عالمی تہذیبی کشمکش اور علامہ اقبال
تحریر:
پروفیسر عبدالجبار شاکر
مغرب میں تہذیبِ جدید کا آغاز سولہویں صدی عیسوی میں ہوا۔ دریافت، جستجو، تحقیق اور تلاش کی روایت نے علوم و فنون میں نئے نئے امکانات پیدا کیے۔ علوم میں اس سائنسی فکر نے مسیحیت کے حلقوں میں ایک تشویش کی لہر دوڑا دی۔ مذہب اور علومِ جدیدہ میں ایک کشمکش کا آغاز ہوا جو بالآخر ایک نفرت اور تصادم میں ڈھل گیا۔ علومِ نو اور فنونِ جدیدہ کی روایت کو مستحکم کرنے میں سیکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں نے سُقراط نما قربانیاں پیش کیں۔ مگر اس رویے نے مغرب میں سائنس اور مذہب کے درمیان ایک مستقل خلیج پیدا کردی۔ تہذیبِ مغرب میں سیکولرازم کا رویّہ اسی فکری تصادم کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ مذہب اور سائنس کے درمیان یہ خلیج جدید عالمی تہذیب کے مادّی ارتقا میں ایک اخلاقی اور روحانی افلاس کا پیش خیمہ بن گئی جس سے تہذیبی اور تمدنی اقدار ابھی تک مضمحل ہیں۔
تہذیب جدید نے سائنسی فکر کے فروغ اور ارتقا میں جو کردار ادا کیا اس کے نتیجے میں مغرب ایک صنعتی اور مشینی کلچر میں ڈھل گیا۔ اشیا اور خدمات کا ایک ریلا تھا جس کے لیے نئی نئی منڈیوں کی تلاش ایک ناگزیر ضرورت بن گئی۔ سستے خام مال کی ضرورت نے بھی یورپی اقوام کو افریشیائی ممالک کی طرف پہلے جھانکنے، پھر داخل ہونے اور بالآخر قابض ہونے کے مواقع فراہم کیے۔ یوں تہذیبِ جدید علومِ نو اور فنونِ جدیدہ کی پیغام بر ہونے کے باوجود استبدادی، استحصالی اور استعماری رویوں کی حامل بن گئی۔ سترہویں صدی عیسوی میں مغرب کو مشرق کی سلطنتو ں میں داخل ہونے اور پھر سیاسی غلامی میں تبدیل کرنے کے مواقع ملے۔ اس سیاسی غلامی سے مشرق اقتصادی اور معاشی بحران کا شکار ہوا۔ اس بحران کی تکلیف دہ صورت وہ ذہنی غلامی تھی جس کے نتیجے میں مشرق و مغرب کے درمیان ایک دائمی نفرت کی دیوار تعمیر ہو گئی۔ یوں مشرق و مغرب ایک دوسرے کے حلیف بننے کے بجائے حریف بنتے چلے گئے۔ بدقسمتی یہ ہوئی کہ ایک مدت تک مغرب اور انگریز سے نفرت مغربی علوم سے بھی نفرت میں ڈھل گئی، جس کے دیرپا اور دوررس نتائج کو ہم ابھی تک بھگت رہے ہیں۔ مغرب بھی ایک تاریخی غلط فہمی میں مبتلا ہے کہ مادّی ترقیات اور سائنسی فتوحات کے نتیجے میں جو قوت و سبقت اسے حاصل ہوئی ہے، وہ اب اسے ایک عالمی غلبے کی صورت دینا چاہتا ہے۔ اس مقصد کے لیے اس نے اپنے قریب ترین حریف روس کو ایک عارضی شکست سے دوچار کر دیا ہے اور اب وہ اسلامی تہذیب یا مشرقی تہذیبوں کو نگل کر ایک عالمی تہذیب کا خواب دیکھ رہا ہے جس کی جلد تعبیر کی تمنّا میں دنیا ایک جہنم زار کی صورت میں سلگ رہی ہے۔
مغرب آج جس آفاقی تمدن اور عالمگیر تہذیب کا تمنائی ہے، اس منصب پر کبھی یونانی اور ان کے بعد رومی فائز رہ چکے ہیں مگراب ان کی حیثیت تاریخ کے اوراق پر ثبت ایک مرقع عبرت سے زیادہ کچھ اور نہیں ہے۔
