علامہ دہشتناک : صفحہ 70-71 : بتیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین


e7zegx.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 70، 71

میں کہا۔
"سراسر بکواس۔ میرا باپ کیوں چاہے گا کہ میں پاگل ہو جاؤں۔!"
"بہت نام کماتی پھر رہی ہو نا باپ کے لئے۔" پیٹر کے لہجے میں بے اندازہ تلخی تھی۔ وہ شیلا کو پھاڑ کھانے کے سے انداز میں گھورتا رہا۔
"یہ علامہ کا بہت ہی خاص آدمی ہے۔!" شیلا آپے سے باہر ہوتی ہوئی بولی۔ " ہو سکتا ہے ۔۔۔۔ ہو سکتا ہے۔!"
وہ مزید کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی۔ لیک پیٹر کو بدستور قہر آلودہ نظروں سے گھورے جا رہی تھی۔
"تم کہنا کیا چاہتی تھیں۔!" عمران بولا۔
"جتنی صفائی سے اس نے شراب کو آلودہ کیا تھا کیا اسی طرح شیشی کی ٹکیاں نہیں بدل سکتا۔!"
اچانک پیٹر نے بیٹھے ہی بیٹھے عمران پر چھلانگ لگائی تھی۔۔۔۔ عمران شائد اس کے لئے تیار نہیں تھا۔۔۔ پیٹر کا ہاتھ ریوالور والے ہاتھ پر پڑا۔ اگر سیفٹی کیچ ہٹا ہوا ہوتا تو لازمی طور پر فائر ہو گیا ہوتا۔۔۔ اور شیلا زخمی ہوئے بغیر نہ رہتی۔ پھر ریوالور تو عمران نے دور پھینک دیا تھا اور بائیں ہاتھ سے پیٹر کی گدی دبوچ کر داہنی کہنی سے اس کی ناک رگڑ ڈالی۔
کچھ بے ساختہ قسم کی آوازیں پیٹر کے حلق سے نکلی تھیں۔ اور ناک سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔ گھونسہ پیٹ پر پڑا اور وہ دہرا ہو کر زمین بوس ہو گیا۔
*************
رات کے بارہ بجے تھے اور علامہ دہشت ابھی تک جاگ رہا تھا۔ لیکن بستر سے بہت دور۔۔۔ اس وقت اگر اس کا کوئی شناسا قریب سے بھی دیکھتا تو ہرگز نہ پہچان سکتا۔ کیونکہ اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی تھی۔ اور آنکھیں انگاروں کی طرح دھک رہی تھیں۔ جسم پر سیاہ لبادہ تھا اپنی کوٹھی میں بھی نہیں تھا۔ یہاں چاندنی کھیت کر رہی تھی اور سمندر کی پرشور لہریں ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر جھاگ اڑا رہی تھیں۔
ساحل سے ایک فرلانگ ادھر دور تک لکڑی کے بے شمار ہٹ بکھرے ہوئے تھے۔۔۔!
انہی میں سے ایک میں علامہ کا بھی قیام تھا۔ اور ان ہٹوں کے باسی اسے ایک مدہوش رہنے والےنشے باز کی حیثیت سے جانتے تھے۔۔۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہٹ اس کی ملکیت ہے اور وہ کبھی کبھی وہاں آتا ہے۔!
عام طور پر علامہ سنیچر کی شب اور اتوار کا دن اسی ہٹ میں گذارتا تھا۔ لیکن اس کے خاص قسم کے ملاقاتی اس کے ہٹ میں نہیں آتے تھے۔ ملاقاتوں کے لئے وہ ساحل کے قریب کسی ویران جگہ کا انتخاب کرتا تھا۔ اور نصف شب کے سناٹے میں یہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
اس وقت یہاں وہ ایسے ہی کسی ملاقاتی کا منتظر تھا۔ ٹھیک ساڑھے بارہ بجے ایک آدمی بائیں جانب سے ٹیکرے پر چڑھ کر اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا۔
"تم پندرہ منٹ دیر سے آئے ہو۔!" علامہ غرایا۔
"راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی باس۔!"
"کیا خبر ہے۔؟"
"آپ کے ان چھ آدمیوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔ ان کے گھر والے بھی پریشان ہیں اور اپنے طور پر تلاش کر رہے ہیں۔!"
"اور سیٹھ دھنی رام۔!"
"اس کے یہاں حالات معمول پر ہیں۔ کسی کو ذرہ برابر بھی تشویش نہیں معلوم ہوتی۔ شاہ دارا میں بھی لڑکی کی تلاش جاری ہے۔! البتہ آپ کے ایک آدمی پیٹر کی گاڑی پولیس کے قبضے میں ہے۔!"
"کیوں۔؟"
"تین دن سے ایک جگہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔!"
"تو اس کا مطلب ہوا کہ پولیس نے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا۔!"
"پولیس نے رجسٹریشن آفس سے گاڑی کے مالک کا پتہ لگایا ہے۔!"
"بڑی عجیب بات ہے۔ اگر وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگے تو پھر۔!"
"ہمارا کوئی نادیدہ حریف بھی ہو سکتا ہے۔!"
"بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ زیر تربیت آدمیوں کا علم کسی حریف کو نہیں ہو سکتا۔"
"میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں باس۔!"

