علامہ محمد اقبالؒ کو ہم سے بچھڑے 75 برس بیت گئے

علامہ محمد اقبال اور عشق رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم
پروفیسر محمد سرور شفقت
حکیم الامت‘ شاعر مشرق‘ دانائے راز‘ مفکّر پاکستان‘ مردقلندر علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا دل نور مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے روشن‘ زبان مدحت نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے سرشار اور عشق ان کا اوڑھنا بچھونا رہا۔اقبال علیہ الرحمہ نے حبیب کبریا صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جتنا عقل سے سمجھا اس سے کہیں زیادہ عشق و محبت کی عینک سے دیکھا ۔ان کے لئے یہ تصور ہی راحت بخش تھا کہ آقائے نامدار محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ان کے ہادی اور راہنما ہیں۔ مفکّر اسلام‘ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر مستغرق ہوئے کہ وہ ہر بات کو عشق محمدی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حوالے سے دیکھتے تھے اور تو اور وہ ربّ کائنات کو ربّ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم ہی کی حیثیت سے پہچانتے تھے۔ ایک بار علامہ محمد اقبال سے اللہ تعالیٰ کے وجود کے عقلی دلائل کے بارے میں پوچھا گیا۔ علامہ اقبال نے جواب دیا کہ عقلی دلائل تو جتنے باری تعالیٰ کے وجود کے دیئے جا سکتے ہیں اتنے ہی عدم وجود کے بھی.... سوال کرنے والے نے حیران ہو کر پوچھا تو پھر آپ اللہ تعالیٰ کے وجود کے قائل کیونکر ہیں؟

علامہ اقبال نے برجستہ جواب دیا کہ میں تو اللہ کے وجود کا اس وجہ سے قائل ہوں کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا فرمان ہے کہ ”اللہ تعالیٰ موجود ہے۔“ علامہ اقبال نے اپنے اردو اور فارسی کلام کے ذریعے عشق مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلمکے پیغام کو عام کرنے کی سعی فرمائی ہے۔ ان کی ایک ہی خواہش ہے کہ ملت کا ہر فرد ہر وقت جلال و جمال محمدی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو اپنا معیار اور آئیڈیل سمجھے۔

علامہ اقبال کے کلام کے علاوہ ان کے مکتوبات میں بھی ایمانی حرارت‘ دینی حمیت اور مسلمانوں کی اصلاح کا جذبہ نمایاں ہے۔ عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی بعض کیفیات نہایت اثرانگیز ہیں۔ نیازالدین خان کے نام ۲۔مارچ ۷۱۹۱ء کے ایک خط میں علامہ محمد اقبال اپنے قلبی احساسات کا یوں اظہار فرماتے ہیں: ”میں لاہور کے ہجوم میں رہتا ہوں مگر زندگی تنہائی کی بسر کرتا ہوں‘ مشاغل ضروریہ سے فارغ ہوا تو قرآن یا عالم تخیل میں قرون اولیٰ کی سیر‘ مگر خیال کیجئے جس زمانے کا تخیل اس قدر حسین و جمیل و روح افزاء ہے وہ زمانہ خود کیسا ہو گا۔“

۵۰۹۱ءمیں اعلیٰ تعلیم کےلئے یورپ جاتے ہوئے ”ملوجا“ نامی بحری جہاز سے ساحل عدن سے ۲۔دسمبر کو مولوی انشاءاللہ خان مدیر ”ہفت روزہ وطن“ کے نام لکھتے ہیں: ”اب ساحل قریب آتا جارہا ہے اور چند گھنٹوں میں ہمارا جہاز عدن جاپہنچے گا۔ ساحل عرب کے تصور نے جو ذوق و شوق اس وقت پیدا کر دیا ہے اس کی داستان کیا عرض کروں‘ بس دل یہی چاہتا ہے کہ زیارت سے اپنی آنکھوں کو منور کروں۔
اللہ رے خاکِ پاک مدینہ کی آبرو
خورشید بھی گیا تو ادھر سر کے بل گیا

اے عرب کی مقدس سرزمین تجھ کو مبارک ہو! تو ایک پتھر تھی جس کو دنیا کے معماروں نے رد کر دیا تھا مگر ایک یتیم بچے نے خدا جانے تجھ پر کیا فسوں پڑھ دیا کہ موجودہ دنیا کی تہذیب و تمدن کی بنیاد تجھ پر رکھی گئی۔ تیرے ریگستانوں نے ہزاروں مقدس نقش قدم دیکھے ہیں اور تیری کھجوروں کے سائے نے ہزاروں ولیوں اور سلیمانوں کو تمازت آفتاب سے محفوظ رکھا ہے۔ کاش میرے بدکردار جسم کی خاک تیری ریت کے ذروں میں مل کر تیرے بیابانوں میں اڑتی پھرے اور یہی آوارگی میری زندگی کے تاریک دنوں کا کفارہ ہو! کاش میں تیرے صحراﺅں میں لٹ جاﺅں اور دنیا کے تمام سامانوں سے آزاد ہو کر تیری تیز دھوپ میں جلتا ہوا اور پاﺅں کے آبلوں کی پروا نہ کرتا ہوا اس پاک سرزمین میں جا پہنچوں‘ جہاں کی گلیوں میں اذان بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی عاشقانہ آواز گونجتی تھی۔“

علامہ اقبال ۶۱۔اکتوبر۱۱۹۱ءکو لسان العصر اکبر الہ آبادی کے نام ایک خط میں روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت کےلئے اپنی بےتابی کا یوں اظہار فرماتے ہیں۔ ”خواجہ حسن نظامی واپس تشریف لے آئے‘ مجھے بھی ان سے محبت ہے اور ایسے لوگوں کی تلاش میں رہتا ہوں‘ خدا عزّوجل آپ کو اور مجھ کو بھی زیارت روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نصیب کرے۔ مدت سے یہ آرزو دل میں پرورش پارہی ہے۔ دیکھئے کب جوان ہوتی ہے۔“

علامہ اقبال ایک سچے عاشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم تھے۔ حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ عقیدت و محبت کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ اس کا اظہار ان کی شاعری سے تو بخوبی ہو جاتا ہے مگر بےشمار واقعات ایسے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ علامہ اقبال نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ کس قدر محبت رکھتے تھے۔ جب کبھی سرور کائناتصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی آپ کے سامنے آتا تو آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔ فقیر وحید الدین تحریر فرماتے ہیں:”زندگی بھر ڈاکٹر صاحب صرف ایک مرتبہ مجھ سے ناراض ہوئے۔ آپ کو معلوم ہے کہ آنحضرت صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ان کی عقیدت عشق کی حد تک پہنچی ہوئی تھی۔ آنحضرتصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی زبان پر آتا تو ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتی تھیں۔ ایک روز میں نے جرات کر کے پوچھا: ”آپ نے کبھی حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی زیارت بھی کی ہے؟“

یہ سنتے ہی مارے غصے کے ان کا چہرہ سرخ ہو گیا اور ابرو پر بل پڑ گئے۔ پھر کہنے لگے: ”ایسے سوال نہیں کیا کرتے۔“ایک مرتبہ وحید الدین صاحب سے سیرت نبوی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر علامہ مرحوم کی گفتگو ہو رہی تھی۔ حضرت علامہ نے ایک واقعہ خاص انداز میں سنایا کہ ایک معرکہ میں مسلمان سپہ سالار کا گھوڑا زخمی ہو گیا۔ زخموں کی یہ حالت تھی کہ گھوڑے کا میدان کارزار میں کھڑا ہونا دشوار تھا۔ وہ بیٹھا جاتا تھا۔ دوسری طرف کافر یلغار کرتے چلے آرہے تھے۔ اس عالم میں امیر عسکر نے گھوڑے کو مخاطب کر کے کہا: ”اگر تم نے اس موقع پر میرا ساتھ چھوڑ دیا تو اس جہان فانی سے رخصت ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے تمہاری شکایت کروں گا۔“ یہ واقعہ بیان کر کے ڈاکٹر صاحب زاروقطار رونے لگے اور ان کی آنکھوں سے آنسوﺅں کی جھڑی لگ گئی۔
روزگار فقیر جلد دوم مرتبہ سید وحیدالدین میں ہے کہ

”۰۲۹۱ءکے ابتدائی ایام میں شاعر مشرق علامہ اقبال کے نام ایک گمنام خط آیا جس میں تحریر تھا کہ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دربار میں تمہاری ایک خاص جگہ ہے جس کا تم کو علم نہیں۔ اگر تم فلاں وظیفہ پڑھ لیا کرو تو تم کو بھی اس کا علم ہو جائے گا۔ خط میں وظیفہ لکھا تھا مگر علامہ اقبال نے یہ سوچ کر کہ راقم نے اپنا نام نہیں لکھا‘ اس کی طرف توجہ نہ دی اور خط ضائع ہو گیا۔ خط کے تین چار ماہ بعد کشمیر سے ایک پیرزادہ صاحب علامہ اقبال سے ملنے آئے۔ عمر تیس چالیس سال کی تھی‘ بشرے سے شرافت اور چہرے مہرے سے ذہانت ٹپک رہی تھی۔ پیرزادہ صاحب نے علامہ اقبال کو دیکھتے ہی رونا شروع کر دیا۔ آنسوﺅں کی ایسی جھڑی لگی کہ تھمنے میں نہ آتی تھی۔ علامہ اقبال نے یہ سوچ کر کہ یہ شخص شاید مصیبت زدہ اور پریشان حال ہے اور میرے پاس کسی ضرورت سے آیا ہے‘ شفقت آمیز لہجے میں استفسار کیا تو اس نے جواب دیا کہ مجھے کسی مدد کی ضرورت نہیں۔ مجھ پر اللہ عزوجل کا بڑا فضل ہے۔ میرے بزرگوں نے اللہ تعالیٰ کی ملازمت کی اور میں ان کی پنشن کھا رہا ہوں۔ میرے اس بے اختیار رونے کی وجہ خوشی ہے نہ کہ کوئی غم.... ڈاکٹر علامہ اقبال کے مزید استفسار پر اس نے کہا کہ میں سری نگر کے قریب ایک گاﺅں کا رہنے والا ہوں۔ ایک دن عالم کشف میں‘ میں نے حضور رسالت مآب حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا دربار دیکھا۔ جب نماز کے لئے صف کھڑی ہوئی تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اقبال آیا یا نہیں؟ معلوم ہوا کہ نہیں آیا۔ اس پر ایک بزرگ کو بلانے کےلئے بھیجا۔ تھوڑی دیر بعد کیا دیکھتا ہوں کہ ایک نوجوان بزرگ کے ساتھ نمازیوں کی صف میں داخل ہو کر حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے دائیں جانب کھڑا ہو گیا۔ پیرزادہ نے علامہ اقبال سے کہا میں نے آج سے پہلے نہ تو آپ کی شکل دیکھی تھی اور نہ ہی آپ کا نام اور پتہ جانتا تھا۔ کشمیر میں ایک بزرگ مولانا نجم الدین صاحب ہیں، ان کی خدمت میں حاضر ہو کر میں نے یہ ماجرا بیان کیا تو انہوں نے آپ کا نام لے کر آپ کی بہت تعریف کی۔ اگرچہ انہوں نے بھی آپ کو کبھی نہ دیکھا تھا مگر وہ آپ کی تحریروں کے ذریعے آپ کو جانتے تھے۔ اس کے بعد ملنے کا شوق پیدا ہوا اور آپ سے ملاقات کے واسطے کشمیر سے لاہور تک کا سفر کیا۔ آپ کی صورت دیکھتے ہی میری آنکھیں اشکبار ہو گئیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے میرے کشف کی عالم بیداری میں تصدیق ہو گئی کیونکہ جو شکل میں نے عالم کشف میں دیکھی تھی آپ کی شکل و شباہت عین اس کے مطابق ہے۔ سرِموفرق نہیں۔ کشمیری پیرزادہ صاحب اس ملاقات کے بعد چلے گئے۔