ہم اس موقع پر کلچر اور سویلائزیشن کی اصطلاحات کی تشریح و توضیح میں الجھنا نہیں چاہتے۔ بیسویں صدی کے آغاز سے یہ اصطلاحات کبھی مترادف اور کبھی مخصوص مفاہیم میں استعمال ہوتی چلی آئی ہیں۔ مشرقی علوم کے آداب کو پیش نظر رکھا جائے تو تہذیب کے لیے کلچر اور تمدن کے لیے سویلائزیشن کی اصطلاحات موزوں دکھائی دیتی ہیں۔ یہاں پر ایک تاریخی حقیقت کا بیان ضروری ہے کہ عالمِ اسلام میں تہذیب کے اصول و مبادی پہلے بیان ہوئے اور پھر ان کی روشنی میں تمدنی ارتقا کے مظاہر سامنے آتے چلے گئے۔ مغرب میں معاملہ اس سے قدرے مختلف ہے۔ مغرب میں تمدنی ارتقا پہلے ہوا ہے اور بعد ازاں تہذیبی آداب و رسوم کی تخلیق یا تلاش کا عمل جاری ہوا ہے۔ مشرق و مغرب کی تہذیب و تمدن میں تاخیر اور تقدیم کے اس راز کو سب سے زیادہ جس شخص نے سمجھا ہے وہ علامہ محمد اقبال ہیں، جنہوں نے اس بات کو فلسفیانہ سطح پر تو اپنے الٰہیاتِ اسلامیہ کی تشکیلِ جدید والے خطبات میں پیش کیا ہے مگر سریع الفہم اسلوب میں اپنی شاعری میں بیان کر دیا ہے۔ پیش نظر رہے کہ تمدنی ارتقا کا تعلق ہمیشہ مادّی وسائل سے رہا ہے اور تہذیبی ارتقا کی بنا اخلاقی یا روحانی اقدار ہوتی ہیں۔ علامہ اقبال نے مغرب کے اس تہذیبی افلاس کا اولین مشاہدہ ۱۹۰۵ء سے ۱۹۰۸ء کے دوران میں قیامِ انگلستان میں کیا۔ اس دورانیے میں وہ بہت تھوڑے وقفے کے لیے جرمنی بھی گئے۔ مارچ ۱۹۰۷ء میں انہوں نے اپنی ایک نظم میں پہلی مرتبہ جدید تہذیب پر کڑی تنقید کرتے ہوئے لکھا:
زمانہ آیا ہے بے حجابی کا عام دیدارِ یار ہو گا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہو گا
گزر گیا اب وہ دورِ ساقی کہ چھپ کے پیتے تھے پینے والے
بنے گا سارا جہاں میخانہ، ہر کوئی بادہ خوار ہو گا
دیارِ مغرب کے رہنے والو! خدا کی بستی دُکاں نہیں ہے
کَھرا جسے تم سمجھ رہے ہو، وہ اب زرِ کم عیار ہو گا
تمہاری تہذیب، اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہو گا
علامہ محمد اقبال نے گوئٹے کے ’’مغربی دیوان‘‘ کے سو سال بعد ۱۹۲۳ء میں ’’پیامِ مشرق‘‘ کے عنوان سے اس کا منظوم جواب فارسی زبان میں لکھا مگر اس کا فکر انگیز مقدمہ اردو زبان میں تحریر کیا، اپنے موضوع کی مناسبت سے اس دیباچے کے آخر سے ایک اقتباس پیشِ خدمت ہے:
’’۔۔۔ اقوامِ عالم کا باطنی اضطراب جس کی اہمیت کا صحیح اندازہ ہم محض اس لیے نہیں لگا سکتے کہ خود اس اضطراب سے متاثر ہیں، ایک بہت بڑے روحانی اور تمدنی انقلاب کا پیش خیمہ ہے۔ یورپ کی جنگِ عظیم ایک قیامت تھی جس نے پرانی دنیا کے نظام کو قریباً ہر پہلو سے فنا کر دیا ہے اور اب تہذیب و تمدن کی خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرائیوں میں ایک نیا آدم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے جس کا ایک دھندلا سا خاکہ ہمیں حکیم آئن اسٹائن اور برگساں کی تصانیف میں ملتا ہے۔ یورپ نے اپنے علمی، اخلاقی اور اقتصادی نصب العین کے خوفناک نتائج اپنی آنکھوں سے دیکھ لیے ہیں۔۔۔ اس وقت دنیا میں اور بالخصوص ممالکِ مشرق میں ہر ایسی کوشش جس کا مقصد افراد و اقوام کی نگاہ کو جغرافیائی حدود سے بالاتر کر کے ان میں ایک صحیح اور قوی انسانی سیرت کی تجدید یا تولید ہو، قابلِ احترام ہے۔‘‘