(ختم شد صفحہ 71)
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 70، 71

میں کہا۔
"سراسر بکواس۔ میرا باپ کیوں چاہے گا کہ میں پاگل ہو جاؤں۔!"
"بہت نام کماتی پھر رہی ہو نا باپ کے لئے۔" پیٹر کے لہجے میں بے اندازہ تلخی تھی۔ وہ شیلا کو پھاڑ کھانے کے سے انداز میں گھورتا رہا۔
"یہ علامہ کا بہت ہی خاص آدمی ہے۔!" شیلا آپے سے باہر ہوتی ہوئی بولی۔ " ہو سکتا ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے۔!"
وہ مزید کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی۔ لیکن پیٹر کو بدستور قہر آلودہ نظروں سے گھورے جا رہی تھی۔
"تم کہنا کیا چاہتی تھیں؟" عمران بولا۔
"جتنی صفائی سے اس نے شراب کو آلودہ کیا تھا کیا اسی طرح شیشی کی ٹکیاں نہیں بدل سکتا؟"
اچانک پیٹر نے بیٹھے ہی بیٹھے عمران پر چھلانگ لگائی تھی۔۔۔ عمران شاید اس کے لئے تیار نہیں تھا۔۔۔ پیٹر کا ہاتھ ریوالور والے ہاتھ پر پڑا۔ اگر سیفٹی کیچ ہٹا ہوا ہوتا تو لازمی طور پر فائر ہو گیا ہوتا۔۔۔ اور شیلا زخمی ہوئے بغیر نہ رہتی۔ پھر ریوالور تو عمران نے دور پھینک دیا تھا اور بائیں ہاتھ سے پیٹر کی گدی دبوچ کر داہنی کہنی سے اس کی ناک رگڑ ڈالی۔
کچھ بے ساختہ قسم کی آوازیں پیٹر کے حلق سے نکلی تھیں۔ اور ناک سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔ گھونسہ پیٹ پر پڑا اور وہ دہرا ہو کر زمین بوس ہو گیا۔
*************
رات کے بارہ بجے تھے اور علامہ دہشت ابھی تک جاگ رہا تھا۔ لیکن بستر سے بہت دور۔۔۔ اس وقت اگر اس کا کوئی شناسا قریب سے بھی دیکھتا تو ہرگز نہ پہچان سکتا۔ کیونکہ اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی تھی اور آنکھیں انگاروں کی طرح دھک رہی تھیں۔ جسم پر سیاہ لبادہ تھا اپنی کوٹھی میں بھی نہیں تھا۔ یہاں چاندنی کھیت کر رہی تھی اور سمندر کی پرشور لہریں ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر جھاگ اڑا رہی تھیں۔
ساحل سے ایک فرلانگ ادھر دور تک لکڑی کے بے شمار ہٹ بکھرے ہوئے تھے۔!
انہی میں سے ایک میں علامہ کا بھی قیام تھا۔ اور ان ہٹوں کے باسی اسے ایک مدہوش رہنے والےنشے باز کی حیثیت سے جانتے تھے۔۔۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہٹ اس کی ملکیت ہے اور وہ کبھی کبھی وہاں آتا ہے۔!
عام طور پر علامہ سنیچر کی شب اور اتوار کا دن اسی ہٹ میں گذارتا تھا۔ لیکن اس کے خاص قسم کے ملاقاتی اس کے ہٹ میں نہیں آتے تھے۔ ملاقاتوں کے لئے وہ ساحل کے قریب کسی ویران جگہ کا انتخاب کرتا تھا۔ اور نصف شب کے سناٹے میں یہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
اس وقت یہاں وہ ایسے ہی کسی ملاقاتی کا منتظر تھا۔ ٹھیک ساڑھے بارہ بجے ایک آدمی بائیں جانب سے ٹیکرے پر چڑھ کر اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا۔
"تم پندرہ منٹ دیر سے آئے ہو۔!" علامہ غرایا۔
"راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی باس۔!"
"کیا خبر ہے؟"
"آپ کے ان چھ آدمیوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔ ان کے گھر والے بھی پریشان ہیں اور اپنے طور پر تلاش کر رہے ہیں۔!"
"اور سیٹھ دھنی رام۔!"
"اس کے یہاں حالات معمول پر ہیں۔ کسی کو ذرہ برابر بھی تشویش نہیں معلوم ہوتی۔ شاہ دارا میں بھی لڑکی کی تلاش جاری ہے البتہ آپ کے ایک آدمی پیٹر کی گاڑی پولیس کے قبضے میں ہے۔!"
"کیوں؟"
"تین دن سے ایک جگہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔!"
"تو اس کا مطلب ہوا کہ پولیس نے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا۔!"
"پولیس نے رجسٹریشن آفس سے گاڑی کے مالک کا پتہ لگایا ہے۔!"
"بڑی عجیب بات ہے۔ اگر وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگے تو پھر۔!"
"ہمارا کوئی نادیدہ حریف بھی ہو سکتا ہے۔!"
"بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ زیر تربیت آدمیوں کا علم کسی حریف کو نہیں ہو سکتا۔"
"میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں باس۔!"

