ٹائپ کردہ: سعود ابن سعید
---------- متن شروع ----------
“اور تو کیا کرے گی۔۔۔۔!”
“ٹانگ پر ٹانگ رکھے پڑی فلمی رسالے پڑھا کروں گی۔۔۔۔!”
“میری سمجھ میں نہیں آتا کہ کون تیرا دماغ خراب کیا کرتا ہے۔!”
“وہی جس نے تجھے آسمان پر چڑھا رکھا ہے۔!”
“کیا مطلب۔!”
“صاحب نے کہا ہے کہ دب کے نہ رہیو۔!”
“ارے۔۔۔۔ مارا گیا۔!” سلیمان پیژانی پر ہاتھ مار کر بولا۔
“اور وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ سنہ پچھتر عورتوں کا سال تھا۔ بہت دیر میں معلوم ہو مجھ کو ورنہ بتابی تجھے۔۔۔۔!”
“اب بتا دے۔۔۔۔!” سلیمان آنکھ نکال کر بولا۔
“کیا فائدہ۔۔۔۔ اب سنہ چھیتر شروع ہو گیا ہے۔۔۔۔!”
“گردن مروڑ دوں گا کسی دن۔!”
“باتیں بھی باورچیوں ہی جیسی کرتا ہے۔! ارے پرائویٹ ہی میٹرک پاس کر لے۔!”
“بس بس! بڑی آئی میٹرک والی۔ اب نام لیا میٹرک کا تو زبان گدی سے کھینچ لونگا۔ بھول جا کہ میٹرک پاس ہے۔!”
“وہ تو بھول ہی جانا پڑے گا صاحب نے میری تقدیر پھوڑ دی۔!”
“ہاں ہاں نہیں تو ڈپٹی کلکٹر ملتا تجھے۔!”
“ہیڈ کانسٹیبل تو مل ہی جاتا۔!”
“چپ بے غیرت۔!”
“اس میں بے غیرتی کی کیا بات ہے! تیرے مرنے کے بعد ہیڈ کانسٹیبل ہی تلاش کروں گی۔!”
“تم بولے تو ہم ابھی اس کو مار ڈالے۔۔۔۔!” کچن کے باہر سے جوزف کی آواز آئی۔
“چل بے کالئے۔۔۔۔!” سلیمان حلق پھاڑ کر بولا۔
“او کم بختو اب مجھ پر رحم کرو۔!” دور سے عمران کی آواز آئی تھی۔
“چپ چپ۔۔۔۔!” گلرخ آہستہ سے بولی۔
“میں آج ہی اپنا بوریا بستر باندھتا ہوں۔۔۔۔!” سلیمان بڑبڑایا۔
“میں ساتھ نہ جاؤں گی۔۔۔۔!”
“چوٹی پکڑ کے گھسیٹتا ہو لے جاؤں گا۔۔۔۔!”
“دیکھ اچھا نہ ہوگا اگر بد زبانی کی۔!” گلرخ بہت زور سے چیخی تھی۔
عمران کچن کے دروازے میں آ کھڑا ہو تھا۔ اس حال میں کہ داہنے ہاتھ کی انگلیاں بائیں ہاتھ کی نبض پر تھیں۔
“تم دونوں کہیں نہ جاؤ میں خود ہی جا رہا ہوں۔۔۔۔!” اس نے مری مری سی آواز میں کہا۔
“شہ دے دے کر دماغ خراب کر دیا ہے سسری کا۔۔۔۔!” سلیمان بھنا کر بولا۔
“تو خود سسرا۔۔۔۔ تیری سات پشتیں سسریاں!” گلرخ دانت بیس کر بولی۔
“لیکن اس گھر کو تو سسرال نہ بناؤ۔!” عمران کراہا/
“مجھے چھٹی دیجئے! میں اب یہاں نہیں رہوں گا۔!” سلیمان چولہے پر ہاتھ مار کر بولا۔
“کہاں جائے گا۔!”
“جہاں خدا لے جائے گا۔!”
“اور اس بے چاری کا کیا ہوگا۔!”
“میری بات نہ کیجئے صاحب۔!” گلرخ بولی۔
“اس بے چاری کو مرتبان میں رکھ کر اوپر سے سرسوں کا تیل انڈیل دیجئے گا۔۔۔۔!” سلیمان نے کہا۔
“اللہ کرے تیرا ہی اچار پڑ جائے شلجم کے بچے!” گلرخ کلکلائی۔
اور عمران گھنٹی کی آواز سن کر ڈرائنگ روم کی طرف دوڑا گیا۔۔۔۔! کوئی آیا تھا۔۔۔۔ جوزف جو اس کے پیچھے تھا۔ آگے بڑھ کر دروازہ کھولنے لگا۔
عمران ڈرائنگ روم میں ہی رک گیا تھا۔
“مسٹر صفدر ہیں باس!” اس نے جوزف کو کہتے سنا! “آئیے مسٹر!”
“آئیے مسٹر!” عمران نے بھی ہانک لگائی۔ “لیکن چائے نہ پلا سکوں گا۔ کیونکہ باورچی خانے کے حالات نازک ہیں۔!”
---------- متن تمام ----------