کر بولا۔!
"گرین بیچ ہوٹل کا مالک شہزاد۔۔۔!"
"ارے۔۔۔!" صفدر نے حیرت سے کہا۔ " وہ علامہ کا شاگرد تھا۔!"
"دس بارہ سال پرانی بات ہوئی مجھے بھی علم نہیں تھا لیکن ان پانچوں سے گفتگو کے دوران میں یہ بات معلوم ہوئی تھی۔!"
""گرین بیچ ہوٹل تو نشہ بازوں کا بہت بڑا اڈہ ہے۔! اور میری معلومات کے مطابق اسے محکمہ آبکاری کے ایک آفیسر کی سرپرستی بھی حاصل ہے۔!"
"ہو سکتا ہے کہ وہ آفیسر بھی علامہ ہی کا شاگرد ہو۔۔۔! علامہ کی جڑیں بہت گہرانی تک پھیلی ہوئی ہیں۔ شائد ہی کوئی محکمہ ایسا ہو جہاں اس کے شاگرد نہ موجود ہوں۔"
"کیا آپ اس سلسلے میں شہزاد سے پوچھ گچھ کریں گے۔!"
"نہیں صرف اپنی شکل دکھاؤں گا اسے۔۔۔ وہ مجھے اچھی طرح جانتا ہے۔!"
"اس سے کیا فائدہ۔۔۔!"
"پولیس کے علاوہ بھی کچھ لوگ علامہ کے ان شاگردوں کے بارے میں پوچھ کچھ کرتے پھر رہے ہیں۔ جو میری حراست میں ہیں۔ علامہ کو علم ہو گیا ہو گا کہ وہ پولیس کی حوالات میں نہیں ہیں۔ لہٰذا اب اسے معلوم ہو جانا چاہیے کہ وہ حقیقتاً کہاں ہوں گے۔!"
"گویا آپ خود ہی جتانا چاہتے ہیں۔"
"کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔!"
"بھلا کیا بات ہوئی۔!"
"اول درجے کا اُلو ہوں۔ بس تم دیکھتے رہو۔!"
"آپ اپنے بارے میں جیسی بھی رائے رکھتے ہوں براہِ کرم مجھے باور کرانے کی کوشش نہ کریں۔!"
"بڑے سعادت مند ہوتے جا رہے ہو۔! سلیمان کی شادی کرا کے پچھتا نہ رہا ہوتا تو تمہاری بھی ضرور کرا دیتا۔!"
" تو آپ گرین ہوٹل میں بیٹھیں گے۔!"
"نہ صرف بیٹھوں گا بلکہ تمہیں چانڈو بھی پلاؤں گا۔۔۔!"
صفدر کچھ نہ بولا۔ گاڑی گرین بٹس کی طرف بڑھی جا رہی تھی۔ گرین ہوٹل بھی اسی نواح میں واقع تھا۔! اس وقت وہاں خاصی بھیڑ تھی۔ زیادہ تر غیر ملکی ہپی اور جہاز راں نظر آ رہے تھے۔ بڑی تلاش کے بعد ایک میز خالی ملی تھی۔
عمران نے کاؤنٹر کے قریب رک کر خاصی اونچی آواز میں صفدر سے گفتگو کی تھی اور پھر اس خالی میز کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اس نے کھانے پینے کی کچھ چیزیں طلب کی تھیں اور حال میں بیٹھے ہوئے لوگوں کا جائزہ ایسے انداز میں لینے لگا تھا جیسے کسی کی تلاش ہو۔!"
پانچ منٹ بھی نہیں گزرے تھے کہ ہیڈ ویٹر میز کے قریب آ کھڑا ہوا۔ اور ان دونوں کو بغور دیکھتا ہوا بڑے ادب سے بولا۔!" آپ صاحبان میں سے مسٹر علی عمران کون ہیں۔۔۔!"
"مم۔۔۔ میں ہوں۔ سامالیکم۔۔۔!" عمران اٹھ کر مصافحہ لے لئے ہاتھ بڑھاتا ہوا بولا۔
ہیڈ ویٹر نے غیر ارادی طور پر مصافحہ کیا تھا اور جھینپے ہوئے انداز میں بولا تھا۔۔۔ "شہزاد صاحب نے کہا ہے کہ اگر کوئی حرج نہ سمجھیں تو ذرا دیر کو آفس میں آ جائیں۔!"
"ضرور ۔۔۔ ضرور!" اس نے چہک کر کہا اور صفدر سے بولا۔ "تم بیٹھو۔! میں ابھی آیا۔!"
شہزاد صورت ہی سے برا آدمی معلوم ہوتا تھا۔! آنکھوں سے سفاکی عیاں تھی اور بھاری جبڑے مزید درندہ خصلتی کی طرف اشارہ کرتے تھے۔
عمران کو دیکھ کر وہ مسکراتا ہوا اٹھ گیا تھا۔ مصافحے کے لئے ہاتھ بڑھا کر بولا۔! "کیا میں یہ سمجھ لو کہ تمہیں بھی کسی قسم کی لت لگ گئی ہے۔!"
"گدھے ہمیشہ گدھے ہی رہتے ہیں۔ یعنی انہیں کوئی لت نہیں لگتی۔ خود چلاتے ہیں دولتیاں۔۔۔!" عمران مصافحہ کرتا ہوا بولا۔
"بیٹھو۔۔۔ بیٹھو۔۔۔ بہت دنوں کے بعد ملے ہو۔ اور غالباً یہی کہنے آئے ہو کہ ابھی تک تم نے انہیں پولیس کے حوالے نہیں کیا۔!"
"پوری بات سنے اور سمجھے بغیر زبان کھولنے کا عادی نہیں ہوں۔!"
"اگر بات سمجھ میں نہیں آئی تو پھر کیا میں یہاں تمہاری موجودگی کا مقصد معلوم کر سکتا ہوں۔!"
"تمہارا کیا خیال ہے۔!"