(ختم شد صفحہ 71)

پہلی پروف ریڈنگ مکمل: زہرا علوی
 

جیہ

لائبریرین
میں کہا۔
"سراسر بکواس۔ میرا باپ کیوں چاہے گا کہ میں پاگل ہو جاؤں۔"
"بہت نام کماتی پھر رہی ہو نا باپ کے لئے۔" پیٹر کے لہجے میں بے اندازہ تلخی تھی۔ وہ شیلا کو پھاڑ کھانے کے سے انداز میں گھورتا رہا۔
"یہ علامہ کا بہت ہی خاص آدمی ہے۔" شیلا آپے سے باہر ہوتی ہوئی بولی۔ " ہو سکتا ہے ۔۔۔ ہو سکتا ہے۔"
وہ مزید کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی لیکن پیٹر کو بدستور قہر آلودہ نظروں سے گھورے جا رہی تھی۔
"تم کہنا کیا چاہتی تھیں؟" عمران بولا۔
"جتنی صفائی سے اس نے شراب کو آلودہ کیا تھا، کیا اسی طرح شیشی کی ٹکیاں نہیں بدل سکتا؟"
اچانک پیٹر نے بیٹھے ہی بیٹھے عمران پر چھلانگ لگائی تھی۔۔۔ عمران شاید اس کے لئے تیار نہیں تھا۔۔۔ پیٹر کا ہاتھ ریوالور والے ہاتھ پر پڑا۔ اگر سیفٹی کیچ ہٹا ہوا ہوتا تو لازمی طور پر فائر ہو گیا ہوتا۔۔۔ اور شیلا زخمی ہوئے بغیر نہ رہتی۔ پھر ریوالور تو عمران نے دور پھینک دیا تھا اور بائیں ہاتھ سے پیٹر کی گدی دبوچ کر داہنی کہنی سے اس کی ناک رگڑ ڈالی۔
کچھ بے ساختہ قسم کی آوازیں پیٹر کے حلق سے نکلی تھیں اور ناک سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔ گھونسہ پیٹ پر پڑا اور وہ دہرا ہو کر زمین بوس ہو گیا۔