آج کے موضوع کی تفہیم ایک بڑے علمی چیلنج کا درجہ رکھتی ہے۔ عالمی سیاسیات میں مسلسل مدوجزر نے جو ارتعاش پیدا کر رکھا ہے، اس کا ایک پہلو وہ خطرناک جنگی صورت حال ہے جس نے تہذیبوں کی شکست و ریخت میں عالمی سکون کو برباد کر دیا ہے۔ دنیا کی مجموعی آمدنی کا ایک غالب حصہ انسانی قدروں میں احترامِ باہمی کی فضا پیدا کرنے والے اسباب کی دریافت کی نسبت ایسے حربی آلات کی تیاری میں صَرف ہو رہا ہے جن کا مقصود یہ ہے کہ کم سے کم وقت میں زیادہ سے زیادہ انسانوں کو کیسے ختم کیا جا سکتا ہے۔ بااندازِ دیگر یہ بھی عرض کیا جا سکتا ہے کہ عالمی دانش مکالمے اور مذاکرات کے کلچر کی نسبت قوت کی زبان سے مسائل کا حل چاہتی ہے، جو انسانی تاریخ میں نہ پہلے ممکن ہوا اور نہ آج ہی اس کا کوئی امکان ہے۔ علامہ اقبال نے اس مسئلے کی فلسفیانہ توضیح کرتے ہوئے اسلامی الٰہیات کی تشکیلِ جدید میں ہمیں سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ عالمِ اسلام ذہنی طور پر بڑی تیز رفتاری سے مغرب کی طرف جارہا ہے۔ ان کے نزدیک اس سفر میں کوئی برائی بھی نہیں کیونکہ مغربی تہذیب اپنے شعوری پہلو سے اسلامی تہذیب ہی کی ایک ترقی یافتہ صورت ہے۔ ہمیں اگر خوف ہے تو صرف اس بات کا کہ مغربی تہذیب کی جو ظاہری چکاچوند ہے، وہ ہمارے اس شعوری سفر کو اسلام کی صحیح باطنی رسائی سے محروم نہ کر دے۔ جن صدیوں میں ہم سوئے رہے یورپ ان میں بڑے بڑے مسائل پر غور کرتا رہا اور ان مسائل کی نوعیت وہی ہے جن پر اس سے پہلے مسلم سائنس دان اور فلسفی غور و فکر کرتے رہے تھے۔ ازمنۂ وسطیٰ میں جب مسلمانوں کے کلامی مکاتبِ فکر تشکیل پا چکے تھے، اس سے اگلے دور میں انسانی فکر اور تجربے میں بہت قیمتی ترقی ہوئی ہے۔ انسان کا فطرت کو مسخر کرنا اسے ایک نیا ایمان اور غلبے کا نیا احساس عطا کرتا ہے۔ اس کے بعد اگر ایشیا اور افریقا کے مسلمانوں کی نئی نسل اپنے ایمان اور عقیدے کی نئی تعبیر چاہتی ہے، تو اس میں کوئی حیرانی والی بات نہیں ہے۔ اسلام کی حیاتِ نو کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم ایک کھلے ذہن کے ساتھ مغربی افکار کا تجزیہ کریں اور یہ جائزہ لیں کہ جن نتائج پر آج مغرب پہنچا ہے وہ ہماری فکرِ اسلامی کی تشکیلِ جدید میں کتنی معاونت کر سکتے ہیں۔