اب ڈاکٹر علامہ اقبال کو وہ گمنام خط بہت یاد آیا۔ مضطرب ہو گئے۔ اس میں مرقوم وظیفہ یاد نہ رہا تھا‘ پوری واردات کی تفصیل اپنے والد بزرگوار کو لکھی اور اس امر کا اظہار کیا کہ مجھے شدید ندامت ہو رہی ہے اور روح شدید کرب میں مبتلا ہے کہ میں نے وہ خط کیوں ضائع کر دیا۔ آپ ہی اس کی تلافی کی کوئی صورت بتائیں کیونکہ پیرزادہ صاحب یہ بھی کہتے تھے کہ میں نے آپ کے بارے میں جو کچھ دیکھا ہے وہ آپ کے والدین کی دعاﺅں کا نتیجہ ہے۔ اس لئے آپ یا تو کوئی علاج اور تدبیر بتائیں یا خاص طور پر دعا فرمائیں کہ اللہ تعالیٰ اس گرہ کو کھول دے کیونکہ اگر پیرزادہ صاحب کا کشف درست ہے تو میرے لئے بے خبری اور لاعلمی کی حالت سخت تکلیف دہ ہے۔“

پروفیسر یوسف سلیم چشتی صاحب اپنے مضمون ”اقبا ل اور عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم “ میں رقمطراز ہیں: ”مجھے ۵۲۹۱ءسے ۸۳۹۱ءتک ان کی خدمت میں حاضر ہونے کا موقع ملتا رہا۔ میں ذاتی مشاہدے کی بناء پر کہتا ہوں کہ جب بھی سرکار عالم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی ان کی زبان پر آتا‘ معاً ان کی آنکھیں پُرنَم ہوجاتیں۔ علامہ اقبال عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں اس قدر ڈوبے ہوئے تھے کہ جب بھی عاشقان رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے تو آبدیدہ ہوجاتے۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ ایک دن غازی علم الدین شہید کا ذکر چلا تو علامہ اقبال فرط عقیدت سے اٹھ کر بیٹھ گئے۔ آنکھوں میں آنسو بھر آئے اور کہنے لگے: ”اسی گلاں کردے رہے تے ترکھان دا منڈا بازی لے گیا۔“(یعنی ہم محض باتیں ہی کرتے رہے اور بڑھی کا بیٹا بازی لے گیا)

غازی علم الدین شہید کی شہادت کے واقعہ نے ہر مسلمان کے دل کو متاثر کیا۔ کچھ حضرات ڈاکٹر محمد اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دریافت کیا کہ آیا علم الدین کی موت شہادت ہے یا نہیں؟ ڈاکٹر صاحب نے فرمایا اس کا انحصار نیت پر ہے۔ اگر یہ حقیقت ذہن میں ہو کہ حملہ آور کا اصل مقصد پیغمبر کے لائے ہوئے پیغام کو مجروح اور اس ایمان محکم کو متزلزل کرنا ہے جو اس پیغام رشدوہدایت پر استوار ہے تو یہ صرف انسانی یا پیغمبرانہ وقار کا قتل نہیں بلکہ اس ایمان اور عقیدہ کا قتل بن جاتا ہے۔ اس کوشش یا اقدام کیخلاف ہر مدافعت یقینا صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلئے ہوتی ہے اور وہی اس کا ٹھیک ٹھیک اجر دینے والا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ کہہ کر نہایت رقت انگیز لہجے میں کہا میں تو یہ بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ کوئی شخص میرے پاس آکر کہے کہ تمہارے پیغمبر نے ایک دن میلے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔

غازی علم الدین شہید کی مانند کراچی میں غازی عبدالقیوم نے اپنے عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا مظاہرہ کیا اور ایک آریہ سماج نتھورام کو جہنم رسید کیا۔ عبدالقیوم پر مقدمہ چلا اور انہوں نے قتل کا اعتراف کیا اور عدالت کی طرف سے ان کو سزائے موت کا حکم سنایا گیا۔ فیصلے کیخلاف ہائیکورٹ میں رٹ دائر کی گئی۔ عدالت عالیہ نے بھی سزائے موت کا حکم برقرار رکھا۔ سندھ کے مسلمانوں میں ایک جوش تھا جو روکے نہیں رکتا تھا۔ بالآخر مسلمانوں کا ایک وفد علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوا تاکہ وہ وائسرائے سے سفارش کر کے اس کی جان بچانے کی کوشش کریں۔ جب یہ وفد علامہ اقبال کے پاس پہنچا اور اپنا مدعا بیان کیا تو علامہ اقبال کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد بولے: کیا عبدالقیوم کمزور پڑ گیا ہے؟ ارکان وفد نے بتلایا کہ نہیں وہ تو اعلانیہ کہتا ہے کہ میں نے جنت خرید لی ہے۔ تو علامہ نے جواب دیا کہ پھر میں اس کے اجروثواب کی راہ میں کیسے حائل ہو سکتا ہوں۔ کیا تم چاہتے ہو کہ میں ایسے مسلمانوں کے لئے وائسرائے کی خوشامد کروں جو زندہ رہا تو غازی اور مر گیا تو شہید ہے؟
نظر اللہ پر رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ
قدروقیمت میں ہے خون جن کا حرم سے بڑھ کر

ایک بار پنجاب کے ایک دولت مند رئیس نے قانونی مشورہ کے لئے سر فضل حسین‘ علامہ اقبال اور ایک دو مشہور قانون دان اصحاب کو بلایا اور اپنی شاندار کوٹھی میں ان کو ٹھہرایا۔ رات کو جس وقت ڈاکٹر صاحب آرام کرنے کےلئے اپنے کمرے میں گئے تو ہر طرف آرام و راحت کے سامان نظر آئے۔ اتنے اچھے نرم نرم اور قیمتی بستر پاکر ان کو معاً خیال آیا کہ جس رسول پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نعلینِ پاک کے صدقے ہم کو یہ مرتبہ نصیب ہوا‘ انہوں نے بوریئے پر سو کر زندگی گزاری تھی۔ یہ خیال آنا تھا کہ آنسوﺅں کی جھڑی لگ گئی اور مسلسل رونا شروع کر دیا۔ جب دل کو قرار آیا تو اپنے ملازم کو بلا کر ایک چارپائی غسل خانے میں بچھوائی اور جب تک وہاں مقیم رہے‘ اسی غسل خانہ میں سوتے رہے۔

پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام آتے ہی علامہ اقبال بچوں کی طرح بلک بلک کر رونا شروع کر دیتے تھے اور ان میں سوزوگداز کی ایسی کیفیت پیدا ہو جاتی تھی جس کو بیان کرنا ممکن نہیں۔ نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہیں تو ان کا شعری وجدان جوش مارنے لگتا ہے اور مدحیہ اشعار ابلنے لگتے ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے محبت و عقیدت کے چشمے پھوٹ پڑے ہوں‘ اس سلسلہ میں چند اشعار پیش خدمت ہیں جن سے اقبال کے محبت بھرے جذبات کا قدرے اندازہ ہوتا ہے۔
در دلِ مسلم مقامِ مصطفی است
آبروئے ما زِ نام مصطفی است
بوریا ممنون خواب راحتش
تاجِ کسریٰ زیرِ پائے اُمتش
در شبستانِ حرا خلوت گزید
قوم و آئین و حکومت آفرید

علامہ اقبال کے ہاں روزانہ شام کو محفل سجتی تھی جس میں دوست احباب شرکت کرتے تھے اور علمی و ادبی گفتگو ہوتی تھی۔ ایک دن جب ملاقاتی آپ کے گھر حاضر ہوئے تو علامہ اقبال رو رہے تھے اور ان کی ہچکی بندھ چکی تھی۔ احباب بڑے فکرمند ہوئے اور حقیقت پوچھی تو علامہ اقبال نے فرمایا ابھی ایک نوجوان میرے پاس آیا اور دوران گفتگو بار بار نبی اکرم حضرت محمد مصطفی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کو جناب محمد جناب محمد(صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم) کہتا رہا۔ مجھے یہ غم کھائے جارہا ہے کہ جس قوم کے نوجوانوں کی یہ حالت ہو اس قوم کا مستقبل کیا ہو گا؟

علامہ اقبال کو تصوف سے لگن‘ رومی‘ جامی‘ داتا گنج بخش‘ خواجہ غریب نواز‘ بابا گنج شکر اور نظام الدین اولیا کے افکاروفرمودات سے میسر آئی۔ڈاکٹر این میری شمل رقم طراز ہیں کہ علامہ اقبال حضرت داتا گنج بخش کے عقیدت مندوں میں سے تھے اورصبح کی نماز مسجد داتا دربار میں روحانی سکون اور عرفان کےلئے ادا کرتے تھے۔ پروفیسر مسعود الحسن صاحب کی تصنیف داتا گنج بخش میں پروفیسر صاحب نے یوں لکھا ہے کہ مسلمانوں کےلئے ایک علیحدہ ریاست کا خیال انہیں اسی مسجد میں نماز کی ادائیگی سے حاصل ہوا۔

