سلیمان اور گلرخ کے جھگڑنے کی آوازیں ڈرائنگ روم میں پہنچ رہی تھیں۔!
"یہ نیا روگ پال لیا ہے آپ نے!" صفدر ہنس کر بولا۔!
"اور اس روگ کے بچے بھی میں ہی پالوں گا۔!" عمران کی ٹھنڈی سانس دور تک سُنی گئی تھی۔!
صفدر نے بیٹھتے ہوئے کوٹ کی اندرونی جیب سے کچھ کاغذات نکالے اور عمران کی طرف بڑھا دیئے۔
"کیا ہے۔!"
"علامہ کی ٹیپ کی ہوئی تقاریر سے کچھ نوٹ لئے ہیں۔ یہ تقاریر پچھلے پندرہ برسوں پر پھیلی ہوئی ہیں۔!"
"تمہارا چوہا بہت ذہین ہوتا جا رہا ہے۔!"
"اب تو آپ بھی اسے چیف کہا کیجئے۔! کتنے دنوں سے کام کر رہے ہیں اس کے لئے۔!"
"تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔۔۔ میں سر سلطان کے لئے کام کرتا ہوں۔ ایکس ٹو کو صرف رابطے کی ایک کڑی سمجھتا ہوں۔! خیر تو یہ ٹیپ تمہیں کہاں سے ملے۔!"
"کچھ یونیوورسٹی سے اور کچھ مختلف کلچرل اداروں سے۔ اور ایکس ٹو کا یہ خیال قطعی درست نکلا کہ اس کی تقاریر سے پتہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کہاں پیدا ہوا تھا۔!"
"کیا معلوم ہوا؟"
"متعدد تقاریر میں اُس نے صرف ضلع احمد پور کی مثالیں یا حوالے دیئے ہیں۔۔۔ دس سال پہلے کی تین تقاریر میں ایک گاؤں کا نام بھی لیا ہے۔!"
"کیا نام ہے گاؤں کا۔!"
"جھریام۔۔۔ چھان بین کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ گاؤں ضلع احمد پور ہی میں واقع ہے۔!"
"گڈ۔۔۔! اور کچھ۔!"
"احمد پور کے اس گاؤں کے تھانے کا نام بھی تھانہ جھریام ہی ہے۔۔۔ وہاں کا پرانا ریکارڈ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ اڑتالیس سال پہلے جھریام میں آتشزدگی کی ایسی واردات ہوئی تھی کہ آٹھ افراد ایک مکان میں جل مرے تھے۔۔۔ خاندان کے سربراہ کا نام پیر علی تھا۔"
"بہت اچھے جا رہے ہو۔!" عمران بولا۔
"وہاں آج بھی صرف ایک ہی ہویلی ہے۔ تیرہ سال قبل پوری حویلی ویران ہو گئی تھی اس کے سارے افراد دو ماہ کے اندر اندر ایک حیرت انگیز وباء کا شکار ہو کر مر گئے تھے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہ وباء صرف حویلی ہی تک محدود رہی تھی۔ لیکن ٹھہریئے اس خاندان کا ایک فرد آج بھی زندہ ہے محض اس لئے کہ وہ اُن دنوں لندن میں زیرِ تعلیم تھا۔۔۔!"
"اب جلدی سے اس کا نام بھی لے ڈالو۔!" عمران بولا
"میاں توقیر محمد جھریام موجودہ حکمران پارٹی کے ایک سرگرم کارکن اور اپنے ضلعے کی شاخ کے صدر بھی ہیں۔!"
عمران نے سیٹی بجانے والے انداز میں ہونٹ سکوڑے تھے۔ پھر یک بیک وہ اچھل پڑا۔!
"کیا بات ہے؟" صفدر نے حیرت سے پوچھا۔
"تین دن بعد پارٹی کا کنونشن یہیں شروع ہونے والا ہے۔!"
"وہ تو ہے۔!"
"وہ اسی موقعے سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرے گا۔! میاں توقیر محمد بھی کنونشن میں ضرور شرکت کریں گے۔!"
"تو پھر۔۔۔!"
"کچھ نہیں۔۔۔ میں دیکھوں گا کہ ان پر کیا گزرتی ہے۔!"
"آپ دیکھیں گے۔!"
"یہ مطلب نہیں تھا کہ انہیں دھماکے سے اڑتا ہوا دیکھوں گا۔!"
ٹھیک اسی وقت جوزف پھر کمرے میں داخل ہوا تھا۔
"باس! وہ جا رہا ہے۔۔۔ سامان اکٹھا کر رہا ہے اپنا۔!"
"اور وہ کیا کر رہی ہے۔۔۔!"
"اس کا ہاتھ بٹا رہی ہے سامان سمیٹنے میں۔۔۔!"
"اچھا ہے دفع ہو جانے دو۔۔۔!"
"وہ نہیں جا رہی! کہتی ہے! اب میں کسی ہیڈ کانسٹیبل سے شادی کروں گی۔!"
"یہ تو اچھا نہ ہو گا۔۔۔ اگر وہ ہیڈ کانسٹیبل بھی یہیں رہ پڑا تو۔؟"