سیدہ شگفتہ
لائبریرین
علامہ دہشتناک
تیسرا صفحہ : 12 - 13
م۔م۔مغل نے کہا:
”دوسری بات ! کچا مکان تباہ ہوگیا ، حویلی فنا ہوگئی ، لیکن وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے جنہوں نے حویلی والوں کو عدالت میں پیش ہونے سے بچالیا تھا ، لہذا اس ذہین بچے کو بھی ہمیشہ زندہ رہناچاہئے۔ “
”علامہ دہشت !“ ایک پرجوش جوان نے ہانک لگائی ۔
”زندہ باد“متفقہ نعرہ تھا۔
علامہ دہشت نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔ ”جرائم کی پردہ پوشی کرنے والے قانون کے محافظ اس وقت سے موجود ہیں جب قانون نے جنم لیا تھا اور اب جب تک قانون موجود ہے وہ بھی زندہ رہیں گے۔ لہذا انہیں بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہونا چاہئے ۔جس دن یہ بھی ختم ہوئے تم بھی ختم ہوجاؤ گے۔جرائم کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ قانون کے محافظوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں۔“
وہ خاموش ہوکر ان کی شکلیں دیکھنے لگا تھا۔
دفعتاً ایک لڑکی طرف انگلی اٹھا کر بولا ۔ ” کیا تمہیں اس میں شبہ ہے ۔!“
” نن ۔۔۔۔ نہیں جناب ۔۔۔ لیکن ۔۔۔؟ “
” میں نے تمہارے چہرے پر پڑھ لیا تھا ۔!“
”میری دانست میں جرائم کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے ؟۔“
”میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتی ہو ۔“ علامہ دہشت نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔ ” وہی گھسی پٹی بات کہ کسی قسم کی اقتصادی بدحالی جرائم کو جنم دیتی ہے۔!“
” جج ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ !“
” غلط ہے ! یہ صرف جذبہ انتقام کی کارفرمائی ہے۔ اگر کوئی ایک روٹی چراتاہے تو یہ معاشرے کی اس مصلحت کوشی کے خلاف انتقامی کاروائی ہے جس نے اسے بھوکا رہنے پر مجبور کردیا ۔“
” یہ معاشرے کی مصلحت کوشی سمجھ نہیں آئی جناب۔!“
” یہ مصلحت کوشی ان چندافراد کی ہوس ہے جو وسائل حیات کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اصل مجر م وہی ہیں۔ لیکن صدیوں سے ان کی ذہانت ا ن کے اس بنیادی جرم کی پردہ پوشی کرتی آرہی ہے۔۔۔۔!“
” وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔؟“
” دوسروں کو اپنے سامنے جھکائے رکھنے کے لیے ۔ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ۔ ان کی ذہانت ان کے اس بنیادی جرم کو صدیوں سے خدا کا قانون قرار دیتی چلی آرہی ہے۔“
” میں سمجھ گئی جناب۔۔۔۔!“
” لیکن مطمئن نہیں ہوئیں۔ میں تمہاری آنکھوں میں اب بھی شکوک و شبہات کی جھلکیاں دیکھ رہا ہوں۔“ لڑکی کچھ نہ بولی ۔علامہ اسے گھورتا رہا ۔
” میں دراصل ۔۔۔ یہ کہنا چاہتی تھی جناب کہ مذہب۔!“
” بس ۔۔۔۔! “ علامہ بات کاٹ کر بولا۔”تم پر میری محنت ضائع ہوئی ہے۔!“
لڑکی سختی سے ہونٹ بھینچ کر رہ گئی ۔ اور وہ کہتا رہا۔” تمہاری ذہانت مشتبہ ہے۔۔۔۔!“
”شش شاید۔۔۔مم۔۔۔میں ۔“
”بات آگے نہ بڑھاؤ۔ اس مسئلے پر کئی بار روشنی ڈال چکا ہوں اور تم سب بھی سن لو کہ حویلی والے بڑے مذہبی لوگ تھے۔۔۔۔اور کچے مکان کا وہ فرد بھی بڑا مذہبی تھا جو اپنے متعلقین سمیت جل کر بھسم ہوگیا تھا۔“
کوئی کچھ نہ بولا ۔ وہ لڑکی بھی خاموش ہوگئی تھی۔علامہ نے اس طرح ہونٹ سکوڑرکھے تھے جیسے کوئی کڑوی کسیلی چیز حلق سے اتار گیا ہو۔
”واپسی۔۔۔!“ دفعتا ً اس نے کہا اوروہ ایک بارپھر قطار میں دوڑتے نظر آئے لیکن ترتیب پہلی سی نہیں تھی۔علامہ سب سے پیچھے تھا۔۔۔۔اور پھر وہ ایک نوجوان سمیت دوسروں سے بہت دور رہ گیا ۔ اس نے اپنے آگے والے نوجوان کو پہلے ہی ہدایت کردی تھی کہ وہ اپنی رفتار معمول سے کم رکھے ۔اب وہ دونوں برابر سے دوڑ رہے تھے اور دوسروں سے بہت پیچھے تھے۔