گزشتہ تین چار صدیوں میں مغرب نے سائنسی انکشافات، طبّی معلومات، تسخیرِ کائنات اور حیرت انگیز ایجادات کے جو انبار لگائے ہیں، وہ بلاشبہ لائقِ تحسین اور قابلِ تقلید ہیں۔ قرآن مجید کا مطالعہ کریں تو متعدد مقامات پر ہمیں اس کائنات کے مختلف اجزا میں غور و فکر کی دعوت دی گئی ہے اور اس کے ساتھ تسخیرِ کائنات کی طرف بھی توجہ دلائی گئی ہے۔ سائنس اور اسلام کہیں بھی متعارض دکھائی نہیں دیتے بلکہ حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس مسلسل آیاتِ وحی کی تصدیق اور توثیق کی طرف بڑھ رہی ہے مگر ہمارے علمائے دین اکثر اس علمی اور تحقیقی پیش رفت سے بے خبر اور غافل ہیں۔ اس علمی اور تحقیقی غفلت نے ہمیں جو نقصان پہنچائے ہیں، اس کے نتائج عالم اسلام میں جگہ جگہ دیکھے جا سکتے ہیں۔ علامہ محمد اقبال کو مغرب کی اس علمی اور سائنسی ترقی سے کوئی اختلاف نہیں مگر وہ اس مادّی ترقی کے جلو میں جو اخلاقی اور روحانی افلاس کے مناظر دیکھتے ہیں، اس پر انہیں بجا طور پر تشویش ہے۔ علومِ وحی سے غفلت یا انکار کے نتیجے میں جو سائنسی یا مادّی ترقی ہو گی وہ نسلِ آدم کے لیے اخلاقی زوال اور روحانی افلاس کے نتائج پیدا کرے گی۔ ان کے مجموعۂ کلام ’’بالِ جبریل‘‘ میں ایک فکر انگیز نظم ’’لینن۔ خدا کے حضور میں‘‘ کے عنوان سے موجود ہے۔ اس کے ایک مقام پر اقبال فرماتے ہیں:
مشرق کے خداوند سفیدانِ فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فِلزّات!
وہ قوم کہ فیضانِ سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات!
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساسِ مروّت کو کچل دیتے ہیں آلات
علم و تحقیق کے سوتے جب وحی سے منقطع ہو جائیں تو پھر اس کے نتیجے میں الحاد پھیلتا ہے۔ مادّی ترقی کے مظاہر ایک سیکولر معاشرے میں نگاہوں کو چکا چوند کر سکتے ہیں مگر اس سے دل کی دنیا برباد اور خوئے آدمیت مجروح ہو جاتی ہے۔ علامہ اقبال نے مغرب کی اس سائنسی ترقی اور ثقافتی انقلاب کا آج سے ایک صدی قبل خود اپنی نگاہوں سے مشاہدہ کیا، اس لیے ان کے تجزیات میں ایک گہرائی اور دردمندی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے ہی مغربی معاشرے کی تصویر کشی کرتے ہوئے وہ مذکورہ نظم میں کہتے ہیں:
یورپ میں بہت روشنئ علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمۂ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں، رونق میں، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں، بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے، حقیقت میں جُوا ہے
سُود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات
یہ علم، یہ حکمت، یہ تدبر، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو، دیتے ہیں تعلیمِ مساوات
بیکاری و عریانی و مئے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کی فتوحات؟
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظرِ روزِ مکافات
(بالِ جبریل)
