علامہ دہشتناک : صفحہ 96 ، ص 7 : پینتالیسواں (آخری) صفحہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سیدہ شگفتہ

لائبریرین



صفحہ : 96


ru49j7.jpg



 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
السلام علیکم


یہ صفحہ مقابلے کے کھیل سے متعلق ہے ۔ مقابلے میں شرکت کے لیے اس پوسٹ کو دیکھیں ۔

اگر آپ اس کھیل میں شرکت کرنا چاہیں تو اپنا انفرادی نام / اپنی ٹیم کی نشاندہی یہاں درج کیجیے۔

انفرادی شرکت کی صورت میں درج ذیل مراحل میں سے صرف کسی ایک کا انتخاب آپ کو کرنا ہے۔


  • صفحہ تحریر / ٹائپ کرنا
  • صفحہ کی پہلی پروف ریڈنگ

شکریہ
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 96

اور جوزف سے بولی تھی۔ "چپکے سے بستر کے نیچے رکھ لو۔!"
"یہ کیا ہے۔!"
"تمہاری دو بوتلیں اسی میں الٹ لائی ہوں۔ صاحب کو نہ معلوم ہونے پائے۔۔َ!"
جوزف نے بوتل اسی کے ہاتھ سے جھپٹ کر چادر میں چھپائی تھی اور پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔!
"میں نے سلیمان سے کہا تھا کہ بے موت مر جائے گا کالیا بھیا کوئی تدبیر کرو۔۔۔!"
"ٹم میرا سسٹر ہے ٹم میرا بیٹی ہے۔!" جوزف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے تھے۔
"ابے ۔۔۔ ابے یہ کیا۔!" سلیمان بولا۔
"سلیمان بھائی میرے کو معافی ڈو۔!"
"ابے کاہے کی معافی۔۔۔!"
"میں ٹم پر جوکسا کرٹا۔۔۔!"
"ابے چل سب ٹھیک ہے۔ بہت بڑا ہے دل میرا۔۔۔ لیکن بیٹا ذرا ذرا سی پینا۔۔۔ اور بڑی احتیاط سے ورنہ اگر بھانڈا پھوٹ گیا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔۔۔!"
"ہم چوری چوری پیئے گا۔ ذرا سی پیئے گا۔!"
گلرخ میز پر پھل رکھ رہی تھی۔ جوزف نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔۔۔
تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہا۔۔۔!
 

شمشاد

لائبریرین
صفحہ 7

گیارہ افراد ایک قطار میں دوڑے جا رہے تھے۔ اس طرح کہ ایک کے پیچھے ایک تھا۔ اور یہ لمبی سی قطار کہیں سے بھی ٹیڑھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس قطار میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی۔

سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ اوائل جنوری کی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی!۔

سب سے آگے ایک قد آور جسیم آدمی تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہو گی اور چہرہ ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ البتہ سر پر گھنے اور لمبے لمبے بال لہرا رہے تھے۔ آنکھوں میں بے پناہ توانائی ظاہر ہوتی تھی۔

سڑک سے وہ بائیں جانب والے میدان میں اُتر گئے۔ اور پھر انہوں نے دائرے کی شکل میں دوڑنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ دائرے مین بھی تنظیم اس حد تک برقرار رہی تھی کہ وہ کہیں سے بھی غیر متوازن نہیں معلوم ہوتا تھا۔
"ہالٹ۔!" قد آور آدمی نے زور سے کہا۔
اور وہ رُک گئے۔ لیکن دائرہ بدستور برقرار رہا۔

"ڈیس پریس!" قد آور آدمی کی آواز پھر بلند ہوئی اور وہ سب تتر بتر ہو کر گھاس میں بیٹھ گئے۔

سبھی گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔ قد آور آدمی جہاں تھا وہیں کھڑا رہا اس کی ظاہری حالت سے کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا نہ چہرے پر تھکن کے آثار تھے اور نہ سینہ دھونکتی کی طرح چل رہا تھا۔ قطعی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے بھی دوسروں کی طرح یہ مسافت دوڑتے ہی ہوئے طے کی ہے۔۔۔!
 