”پیٹر۔!“ علامہ نے نوجوان کا نام لے کر مخاطب کیا ۔
”یس سر۔۔!“ پیٹر بولااور دوڑبرابر جاری رہی۔
”یاسمین کے خیالات سنے تم نے۔!“
”یس سر۔!“
پہلی پروف ریڈنگ :: ماوراءپہلی پروف ریڈنگ :: ماوراء
”دوسری بات۔! کچا مکان تباہ ہوگیا ۔۔۔ حویلی فنا ہوگئی ، لیکن وہ ہمیشہ زندہ رہیں گے جنہوں نے حویلی والوں کو عدالت میں پیش ہونے سے بچالیا تھا۔ لہذا اس ذہین بچے کو بھی ہمیشہ زندہ رہناچاہئے۔ “
”علامہ دہشت !“ ایک پرجوش جوان نے ہانک لگائی ۔
”زندہ باد“متفقہ نعرہ تھا۔
علامہ دہشت نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔ ”جرائم کی پردہ پوشی کرنے والے قانون کے محافظ اس وقت سے موجود ہیں جب قانون نے جنم لیا تھا اور اب جب تک قانون موجود ہے وہ بھی زندہ رہیں گے۔ لہذا انہیں بھی زندہ رہنے کا حق حاصل ہونا چاہئے ۔جس دن یہ بھی ختم ہوئے تم بھی ختم ہوجاؤ گے۔جرائم کا اصل سبب یہی ہے کہ لوگ قانون کے محافظوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہیں۔“
وہ خاموش ہوکر ان کی شکلیں دیکھنے لگا تھا۔
دفعتاً ایک لڑکی طرف انگلی اٹھا کر بولا ۔ ” کیا تمہیں اس میں شبہہ ہے ۔!“
” نن ۔۔۔۔ نہیں جناب ۔۔۔ لیکن ۔۔۔؟ “
” میں نے یہ “لیکن“ تمہارے چہرے پر پڑھ لیا تھا ۔!“
”میری دانست میں جرائم کی صرف یہی ایک وجہ نہیں ہے ؟۔“
”میں سمجھ گیا تم کیا کہنا چاہتی ہو ۔“ علامہ دہشت نے ہاتھ اٹھا کر کہا ۔ ” وہی گھسی پٹی بات کہ کسی قسم کی اقتصادی بدحالی جرائم کو جنم دیتی ہے۔!“
” جج ۔۔۔ جی ہاں۔۔۔ !“
” غلط ہے ! یہ صرف جذبہ انتقام کی کارفرمائی ہے۔ اگر کوئی ایک روٹی چراتاہے تو یہ معاشرے کی اس مصلحت کوشی کے خلاف انتقامی کاروائی ہے جس نے اسے بھوکا رہنے پر مجبور کردیا ۔“
”معاشرے کی مصلحت کوشی سمجھ نہیں آئی جناب۔!“
” یہ مصلحت کوشی ان چندافراد کی ہوس ہے جو وسائل حیات کو اپنے قبضے میں رکھنا چاہتے ہیں۔ اصل مجر م وہی ہیں۔ لیکن صدیوں سے ان کی ذہانت ا ن کے اس بنیادی جرم کی پردہ پوشی کرتی آرہی ہے۔۔۔۔!“
” وہ ایسا کیوں کرتے ہیں۔؟“
” دوسروں کو اپنے سامنے جھکائے رکھنے کے لیے ۔ اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لیے ۔ ان کی ذہانت ان کے اس بنیادی جرم کو صدیوں سے خدا کا قانون قرار دیتی چلی آرہی ہے۔“
” میں سمجھ گئی جناب۔۔۔۔!“
” لیکن مطمئن نہیں ہوئیں۔ میں تمہاری آنکھوں میں اب بھی شبہات کی جھلکیاں دیکھ رہا ہوں۔“ لڑکی کچھ نہ بولی ۔علامہ اسے گھورتا رہا ۔
” میں دراصل ۔۔۔ یہ کہنا چاہتی تھی جناب کہ مذہب۔!“
” بس ۔۔۔۔! “ علامہ بات کاٹ کر بولا۔”تم پر میری محنت ضائع ہوئی ہے۔!“
لڑکی سختی سے ہونٹ بھینچ کر رہ گئی ۔ اور وہ کہتا رہا۔” تمہاری ذہانت مشتبہ ہے۔۔۔۔!“
”شش شاید۔۔۔مم۔۔۔میں ۔“
”بات آگے نہ بڑھاؤ۔ اس مسئلے پر کئی بار روشنی ڈال چکا ہوں اور تم سب بھی سن لو کہ حویلی والے بڑے مذہبی لوگ تھے۔۔۔۔اور کچے مکان کا وہ فرد بھی بڑا مذہبی تھا جو اپنے متعلقین سمیت جل کر بھسم ہوگیا تھا۔“
کوئی کچھ نہ بولا ۔ وہ لڑکی بھی خاموش ہوگئی تھی۔علامہ نے اس طرح ہونٹ سکوڑ رکھے تھے جیسے کوئی کڑوی کسیلی چیز حلق سے اتار گیا ہو۔“
”واپسی۔۔۔!“ دفعتا ً اس نے کہا اوروہ ایک بار پھر قطار میں دوڑتے نظر آئے لیکن ترتیب پہلی سی نہیں تھی۔علامہ سب سے پیچھے تھا۔۔۔۔اور پھر وہ ایک نوجوان سمیت دوسروں سے بہت دور رہ گیا ۔ اس نے اپنے آگے والے نوجوان کو پہلے ہی ہدایت کردی تھی کہ وہ اپنی رفتار معمول سے کم رکھے ۔اب وہ دونوں برابر سے دوڑ رہے تھے اور دوسروں سے بہت پیچھے تھے۔
”پیٹر۔!“ علامہ نے نوجوان کا نام لے کر مخاطب کیا ۔
”یس سر۔۔!“ پیٹر بولااور دوڑ برابر جاری رہی۔
”یاسمین کے خیالات سنے تم نے۔!“
”یس سر۔!“