*************

رات کے بارہ بجے تھے اور علامہ دہشت ابھی تک جاگ رہا تھا لیکن بستر سے بہت دور۔۔۔ اس وقت اگر اس کا کوئی شناسا قریب سے بھی دیکھتا تو ہرگز نہ پہچان سکتا کیونکہ اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی تھی اور آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ جسم پر سیاہ لبادہ تھا۔ اپنی کوٹھی میں بھی نہیں تھا۔ یہاں چاندنی کھیت کر رہی تھی اور سمندر کی پُر شور لہریں ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر جھاگ اڑا رہی تھیں۔
ساحل سے ایک فرلانگ ادھر دور تک لکڑی کے بے شمار ہٹ بکھرے ہوئے تھے۔ انہی میں سے ایک میں علامہ کا بھی قیام تھا اور ان ہٹوں کے باسی اسے ایک مدہوش رہنے والےنشے باز کی حیثیت سے جانتے تھے۔۔۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہٹ اس کی ملکیت ہے اور وہ کبھی کبھی وہاں آتا ہے۔ عام طور پر علامہ سنیچر کی شب اور اتوار کا دن اسی ہٹ میں گذارتا تھا لیکن اس کے خاص قسم کے ملاقاتی اس کے ہٹ میں نہیں آتے تھے۔ ملاقاتوں کے لئے وہ ساحل کے قریب کسی ویران جگہ کا انتخاب کرتا تھا اور نصف شب کے سناٹے میں یہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
اس وقت یہاں وہ ایسے ہی کسی ملاقاتی کا منتظر تھا۔ ٹھیک ساڑھے بارہ بجے ایک آدمی بائیں جانب سے ٹیکرے پر چڑھ کر اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا۔
"تم پندرہ منٹ دیر سے آئے ہو۔" علامہ غرایا۔
"راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی باس۔"
"کیا خبر ہے؟"
"آپ کے ان چھ آدمیوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔ ان کے گھر والے بھی پریشان ہیں اور اپنے طور پر تلاش کر رہے ہیں۔"
"اور سیٹھ دھنی رام؟"
"اس کے یہاں حالات معمول پر ہیں۔ کسی کو ذرہ برابر بھی تشویش نہیں معلوم ہوتی۔ شاہ دارا میں بھی لڑکی کی تلاش جاری ہے البتہ آپ کے ایک آدمی پیٹر کی گاڑی پولیس کے قبضے میں ہے۔"
"کیوں؟"
"تین دن سے ایک جگہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔"
"تو اس کا مطلب ہوا کہ پولیس نے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا۔"
"پولیس نے رجسٹریشن آفس سے گاڑی کے مالک کا پتہ لگایا ہے۔"
"بڑی عجیب بات ہے۔ اگر وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگے تو پھر؟"
"ہمارا کوئی نادیدہ حریف بھی ہو سکتا ہے۔"
"بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ زیر تربیت آدمیوں کا علم کسی حریف کو نہیں ہو سکتا۔"
"میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں باس۔"

پہلی پروف ریڈنگ مکمل: زہرا علوی
بار دوم: جویریہ
 

الف عین

لائبریرین
بار آخر:

میں کہا۔
"سراسر بکواس۔ میرا باپ کیوں چاہے گا کہ میں پاگل ہو جاؤں۔ "
"بہت نام کماتی پھر رہی ہو نا باپ کے لئے۔ " پیٹر کے لہجے میں بے اندازہ تلخی تھی۔ وہ شیلا کو پھاڑ کھانے کے سے انداز میں گھورتا رہا۔
"یہ علامہ کا بہت ہی خاص آدمی ہے۔ " شیلا آپے سے باہر ہوتی ہوئی بولی۔ " ہو سکتا ہے۔ ۔ ۔ ہو سکتا ہے۔ "
وہ مزید کچھ کہتے کہتے رک گئی تھی لیکن پیٹر کو بدستور قہر آلودہ نظروں سے گھورے جا رہی تھی۔
"تم کہنا کیا چاہتی تھیں ؟" عمران بولا۔
"جتنی صفائی سے اس نے شراب کو آلودہ کیا تھا، کیا اسی طرح شیشی کی ٹکیاں نہیں بدل سکتا؟"
اچانک پیٹر نے بیٹھے ہی بیٹھے عمران پر چھلانگ لگائی تھی۔ ۔ ۔ عمران شاید اس کے لئے تیار نہیں تھا۔ ۔ ۔ پیٹر کا ہاتھ ریوالور والے ہاتھ پر پڑا۔ اگر سیفٹی کیچ ہٹا ہوا ہوتا تو لازمی طور پر فائر ہو گیا ہوتا۔ ۔ ۔ اور شیلا زخمی ہوئے بغیر نہ رہتی۔ پھر ریوالور تو عمران نے دور پھینک دیا تھا اور بائیں ہاتھ سے پیٹر کی گدی دبوچ کر داہنی کہنی سے اس کی ناک رگڑ ڈالی۔
کچھ بے ساختہ قسم کی آوازیں پیٹر کے حلق سے نکلی تھیں اور ناک سے خون کی بوندیں ٹپکنے لگی تھیں۔ گھونسہ پیٹ پر پڑا اور وہ دہرا ہو کر زمین بوس ہو گیا۔

