علامہ دہشتناک : صفحہ 72-73 : تینتیسواں صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



2pzg12q.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 
تحریر کردہ: سعود ابن سعید

--------- متن شروع ----------

“میرا طریق ایسا نہیں ہے کہ زیرِ تربیت آدمی میرے تجارتی حریفوں کی نظر میں آسکیں۔!”
“ہم انہیں تلاش کرنے کی انتہائی کوشش کر رہے ہیں۔!”
“بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔!”
“ہم محتاظ ہیں جناب۔!”
“اس ماہ تمہارا کتنا کمیشن بنا ہے۔!”
“بائیس ہزار۔!”
“اگلے مہینے سے میں کمیشن میں پانچ فیصد کا اضافہ کر رہا ہوں۔!”
“شکریہ باس۔!” نو وارد کا لہجہ مسرت آمیز تھا۔
“جتنا بزنس بڑھے گا اتنا ہی کمیشن بھی بڑھتا جائے گا۔ میں اپنے کار پردازوں کو زیادہ سے زیادہ متمول دیکھنا چاہتا ہوں۔!”
“اسی لئے تو ہمارے کاروباری حریف ہم سے جلتے ہیں۔!”
“جل جل کر راکھ ہونے دو انہیں وہ مجھ سے ٹکرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔!”
“ہمین آپ پر فخر ہے باس۔!”
“اور مجھے اپنے کار پردازوں پر فخر ہے۔۔۔۔ وہ بہت ذہین ہیں۔!”
“ایک بات ہے باس۔!”
“کہو کیا بات ہے۔!”
“آپ کے ان چھ آدمیوں کے بارے میں علامہ دہشت سے کیوں نہ پوچھ گچھ کی جائے۔!”
“ہرگز نہیں ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔!”
“میں بھی تو انہیں کا تربیت یافتہ ہوں۔ ان کے لئے اجنبی تو نہیں۔!”
“اصول توڑو گے؟” علامہ نے حیرت سے کہا۔! “شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہتربیت مکمل کر لینے کے بعد اس کے مخصوص شاگردوں نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا صرف میں اس سے براہِ راست رابطہ رکھتا ہوں۔ پہلے ہی معلوم کر چکا ہوں کہ وہ بھی کچھ نہیں جانتا غائب ہو جانے والوں کے بارے میں۔!”
“میں معافی چاہتا ہوں باس۔!”
“اسے ہمیشہ یاد رکھا کرو کہ میرے سارے معاملات اسی طرح الگ الگ ہین۔ جیسے حکومتوں کی وزارتیں شعبہ وار الگ الگ ہوتی ہیں۔۔۔۔!”
“میں سمجھتا ہوں باس۔۔۔۔!”
“بس اب جاؤ۔۔۔۔ اور ان کی تلاش جاری رکھو اور جیسے ہی اس کا علم ہو کہ وہ پولیس کے ہاتھ لگے ہیں۔ مجھے مطلع کر دینا۔۔۔۔!”
“وہ احتراماً جھکا اور ٹیکرے سے اترتا چلا گیا۔!”

*****​

“ہر وقت کنگھی چوٹی۔ ہر وقت کنگھی چوٹی۔!” سلیمان اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر دہاڑا۔ “پتیلی لگنے کی بو بھی ناک میں نہیں پہنچی۔!”
“ارے تو۔۔۔۔ تو ہی دیکھ لے۔۔۔۔!” گلرخ چنچنائی۔
“ہوش میں ہے یا نہیں۔۔۔۔!”
“کیوں بکواس کر رہا ہے۔!”
“ارے۔۔۔۔ ارے۔۔۔۔ تو میری بیوی ہے۔۔۔۔ بدزبانی نہ کر۔۔۔۔!”
“تو میرا بی وا ہے۔۔۔۔ ٹائیں ٹائیں کیوں کرتا ہے۔!”
“بیوا۔۔۔۔!”
“ہاں ہاں بیوا ہی لگتا ہے۔۔۔۔ شوہروں جیسی تو شکل ہی نہیں ہے۔۔۔۔!”
“دماغ تو نہیں چل گیا۔۔۔۔!”
“ہوش میں ہے یا نہیں۔۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا۔؟ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ڈائلاگ یاد ہے یا نہیں۔!”
“دیکھ گلرخ اچھا نہیں ہوگا۔ مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کر۔!”
“اسی لئے تو کہتا ہوں کہ تو ہی چولہا ہانڈی کرتا رہ۔۔۔۔ میں خود تجھ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔!”