زھرا علوی

محفلین
اور جوزف سے بولی تھی۔ "چپکے سے بستر کے نیچے رکھ لو۔!"
"یہ کیا ہے؟"
"تمہاری دو بوتلیں اسی میں الٹ لائی ہوں۔ صاحب کو نہ معلوم ہونے پائے۔!"
جوزف نے بوتل اسی کے ہاتھ سے جھپٹ کر چادر میں چھپائی تھی اور پھر اس کی آنکھیں بھیگنے لگی تھیں۔!
"میں نے سلیمان سے کہا تھا کہ بے موت مر جائے گا کالیا بھیا کوئی تدبیر کرو۔!"
"ٹم میرا سسٹر ہے ٹم میرا بیٹی ہے۔!" جوزف نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ دو موٹے موٹے قطرے اس کی آنکھوں سے ڈھلک گئے تھے۔
"ابے ۔۔۔ ابے یہ کیا۔!" سلیمان بولا۔
"سلیمان بھائی میرے کو معافی ڈو۔!"
"ابے کاہے کی معافی؟"
"میں ٹم پر جوگسا کرٹا۔!"
"ابے چل سب ٹھیک ہے۔ بہت بڑا ہے دل میرا۔۔۔ لیکن بیٹا ذرا ذرا سی پینا۔۔۔ اور بڑی احتیاط سے ورنہ اگر بھانڈا پھوٹ گیا تو ہم کہیں کے نہ رہیں گے۔!"
"ہم چوری چوری پیئے گا۔ ذرا سی پیئے گا۔!"
گلرخ میز پر پھل رکھ رہی تھی۔ جوزف نے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔
تکیہ آنسوؤں سے بھیگتا رہا۔!

پروف ریڈنگ اول مکمل : زہرا
 

زھرا علوی

محفلین
صفحہ 7

گیارہ افراد ایک قطار میں دوڑے جا رہے تھے۔ اس طرح کہ ایک کے پیچھے ایک تھا۔ اور یہ لمبی سی قطار کہیں سے بھی ٹیڑھی دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس قطار میں عورتیں بھی تھیں اور مرد بھی۔

سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا۔ اوائل جنوری کی یخ بستہ ہوا ہڈیوں میں گھستی محسوس ہو رہی تھی!۔

سب سے آگے ایک قد آور جسیم آدمی تھا۔ عمر چالیس اور پچاس کے درمیان رہی ہو گی اور چہرہ ڈاڑھی مونچھوں سے بے نیاز۔ البتہ سر پر گھنے اور لمبے لمبے بال لہرا رہے تھے۔ آنکھوں میں بے پناہ توانائی ظاہر ہوتی تھی۔

سڑک سے وہ بائیں جانب والے میدان میں اُتر گئے۔ اور پھر انہوں نے دائرے کی شکل میں دوڑنا شروع کر دیا تھا۔۔۔ دائرے مین بھی تنظیم اس حد تک برقرار رہی تھی کہ وہ کہیں سے بھی غیر متوازن نہیں معلوم ہوتا تھا۔
"ہالٹ۔!" قد آور آدمی نے زور سے کہا۔
اور وہ رُک گئے۔ لیکن دائرہ بدستور برقرار رہا۔

"ڈیس پریس!" قد آور آدمی کی آواز پھر بلند ہوئی اور وہ سب تتر بتر ہو کر گھاس میں بیٹھ گئے۔

سبھی گہرے گہرے سانس لے رہے تھے۔ قد آور آدمی جہاں تھا وہیں کھڑا رہا اس کی ظاہری حالت سے کوئی تبدیلی نہیں دکھائی دیتی تھی۔ سب کچھ معمول کے مطابق تھا نہ چہرے پر تھکن کے آثار تھے اور نہ سینہ دھونکتی کی طرح چل رہا تھا۔ قطعی نہیں معلوم ہوتا تھا کہ اس نے بھی دوسروں کی طرح یہ مسافت دوڑتے ہی ہوئے طے کی ہے۔۔۔!



کیا یہ بھی علامہ دہشت کا صفحہ ہے؟
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top