سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
چوالیسواں صفحہ : 94 - 95
”ہم دونوں کے نیچے تھے نا۔ سارا ملبہ تو ہمیں دونوں پر گرا تھا۔!“
”ایک ترچھے گرنے والے شہیتر نے ملبے کا زیادہ حصہ نیچے نہیں آنے دیا تھا ورنہ کوئی بھی نہ بچتا۔!“
”لیکن تم ٹھیک اسی جگہ کیسے آپہنچے تھے۔۔۔۔!“
”فلیٹ کی نگرانی کراتا رہا تھا ۔۔۔۔ نہ صرف فلیٹ کی بلکہ تیری اور سلیمان کی بھی۔!“
”تو گویا تمہیں پہلے ہی سے شبہہ تھا۔۔۔۔!“
”حرکتیں ہی ایسی ہوتی ہیں میری کہ خود ہی اپنا خیال بھی رکھنا پڑتا ہے! بہر حال پہلے وہ اسٹین گن سے فائرنگ کرتا رہا تھا۔ اور پھر تھوڑی دیر بعد دستی بم پھینکنے شروع کر دئیے تھے۔!“
”میں نے اس کی شکل نہیں دیکھی تھی!“ جو زف نے کہا ”صرف آواز سنتا رہا تھا۔ وہ تمہیں بلیک میلر سمجھتا ہے تمہارے ٹھکانے پوچھ رہا تھا۔ کہہ رہا تھا کہ جو مجرم تمہارے ہاتھوں بلیک میل ہونے پر تیار نہیں ہوتے انہیں تم پولیس کے حوالے کر دیتے ہو۔۔۔۔!“
”یہ بڑی اچھی اطلاع ہے میرے لئے۔!“
”انہوں نے اس کا نام شہزور بتایا تھا۔!“
”اور خاصی خوفناک شکل والا ہے۔ کوئی خونخوار قسم کا ہپی معلوم ہوتا ہے ان دونوں کے بیان کے مطابق۔!“
”تو تم بھی اس کی شکل نہیں دیکھ سکے تھے۔"
”نہیں ۔۔۔۔ لیکن شائد جلد ہی دیکھ سکوں۔!“
”محتاط رہنا باس ۔۔۔۔ بے حد خطرناک آدمی معلوم ہوتا ہے۔!“
”فکر نہ کرو۔۔۔۔!“
”اس کا ٹھکانہ بھی معلوم ہوا ان لوگوں سے ۔۔۔۔!“
”نہیں۔۔۔۔ ان کا بیان ہے کہ اس کی اصل قیام گاہ سے کوئی بھی واقف نہیں ہے اور وہ کبھی کبھی ان کے سامنے آتا ہے۔“
”خاصا اسلحہ بھی معلوم ہوتا ہے اس کے پاس۔!“
”ہاں تباہ ہو جانے والی عمارت سے آدھے فرلانگ کے فاصلے پر ایک چھوٹے سے غار میں اسلحے کا ذخیرہ ملا ہے۔۔۔۔!“
جو زف خاموش ہو کر چھت کی طرف دیکھنے لگا۔ اس کی آنکھوں سے گہری فکر مندی ظاہر ہو رہی تھی۔۔۔۔!
”بس اب یہیں پڑا رہ ہفتے بھر تک ۔۔۔۔!“عمران تھوڑی دیر بعد بولا۔
”لیکن باس۔ میری بوتلوں کا کیا ہوگا۔!“
”کیوں شامت آئی ہے ۔۔۔۔ ہسپتال میں پئے گا جہاں ہر وقت ملک الموت کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔!“
”یہ نہیں ہو سکتا باس۔۔۔۔ اس سے تو بہتر یہ ہوتا کہ گردن ہی کی ہڈی ٹوٹ جاتی۔“
”یہاں ناممکن ہے۔۔۔۔ بکواس مت کرو۔“
”خدا کے لئے باس۔!“
”میں کچھ نہیں کر سکتا۔!“ کہتا ہوا عمران کے کمرے سے نکل گیا۔
جوزف کا دماغ چکرانے لگا تھا۔ یہ سوچ کر کہ یہاں کے دوران قیام مین شراب نہیں ملے گی۔! قریباََ آدھے گھنٹے بعد اسے آنکھیں کھولنی پڑی تھی۔ کوئی آیا تھا۔
”آہا ٹم ڈونوں ۔۔۔۔!“ جوزف بھرائی ہوئی آواز میں بولا۔
”بیٹھ جائیں گے۔۔۔۔!“ سلیمان بُرا سا منہ بنا کر بولا۔ سالے کتنی بار تجھے سمجھایا ہے کہ کھانا پکانا سیکھ لے۔ کہیں باورچی لگوا دوں گا ۔۔۔۔ ایسے کاموں میں تو یہی ہوتا ہے۔ کسی دن بڑے صاحب کا بھی شامی کباب بنا پڑا ہوتا۔!“
”چپ رہ کیسی بد فال زبان سے نکالتا ہے۔۔۔۔!“ گلرخ بگڑگئی۔
”چوپ ۔۔۔۔ چوپ ۔۔۔۔ یہاں نہیں لریگا ٹم ڈونوں۔“ جوزف گھگھیایا۔
اتنے میں گلرخ نے قریباََ ایک فٹ لمبی اور چپٹی سی پلاسٹک کی بوتل باسکٹ سے نکالی تھی۔