ایک دفعہ علامہ اقبال حضرت میاں شیر محمد شرقپوری سے ملنے گئے تو میاں شیر محمد شرقپوری نے اپنے احباب سے فرمایا کہ قطب وقت ملنے آرہے ہیں۔ لوگ دیکھ کر حیران ہوئے کہ داڑھی صاف‘ بڑی بڑی مونچھوں والا‘ ترکی ٹوپی پہنے‘ کالی اچکن اور سیاہ جوتی والا یہ شخص کیسے قطب ہو سکتا ہے؟ لیکن باطن کی آنکھ نے جو دیکھا وہ ظاہر کی آنکھ سے مختلف تھا۔ غرضیکہ عرفان نے اقبال کو وجدان سے نوازا۔”اقبال کامل“ کے مصنف لکھتے ہیں کہ حج کی ادائیگی کا خیال آخر عمر میں پیدا ہوا اور روز بروز بڑھتا گیا۔ جب ۲۲۹۱ء میں موتمر اسلامی میں شرکت کےلئے دمشق پہنچے تو سفر حج کا سامان مکمل تھا لیکن دل نے گوارا نہ کیا کہ دربار حبیب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں ضمناً حاضری دی جائے‘ اس لئے اس وقت شوق پورا نہ ہو سکا۔

علامہ اقبال خواجہ حسن نظامی کو ۱۱۔جنوری۸۱۹۱ءکو ایک خط میں لکھتے ہیں:”جن لوگوں کے عقائد و عمل کا ماخذ کتاب و سنت ہے اقبال() ان کے قدموں پر ٹوپی کیا سر رکھنے کو تیار ہے اور ان کی صحبت کے ایک لحظہ کو دنیا کی تمام عزت و آبرو پر ترجیح دیتا ہے۔“

علامہ اقبال نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر ہر وقت درود بھیجنے کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ان کے ایک خط سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ ظاہری علاج کے علاوہ باطنی علاج درود شریف کو سمجھتے تھے۔ روحانی ترقی کے لحاظ سے اقبال ایسے مقام پر فائز تھے کہ جس پر عظیم بزرگان دین فائز ہیں۔

مشہور صحافی سابق ایڈیٹر ”اقدام لاہور“ میاں محمد شفیع(م۔ش) حضرت علامہ اقبال کے لقب ”حکیم الامت“ کے ضمن میں ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:”۷۳۹۱ءمیں گرمیوں کے دن تھے۔ ڈاکٹر عبدالحمید ملک مرحوم (سابق پروفیسر ایڈورڈ میڈیکل کالج لاہور) علامہ اقبال کے پاس تشریف لائے۔ علامہ اقبال نے ان کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی خیریت دریافت کی۔ پھر گفتگو کا دور چلا۔ دفعتاً ڈاکٹر عبدالحمید ملک مرحوم نے سلسلہ کلام کا رخ پھیرتے ہوئے نہایت بے تکلفی سے پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب آپ حکیم الامت کیسے بنے؟ علامہ اقبال نے بلاتوقف فرمایا یہ تو کوئی مشکل نہیں۔ آپ چاہیں تو آپ بھی حکیم الامت بن سکتے ہیں۔ ملک صاحب نے استعجاب سے پوچھا وہ کیسے؟ علامہ اقبال نے فرمایا میں نے گن کر ایک کروڑ مرتبہ درود شریف کا ورد کیا ہے‘ آپ بھی اس نسخہ پر عمل کریں تو آپ بھی حکیم الامت بن سکتے ہیں۔
وہ مقام محمدی کی کیفیات سے آگاہ تھے اور تجلیات روحانی سے مکمل بہرہ ور تھے۔ ان کا سینہ سورج کی طرح روشن تھا۔ ان کی بصیرت مستقبل سے متعلق انتہائی تکمیل یافتہ تھی۔ انہوں نے قرآن کریم پر ہر لحظہ غوروفکر کرنے کا شروع دن سے وظیفہ اپنی زندگی کا جزو بنا لیا تھا۔ وہ اسلامی اخلاق کے صحیح معنوں میں پیکر تھے۔“

مشہور مسلم لیگی لیڈر راجا احسن اختر مرحوم نے علامہ اقبال کے علمی تجربہ کے متعلق ایک دفعہ ازراہِ عقیدت علامہ سے عرض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مشرق و مغرب کے علوم کا جامع بنایا۔ علامہ فرمانے لگے ان علوم نے مجھے چنداں نفع نہیں پہنچایا۔ مجھے نفع تو صرف اس بات نے پہنچایا ہے جو میرے والد گرامی نے بتائی تھی۔ مجھے جستجو ہو گئی کہ اس عظیم راز کو کس طرح معلوم کروں جس نے اقبال کو اقبال بنادیا۔ آخر دل کو مضبوط کر کے عرض کیا کہ وہ بات پوچھنے کی جسارت کر سکتا ہوں؟ علامہ اقبال فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پر صلوٰة و درود۔

مولانا محمد سعید احمد مجددی، گوجرانوالہ نے معروف ماہر امراض قلب ڈاکٹر رﺅف یوسف لاہور کے حوالے سے لکھا ہے کہ علامہ اقبال نے انہیں بتایا کہ آلو مہار شریف کے خواجہ سید محمد امین شاہ نے انہیں روزانہ کثرت سے درود شریف خضری پڑھنے کو کہا تھا۔ میرا معمول ہے کہ روزانہ دس ہزار مرتبہ درود شریف پڑھتا ہوں۔ صلی اللہ علی حبیبہ محمد وآلہ واصحابہ وسلم

آخری عمر میں حکیم الامت علامہ اقبال کو گلے کی تکلیف تھی اور علاج کے سلسلے میں وہ دوبار بھوپال بھی گئے۔ پروفیسر صلاح الدین محمد الیاس برنی (جن کا مجموعہ نعت ”معروضہ“ کے نام سے چھپ چکا ہے اور معرکتہ الآراءکتاب ”قادیانی مذہب کا علمی محاسبہ“ کے مو ¿لف بھی ہیں) کے نام ۳۱۔جون۶۳۹۱ءکے ایک خط میں اقبال لکھتے ہیں:”۳۱۔اپریل کی رات ۳بجے کے قریب (میں اس شب بھوپال میں تھا) میں نے سرسید کو خواب میں دیکھا۔ پوچھتے ہیں تم کب سے بیمار ہو؟ میں نے عرض کیا کہ دو سال سے اوپر مدت گزر گئی۔کہنے لگے حضور رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں عرض کرو! میری آنکھ اسی وقت کھل گئی اور عرضداشت کے چند شعر جو اب طویل ہو گئی ہے‘ میری زبان پر جاری ہو گئے۔ ان شاءاللہ ایک مثنوی فارسی ”پس چہ باید کرد اے اقوام مشرق“ نام کے ساتھ یہ عرض داشت شائع ہو گی۔ ۴۱۔اپریل کی صبح سے میری آواز میں کچھ تبدیلی شروع ہوئی۔ اب پہلے کی نسبت آواز صاف تر ہے اور اس میں وہ رنگ عود کر رہا ہے جو انسانی آواز کا خاصہ ہے۔“

شاعر مشرق علامہ اقبال کی در بارگاہ ِحضور رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یہ عرضداشت ”پس چہ باید کرد“ کے ساتھ شائع ہوئی۔ اس عرضداشت میں علامہ اقبال نے کہا:
چوں بوصیری از تومی خواہی کشود
تا بمن باز آید آں روزے کہ بود
مہر تو بر عاصیاں افزوں تر است
در خطا بخشتی چو مہر مادر است
با پرستاران شب دارم ستیز
باز روغن در چراغ من بریز

۳۱۔جون ۷۳۹۱ء کو سراکبر حیدری مقیم لندن کے نام اپنی تنہا خواہش کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں: (خط بزبان انگریزی کا ترجمہ) ”تنہا خواہش‘ جو ہنوز میرے جی میں خلش پیدا کرتی ہے‘ یہ رہ گئی ہے کہ اگر ممکن ہو سکے تو حج کے لئے مکہ مکرمہ جاﺅں اور وہاں سے اس ہستی کے روضہ انور پر حاضری دوں جس کی ذات ہی سے بے پایاں شغف میرے لئے وجہ تسکین اور سرچشمہ الہام رہا ہے۔ میری جذباتی زندگی کا سانچہ کچھ ایسا واقع ہوا ہے کہ انفرادی شعور کی ابدیت پر مضبوط یقین رکھے بغیر ایک لمحہ بھی زندہ رہنا میرے لئے ممکن نہیں ہو سکا۔ یہ یقین مجھے پیغمبر اسلام صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی سے حاصل ہوا ہے۔ میرا ہر بنِ مُو آپ کی احسان مندی کے جذبات سے لبریز ہے اور میری روح ایک بھرپور اظہار کی طالب ہے جو صرف آپ کے روضہ اقدس پر ہی ممکن ہے۔ اگر خدا نے مجھے توفیق بخشی تو میرا حج اظہار تشکر کی ایک شکل ہو گا۔“

مدینہ اور تاجدارِ مدینہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا نام سن کر اقبال کی آنکھیں بے اختیار نم ہو جاتی تھیں۔ ۷۳۹۱ء میں بہاولپور کے ایک پیر صاحب کے سفر حج کے ذکر سے اپنی محرومی کا احساس کر کے ان کی آنکھیں پرنم ہو جاتی ہیں تو ان کی بہن کہتی ہیں کہ عام صحت کی خرابی کے علاوہ آپ کی آنکھوں میں تکلیف ہے اس لئے آپریشن کے بعد اگلے سال آپ بھی چلے جائیے گا۔ اس پر بڑے دردانگیز اور پرشوق لہجے میں فرمایا: ”آنکھوں کا کیا ہے آخر اندھے بھی تو حج کر ہی آتے ہیں۔“ اتنا کہنے کے بعد آنکھوں سے آنسوﺅں کی لڑیاں جاری ہو گئیں۔

علامہ اقبال مخدوم الملک سید غلام میراں شاہ کے نام ۲۔دسمبر۷۳۹۱ءکے مکتوب میں زیارت روضہ رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سعادت پر پیشگی مبارکباد پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں: ”کاش میں بھی آپ کے ساتھ چل سکتا اور آپ کی صحبت کی برکت سے مستفیض ہوتا لیکن افسوس ہے کہ جدائی کے ایام ابھی کچھ باقی معلوم ہوتے ہیں۔ میں تو اس قابل نہیں ہوں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے روضہ مبارک پر یاد بھی کیا جاسکوں‘ تاہم حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے اس ارشاد سے جرات ہوتی ہے کہ گنہگار میرے لئے ہے۔ امید ہے آپ اس دربار میں پہنچ کر مجھے فراموش نہیں فرمائیں گے۔“

