔۔۔۔!“
“نہایت آسانی سے۔ ہم معلوم کریں گے کہ ہماری نگرانی تو نہیں کی جارہی۔“
“میں سمجھ گیا۔“ پٹیر سر ہلا کر بولا۔! “اگر ہمارا تعاقب کیا گیا تو سمجھ لینا کہ پولیس سنجیدگی سے ہم سے متعلق کوئی نظریہ قائم کر چکی ہے۔!“
“بالکل ٹھیک ہے۔!“
تو پھر جیسافرمایئے۔!“
“تم اپنی گاڑی میں بیٹھو اور روانہ ہوجاؤ۔۔۔۔کوئینس روڈ پہنچ کر بائیں جانب مڑ جانا۔۔۔۔وہاں سے کنگٹن کی طرف کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی پارک کرنا۔اور اندر چلے جانا۔۔۔۔پھر ٹیھک پندرہ منٹ بعد وہیں کے فون پر تھری ایٹ نائین سکس پر رنگ کرکے صرف لفظ انفارمیشن کہنا۔ تمہیں صورت حال سے آگاہ کردیا جائے گا۔! اس کے بعد پھر یہیں میرے پاس واپس آجانا۔!“
“بہت بہتر جناب۔!“ پٹیر اٹھتا ہوا بولا۔
اس نے علامہ کی ہدایات اچھی طرح ذہن نشین کرلی تھیں۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کیفے فلامبو کے سامنے گاڑی روکی تھی اور اندر آیا تھا داخلے کا وقت اس نے نوٹ کیا تھا۔ کیونکہ پندرہ منٹ بعد فون پر بتائے ہوئے نمبر ڈآئل کرکے معلومات حاصل کرنی تھیں۔! کافی کا آرڈر دےکر وہ گھڑی ہی پر نظر جمائے رہاتھا۔۔۔۔ ٹھیک پندرہ منٹ بعد اُٹھ کر کاؤنٹر پر آیا تھا۔ اور کاؤنٹر کلرک سے فون کرنےکی اجازت لی تھی۔ نمبر ڈائیل کئے تھے۔!
“ہیلو۔۔۔۔!“دوسری طرف سے آواز آئی۔
“انفارمیشن!“ اس نےماؤتھ پیس میں کہا۔
“کوئی خاص بات نہیں ہے۔!سب ٹھیک ہے!“
اس کے بعد سلسہ منقطع ہونے کہ آواز آئی تھی۔ پٹیر نے اپنی میز پر واپس آکر کافی ختم کی اور بل ادا کرکے باہر آگیا۔
اب اس کی گاڑی پھر علامہ کی کوٹھی کی طرف جارہی تھی۔۔۔۔ذراہی دور گیاتھا کہ سڑک کے کنارے ایک سفید فام غیر ملکی عورت گاڑی رکوانے کے لئے ہاتھ اٹھائے کھڑی نظر آئی۔
وضع قطع میں ہپی معلوم ہوتی تھی۔!
“مجھے لفٹ دے دو۔!“اس نے کہا۔ جیسے ہی گاڑی اس کے قریب رکی۔!
“کہاں جانا ہے۔!“
لیکن جواب دئیے بغیر اس نے اگلی نشست کا دروازہ کھولا تھا اور اس کے برابر ہی بیٹھ گئی تھی۔ بڑی دل کشش عورت تھی۔ لیکن بیٹھ جانے کے بعد بھی اس نے نہ بتایا کہ اس کو کہاں جاناہے۔
“کہاں چلو گی؟“ پٹیر نے سوال کیا۔
“جہاں دل چاہے۔!“
“اگر کچھ پیسوں کی ضرورت ہو تو ویسے ہی بتادو!“ پٹیر بولا۔ “ میں بہت مصروف آدمی ہوں۔!“
“مجھے تو تم آدمی ہی معلوم نہیں ہوتے۔!“ عورت تلخ لہجے میں بولی۔ اور پٹیر نے اندازہ لگالیا کہ وہ کسی ایسے خطے سے تعلق نہیں رکھتی جہاں انگریزی بولی جاتی ہو۔!
“میرے سر پر سینگ تو نہیں ہیں۔!“
“سارے جانور سینگوں والے نہیں ہوتے۔!“