فکرِ اقبال میں ہمیں مغربی اور اسلامی تہذیب کا تقابل دکھائی نہیں دیتا، کیونکہ تقابل کے لیے ہم جنس اشیا اور حقائق کا ہونا ضروری ہے۔ ان کے ہاں نثری تحریروں میں مغربی علوم کی تخلیقی نمو کا ذکر موجود ہے مگر وہ تہذیبی اور ثقافتی سطح پر مغربی اقوام کے حال اور مستقبل سے مایوس اور نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اسلامی تہذیب بنیادی طور پر دل کی تہذیب ہے جب کہ مغربی تہذیب دماغی فتوحات پر منحصر ہے۔ اوّل الذکر تہذیب روح کی بالیدگی کا تقاضا کرتی ہے جب کہ ثانی الذکر تہذیب میں جسمانی اور بدنی لذات سے آگے دیکھنے کی صلاحیت نہیں ہے۔ اسلامی تہذیب وحی الٰہی کو اپنا سرچشمہ قرار دیتی ہے جب کہ مغربی تہذیب شعورِ انسانی پر انحصار کرتی ہے اور یہی اس کی محدودیت ہے۔ اسلامی فکر معاد پر توجہ دلاتی ہے جبکہ مغربی تہذیب فکر معاش کے جھمیلوں سے آگے نہیں جاتی۔ مشرقی تہذیب باطن کی روشنی پر توجہ دلاتی ہے جب کہ مغربی تہذیب ظاہر کے جمالِ دل فریب میں گھری دکھائی دیتی ہے:
چہروں پر جو سرخی نظر آتی ہے سرِ شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
(بالِ جبریل)
اپنی نظم ’’خضرِ راہ‘‘ کے ایک بند میں اقبال نے مغربی تہذیب اور اس کے جمہوری نظام کے علاوہ اس کے اداروں پر برمحل تنقید کی ہے، جس سے اقبال کے ہاں شعور کی گہری، کارفرمائی، ادراک کی سطح اور تجزیے کی صلاحیت کا اندازہ ہوتا ہے:
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلسِ آئین و اصلاح و رعایات و حقوق
طبِ مغرب میں مزے میٹھے، اثر خواب آوری
گرمئی گفتارِ اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگِ زرگری!
اس سرابِ رنگ و بو کو گلستاں سمجھا ہے تو
آہ! اے ناداں قفس کو آشیاں سمجھا ہے تو
(بانگِ درا)
فکرِ اقبال میں یہ توانائی تو موجود تھی کہ اس نے فرد کی خودی کو بیدار کر کے اس کو ملّی بے خودی کا درس دیا۔ غلام قوموں میں اپنی آزادی کے حصول کی تڑپ پیدا ہوئی اور دیکھتے ہی دیکھتے مراکش سے ملائیشیا تک غلامی کے شکنجے ٹوٹنے لگے اور بالآخر عالمِ اسلام نو آبادیاتی نظام کے استبدادی اور استعماری پنجوں سے آزاد ہو گیا۔ مگر اب نصف صدی سے زائد کا وقت گزر چکا کہ ہم ذہنی اور ثقافتی غلامی کے چنگل سے باہر نہیں نکل سکے۔ ملّتِ اسلامی اپنی فکر و نظر اور نظامِ زندگی کے موافق کسی نظریاتی ریاست کی تشکیل نہ کر سکی اور یہ خواب ہنوز شرمندۂ تعبیر نہ ہو سکا۔ اس ضمن میں مولانا عبیداللہ سندھیؒ کاایک واقعہ لائقِ تذکرہ ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ماسکو میں اسٹالن سے ملنے کا اتفاق ہوا تو اس کے سامنے انہوں نے اسلامی تہذیب کا نقشہ پیش کیا۔ ان کی گفتگو کے خاتمے پر اسٹالن نے پوچھا:
’’دنیا میں کون سی قوم اس نقشے کے مطابق زندگی بسر کر رہی ہے؟‘‘ مولانا نے جواب دیا: ’’فی الوقت تو کوئی قوم بھی اپنی زندگی اس کے مطابق بسر نہیں کر رہی‘‘ تو اسٹالن نے آخر میں کہا: ’’جب کوئی قوم اس پر کاربند ہو جائے گی اور اس کا تجربہ ہو جائے گا تو پھر ہم دیکھیں گے کہ اس سے کیا نتائج برآمد ہوتے ہیں۔‘‘