پروفیسر یوسف سلیم چشتی جنوری۸۳۹۱ءکا ایک روح پرور واقعہ لکھتے ہیں: ”ڈاکٹر عبداللہ چغتائی سفر یورپ پر جانے سے پہلے رخصتی ملاقات کے لئے علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میری موجودگی میں انہوں نے چغتائی صاحب سے کہا کہ اگر اللہ عزوجل نے مجھے صحت عطا کر دی تو میں بھی حجاز کا سفر کروں گا۔ بظاہر یہ آرزو پوری ہوتی نظر نہیں آتی مگر وہ چاہے تو کچھ مشکل بھی نہیں ہے۔یہ کہہ کر مرحوم پر ایک کیفیت طاری ہو گئی اور ہم دونوں خاموشی کے ساتھ اس کیفیت کا نظارہ کرتے رہے۔“

کرنل خان محمد سکنہ مٹھ ٹوانہ سرگودھا نہایت خوش پوش‘ لطیف مزاج انسان تھے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ کا اتنا احترام تھا کہ امراء اور انگریزوں کی ضیافت کے موقع پر جہاں چینی کے نفیس ظروف میں کھانے پیش کرتے تو اپنے لئے اسی دسترخوان پر مٹی کا پیالہ استعمال فرماتے۔ بڑے عبادت گزار تھے بلکہ نماز تہجد تو بچپن ہی سے باقاعدگی سے ادا کرتے تھے۔ انہوں نے ایک دفعہ نماز تہجد کے وقت ایک ایمان افروز خواب دیکھا۔ لاہور میں ڈاکٹر عبدالغنی کو یہ ایمان افروز خواب یوں سنایا: ”میں ایک بار نماز تہجد ادا کرنے کے بعد آرام کی خاطر لیٹ گیا اور آنکھ لگ گئی۔ انتہا درجہ کی مبارک سحر تھی کہ ختمی مرسل محبوب کبریا حضرت محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم خواب میں تشریف لائے۔ جمال جہاں آراء کی زیارت نصیب ہوئی اور آپ نے بکمال شفقت فرمایا خان محمد! اقبال کو ہمارا سلام پہنچا دینا۔ چنانچہ نماز فجر ادا کرنے کے بعد میں نے ڈرائیور کو کہا گاڑی باہر نکالو۔ صبح کی خنکی میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے سلام کی مہک دل و جان کو تازگی عطا کر رہی تھی۔“
ان کی مہک نے دل کے غنچے کھلا دیئے ہیں

پیغام مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم لے کر خوشی اور مسرت کے جذبات کے لئے علامہ اقبال کی کوٹھی میکلوڈ روڈ پر پہنچا اور ان کے خادم علی بخش کو کہا کہ اندر جا کر اطلاع کرے۔ علامہ اقبال چادر اوڑھے شبینہ لباس میں باہر آئے۔ تعارف پہلے ہی تھا اس لئے پوچھا ملک صاحب! آج سویرے سویرے ہی تکلیف کی ہے۔ میں نے جواباً کہا یہ بندہ آپ کے لئے وہ تحفہ لایا ہے جس کی حسرت ہمیشہ آپ کے دل میں رہی ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے آپ کو سلام بھیجا ہے۔ میں نے خواب کی ساری کیفیت علامہ اقبال کے آگے بیان کر دی۔ سنتے ہی ان پر رقت طاری ہو گئی۔ ذرا سکون آتا تو پوچھتے حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ارشاد فرمایا ہے۔ اقبال کو ہمارا سلام پہنچا دینا۔ پھر رقت طاری ہو جاتی آخر وفورِ گریہ سے ہچکی بندھ گئی۔ میرا حال بھی عجیب ہو رہا تھا۔ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی محبت و شفقت کی تاثیر قلب و روح میں موجزن تھی اور آنکھیں اشکبار تھیں....

دربار رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم میں علامہ اقبال کو جو مقبولیت حاصل تھی اس کے فیوض اس بندہ عاصی تک بھی پہنچ رہے تھے۔ بڑی دیر کے بعد کہیں جا کر علامہ محمد اقبال کی طبیعت سنبھلی‘ بار بار کہتے ملک صاحب آپ میرے لئے چشمہ خیروبرکت ہیں۔ آپ ایک ایسا نادر تحفہ لائے ہیں جس کی قیمت کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا۔ عرب و عجم کے شہنشاہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے کیا ذرّہ نوازی فرمائی ہے۔ یہ تحفہ میری زندگی کا حاصل ہے۔

عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اقبال کا تصور حیات ہے اور وہ اس کو حاصل کائنات سمجھتے ہیں۔ اقبال کے آخری دور حیات میں عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اتنی والہانہ کیفیت اختیار کر گیا تھا کہ جہاں حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا اسم گرامی زبان پر آیا اور آنکھوں سے اشکوں کی جھڑی لگ جاتی تھی۔ حضور انور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی نگاہ میں رسوا ہونا وہ عذاب جہنم سے زیادہ المناک سمجھتے ہیں۔ انہیں ہر سزا منظور ہے لیکن اس پر راضی نہیں کہ حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے حضور ان کے گناہوں کی فہرست پیش ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور عرض پرداز ہیں کہ روز محشر میرا عذر قبول فرمانا اگر میرے نامہ اعمال کا حساب ناگزیر بھی ہے تو پھر اے میرے مولیٰ اسے نگاہِ محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے پوشیدہ رکھتا۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
گر تو بینی حسابم را ناگزیر
از نگاہِ مصطفیٰ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم پنہاں بگیر

علامہ اقبال نے افغانستان سے واپسی پر قندھار میں حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے خرقہ مبارک کی زیارت کے بعد یہ اشعار کہے جو ان کے عشق کا پتہ دیتے ہیں۔
آشکارا دیدنش اسرائے ماست
در ضمیرش مسجد اقصیٰ ماست

علامہ اقبال ایک سچے مسلمان کی طرح اس خاکِ پاک کو دیکھنے اور عقیدت و الفت سے چومنے کے لئے بے قرار رہے ہیں۔ شوقِ وصال کی شدت بھی ہے اور پاسِ ادب بھی۔ دیکھئے کس والہانہ انداز سے ملتجی ہیں۔
ہوا ہو ایسی کہ ہندوستان سے اے اقبال
اڑاکے مجھ کو غبار رہِ حجاز کرے

اس جگہ ایک لطیف نکتہ پیش کرنا چاہتا ہوں کہ علامہ اقبال نے الہامی طور پر اس شعر کے دوسرے مصرعے میں اپنا سال وفات بیان کر دیا ہے۔ ابجد کے حساب سے اس کے عدد ۸۳۹۱ءبنتے ہیں اور یہی سال اقبال کے انتقال باکمال کا ہے۔

حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ذات سے اقبال کو جو والہانہ محبت اور عشق تھا اس کے متعلق حکیم احمد شجاع بیان کرتے ہیں کہ ایک روز میں علامہ اقبال کے مکان پر پہنچا تو دیکھا کہ آپ بہت زیادہ فکرمند اور بے چین ہیں۔ دریافت کیا تو فرمایا احمد شجاع میں یہ سوچ کر اکثر مضطرب اور پریشان ہو جاتا ہوں کہ کہیں میری عمر رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے زیادہ نہ ہو جائے۔

علامہ اقبال کو یہ بات پسند نہ تھی کہ مرنے کے بعد کفرستان ہند محکوم ملک میں مدفون ہوں۔ لہٰذا ان کی دلی خواہش تھی کہ مدینہ منورہ کی مٹی ان کی مٹی بن جائے نیز علامہ اقبال حضورصلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے درخواست کرتے ہیں کہ مجھے ایسا خوش نصیب بنا دیجیے کہ میری قبر آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی دیوار کے سائے میں بنے تاکہ میرے دلِ بے قرار کو سکون و قرار حاصل ہو اور دنیا والوں سے یہ کہہ سکوں:
با فلک گویم آرامم نگر
دیدہ آغازم انجامم نگر

اگرچہ اس بطل جلیل کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی لیکن یہ بھی حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا صدقہ ہے کہ آپ کو بادشاہی مسجد کی دیوار کے سائے میں جگہ ملی۔ لوگ آج بھی روحانی فیض کے حصول کے لئے ان کے مزار مبارک کا رخ کرتے ہیں اور خوش و خرم واپس لوٹتے ہیں۔ مزار اقبال کا ڈیزائن حیدرآباد کے مشہور ماہر تعمیرات ”زین یار جنگ“ نے بنایا۔ اس کی تعمیر کا آغاز ۶۴۹۱ءمیں ہوا۔ مزار اقبال اندر سے سنگ مرمر اور باہر سے سنگ سرخ کا بنا ہوا ہے۔ مزار کے پتھر راجپوتانہ سے درآمد کئے گئے تھے۔ مزار اقبال کی لوح اور تعویذ حکومت افغانستان نے بھیجے تھے اور مزار کا تعویذ و کتبہ دنیا کے سب سے قیمتی پتھر (Lapislazuli) سے بنایا گیا ہے۔مزار کی چھت کے وسط میں اسم محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کندہ ہے اور چاروں گوشوں میں اقبال کا اپنا نام اس انداز میں ہے کہ ہر ایک نام کی برقی لہر مرکز محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی طرف مائل ہے جس سے یہ اظہار مقصود ہے کہ اقبال نے جس مرکز انوار سے اکتساب نور کیا وہ ذات پاک نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی ہے اور نبی صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی الہامی تعلیمات کا پَرتَو علامہ اقبال کے کلام اور پیغام پر پڑا۔مسلمانانِ پاکستان ہر سال ”یوم اقبال“ منا کر ان کی خدمت میں ہدیہ تبریک پیش کرتے ہیں لیکن ان کے شایانِ شان حقیقی ہدیہ یہی ہے کہ ہم نہ صرف ان کی تعلیمات اور پیغام کو عام کریں بلکہ اپنے اندر عشق رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کا وہی رنگ پیدا کریں جس میں وہ رنگے ہوئے تھے اور جس کی بناءپر وہ ہمارے لئے قابل صد احترام و تکریم ہیں۔

(بشکریہ ماہنامہ ضیائے حرم لاہور)
 
