سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
پہلا صفحہ : 8 - 9
پہلی پروف ریڈنگ : ماوراء : مکمل
آدھے منٹ سے زیادہ وقت نہیں گزرا تھا کہ اس نے “ فال اِن “ کی ہانک لگائی اور وہ سب اُٹھ کھڑے ہوئے اور تیزی سے قطار بنا لی ۔
“ایٹ ایز“ کہہ کر اس نے ان پر اچٹتی سی نظر ڈالی اور بولا ۔
“دوستو ۔۔۔۔ طاقت کا سرچشمہ۔“
“ذہانت۔!“ سب بیک آواز بولے ۔
“کیڑے مکوڑے ۔۔۔!“ وہ پھر دہاڑا۔
“غیر ذہین دو پائے ۔!“ انہوں نے ہم آواز ہو کر کہا۔
“اور یہ کیڑے مکوڑ۔!“ وہ ہاتھ اُٹھا کر بولا “ذہین آدمیوں کے آلہ کار سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتے ۔۔۔ انہیں استعمال کرو اور صرف اتنا ہی تیل انہیں دو کہ متحرک رہ سکیں۔۔۔۔۔ اگر ان میں سے کوئی ناکارہ ہوجائے تو اسے کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دو ۔اور اس کی جگہ دوسرا پرزہ فٹ کردو ۔انہیں قابو میں رکھنے کا طریقہ یہ ہے کہ حقارت سے دیکھا جائے ۔۔۔۔۔ اگر تم نے انہیں آدمی سمجھا تو یہ خود کو اہمیت دینے لگیں گے ۔۔۔۔ اور پھر تم انہیں اپنے قابو میں نہ رکھ سکو گے۔!“
وہ خاموش ہو کر کچھ سوچنے لگا تھا! سامنے دس افراد سر جھکائے کھڑے تھے ۔یہ سب جوان العمر تھے اور ان میں سے چار لڑکیاں تھیں ۔
“بیٹھ جاؤ۔۔۔۔!“ قد آور آدمی نے ہاتھ ہلا کر کہا ۔
انہوں نے اس طرح تعمیل کی تھی جیسے وہ پوری طرح ان پر حاوی ہو! ان کی آنکھوں میں اس کے لئے بے اندازہ احترام پایا جاتا تھا ۔
“آج میں تمہیں ایک کہانی سناؤں گا۔“ اُس نے کہا اور وہ سب دم بخود بیٹھے رہے۔!
یہ کہانی ایک گاؤں سے شروع ہوتی ہے ۔۔۔۔۔ ایک بچے کی کہانی ہے ۔۔۔۔۔ لیکن بچے سے اس کی ابتداء نہیں ہوگی ۔۔۔۔۔۔ اس گاؤں میں صرف ایک اونچی اور پکی حویلی تھی بقیہ مکانات کچے تھے ۔۔۔ تم سمجھ گئے ہوگے کہ حویلی میں کون رہتا تھا اور کچے مکانوں میں کیسے لوگ آباد تھے ۔ بہرحال ایک بار ایسا ہوا کہ حویلی کا ایک فرد قتل کے ایک وقوعے میں ماخوذ ہوگیا ۔۔۔۔اور کچے مکان کے ایک باسی نے اس کے خلاف عدالت میں شہادت دے دی ۔کچے مکان کا وہ باسی ایک دیندار آدمی تھا ۔اس نے جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا عدالت میں بیان کر دیا ۔ اس کی شہادت کے مقابلے میں جھوٹی گواہیاں کام نہ آسکیں ۔ اور حویلی والے ملزم کے خلاف جرم ثابت ہوگیا ، پھانسی کی سزا سنا دی گئی۔!
قد آور آدمی خاموش ہو کر پھر کچھ سوچنے لگا اور سننے والوں کے چہرے اضطراب کی آماجگاہ بن گئے۔
تھوڑی دیر بعد وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔!“ اب یہاں سے اس دیندار آدمی کی کہانی شروع ہوتی ہے جو حویلی والوں کا مزارع بھی تھا ۔جانتے ہو اس پر حویلی والوں کا عتاب کس شکل میں نازل ہوا۔؟ ایک رات جب کچے مکان کے لوگ بے خبر سو رہے تھے ۔۔۔ کچے مکان میں آگ لگا دی گئی ۔ اور اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ کوئی باہر نہ نکلنے پائے ۔چھوٹے بڑے افراد جل کر بھسم ہوگئے تھے ۔جس نے باہر نکلنے کی کوشش کی اسے گولی مار دی گئی ۔اس کنبے کا صرف ایک بچہ زندہ بچ سکا تھا ۔وہ بھی اس لیے کہ واردات کے وقت وہ اس کچے مکان میں موجود نہیں تھا ۔
دوسرے گاؤں میں اس کی ننھیال تھی۔ کچھ دنوں پہلے اس کا ماموں اسے گھر سے لے گیا تھا۔۔۔۔اور وہ وہیں مقیم تھا۔۔۔بہرحال حویلی والوں کا کوئی کچھ نہیں بگاڑ سکا تھا۔ تھیلیوں کے منہ کُھل گئے تھے۔ پھر قانون کے محافظوں کے منہ پر تالے کیوں نہ پڑ جاتے، آگ حادثاتی طور پر لگی تھی اور آٹھ افراد اپنی بدبختی کی بھینٹ چڑھ گئے تھے ۔اس دیندار آدمی نے ایک درندگی کے خلاف شہادت دی تھی لیکن اس کے ساتھ جو درندگی ہوئی اس کا کوئی عینی شاہد قانون کو نہ مل سکا!۔۔۔۔۔ ظاہر ہے جس بات کا علم ہر ایک کو تھا اسے کیوں نہ ہوتا ۔کون نہیں جانتا تھا کہ کچا مکان کیسے بھسم ہوا تھا۔۔۔ کون اس سے ناواقف تھا کہ آٹھ بےبس افراد کس طرح جل مرے ۔۔۔لیکن کس میں ہمت تھی کہ اب حویلی کی طرف آنکھ اُٹھا کر بھی دیکھ سکتا ۔۔ وہ ایک شخص کی جرات کا انجام دیکھ چکے تھے! اب تم مجھے بتاؤ کہ اس بچے کی کہانی کیا ہونی چاہیے۔!“
کوئی کچھ نہ بولا۔ وہ خاموشی سے ان کے چہروں کا جائزہ لیتا رہا ۔دفعتاً ایک لڑکی مٹھیاں بھینچ کر چیخی۔ “انتقام“
قد آور آدمی کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوئی ۔
“تمہارا خیال درست ہے!“ اس نے کہا۔“لیکن لہجہ مناسب نہیں ہے ۔۔۔اس لہجے میں اُٹھنے اور جھپٹ پڑنے کا سا انداز ہے۔ “اس بچے نے انتقامی جذبے کی تہذیب کی طرف توجہ دی تھی۔
میں نے تبدیلیوں کی نشان دہی محفوظ بھی نہیں رکھی، اور یہاں پوسٹ بھی نہیں کر رہا۔
اور جوجو، یہ Wisywig Support کہاں سے ملتی ہے؟ مجھ کو بھی لا دو اسی دوکان سے جہاں ملتی ہے۔
اور جوجو، یہ Wisywig Support کہاں سے ملتی ہے؟ مجھ کو بھی لا دو اسی دوکان سے جہاں ملتی ہے۔