*************

رات کے بارہ بجے تھے اور علامہ دہشت ابھی تک جاگ رہا تھا لیکن بستر سے بہت دور۔ ۔ ۔ اس وقت اگر اس کا کوئی شناسا قریب سے بھی دیکھتا تو ہرگز نہ پہچان سکتا کیونکہ اس کے چہرے پر گھنی ڈاڑھی تھی اور آنکھیں انگاروں کی طرح دہک رہی تھیں۔ جسم پر سیاہ لبادہ تھا۔ اپنی کوٹھی میں بھی نہیں تھا۔ یہاں چاندنی کھیت کر رہی تھی اور سمندر کی پُر شور لہریں ساحل سے ٹکرا ٹکرا کر جھاگ اڑا رہی تھیں۔
ساحل سے ایک فرلانگ ادھر دور تک لکڑی کے بے شمار ہٹ بکھرے ہوئے تھے۔ انہی میں سے ایک میں علامہ کا بھی قیام تھا اور ان ہٹوں کے باسی اسے ایک مدہوش رہنے والے نشے باز کی حیثیت سے جانتے تھے۔ ۔ ۔ انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ ہٹ اس کی ملکیت ہے اور وہ کبھی کبھی وہاں آتا ہے۔ عام طور پر علامہ سنیچر کی شب اور اتوار کا دن اسی ہٹ میں گذارتا تھا لیکن اس کے خاص قسم کے ملاقاتی اس کے ہٹ میں نہیں آتے تھے۔ ملاقاتوں کے لئے وہ ساحل کے قریب کسی ویران جگہ کا انتخاب کرتا تھا اور نصف شب کے سناٹے میں یہ ملاقاتیں ہوتی تھیں۔
اس وقت یہاں وہ ایسے ہی کسی ملاقاتی کا منتظر تھا۔ ٹھیک ساڑھے بارہ بجے ایک آدمی بائیں جانب سے ٹیکرے پر چڑھ کر اس کے قریب آ کھڑا ہوا تھا۔
"تم پندرہ منٹ دیر سے آئے ہو۔ " علامہ غرایا۔
"راستے میں گاڑی خراب ہو گئی تھی باس۔ "
"کیا خبر ہے ؟"
"آپ کے ان چھ آدمیوں کا ابھی تک سراغ نہیں مل سکا۔ ان کے گھر والے بھی پریشان ہیں اور اپنے طور پر تلاش کر رہے ہیں۔ "
"اور سیٹھ دھنی رام؟"
"اس کے یہاں حالات معمول پر ہیں۔ کسی کو ذرہ برابر بھی تشویش نہیں معلوم ہوتی۔ شاہ دارا میں بھی لڑکی کی تلاش جاری ہے البتہ آپ کے ایک آدمی پیٹر کی گاڑی پولیس کے قبضے میں ہے۔ "
"کیوں ؟"
"تین دن سے ایک جگہ سڑک کے کنارے کھڑی تھی۔ "
"تو اس کا مطلب ہوا کہ پولیس نے اس پر ہاتھ نہیں ڈالا۔ "
"پولیس نے رجسٹریشن آفس سے گاڑی کے مالک کا پتہ لگایا ہے۔ "
"بڑی عجیب بات ہے۔ اگر وہ پولیس کے ہاتھ نہیں لگے تو پھر؟"
"ہمارا کوئی نادیدہ حریف بھی ہو سکتا ہے۔ "
"بے وقوفی کی باتیں مت کرو۔ زیر تربیت آدمیوں کا علم کسی حریف کو نہیں ہو سکتا۔ "
"میں اس کے بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں باس۔ "
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top