علامہ اقبال کی یہ نظم میری پسندیدہ ترین نظموں میں سے ہے
شمع اور شاعر فروری 1912ء​
شاعر​
دوش می گفتم بہ شمع منزل ویران خویش​
گیسوے تو از پر پروانہ دارد شانہ اے​
درجہاں مثل چراغ لالہ صحراستم​
نے نصیب محفلے نے قسمت کاشانہ اے​
مدتے مانند تو من ہم نفس می سوختم​
در طواف شعلہ ام بالے نہ زد پروانہ اے​
می تپد صد جلوہ در جان امل فرسودم ن​
بر نمی خیزد ازیں محفل دل دیوانہ اے​
از کجا ایں آتش عالم فروز اندوختی​
کرمک بے مایہ را سوز کلیم آموختی​
شمع​
مجھ کو جو موج نفس دیتی ہے پیغام اجل​
لب اسی موج نفس سے ہے نوا پیرا ترا​
میں تو جلتی ہوں کہ ہے مضمر مری فطرت میں سوز​
تو فروزاں ہے کہ پروانوں کو ہو سودا ترا​
گریہ ساماں میں کہ میرے دل میں ہے طوفان اشک​
شبنم افشاں تو کہ بزم گل میں ہو چرچا ترا​
گل بہ دامن ہے مری شب کے لہو سے میری صبح​
ہے ترے امروز سے نا آشنا فردا ترا​
یوں تو روشن ہے مگر سوز دروں رکھتا نہیں​
شعلہ ہے مثل چراغ لالۂ صحرا ترا​
سوچ تو دل میں ، لقب ساقی کا ہے زیبا تجھے؟​
انجمن پیاسی ہے اور پیمانہ بے صہبا ترا!​
اور ہے تیرا شعار ، آئین ملت اور ہے​
زشت روئی سے تری آئینہ ہے رسوا ترا​
کعبہ پہلو میں ہے اور سودائی بت خانہ ہے​
کس قدر شوریدہ سر ہے شوق بے پروا ترا​
قیس پیدا ہوں تری محفل میں یہ ممکن نہیں​
تنگ ہے صحرا ترا ، محمل ہے بے لیلا ترا​
اے در تابندہ ، اے پروردۂ آغوش موج!​
لذت طوفاں سے ہے نا آشنا دریا ترا​
اب نوا پیرا ہے کیا ، گلشن ہوا برہم ترا​
بے محل تیرا ترنم ، نغمہ بے موسم ترا​
تھا جنھیں ذوق تماشا ، وہ تو رخصت ہو گئے​
لے کے اب تو وعدہ دیدار عام آیا تو کیا​
انجمن سے وہ پرانے شعلہ آشام اٹھ گئے​
ساقیا! محفل میں تو آتش بجام آیا تو کیا​
آہ ، جب گلشن کی جمعیت پریشاں ہو چکی​
پھول کو باد بہاری کا پیام آیا تو کیا​
آخر شب دید کے قابل تھی بسمل کی تڑپ​
صبحدم کوئی اگر بالائے بام آیا تو کیا​
بجھ گیا وہ شعلہ جو مقصود ہر پروانہ تھا​
اب کوئی سودائی سوز تمام آیا تو کیا​
پھول بے پروا ہیں ، تو گرم نوا ہو یا نہ ہو​
کارواں بے حس ہے ، آواز درا ہو یا نہ ہو​
شمع محفل ہو کے تو جب سوز سے خالی رہا​
تیرے پروانے بھی اس لذت سے بیگانے رہے​
رشتہ الفت میں جب ان کو پرو سکتا تھا تو​
پھر پریشاں کیوں تری تسبیح کے دانے رہے​
شوق بے پروا گیا ، فکر فلک پیما گیا​
تیری محفل میں نہ دیوانے نہ فرزانے رہے​
وہ جگر سوزی نہیں ، وہ شعلہ آشامی نہیں​
فائدہ پھر کیا جو گرد شمع پروانے رہے​
خیر ، تو ساقی سہی لیکن پلائے گا کسے​
اب نہ وہ مے کش رہے باقی نہ مے خانے رہے​
رو رہی ہے آج اک ٹوٹی ہوئی مینا اسے​
کل تلک گردش میں جس ساقی کے پیمانے رہے​
آج ہیں خاموش وہ دشت جنوں پرور جہاں​
رقص میں لیلی رہی ، لیلی کے دیوانے رہے​
وائے ناکامی! متاع کارواں جاتا رہا​
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا​
جن کے ہنگاموں سے تھے آباد ویرانے کبھی​
شہر ان کے مٹ گئے آبادیاں بن ہو گئیں​
سطوت توحید قائم جن نمازوں سے ہوئی​
وہ نمازیں ہند میں نذر برہمن ہو گئیں​
دہر میں عیش دوام آئیں کی پابندی سے ہے​
موج کو آزادیاں سامان شیون ہو گئیں​
خود تجلی کو تمنا جن کے نظاروں کی تھی​
وہ نگاہیں نا امید نور ایمن ہوگئیں​
اڑتی پھرتی تھیں ہزاروں بلبلیں گلزار میں​
دل میں کیا آئی کہ پابند نشیمن ہو گئیں​
وسعت گردوں میں تھی ان کی تڑپ نظارہ سوز​
بجلیاں آسودۂ دامان خرمن ہوگئیں​
دیدۂ خونبار ہو منت کش گلزار کیوں​
اشک پیہم سے نگاہیں گل بہ دامن ہو گئیں​
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی​
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امید کی​
مژدہ اے پیمانہ بردار خمستان حجاز!​
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش​
نقد خودداری بہائے بادۂ اغیار تھی​
پھر دکاں تیری ہے لبریز صدائے نائو نوش​
ٹوٹنے کو ہے طلسم ماہ سیمایان ہند​
پھر سلیمی کی نظر دیتی ہے پیغام خروش​
پھر یہ غوغا ہے کہ لاساقی شراب خانہ ساز​
دل کے ہنگامے مےء مغرب نے کر ڈالے خموش​
نغمہ پیرا ہو کہ یہ ہنگام خاموشی نہیں​
ہے سحر کا آسماں خورشید سے مینا بدوش​
در غم دیگر بسوز و دیگراں را ہم بسوز​
گفتمت روشن حدیثے گر توانی دار گوش​
کہہ گئے ہیں شاعری جزو یست از پیغمبری​
ہاں سنا دے محفل ملت کو پیغام سروش​
آنکھ کو بیدار کر دے وعدہ دیدار سے​
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے​
رہزن ہمت ہوا ذوق تن آسانی ترا​
بحر تھا صحرا میں تو ، گلشن میں مثل جو ہوا​
اپنی اصلیت پہ قائم تھا تو جمعیت بھی تھی​
چھوڑ کر گل کو پریشاں کاروان بو ہوا​
زندگی قطرے کی سکھلاتی ہے اسرار حیات​
یہ کبھی گوہر ، کبھی شبنم ، کبھی آنسو ہوا​
پھر کہیں سے اس کو پیدا کر ، بڑی دولت ہے یہ​
زندگی کیسی جو دل بیگانۂ پہلو ہوا​
فرد قائم ربط ملت سے ہے ، تنہا کچھ نہیں​
موج ہے دریا میں اور بیرون دریا کچھ نہیں​
پردہ دل میں محبت کو ابھی مستور رکھ​
آبر باقی تری ملت کی جمیعت ہے تھی​
جب یہ جمیعت گئی ، دنیا میں رسوا تو ہوا​
یعنی اپنی مے کو رسوا صورت مینا نہ کر​
خیمہ زن ہو وادی سینا میں مانند کلیم​
شعلہ تحقیق کو غارت گر کاشانہ کر​
شمع کو بھی ہو ذرا معلوم انجام ستم​
صرف تعمیر سحر خاکستر پروانہ کر​
تو اگر خود دار ہے ، منت کش ساقی نہ ہو​
عین دریا میں حباب آسا نگوں پیمانہ کر​
کیفیت باقی پرانے کوہ و صحرا میں نہیں​
ہے جنوں تیرا نیا، پیدا نیا ویرانہ کر​
خاک میں تجھ کو مقدر نے ملایا ہے اگر​
تو عصا افتاد سے پیدا مثال دانہ کر​
ہاں ، اسی شاخ کہن پر پھر بنا لے آشیاں​
اہل گلشن کو شہید نغمہ مستانہ کر​
اس چمن میں پیرو بلبل ہو یا تلمیذ گل​
یا سراپا نالہ بن جا یا نوا پیدا نہ کر​
کیوں چمن میں بے صدا مثل رم شبنم ہے تو​
لب کشا ہو جا ، سرود بربط عالم ہے تو​
آشنا اپنی حقیقت سے ہو اے دہقاں ذرا​
دانہ تو ، کھیتی بھی تو ، باراں بھی تو ، حاصل بھی تو​
آہ ، کس کی جستجو آوارہ رکھتی ہے تجھے​
راہ تو ، رہرو بھی تو، رہبر بھی تو ، منزل بھی تو​
کانپتا ہے دل ترا اندیشۂ طوفاں سے کیا​
ناخدا تو ، بحر تو ، کشتی بھی تو ، ساحل بھی تو​
دیکھ آ کر کوچۂ چاک گریباں میں کبھی​
قیس تو، لیلی بھی تو ، صحرا بھی تو، محمل بھی تو​
وائے نادانی کہ تو محتاج ساقی ہو گیا​
مے بھی تو، مینا بھی تو، ساقی بھی تو، محفل بھی تو​
شعلہ بن کر پھونک دے خاشاک غیر اللہ کو​
خوف باطل کیا کہ ہے غارت گر باطل بھی تو​
بے خبر! تو جوہر آئینۂ ایام ہے​
تو زمانے میں خدا کا آخری پیغام ہے​
اپنی اصلیت سے ہو آگاہ اے غافل کہ تو​
قطرہ ہے ، لیکن مثال بحر بے پایاں بھی ہے​
کیوں گرفتار طلسم ہیچ مقداری ہے تو​
دیکھ تو پوشیدہ تجھ میں شوکت طوفاں بھی ہے​
سینہ ہے تیرا امیں اس کے پیام ناز کا​
جو نظام دہر میں پیدا بھی ہے ، پنہاں بھی ہے​
ہفت کشور جس سے ہو تسخیر بے تیغ و تفنگ​
تو اگر سمجھے تو تیرے پاس وہ ساماں بھی ہے​
اب تلک شاہد ہے جس پر کوہ فاراں کا سکوت​
اے تغافل پیشہ! تجھ کو یاد وہ پیماں بھی ہے ؟​
تو ہی ناداں چند کلیوں پر قناعت کر گیا​
ورنہ گلشن میں علاج تنگی داماں بھی ہے​
دل کی کیفیت ہے پیدا پردۂ تقریر میں​
کسوت مینا میں مے مستور بھی ، عریاں بھی ہے​
پھونک ڈالا ہے مری آتش نوائی نے مجھے​
اورمیری زندگانی کا یہی ساماں بھی ہے​
راز اس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ​
جلوہ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ!​
آسماں ہوگا سحر کے نور سے آئینہ پوش​
اور ظلمت رات کی سیماب پا ہو جائے گی​
اس قدر ہوگی ترنم آفریں باد بہار​
نکہت خوابیدہ غنچے کی نوا ہو جائے گی​
آملیں گے سینہ چاکان چمن سے سینہ چاک​
بزم گل کی ہم نفس باد صبا ہو جائے گی​
شبنم افشانی مری پیدا کرے گی سوز و ساز​
اس چمن کی ہر کلی درد آشنا ہو جائے گی​
دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل​
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی​
پھر دلوں کو یاد آ جائے گا پیغام سجود​
پھر جبیں خاک حرم سے آشنا ہو جائے گی​
نالۂ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور​
خون گلچیں سے کلی رنگیں قبا ہو جائے گی​
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے ، لب پہ آ سکتا نہیں​
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی​
شب گریزاں ہو گی آخر جلوہ خورشید سے​
یہ چمن معمور ہوگا نغمہ توحید سے​
 