---------- متن تمام ----------
 

زھرا علوی

محفلین
--------- متن شروع ----------

“میرا طریق ایسا نہیں ہے کہ زیرِ تربیت آدمی میرے تجارتی حریفوں کی نظر میں آسکیں۔!”
“ہم انہیں تلاش کرنے کی انتہائی کوشش کر رہے ہیں۔!”
“بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔!”
“ہم محتاظ ہیں جناب۔!”
“اس ماہ تمہارا کتنا کمیشن بنا ہے؟
“بائیس ہزار۔!”
“اگلے مہینے سے میں کمیشن میں پانچ فیصد کا اضافہ کر رہا ہوں۔!”
“شکریہ باس۔!” نو وارد کا لہجہ مسّرت آمیز تھا۔
“جتنا بزنس بڑھے گا اتنا ہی کمیشن بھی بڑھتا جائے گا۔ میں اپنے کار پردازوں کو زیادہ سے زیادہ متمول دیکھنا چاہتا ہوں۔!”
“اسی لئے تو ہمارے کاروباری حریف ہم سے جلتے ہیں۔!”
“جل جل کر راکھ ہونے دو انہیں وہ مجھ سے ٹکرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔!”
ہمیں آپ پر فخر ہے باس۔!”
“اور مجھے اپنے کار پردازوں پر فخر ہے۔۔۔ وہ بہت ذہین ہیں۔!”
“ایک بات ہے باس۔!”
“کہو کیا بات ہے؟
“آپ کے ان چھ آدمیوں کے بارے میں علامہ دہشت سے کیوں نہ پوچھ گچھ کی جائے۔!”
“ہرگز نہیں ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔!”
“میں بھی تو انہیں کا تربیت یافتہ ہوں۔ ان کے لئے اجنبی تو نہیں۔!”
“اصول توڑو گے؟” علامہ نے حیرت سے کہا۔! “شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہ تربیت مکمل کر لینے کے بعد اس کے مخصوص شاگردوں نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا صرف میں اس سے براہِ راست رابطہ رکھتا ہوں۔ پہلے ہی معلوم کر چکا ہوں کہ وہ بھی کچھ نہیں جانتا غائب ہو جانے والوں کے بارے میں۔!”
“میں معافی چاہتا ہوں باس۔!”
“اسے ہمیشہ یاد رکھا کرو کہ میرے سارے معاملات اسی طرح الگ الگ ہیں۔ جیسے حکومتوں کی وزارتیں شعبہ وار الگ الگ ہوتی ہیں۔!”
“میں سمجھتا ہوں باس۔!”
“بس اب جاؤ۔۔۔ اور ان کی تلاش جاری رکھو اور جیسے ہی اس کا علم ہو کہ وہ پولیس کے ہاتھ لگے ہیں۔ مجھے مطلع کر دینا۔!”
“وہ احتراماً جھکا اور ٹیکرے سے اترتا چلا گیا۔!”

*****

“ہر وقت کنگھی چوٹی۔ ہر وقت کنگھی چوٹی۔!” سلیمان اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر دہاڑا۔ “پتیلی لگنے کی بو بھی ناک میں نہیں پہنچی۔!”
“ارے تو۔۔۔ تو ہی دیکھ لے۔۔۔!” گلرخ چنچنائی۔
“ہوش میں ہے یا نہیں۔؟”
“کیوں بکواس کر رہا ہے؟”
“ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ تو میری بیوی ہے۔۔۔ بدزبانی نہ کر۔!”
“تو میرا بی وا ہے۔۔۔۔ ٹائیں ٹائیں کیوں کرتا ہے؟”
“بیوا؟”
“ہاں ہاں بیوا ہی لگتا ہے۔۔۔۔ شوہروں جیسی تو شکل ہی نہیں ہے۔!”
“دماغ تو نہیں چل گیا؟”
“ہوش میں ہے یا نہیں۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا؟ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ڈائیلاگ یاد ہے یا نہیں؟”
“دیکھ گلرخ اچھا نہیں ہوگا۔ مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کر۔!”
“اسی لئے تو کہتا ہوں کہ تو ہی چولہا ہانڈی کرتا رہ۔۔۔ میں خود تجھ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔!”