علامہ اقبالؒ جس دور میں پیدا ہوئے، یہ برصغیر اور عالمِ اسلام میں نو آبادیاتی دور تھا۔ عالمِ اسلام میں مزاحمت کی تحریکیں کسی نہ کسی شکل میں موجود تھیں۔ اس زمانے میں مشرقی اور مغربی تہذیبی اور ثقافتی اقدار میں کشمکش اپنے عروج پر دکھائی دیتی ہے۔ مشرق بالخصوص عالمِ اسلام نہ صرف مغربی استعمار کے خلاف تھا بلکہ ان کی ثقافت اور علوم وفنون سے بھی نفرت کا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔ مسلمانوں میں ایک محدود تعداد مغربی علوم اور انگریزی زبان کے مطالعے کے حق میں تھی، جس کے نتیجے میں مسلمان بالعموم اور برصغیر کے مسلمان بالخصوص جدید تعلیم کے حصول میں بہت پیچھے رہ گئے۔ سائنسی تحقیقات اور علومِ جدیدہ نے ایک نئے عالمی معاشرے کی تشکیل میں بہت تیز رفتار اثرات پیدا کیے، جس کے باعث اسلامی فکر کو ایک نئے چیلنج کا سامنا تھا۔ علامہ محمد اقبال نے ایک طرف تو علومِ جدیدہ کے مطالعے کی پُرزور تائید کی تو دوسری طرف تمدنی مظاہر کی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والی مشکلات کے ازالے کے لیے اجتہاد کی ضرورت پر بھی توجہ دلائی۔ مسلمانوں کے قدیم ادوار میں مختلف مکاتبِ فکر میں اجتہاد کا عمل جاری رہا مگر اب جدید اسلامی ریاستوں کے تقاضوں نے اجتماعی اجتہاد کی ضرورت کو پیدا کیا جس میں علمائے کرام اور دینی علوم کے متخصصین کی اہمیت تو برقرار، مگر اجتہاد کے لیے اجتماعی اداروں کی ضرورت پیدا ہوئی۔ اقبال دورِ جدید میں پارلیمنٹ کو اجتہاد کے لیے ناگزیر قرار دیتے ہیں، مگر اس پارلیمنٹ کی تشکیل کس طرح کی جائے کہ ماہرینِ شریعت جو اجتہاد کی بصیرت رکھتے ہوں، اسمبلیوں تک پہنچ سکیں؟ یہی وجہ ہے کہ اکیسویں صدی عیسوی کی دہلیز پر سانس لیتی ہوئی اسلامی دنیا اپنی کسی ایک پارلیمنٹ میں ایسی فضا تیار نہیں کر سکی۔ البتہ ایسے قانونی اور فقہی ادارے جا بجا تشکیل پا چکے ہیں جو ریاستی دائرے کے اندر یا باہر امورِ اجتہاد کو آگے بڑھانے میں نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
مغربی تہذیب نے اپنی سیاسی ہیئت کے لیے جمہوریت کو اختیار کیا جو بلاشبہ اسلام کے عطا کردہ شورائی نظام سے ماخوذ اور مستفیض دکھائی دیتی ہے مگر وہ اپنے عملی قالب میں وہ نتائج پیدا نہیں کر سکی جو ایک اسلامی ریاست کی بنیادی خصوصیات سے ہم آہنگ ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ علامہ محمد اقبال نے مغربی جمہوریت کے تصور پر شدید تنقید کی ہے:
ہے وہی سازِ کہن، مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیر از نوائے قیصری
دیوِ استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری
(حضرِ راہ۔ بانگ درا)
جلالِ پادشاہی ہو کہ جمہوری تماشا ہو
جدا ہو دیں سیاست سے، تو رہ جاتی ہے چنگیزی!