میں اورتو

نہ سلیقہ مجھ میں کلیم کا نہ قرینہ تجھ میں خلیل کا​
میں ہلاک جادوئے سامری، تو قتیل شیوئہ آزری​
میں نوائے سوختہ در گلو ، تو پریدہ رنگ، رمیدہ بو​
میں حکایت غم آرزو ، تو حدیث ماتم دلبری​
مرا عیش غم ،مرا شہد سم ، مری بود ہم نفس عدم​
ترا دل حرم، گرو عجم ترا دیں خریدہ کافری​
دم زندگی رم زندگی، غم زندگی سم زندگی​
غم رم نہ کر، سم غم نہ کھا کہ یہی ہے شان قلندری​
تری خاک میں ہے اگر شرر تو خیال فقر و غنا نہ کر​
کہ جہاں میں نان شعیر پر ہے مدار قوت حیدری​
کوئی ایسی طرز طواف تو مجھے اے چراغ حرم بتا!​
کہ ترے پتنگ کو پھر عطا ہو وہی سرشت سمندری​
گلۂ جفائے وفا نما کہ حرم کو اہل حرم سے ہے​
کسی بت کدے میں بیاں کروں تو کہے صنم بھی 'ہری ہری'​
نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی نہ حریف پنجہ فگن نئے​
وہی فطرت اسد اللہی وہی مرحبی، وہی عنتری​
کرم اے شہ عرب و عجم کہ کھڑے ہیں منتظر کرم​
وہ گدا کہ تو نے عطا کیا ہے جنھیں دماغ سکندری​
 
خضرراہ شاعر
ساحل دریا پہ میں اک رات تھا محو نظر​
گوشہ دل میں چھپائے اک جہان اضطراب​
شب سکوت افزا، ہوا آسودہ، دریا نرم سیر​
تھی نظر حیراں کہ یہ دریا ہے یا تصویر آب​
جیسے گہوارے میں سو جاتا ہے طفل شیر خوار​
موج مضطر تھی کہیں گہرائیوں میں مست خواب​
رات کے افسوں سے طائر آشیانوں میں اسیر​
انجم کم ضو گرفتار طلسم ماہتاب​
دیکھتا کیا ہوں کہ وہ پیک جہاں پیما خضر​
جس کی پیری میں ہے مانند سحر رنگ شباب​
کہہ رہا ہے مجھ سے، اے جویائے اسرار ازل!​
چشم دل وا ہو تو ہے تقدیر عالم بے حجاب​
دل میں یہ سن کر بپا ہنگامہ محشر ہوا​
میں شہید جستجو تھا، یوں سخن گستر ہوا​
اے تری چشم جہاں بیں پر وہ طوفاں آشکار​
جن کے ہنگامے ابھی دریا میں سوتے ہیں خموش​
'کشتی مسکین، و 'جان پاک' و 'دیوار یتیم،​
علم موسی بھی ہے تیرے سامنے حیرت فروش​
چھوڑ کر آبادیاں رہتا ہے تو صحرا نورد​
زندگی تیری ہے بے روز و شب و فردا دوش​
زندگی کا راز کیا ہے، سلطنت کیا چیز ہے​
اور یہ سرمایہ و محنت میں ہے کیسا خروش​
ہو رہا ہے ایشیا کا خرقہ دیرینہ چاک​
نوجواں اقوام نو دولت کے ہیں پیرایہ پوش​
گرچہ اسکندر رہا محروم آب زندگی​
فطرت اسکندری اب تک ہے گرم نائونوش​
بیچتا ہے ہاشمی ناموس دین مصطفی​
خاک و خوں میں مل رہا ہے ترکمان سخت کوش​
آگ ہے، اولاد ابراہیم ہے، نمرود ہے​
کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے!​
جواب خضر
صحرا نوردی
کیوں تعجب ہے مری صحرا نوردی پر تجھے​
یہ تگا پوئے دمادم زندگی کی ہے دلیل​
اے رہین خانہ تو نے وہ سماں دیکھا نہیں​
گونجتی ہے جب فضائے دشت میں بانگ رحیل​
ریت کے ٹیلے پہ وہ آہو کا بے پروا خرام​
وہ حضر بے برگ و ساماں، وہ سفر بے سنگ و میل​
وہ نمود اختر سیماب پا ہنگام صبح​
یا نمایاں بام گردوں سے جبین جبرئیل​
وہ سکوت شام صحرا میں غروب آفتاب​
جس سے روشن تر ہوئی چشم جہاں بین خلیل​
اور وہ پانی کے چشمے پر مقام کارواں​
اہل ایماں جس طرح جنت میں گرد سلسبیل​
تازہ ویرانے کی سودائے محبت کو تلاش​
اور آبادی میں تو زنجیری کشت و نخیل​
پختہ تر ہے گردش پہیم سے جام زندگی​
ہے یہی اے بے خبر راز دوام زندگی​
 
نالہ ہے بلبل شوریدہ ترا خام ابھی
اپنے سینے میں اسے اور ذرا تھام ابھی
پختہ ہوتی ہے اگر مصلحت اندیش ہو عقل
عشق ہو مصلحت اندیش تو ہے خام ابھی
بے خطر کود پڑا آتش نمردو میں عشق
عقل ہے محو تماشائے لب بام ابھی
عشق فرمودئہ قاصد سے سبک گام عمل
عقل سمجھی ہی نہیں معنی پیغام ابھی
شیوئہ عشق ہے آزادی و دہر آشوبی
تو ہے زناری بت خانۂ ایام ابھی
عذر پرہیز پہ کہتا ہے بگڑ کر ساقی
ہے ترے دل میں وہی کاوش انجام ابھی
سعی پیہم ہے ترازوئے کم و کیف حیات
تیری میزاں ہے شمار سحر و شام ابھی
ابر نیساں! یہ تنک بخشی شبنم کب تک
مرے کہسار کے لالے ہیں تہی جام ابھی
بادہ گردان عجم وہ ، عربی میری شراب
مرے ساغر سے جھجکتے ہیں مے آشام ابھی
خبر اقبال کی لائی ہے گلستاں سے نسیم
نو گرفتار پھڑکتا ہے تہ دام ابھی
 
گیسوئے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظر شکار کر
عشق بھی ہو حجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر
تو ہے محیط بے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر
میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے گہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو تو مجھے گوہر شاہوار کر
نغمۂ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر
باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے ، اب مرا انتظار کر
روز حساب جب مرا پیش ہو دفتر عمل
آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرمسار کر
 
وہ حرف راز کہ مجھ کو سکھا گیا ہے جنوں
خدا مجھے نفس جبرئیل دے تو کہوں
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فراخی افلاک میں ہے خوار و زبوں
حیات کیا ہے ، خیال و نظر کی مجذوبی
خودی کی موت ہے اندیشہ ہائے گونا گوں
عجب مزا ہے ، مجھے لذت خودی دے کر
وہ چاہتے ہیں کہ میں اپنے آپ میں نہ رہوں
ضمیر پاک و نگاہ بلند و مستی شوق
نہ مال و دولت قاروں ، نہ فکر افلاطوں
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفی سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آرہی ہے دما دم صدائے 'کن فیکوں'
علاج آتش رومی کے سوز میں ہے ترا
تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں
اسی کے فیض سے میری نگاہ ہے روشن
اسی کے فیض سے میرے سبو میں ہے جیحوں
 
تری نگاہ فرومایہ ، ہاتھ ہے کوتاہ
ترا گنہ کہ نخیل بلند کا ہے گناہ
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا
کہاں سے آئے صدا 'لا الہ الا اللہ'
خودی میں گم ہے خدائی ، تلاش کر غافل!
یہی ہے تیرے لیے اب صلاح کار کی راہ
حدیث دل کسی درویش بے گلیم سے پوچھ
خدا کرے تجھے تیرے مقام سے آگاہ
برہنہ سر ہے تو عزم بلند پیدا کر
یہاں فقط سر شاہیں کے واسطے ہے کلاہ
نہ ہے ستارے کی گردش ، نہ بازی افلاک
خودی کی موت ہے تیرا زوال نعمت و جاہ
اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے غم ناک
نہ زندگی ، نہ محبت ، نہ معرفت ، نہ نگاہ!
 
افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر
کرتے ہیں خطاب آخر ، اٹھتے ہیں حجاب آخر
احوال محبت میں کچھ فرق نہیں ایسا
سوز و تب و تاب اول ، سوزو تب و تاب آخر
میں تجھ کو بتاتا ہوں ، تقدیر امم کیا ہے
شمشیر و سناں اول ، طاؤس و رباب آخر
میخانہ یورپ کے دستور نرالے ہیں
لاتے ہیں سرور اول ، دیتے ہیں شراب آخر
کیا دبدبہ نادر ، کیا شوکت تیموری
ہو جاتے ہیں سب دفتر غرق م ے ناب آخر
خلوت کی گھڑی گزری ، جلوت کی گھڑی آئی
چھٹنے کو ہے بجلی سے آغوش سحاب آخر
تھا ضبط بہت مشکل اس سیل معانی کا
کہہ ڈالے قلندر نے اسرار کتاب آخر
 
نہ ہو طغیان مشتاقی تو میں رہتا نہیں باقی
کہ میری زندگی کیا ہے ، یہی طغیان مشتاقی
مجھے فطرت نوا پر پے بہ پے مجبور کرتی ہے
ابھی محفل میں ہے شاید کوئی درد آشنا باقی
وہ آتش آج بھی تیرا نشیمن پھونک سکتی ہے
طلب صادق نہ ہو تیری تو پھر کیا شکوئہ ساقی!
نہ کر افرنگ کا اندازہ اس کی تابناکی سے
کہ بجلی کے چراغوں سے ہے اس جوہر کی براقی
دلوں میں ولولے آفاق گیری کے نہیں اٹھتے
نگاہوں میں اگر پیدا نہ ہو انداز آفاقی
خزاں میں بھی کب آسکتا تھا میں صیاد کی زد میں
مری غماز تھی شاخ نشیمن کی کم اوراقی
الٹ جائیں گی تدبیریں ، بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے ، نہیں میرے تخیل کی یہ خلاقی
 