---------- متن تمام ----------

پروف ریڈنگ اول:مکمل:زہرا علوی
 

جیہ

لائبریرین
“میرا طریق ایسا نہیں ہے کہ زیرِ تربیت آدمی میرے تجارتی حریفوں کی نظر میں آسکیں۔!”
“ہم انہیں تلاش کرنے کی انتہائی کوشش کر رہے ہیں۔!”
“بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔!”
“ہم محتاط ہیں جناب۔!”
“اس ماہ تمہارا کتنا کمیشن بنا ہے؟”
“بائیس ہزار۔!”
“اگلے مہینے سے میں کمیشن میں پانچ فیصد کا اضافہ کر رہا ہوں۔!”
“شکریہ باس۔!” نو وارد کا لہجہ مسّرت آمیز تھا۔
“جتنا بزنس بڑھے گا اتنا ہی کمیشن بھی بڑھتا جائے گا۔ میں اپنے کار پردازوں کو زیادہ سے زیادہ متمول دیکھنا چاہتا ہوں۔!”
“اسی لئے تو ہمارے کاروباری حریف ہم سے جلتے ہیں۔!”
“جل جل کر راکھ ہونے دو انہیں۔ وہ مجھ سے ٹکرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔!”
“ہمیں آپ پر فخر ہے باس۔!”
“اور مجھے اپنے کار پردازوں پر فخر ہے۔۔۔ وہ بہت ذہین ہیں۔!”
“ایک بات ہے باس۔!”
“کہو کیا بات ہے؟”
“آپ کے ان چھ آدمیوں کے بارے میں علامہ دہشت سے کیوں نہ پوچھ گچھ کی جائے؟”
“ہرگز نہیں ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔!”
“میں بھی تو انہیں کا تربیت یافتہ ہوں۔ ان کے لئے اجنبی تو نہیں۔!”
“اصول توڑو گے؟” علامہ نے حیرت سے کہا۔! “شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہ تربیت مکمل کر لینے کے بعد اس کے مخصوص شاگردوں نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا صرف میں اس سے براہِ راست رابطہ رکھتا ہوں۔ پہلے ہی معلوم کر چکا ہوں کہ وہ بھی کچھ نہیں جانتا غائب ہو جانے والوں کے بارے میں۔!”
“میں معافی چاہتا ہوں باس۔!”
“اسے ہمیشہ یاد رکھا کرو کہ میرے سارے معاملات اسی طرح الگ الگ ہیں جیسے حکومتوں کی وزارتیں شعبہ وار الگ الگ ہوتی ہیں۔!”
“میں سمجھتا ہوں باس۔!”
“بس اب جاؤ۔۔۔ اور ان کی تلاش جاری رکھو اور جیسے ہی اس کا علم ہو کہ وہ پولیس کے ہاتھ لگے ہیں، مجھے مطلع کر دینا۔!”
“وہ احتراماً جھکا اور ٹیکرے سے اترتا چلا گیا۔!”

*****

“ہر وقت کنگھی چوٹی۔ ہر وقت کنگھی چوٹی۔!” سلیمان اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر دھاڑا۔ “پتیلی لگنے کی بو بھی ناک میں نہیں پہنچی۔!”
“ارے تو۔۔۔ تو ہی دیکھ لے۔۔۔!” گل رخ چنچنائی۔
“ہوش میں ہے یا نہیں؟”
“کیوں بکواس کر رہا ہے؟”
“ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ تو میری بیوی ہے۔۔۔ بد زبانی نہ کر۔!”
“تو میرا بی وا ہے۔۔۔۔ ٹائیں ٹائیں کیوں کرتا ہے؟”
“بیوا؟”
“ہاں ہاں بیوا ہی لگتا ہے۔۔۔۔ شوہروں جیسی تو شکل ہی نہیں ہے۔!”
“دماغ تو نہیں چل گیا؟”
“ہوش میں ہے یا نہیں۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا؟ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ڈائیلاگ یاد ہے یا نہیں؟”
“دیکھ گل رخ اچھا نہیں ہوگا۔ مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کر۔!”
“اسی لئے تو کہتا ہوں کہ تو ہی چولہا ہانڈی کرتا رہ۔۔۔ میں خود تجھ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔!”

