سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
اکتالیسواں صفحہ : 88 - 89
”اب ہاتھ اٹھالو اُوپر۔ یہاں ہمارے علاوہ اور کوئی دیکھنے والا نہیں ہے۔!“پستول والے نے کہا۔
”مجھے کوئی اعتراض نہیں۔!“جوزف ہاتھ اٹھاتا ہوا بولا۔!“ لیکن ایک ہی جگہ کھڑے کھڑے گھنٹوں ہاتھ اٹھائے رہ سکتا ہوں۔!“
”دائین مڑو ۔ ۔ ۔ اور چل پڑو۔ ۔ ۔ ۔!“
”مجھے بات تو پوری کرلینے دو۔میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ ہاتھ اوپر اٹھا کر چلنے میں مجھے دشوری ہوتی ہے۔ اگر گر پڑا تو خواہ مخواہ تمہیں دشواری ہوگی۔“
”چلو۔!“ وہ دھاڑا۔ اور جوزف سال سوا سال کے کسی بچے کے انداز مین لڑکھڑاتا ہوا عمارت کی طرف بڑھنے لگا۔
اور پھر سچ مچ گر ہی پڑا ہوتا۔ اگر پستوٌ ل والے نے آگے بڑھ کر اپنے بائیں ہاتھ سے سہارا نہ دیا ہوتا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ جوزف نے پلٹ کر اس کے پستول پر ہاتھ ڈال دیا۔ لیکن دوسرے ہی لمحے میں اس نے اسٹین گن کا قہقہہ سنا تھا۔ اور اس کے قریب ہی زمین سے دھول کا مرغولہ فضا میں بلند ہونے لگاتھا۔ ۔ ۔ بڑی پھرتی سے ایک طرف ہٹ کر اس نے پھر ہاتھ اٹھا دیئے۔
صدر دروازے کے قریب ایک تاریک ہیولی اسٹین گن سنبھالے کھڑا تھا۔
جوزف ہاتھ اٹھائے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اسے دیکھ رہا تھا۔
”اندر چلو۔ ۔ ۔ ! پستول والے نے اسے دھکا دیا۔وہ چل پڑاتھا۔ لیکن چال میں پہلے ہی کی سی لڑکھڑاہٹ تھی۔!
جوزف کو ایک کمرے میں لایا گیا۔ جہاں تین بڑے کیرو سین لیمپ روشن تھے۔
وہ چند ھیائی ہوئی سی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھنے لگا۔!
اسٹین گن والا ساتھ نہیں آیاتھا۔! جوزف نے ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھایا تھا ۔ جو اسے یہاں تک لائے تھے
”کیا بات ہے ۔!“ پستول والے نے غصیلے لیجے میںکہا۔ ” اپنے ہاتھ اوپر اٹھائے رکھو۔“
پھر اس نے اپنے ساتھی سے کہاتھا کہ وہ جوزف کے ہو لسٹر سے ریوالور نکال لے۔ ۔ ۔
جوزف نے بے چون و چرا اسے ریوالور نکالنے دیا تھا۔ اچھی طرح جانتا تھا کہ وہ آدمی غافل نہ ہوگا۔ جس نے اسٹین گن سے فائر کئے تھے۔
”نہیں۔!“ دفعتاََ وہ بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔!”تم سمجھتے ہو گے کہ شائد میں نے تم سے پستول جھپٹنے کی کوشش کی تھی۔ ایسا ہرگز نہیں ہوا تھا۔!“
”کیا کہنا چاہتے ہو۔ ۔ ۔ ۔!“
”پینے کو کچھ ہو تو لاؤ۔ ۔ ۔ میرے نشہ اکھڑ رہا ہے۔!“
”کیا تم اسے کوئی سوشل وزٹ سمجھتے ہو۔!“ پستول والا ہنس کر بولا۔
”میں سرے سے کچھ سمجھتا ہی نہیں۔! یہ تو اب تم لوگ سمجھاؤ گے کہ اس تکلیف دہی کا مقصد کیا ہے؟“
”وہ ساتوں کہاں ہیں۔!“ کسی نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔جوزف بوکھلا کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ لیکن کوئی دکھائی نہ دیا۔
”کیا مجھ سے کچھ پوچھا جارہا ہے۔!“ جوزف نے راز دارانہ انداز میں پستول والے سے سوال کیا۔
”ہاں ۔ ۔ ۔جواب دو ۔!“ پستول والا بولا۔
”کن ساتوں کے بارے میں پوچھا جا رہا ہے۔ میں کچھ نہیں سمجھا۔!“
”وہ ساتوں طالب علم جن میں ایک لڑکی بھی شامل ہے۔!“
”یقین کرو۔ ۔ ۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا۔!“
”اچھی بات ہے ۔ ۔ تو پھر مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ۔!“ نادیدہ آدمی کی آواز آئی۔!
”لیکن میں خواہ مخواہ مارا جاؤں گا۔ اگر جانتا ہوتا تو نہ بتا کر مجھے جتنی خوشی ہوتی اس کا تم اندازہ بھی نہیں کر سکتے۔!“
”عمران کہاں ہے؟“
”جب میں گھر سے نکلا ہوں اس وقت کہیں گئے ہوئے تھے۔!“
”اس کے دوسرے ٹھکانوں کے پتے دو۔!“
”ان کے ٹھکانے!“جوزف کے لہجے میں حیرت تھی۔ پھر وہ غمناک آواز میں بولا۔“ جب سے باورچی کی شادی ہوئی ہے بالکل ہی بے ٹھکانہ ہوگئے ہیں۔“
”اگر تم نے نہ بتایا تو تمہارے سارے ناخن ایک ایک کر کے کھینچ لئے جائیں گے۔!پ
ابو کشان بھائی اور شکاری بھای اس کو پڑھ لے زینب آپی آپ بھی پڑھ سکتی ہیں شکریہ