خودی ہو علم سے محکم تو غیرت جبریل
اگر ہو عشق سے محکم تو صور اسرافیل
عذاب دانش حاضر سے باخبر ہوں میں
کہ میں اس آگ میں ڈالا گیا ہوں مثل خلیل
فریب خوردہ منزل ہے کارواں ورنہ
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
نظر نہیں تو مرے حلقہ سخن میں نہ بیٹھ
کہ نکتہ ہائے خودی ہیں مثال تیغ اصیل
مجھے وہ درس فرنگ آج یاد آتے ہیں
کہاں حضور کی لذت ، کہاں حجاب دلیل!
اندھیری شب ہے ، جدا اپنے قافلے سے ہے تو
ترے لیے ہے مرا شعلہ نوا ، قندیل
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسین ، ابتدا ہے اسمعیل
 
نہ تخت و تاج میں ، نے لشکر و سپاہ میں ہے
جو بات مرد قلندر کی بارگاہ میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں اور مرد حق ہے خلیل
یہ نکتہ وہ ہے کہ پوشیدہ لاالہ میں ہے
وہی جہاں ہے ترا جس کو تو کرے پیدا
یہ سنگ و خشت نہیں ، جو تری نگاہ میں ہے
مہ و ستارہ سے آگے مقام ہے جس کا
وہ مشت خاک ابھی آوارگان راہ میں ہے
خبر ملی ہے خدایان بحر و بر سے مجھے
فرنگ رہ گزر سیل بے پناہ میں ہے
تلاش اس کی فضاؤں میں کر نصیب اپنا
جہان تازہ مری آہ صبح گاہ میں ہے
مرے کدو کو غنیمت سمجھ کہ بادہ ناب
نہ مدرسے میں ہے باقی نہ خانقاہ میں ہے
 
لینن

( خدا کے حضور میں)
اے انفس و آفاق میں پیدا ترے آیات
حق یہ ہے کہ ہے زندہ و پائندہ تری ذات
میں کیسے سمجھتا کہ تو ہے یا کہ نہیں ہے
ہر دم متغیر تھے خرد کے نظریات
محرم نہیں فطرت کے سرود ازلی سے
بینائے کواکب ہو کہ دانائے نباتات
آج آنکھ نے دیکھا تو وہ عالم ہوا ثابت
میں جس کو سمجھتا تھا کلیسا کے خرافات
ہم بند شب و روز میں جکڑے ہوئے بندے
تو خالق اعصار و نگارندہ آنات!
اک بات اگر مجھ کو اجازت ہو تو پوچھوں
حل کر نہ سکے جس کو حکیموں کے مقالات
جب تک میں جیا خیمہ افلاک کے نیچے
کانٹے کی طرح دل میں کھٹکتی رہی یہ بات
گفتار کے اسلوب پہ قابو نہیں رہتا
جب روح کے اندر متلاطم ہوں خیالات
وہ کون سا آدم ہے کہ تو جس کا ہے معبود
وہ آدم خاکی کہ جو ہے زیر سماوات؟
مشرق کے خداوند سفیدان فرنگی
مغرب کے خداوند درخشندہ فلزات
یورپ میں بہت روشنی علم و ہنر ہے
حق یہ ہے کہ بے چشمہ حیواں ہے یہ ظلمات
رعنائی تعمیر میں ، رونق میں ، صفا میں
گرجوں سے کہیں بڑھ کے ہیں بنکوں کی عمارات
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگ مفاجات
یہ علم ، یہ حکمت ، یہ تدبر ، یہ حکومت
پیتے ہیں لہو ، دیتے ہیں تعلیم مساوات
بے کاری و عریانی و مے خواری و افلاس
کیا کم ہیں فرنگی مدنیت کے فتوحات
وہ قوم کہ فیضان سماوی سے ہو محروم
حد اس کے کمالات کی ہے برق و بخارات
ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات
آثار تو کچھ کچھ نظر آتے ہیں کہ آخر
تدبیر کو تقدیر کے شاطر نے کیا مات
میخانے کی بنیاد میں آیا ہے تزلزل
بیٹھے ہیں اسی فکر میں پیران خرابات
چہروں پہ جو سرخی نظر آتی ہے سر شام
یا غازہ ہے یا ساغر و مینا کی کرامات
تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں
ہیں تلخ بہت بندہ مزدور کے اوقات
کب ڈوبے گا سرمایہ پرستی کا سفینہ؟
دنیا ہے تری منتظر روز مکافات
 
جبریل وابلیس

جبریل
ہمدم دیرینہ! کیسا ہے جہان رنگ و بو؟
ابلیس
سوز و ساز و درد و داغ و جستجوے و آرزو
جبریل
ہر گھڑی افلاک پر رہتی ہے تیری گفتگو
کیا نہیں ممکن کہ تیرا چاک دامن ہو رفو؟
ابلیس
آہ اے جبریل! تو واقف نہیں اس راز سے
کر گیا سرمست مجھ کو ٹوٹ کر میرا سبو
اب یہاں میری گزر ممکن نہیں ، ممکن نہیں
کس قدر خاموش ہے یہ عالم بے کاخ و کو!
جس کی نومیدی سے ہو سوز درون کائنات
اس کے حق میں 'تقنطوا' اچھا ہے یا 'لاتقظوا'؟
جبریل
کھو دیے انکار سے تو نے مقامات بلند
چشم یزداں میں فرشتوں کی رہی کیا آبرو!
ابلیس
ہے مری جراءت سے مشت خاک میں ذوق نمو
میرے فتنے جامۂ عقل و خرد کا تاروپو
دیکھتا ہے تو فقط ساحل سے رزم خیر و شر
کون طوفاں کے طمانچے کھا رہا ہے ، میں کہ تو؟
خضر بھی بے دست و پا ، الیاس بھی بے دست و پا
میرے طوفاں یم بہ یم ، دریا بہ دریا ، جو بہ جو
گر کبھی خلوت میسر ہو تو پوچھ اللہ سے
قصۂ آدم کو رنگیں کر گیا کس کا لہو!
میں کھٹکتا ہوں دل یزداں میں کانٹے کی طرح
تو فقط اللہ ھو ، اللہ ھو ، اللہ ھو
 

محمد بلال اعظم

لائبریرین
بہت عمدہ شراکت محمد بلال اعظم بھائی ۔ بہترین دھاگہ تخلیق کیا ہے۔

پر اس تحریر '
علامہ اقبال اور اسباب زوال ملت' کا حسن
اس وجہ سے ضائع ہو رہا ہے کہ تحریر میں کہاں شعر شروع ہوتا ہے کہاں ختم پتہ ہی نہیں چلتا۔ جملے اور مصرعے علیحدہ علیحدہ رہیں تو قارعین کو پڑھنے اور سمجھنے دونوں میں آسانی ہو گی۔ بس ایک نظرِ ثانی پر تحریر درست ہو جائے گی۔ امید کرتا ہوں اس طرف توجہ دیں گے۔

اگر اجازت ہو تو کچھ "فکرِ اقبال" یہ خاکسار بھی پیش کرے؟
بہت شکریہ۔
میں نے اشعار میں اینٹر ڈال دی ہے اور ہائی لائیٹڈ بھی کر دیا ہے۔
اور فکرِ اقبال پہ شئیر کرنے کے لئے اجازت کی کیا ضرورت آن پڑی ویسے؟
کریں جی کریں
 