---------- متن تمام ----------

پروف ریڈنگ اول:مکمل:زہرا علوی
بارِ دوم: جویریہ مسعود
 

الف عین

لائبریرین
بار سوم و آخر:

"میرا طریق ایسا نہیں ہے کہ زیرِ تربیت آدمی میرے تجارتی حریفوں کی نظر میں آسکیں۔!"
"ہم انہیں تلاش کرنے کی انتہائی کوشش کر رہے ہیں۔!"
"بہت زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔!"
"ہم محتاط ہیں جناب۔!"
"اس ماہ تمہارا کتنا کمیشن بنا ہے؟"
"بائیس ہزار۔!"
"اگلے مہینے سے میں کمیشن میں پانچ فیصد کا اضافہ کر رہا ہوں۔!"
"شکریہ باس۔!" نو وارد کا لہجہ مسّرت آمیز تھا۔
"جتنا بزنس بڑھے گا اتنا ہی کمیشن بھی بڑھتا جائے گا۔ میں اپنے کار پردازوں کو زیادہ سے زیادہ متمول دیکھنا چاہتا ہوں۔!"
"اسی لئے تو ہمارے کاروباری حریف ہم سے جلتے ہیں۔!"
"جل جل کر راکھ ہونے دو انہیں۔ وہ مجھ سے ٹکرانے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔!"
"ہمیں آپ پر فخر ہے باس۔!"
"اور مجھے اپنے کار پردازوں پر فخر ہے۔۔۔ وہ بہت ذہین ہیں۔!"
"ایک بات ہے باس۔!"
"کہو کیا بات ہے؟"
"آپ کے ان چھ آدمیوں کے بارے میں علامہ دہشت سے کیوں نہ پوچھ گچھ کی جائے؟"
"ہرگز نہیں ادھر کا رخ بھی نہ کرنا۔!"
"میں بھی تو انہیں کا تربیت یافتہ ہوں۔ ان کے لئے اجنبی تو نہیں۔!"
"اصول توڑو گے؟" علامہ نے حیرت سے کہا۔! "شروع سے یہ طریقہ رہا ہے کہ تربیت مکمل کر لینے کے بعد اس کے مخصوص شاگردوں نے کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا صرف میں اس سے براہِ راست رابطہ رکھتا ہوں۔ پہلے ہی معلوم کر چکا ہوں کہ وہ بھی کچھ نہیں جانتا غائب ہو جانے والوں کے بارے میں۔!"
"میں معافی چاہتا ہوں باس۔!"
"اسے ہمیشہ یاد رکھا کرو کہ میرے سارے معاملات اسی طرح الگ الگ ہیں جیسے حکومتوں کی وزارتیں شعبہ وار الگ الگ ہوتی ہیں۔!"
"میں سمجھتا ہوں باس۔!"
"بس اب جاؤ۔۔۔ اور ان کی تلاش جاری رکھو اور جیسے ہی اس کا علم ہو کہ وہ پولیس کے ہاتھ لگے ہیں، مجھے مطلع کر دینا۔!"
"وہ احتراماً جھکا اور ٹیکرے سے اترتا چلا گیا۔!"

*****

"ہر وقت کنگھی چوٹی۔ ہر وقت کنگھی چوٹی۔!" سلیمان اپنی پیشانی پر ہاتھ مار کر دھاڑا۔ "پتیلی لگنے کی بو بھی ناک میں نہیں پہنچی۔!"
"ارے تو۔۔۔ تو ہی دیکھ لے۔۔۔!" گل رخ چنچنائی۔
"ہوش میں ہے یا نہیں؟"
"کیوں بکواس کر رہا ہے؟"
"ارے۔۔۔ ارے۔۔۔ تو میری بیوی ہے۔۔۔ بد زبانی نہ کر۔!"
"تو میرا بی وا ہے۔۔۔۔ ٹائیں ٹائیں کیوں کرتا ہے؟"
"بیوا؟"
"ہاں ہاں بیوا ہی لگتا ہے۔۔۔۔ شوہروں جیسی تو شکل ہی نہیں ہے۔!"
"دماغ تو نہیں چل گیا؟"
"ہوش میں ہے یا نہیں۔۔۔ دماغ تو نہیں چل گیا؟ اس کے علاوہ کوئی اور بھی ڈائیلاگ یاد ہے یا نہیں؟"
"دیکھ گل رخ اچھا نہیں ہوگا۔ مجھ سے آگے بڑھنے کی کوشش مت کر۔!"
"اسی لئے تو کہتا ہوں کہ تو ہی چولہا ہانڈی کرتا رہ۔۔۔ میں خود تجھ سے آگے نہیں بڑھنا چاہتی۔!"
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین




تینتیسواں صفحہ




صفحہ | منتخب کرنے والی ٹیم | تحریر | پہلی پروف ریڈنگ | دوسری پروف ریڈنگ | آخری پروف ریڈنگ | پراگریس

تینتیسواں : 72 - 73 | ٹیم 2 | ابن سعید | زھراء علوی | جویریہ | الف عین | 100 %







 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top