(بالِ جبریل)
متاعِ معنی بیگانہ ازدوں فطرتاں جوئی؟
زموراں شوخی طبع سلیمانے نمی آید
گریز از طرزِ جمہوری، غلامِ پختہ کارے شو
کہ از مغزِ دو صد خر فکر انسانے نمی آید
(جمہوریت، پیامِ مشرق)
مغربی تہذیب اور جمہوریت لازم و ملزوم ہیں مگر اسلامی ریاستوں کے لیے اقبال ایک ایسی روحانی جمہوریت کے قالب کے تمنائی ہیں جو اسلامی معاشرت کی اقدارِ خیر کی ضمانت فراہم کر سکے۔ مغربی حکومتیں جمہوری مزاج رکھنے کے باوجود دنیا کو متحد کرنے کے بجائے منقسم کر رہی ہیں۔ معاشی سطح پر بھی مغربی تہذیب ایک استحصالی رویہ رکھتی ہے، جس کا مشاہدہ گزشتہ صدیوں سے جاری و ساری ہے۔ یہ کیسی انصاف دشمن اور غیر عادلانہ تہذیب ہے کہ اقوامِ عالم کے پلیٹ فارم پر چند قوتوں کو ویٹو کا حق دیتی ہے جس کے نتیجے میں ظلم اور شقاوت پنپتی دکھائی دیتی ہے۔ اپنی اسی صورتحال کے پیش نظرمغربی تہذیب تیزی کے ساتھ روبہ زوال ہے اور مغرب کے پیرانِ خرابات اس تباہی اور بربادی کے منظر سے پریشان دکھائی دیتے ہیں۔ سرمایہ دارانہ تہذیب کو ان دنوں جس زوال اور شکست کا سامنا ہے، اس کا علاج کسی دانشور کو سجھائی نہیں دیتا۔ امنِ عالم تار تار ہو رہا ہے اور چاروں جانب برق و بارود کا دھواں چھایا ہوا ہے۔ مشہور مغربی ادیب جارج برنارڈشا نے کیا خوب کہا تھا:
’’جو ایک آدمی کو قتل کرے، اسے قاتل کہتے ہیں لیکن جو ہزاروں بے گناہوں کے خون سے ہاتھ رنگ لے، وہ فاتح کہلاتا ہے۔‘‘
بیسویں صدی کے معروف برطانوی مؤرخ نائن بی نے تہذیبوں کے تصادم کے لیے Encounter of Civilization کی اصطلاح استعمال کی تھی۔ دورِ حاضر کے یہودی مفکر برنارڈ لیوس (Bernard Lewis) نے اس Encounter کو Clash کا درجہ دے دیا ہے۔ اسی طرح ہارورڈ یونیورسٹی، امریکا کے پروفیسر سیموئل پی ہٹنگٹن نے اپنی کتاب (Clash of Civilizations) میں تہذیبوں کے اس تصادم میں آویزش کے اس تصور کو جنگی جنون تک بڑھا دیا ہے۔ فرانسس فوکویاما نے تو اپنی کتاب ’’خاتمۂ تاریخ‘‘ (The End Hastory) میں دنیا کے مستقبل کو جس نگاہ سے پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس میں بالآخر اقتدار ایک یک محوری قوت کے پاس چلا جائے گا اور یوں باقی ماندہ دنیا ایک نوآبادی کی شکل اختیار کر لے گی۔
مغربی اقوام کے نزدیک اس تاریخی آویزش کا علاج گلوبلائزیشن یا عالمگیریت میں مضمر ہے۔ وہ اپنی عسکری قوت اور اقتصادی غلبے کے ذریعے سے دنیا کو ایک گلوبل ویلیج دیکھنا چاہتے ہیں جس پر صرف اور صرف ان کی حکمرانی ہو مگر افریشیائی مسلمانوں کی نسلِ نو اپنے ایمان اور عقائد کی نئی تعبیر چاہتی ہے۔ تسخیرِ فطرت اور مظاہرِ کائنات کے مطالعہ کی تلقین ہمارے قرآنی صحیفے کی اہم تعلیم ہے، لہٰذا ہمیں کھلے ذہن کے ساتھ مغرب کی اس ترقی کا جائزہ لینا ہو گا کہ جن نتائج اور سائنسی فتوحات کو ابھی تک مغرب نے حاصل کیا ہے، اس کے اصول کیا ہیں اور ان اصولوں کی اسلامی فکر کے ساتھ کس حد تک موافقت یا مغائرت موجود ہے۔ مغربی طاقتوں نے تسخیرِ کائنات کے اس سفر میں جہاں گیری اور جہاں داری کا درجہ تو حاصل کیا ہے مگر وہ جہاں بانی اور جہاں آرائی کے منصب سے محروم ہیں۔
جہانبانی سے ہے دشوار تر کارِ جہاں بینی
