سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
بیالیسواں صفحہ : 90 - 91
صفحہ 90-91
“سنو بھائی اگرمجھے علم بھی ہوتا تومقصد معلوم کئے بغیر ہرگز نہ بتاتا۔ ویسے اگر تم کہو تو خود ہی اپنے سارے ناخن کھینچ کر تمہاری ہتھیلی پر رکھ دوں۔“
“تم شائد زندہ درگور ہی ہونا چاہتے ہو۔!“
“میں صرف ان کے دو ٹھکانوں سے واقف ہوں ایک فلیٹ اور دوسرا۔۔۔۔“ جوزف جملہ پورا کئے بغیر خاموش ہوکر کچھ سوچنے لگا۔
“ہاں دوسرا۔!“
“ٹپ ٹاپ نائٹ کلب۔۔۔۔!“
“وہاں رہنے کا انتظام نہیں ہے۔!“
میرا مطلب تھا جس رات گھر پر نہیں ہوتے کلب میں ہوتے ہیں۔ ان کے علاوہ بھی کوئی اور ٹھکانا ہوتو مجھے علم نہیں۔!“
“تمہاری حثیت کیا ہے۔!“
“میں ان کا باڈی گارڈ ہوں۔!“
“اسے باڈی گارڈ رکھنے کی کیا ضرورت ہے۔!“
“نام کا باڈی گارڈ ہوں مسڑ۔ انہوں نے مجھ جیسے نہ جانے کتنے پال رکھے ہیں۔!“
“اتنا پیسہ کہاں سے آتا ہے۔!“
“میں نے کبھی معلوم کرنے کی ضرورت نہیں محسوس کی۔!“
“کیا یہ غلط ہے کہ وہ لوگوں کو بلیک میل کرتا ہے۔ اور اگر وہ اس کے مطالبات پورے نہیں کرتے تو وہ پولیس کو ان کی راہ پر لگا دیتا ہے۔!“
جوزف کے ہونٹوں پر عجیب سی مسکراہٹ نمودار ہوئی تھی۔ اور وہ سر ہلا کر بولا تھا۔“تمہارا خیال اس حد تک درست ہے کہ ہرقسم کے لوگوں کو نہیں بلکہ صرف ان مجرموں کو بلیک میل کرتے ہیں جو بظاہر اچھی سوشل پوزیش کے حامل ہوتے ہیں۔!“
ٹھیک اسی وقت دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز سنائی دی تھی اور ایک بار پھر اسٹین گن کے فائر ہوئے تھے۔ جوزف نے جھر جھری سی لی۔ اس کے دونوں نگران بھی کسی قدر متوحش سے نظر آنے لگے تھے۔ پھر ایسا محسوس ہوا جیسے کچھ لوگ دھمادھم چھت پر کودے ہوں۔
اسٹین گن کے فائروں کی آوازیں پہلے کی نسبت اب کچھ دور کی معلوم ہونے لگی تھیں۔ریولوروں کے بھی فائر سنائی دیئے۔ اور پھر جوزف نے اس آدمی پر چھلانگ لگادی۔ جس نے اس کے ہولسڑ سے ریوالور نکالا تھا۔ ریوالور ابھی تک اس کے ہاتھ ہی میں تھا۔
“خبردار۔۔۔۔خبردار۔۔۔۔!“ پستول والا جوزف کو دھمکیاں دیتا ہوا پیچھے ہٹا لیکن اتنی دیر میں وہ نہ صرف اپنے ریوالور پر قبضہ کرچکا تھا نلکہ دوسرے آدمی کو ڈھال بناتا ہوا پستول والے سے بولا تھا۔ “ُپستول زمین پر ڈال دو۔!“
وہ دشواری میں پڑ گیا۔ جوزف پر فائر کرنے کے لیے اپنے ساتھی ہی کو چھیدنا پڑتا۔
دفعتاً باہر سناٹا چھا گیا۔ نہ اسٹین گن کے فائر سنائی دیئے تھے او ر نہ کسی اور قسم کی آواز ۔۔۔۔!
“کیا تم نے سنا نہیں۔۔۔۔!“ جوزف غرایا اور ریوالور کی نال اپنے شکار کی کنپٹی پر رکھ دی۔
“پھپھ۔۔۔۔۔پھینک دو پستول۔۔۔۔“ شکار ہکلایا۔
بالآخر اس نے پستول فرش پر ڈال دیا تھا اور اپنے دونوں ہاتھ اوپر اٹھادیئے تھے۔
اچانک کوئی اس کمرے میں داخل ہوا۔۔۔۔ اور یہاں کی سچویشن دیکھ کر دروازے کے قریب ہی رک گیا۔
“سنبھل کر مسڑ صفدر۔۔۔۔!“ جوزف نے دانت نکال دیئے۔
صفدر نے سب سے پہلے فرش پر پڑا پوا پستول اٹھایا تھا۔
جوزف نے اپنے شکار کو دھکا دیا اور وہ دوسرے آدمی سے جاٹکرایا۔
“اسٹین گن کس نے چلائی تھی!“ صفدر انہیں گھورتا ہوا بولا۔
“ان میں سے کوئی بھی نہیں تھا۔!“ جوزف بولا۔! “کیا وہ تیسرا آدمی ہاتھ نہیں آیا۔ اسی کے پاس اسٹین گن تھی۔!“
“انہیں لے چلنا ہے!“ صفدر ان دونوں کی طرف ہاتھ اٹھا کر بولا۔!
انہی کی ٹائیوں سے ان کے ہاتھ پشت پر باندھے گئے تھے۔
“کیا تم تنہا ہو مسڑ !“ جوزف نے صفدر سے پوچھا۔
“نہیں۔ چلو نکلو جلدی۔۔۔۔ وہ لوگ تیسرے آدمی کی تلاش میں ہیں۔!“
اس کمرے سے نکل کر وہ صدر دروازے کی طرف بڑھے تھے۔ صفدر نے پہلے باہر نکلنا چاہا تھا