جو کچھ سمجھایا تھا یاد ہے یا نہیں۔“
”یاد ہے۔!“
”وہ سب الگ الگ کمروں میں بند ہیں۔ تم ہر ایک کے پاس جاؤ گی۔!“
”وہ سب میرے دشمن ہورہے ہوں گے۔!“
”لیکن تمہارا بال بھی بیکا نہیں کر سکیں گے۔ ان پر پوری طرح نظر رکھی جائے گی۔!“
”کیا وہ تمہارے قیدی ہیں۔!“
”سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ سب بہت آرام سے ہیں۔ تم ان کے کمروں میں جا کر دیکھ ہی لوگی۔ان کی ضروریات کی ساری چیزیں مہیا کر دی گئی ہیں۔!“
”تو پھر بتاؤ مجھے کہاں جانا ہے۔!“
”سامنے والے کمرے میں۔ ۔ ۔ ۔ اس میں پیٹر نامی لڑکا ہے۔!“
”کیا کمرہ مقفل ہے۔!“
”نہیں ہینڈل گماؤ اور اند چلی جاؤ۔ لیکن اس عمارت سے کوئی بھی باہر نہیں نکل سکے گا۔!“
”میں بھی نہیں۔؟“
”اگر موت کی خواہش ہو گی تو ضرور نکلنے کی کوشش کروگی۔!“
””یعنی مجھے جبراََ نہیں روکا گیا۔!“
”ہرگز نہیں۔جب چاہو جا سکتی ہو لیکن باہر موت تمہاری منتظر ہوگی۔!“
”میں کب جا رہی ہوں۔ میں نے تو صرف اپنی پوزیشن معلوم کی تھی۔ ۔ ۔ تو اب جاؤں اس کمرے میں۔!“
”ہاں۔ ۔ ۔ ! جاؤ ۔ ۔ ۔ بس وہ سارے ڈائیلاگ یاد رکھنا۔!“ عمران نے کہا اور دوسری طرف مڑگیا۔!
شیلا نے ہینڈل گھماکر دروازہ کھولا اور ”ارے“ کہہ کر اچھل پڑی۔ پیٹر بھی اٹھ گیا تھا۔ وہ بے حد متحیر نظر آنے لگا تھا۔
”تت ۔ ۔ ۔ تم ۔ ۔ ۔!“
”اوہ تو تم بھی۔!“ شیلا نے کہا۔!