جگر خون ہو تو چشمِ دل میں ہوتی ہے نظر پیدا
(طلوعِ اسلام، بانگِ درا)
اکیسویں صدی عیسوی میں تہذیبوں کی کشمکش نے جو عالمی صورتحال پیدا کر دی ہے، وہ کئی اعتبار سے تشویشناک ہے۔ اقوام کے درمیان مفادات کی جنگ نے ظلم اور استحصال کی قبیح صورتیں اختیار کر لی ہیں۔
علامہ محمد اقبال نے نظم و نثر میں اپنا جو علمی کارنامہ پیش کیا ہے، اس کا مطالعہ تہذیبوں کی اس کشمکش میں امن و سلامتی کا پیغام پیش کرتا ہے۔ وہ مطالعہ احترامِ آدم کی اقدار پر مشتمل اس راستے کی نشاندہی کرتا ہے جس کی منزل اقوامِ عالم میں رنگ و خون اور زبان و جغرافیہ کے امتیازات سے بالاتر ہے۔ آیئے پیغامِ اقبال کو دنیا کے سامنے اس اعتماد کے ساتھ پیش کریں کہ یہ ہمارے موجودہ عالمی مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔
انسانی وحدت اور احترامِ آدم اسلام کے بنیادی عقائد اور اساسی تعلیمات میں شامل ہیں۔ اقبال احترامِ آدمیت کے شاعر ہیں اور اس کے مستقبل کی درخشانی کے لیے کائنات کی مادّی تعبیر کے ساتھ اس کی روحانی تعبیر کو سائنسی بنیادوں پر پیش کرتے ہیں، وہ عالمِ انسانیت کے مستقبل کا ایک واضح وژن اورمشن رکھتے ہیں۔ برصغیر میں ایک اسلامی ریاست کی تشکیل کا تصور انہوں نے اسی مشن کی تکمیل کے لیے پیش کیا تھا کہ انسانیت کی ایمانی، اخلاقی اور روحانی بالیدگی اور نشوونما کے لیے ایک ماڈل وجود میں لایا جائے جو ریاستِ مدینہ کے رنگ اور آہنگ میں ڈھلا ہوا ہو۔ اقبال کے نزدیک یہی وہ نظام اور پیغام ہے جس سے ایک عالمی تہذیب وجود میں آ سکتی ہے:
تفریقِ ملل حکمتِ افرنگ کا مقصود
اسلام کا مقصود فقط ملّتِ آدم
مکّے نے دیا خاکِ جنیوا کو یہ پیغام
جمعیتِ اقوام کہ جمعیتِ آدم؟
(ضربِ کلیم)
مغربی تہذیب انسانی تمدن کے ارتقا کی ایک شکل ہے جو جمہوریت اور سیکولرازم کی آغوش میں لپٹی ہوئی ایمانی اور روحانی اقدار سے نابلد ہے۔ مغرب کو کلیسا کی غیر حکیمانہ سوچ اور نفرت نے روحِ مذہب سے دور کر رکھا ہے یہاں تک کہ یہ انسانی فطرت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ مغرب مادّی ارتقا کے ساتھ اخلاقی نشوونما کے تقاضوں کو ہم آہنگ نہیں رکھ سکا ہے۔ اس کے ہاں مذہب سے انحراف کی وجوہ واضح ہیں۔ اس کا فکری تضاد یہ ہے کہ وہ عالمگیریت پر یقین رکھتا ہے مگر انسانوں اور معاشروں کی سیاسی، سماجی، اقتصادی اور معاشرتی تقسیم پر کاربند ہے۔ مغرب کا موجودہ معاشی، معاشرتی اور اخلاقی بحران اسے بہت جلد تبدیلی کی طرف مائل کرے گا مگر یہ تغیّر مستقیم ہونا چاہیے معکوس نہیں۔ مغربی دانشوروں کو جلد یہ حقیقت معلوم ہو جائے گی کہ موجودہ صورتحال تہذیبوں کا نہیں بلکہ مفادات کا تصادم ہے۔ عالمِ اسلام کے مفکرین کو بھی اس حقیقت کو اور زیادہ واضح کرنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ رب المشرقین بھی ہے اور رب المغربین بھی۔ عالمی تہذیب کا رنگ روپ الٰہامی پیغام سے تیار ہو گا اور یہ کارنامہ وہی انجام دے سکے گا جو Word of God اور Work of God کو ایک امتزاجی تناظر میں دیکھ سکے تاکہ ہم روشنی کی تہذیب کے بجائے تہذیب کی روشنی میں زندہ رہ سکیں۔
بحوالہ: ماہنامہ ’’دعوۃ‘‘ اسلام آباد۔ اپریل ۲۰۰۹ء