تسنیم کوثر

محفلین
ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی نظریات

ڈاکٹر اقبالؔ (۱۸۷۶ئ/۱۹۳۸ئ)عالمِ اسلام کے عالی دماغ مفکر،فلسفی اور دانش ور شاعر و ادیب گزرے ہیں۔ آپ نے اُمتِ مسلمہ کا ذہن اپنی شاعری کے حوالے سے قرآن کی طرف موڑنے کی سعیِ بلیغ فرمائی ہے۔اقبالؔ دلِ دردمند رکھتے تھے ،مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کے لیے ہمیشہ کوشاں رہا کرتے تھے۔وہ ایک ماہرِ تعلیم بھی تھے ان کے تعلیمی افکار و نظریات بہت بلند و بالا ہیں ۔پیشِ نظر تحریرمیں ایک ماہرِ تعلیم کی حیثیت سے ڈاکٹر اقبالؔ کے تعلیمی نظریات کا مختصر جائزہ مقصود ہے۔​
سائنس اور تیکنالوجی جیسے علومِ جدیدہ کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ یہ علوم و فنون اہلِ یورپ کے ایجاد کردہ ہیں۔ جب کہ حقیقتاً یہ مسلمانوں ہی کا ورثہ ہیں ان علوم کو اہلِ اسلام نے نہ صرف ایجاد کیے بلکہ اس حد تک پہنچادیا کہ اس سے آگے جانا آج کے اس ترقی یافتہ دور میں بھی مشکل ہے اس حقیقت کواقبالؔ کی زبانی سنیے ؎​
حکمتِ اشیا فرنگی زاد نیست​
اصلِ او جز لذتِ ایجاد نیست​
نیک گر بینی مسلماں زادہ است​
ایں گہرزدستِ ما افتادہ است​
ایں پری از شیشۂ اسلافِ ماست​
باز صیدش کن کہ ازقافِ ماست​
(مثنوی مسافر)​
’’یہ حکمت ِ شیا درحقیقت فرنگیوں کی ایجاد کردہ نہیں۔ اس کی اصل تو انسانی سرشت ہے اگر تعصب سے ہٹ کر دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ یہ گوہرِ آب دار مسلمانوں کے ہاتھوں سے ہی گرا ہے۔ حکمت کے یہ علوم تو ہمارے علمی کوہِ قاف کی پری ہیں اس لیے ہم کو حق پہنچتا ہے کہ ان کو دوبارہ حاصل کریں۔‘‘​
چوں کہ جدید علوم و فنون اقبا ل ؔکے نزدیک مسلمان اسلاف کا ترکہ اور میراث ہیں اس لیے موجودہ دور کے مسلمانوں کو ان علوم کی تحصیل کرنا ضروری ہے ۔ اقبالؔ کا ترغیبی انداز خاطر نشیٖن کریں ؎​
نائبِ حق در جہاں آدم شود​
بر عناصر جمازہ را ما ہارکن​
’’انسان دنیا میں اسی وقت نائبِ حق بنتا ہے جب کہ عناصرِ قدرت پر اس کاحکم جاری ہو۔‘‘​
خویش را بر پشت بادا سوار کن​
یعنی جمازہ را ما ہار کن​
’’اے مسلمان تو ہوا کی پشت پر سواری کر اس تیز رفتار اونٹ کی نکیل تیرے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔‘‘​
از شعاعش دیدہ کن نا دیدہ را​
دانما اسرارِ نا فہمیدہ را​
’’اے نوجوان مسلمان ! توفضائے آسمان کی ایک حقیر ذرۂ روشنی سے چشمِ بینا کو منور کردے جگمگاتے خورشید کی شعاعوں کو گرفتار کر۔‘‘​
جستجو را محکم از تدبیر کن​
انفس و آفاق را تسخیر کن​
’’اپنی جدو جہد کو تدبر سے مستحکم بنا۔انفس و آفاق کو مسخر کر۔‘‘​
تو کہ مقصودِ خطابِ اُنظری​
پس چرا ایں راہ چوں کوراں بری​
’’اے مسلمان!توہی خطابِ الٰہی افلا ینظرون الی الابلِ کیفَ خُلِقت کا مخاطب ہے تجھے تو اشیاے کائنات کی حقیقت و ماہیت پر غور وفکر کی دعوت دی گئی ہے تو پھر کیوں اس راہ میں غور نہیں کرتا۔‘‘​
آں کہ بر اشیا کمند انداخت است​
مرکب از برق و حرارت ساخت است​
’’ذرا غور سے سن!جس نے اشیائے کائنات پر کمند ڈالی۔ وہی عناصرِ قدرت برق و باد کا حکمراں ہے وہ ان اشیا کا راکب ہے اور وہ اس کا مرکب۔‘‘​
علمِ اشیا اعتبارِ آدم است​
حکمتِ اشیا حصارِ آدم است​
(رموزِ بے خودی)​
’’حقیقت کا علم ہی حضرت آدم علیہ السلام کی برتری کاسبب ہے۔ اگر انسان اشیاکے رموز و اسرار سے آگاہی حاصل کرلے تو یہی اشیا اس کے لیے امن کاحصار بن جاتی ہیں۔‘‘​
ان خیالات و افکار کا اظہار کرنے کے باوجوداقبالؔ نے جدید تعلیم کے نقصان دہ اثرات پر سخت تنقید بھی کی ہے ۔ اقبال ؔکی نگاہ میں جدید تعلیم کا ایک نقص یہ ہے کہ وہ نوجوانوں کو بے ادب اور بد تہذیب بنا رہی ہے ۔جدیدتعلیم یافتہ نوجوانوں کی ان بد تمیزیوں کو دیکھ کر اقبالؔ کا دل کڑھتا ہے اور وہ موجودہ​
تعلیم و تربیت​
سے بہت زیادہ پشیمان ہوجاتے ہیں ؎​
نوجوانے را چوں بینم بے ادب​
روزِ من تاریک گردد چوں شب​
تاب و تب در سینہ افزاید مرا​
یادِ عہدِ مصطفی آید مرا​
از زمانِ خود پشیماں می شوم​
در قرونِ رفتہ پنہاں می شوم​
اقبالؔ اس بات کا برملا اظہار کرتے ہیں کہ جدید تعلیم نے ملّتِ اسلامیہ کے نوجوانوں کو حق و صداقت بیان کرنے سے بھی روک دیا ہے ۔آج کا نوجوان سچائی کے اظہار سے کوسوں دور ہوتا جارہا ہے ؎​
گلا توگھونٹ دیا اہلِ مدرسہ نے ترا​
کہاں سے آئے صدا لاالٰہ الّا اللہ​
جدیدتعلیم نے نوجوانوں کے قلوب واذہان سے ایمان و یقین کی دولت نکال لی ہے اور وہ ناامیدی و مایوسی کے باعث تاریکیوں میں در بدر بھٹک رہے ہیں ؎​
جواناں تشنہ لب خالی ایاغ​
شیشہ رُوٗ ، تاریک جاں ، روشن دماغ​
کم نگاہے بے یقیں و ناامید​
چشم شاں اندر جواں چیزے ندید​
(جاوید نامہ)​
اقبالؔکے نزدیک جدید تعلیم نے نوجوانوں کو احساسِ کمتری میں مبتلا کردیا ہے ۔ حالانکہ اقبالؔکا نوجوان شاہین زادہ ہے۔ لیکن اب یہ راہ و رسمِ شاہبازی سے بے خبر اور عقابی روح سے ناآشنا ہوگیا ہے تو آخر کیوں؟اور یہ شاہین زادہ کرگس بنا تو کیوں ؟ اقبالؔاس کا سبب تلاش کرتے ہیں ؎​
وہ فریب خوردہ شاہین جو پلا ہو کرگسوں میں​
اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہبازی؟​
اقبالؔ کے نزدیک اس کا سبب جدید تعلیم کے ذریعہ مادّیت کا فروغ و ابلاغ ہے۔وہ جدید تعلیم میں اساتذہ کے منفی کردار کا تذکرہ کتنے تاسُّف بھرے لب و لہجے میںکرتے ہیں ۔ اسے خاطرنشین کریں ؎​
شکایت ہے مجھے یارب خداوندانِ مکتب سے​
سبق شاہین بچوں کو دے رہے ہیں خاک بازی کا​
جدید تعلیم اور اس کے متعلقات نے مسلم نوجوانوں کو انگریزوں کی غلامانہ ذہنیت میں اس طرح جکڑ کر رکھ دیا ہے کہ اس کا ظاہری وجود درحقیقت صرف قالب بن کررہ گیا ہے جو قلبِ گداختہ سے خالی ہے اور جامعات کی اس تعلیم نے نوجوانوں کو مردہ لاش میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے ؎​
گرچہ مکتب کا جواں زندہ نظر آتا ہے​
مردہ ہے مانگ کے لایا ہے فرنگی سے نَفَس​
جدید تعلیم کے مقاصد میں کہا گیا تھا کہ اس سے آراستہ ہوکر تعلیم یافتہ طبقہ معاش کا ذریعہ بآسانی پیدا کر لے گا اقبالؔکی نظر میں یہ مقصد انگریزوں کی غلامی کو اور زیادہ مضبوط اور دیرپا کرنے کا سبب ہوگا ؎​
وہ علم نہیں زہر ہے احرار کے حق میں​
جس علم کا حاصل ہو جہاں میں دو کفِ جَو​
جدیدتعلیم کی ’’برکات‘‘ نے ’’جان‘‘ بھی ’’گردِ غیر‘‘ اور’’ دل‘‘ بھی ’’گردِ غیر‘‘ کی کیفیت پیدا کردی۔ اقبالؔ یہ دیکھ کر تڑپ اٹھے ؎​
بہ طفلِ مکتبِ ما ایں دعا گفت​
پَے نانے بہ بندِ کس می افتاد​
بتایا گیا ہے کہ جدید تعلیم سے روشن خیالی اور آزادیِ ضمیر حاصل ہوگی۔ مگراقبالؔکا تجربہ ہے کہ یہ روشن خیالی درحقیقت ناپختہ ذہنی ،دینی عقائد سے بیزاری اور الحاد و زندقہ کی طرف پیش قدمی ہے ؎​
خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر​
لبِ خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ​
ہم سمجھتے تھے کہ لائے گی فراغت تعلیم​
کیا خبر تھی کہ چلا آئے گا الحاد بھی ساتھ​
الغرض جدید تعلیم کہ جس کے تانے بانے مادّیت پر بُنے گئے؛اقبالؔ کے نزدیک حقیقتاً مسلمانوں کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔ تعلیم کے حسین پردے میں نوجوانوں کو بے یقینی ،لادینیت اور الحاد و زندقہ کی تاریک وادی میںچھوڑنا تھا۔چنانچہ اقبالؔ فرماتے ہیں ؎​
اور یہ اہلِ کلیسا کا نظامِ تعلیم!​
ایک سازش ہے فقط دینِ مروّت کیلئے​
علم جو کہ بذاتِ خود منبعِ خیر و قوت ہے ۔ مظہرِ جبریل ہے لیکن اب جدید تعلیم سے ع​
شر و قہر کا مرکز اور ابلیس بنا​
اسی مضمون سے ہم آہنگ اقبالؔ کاایک شعر خاطر نشین کریں ؎​
علم از رسوا است اندر شہر و دشت​
جبرئیل از صحبتش ابلیس گشت​
اقبالؔکی نگاہ میں وہ علم جس میں عشق کا امتزاج نہ ہو؛ناپسندیدہ ہے ،وہ اُس علم کے مداح ہیں جس میں عشق کا امتزاج ہواور جس کا خمیر عشق میں گوندھا گیا ہو،شعر نشانِ خاطر ہو ؎​
علم بے عشق است از طاغوتیاں​
علم با عشق است از لاہوتیاں​
گویا علمِ باعشق مشرف باسلام ہے ۔ اس کی ضیاپاشیوں سے جہاں منور و تابندہ ہے۔ دل زندہ اور روح صاف و شفاف ہے۔ اورعلمِ بے عشق اسلام سے دور ،طاغوت کا وجود،بے حرماں و بے نصیب ہے۔ اس سے دل تاریک اور جسم غلام ہوتا ہے عالِم اپنی وسعت و فراخیِ علم کے باوصف اگر اسلام کے تابع نہ ہوتو وہ شیطان ہے،اسے بولہبی نہیںبلکہ مصطفوی ہوناازحد ضروری ہے۔ اس کے لیے یہ فرض ہے کہ اس کی زنبیلِ علم کے تمام تر علوم وفنون قرآنی ہدایات کے تابع ہوں نہ کہ اس کو اپنے تابع بنائیں ۔ جب تک قرآن ،علوم پر حاکم نہ ہوگا ۔ علوم مسلمان نہ ہوں گے۔اس حقیقتِ مبین کو اقبالؔنے کس خوبی سے بیان کیا ہے ۔خاطر نشین فرمائیں ؎​
خوشتر آں باشد مسلمانش کنی​
کشتۂ شمشیرِ قرآنش کنی​
سیکولر اور لامذہبی تعلیم نے اسلامی قومیت کی بقا او رنشوو نما کو سخت نقصان پہنچایا ہے۔ اقبالؔموجودہ تعلیمی تحریکات کو مسلم قومیت کی تشکیل کے لیے مضر تصور کرتے ہیں ۔وہ چاہتے ہیں کہ ایک ایسا عظیم الشان تعلیمی نظام قائم کیا جائے جو ایک طرف تو افراد میں اسلامی شعور بیدارکرے تو دوسری طرف سیکولر اور لامذہبی نظامِ تعلیم کے منفی اثرات کا سدِ باب کرے ۔ وہ راقم ہیں :​
’’اخلاق و مذہب کے اصول و فروع کی تلقین کے لیے موجودہ زمانہ کے واعظ کو اقتصادیات اور عمرانیات کے حقایقِ عظیمہ سے آشنا ہونے کے علاوہ اپنی قوم کے لٹریچر اور تخیل میں پوری دسترس رکھنی چاہیے۔‘‘(اقبالؔاور مسئلۂ تعلیم ،ص ۲۳۹)​
سیکولر تعلیم خواہ یہ مکتب کی تعلیم ہویا کالج کی اقبالؔکے نزدیک اسلامی قومیت کی تشکیل میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ سیکولر تعلیم سے قومیت کا مفہوم وہ بن جاتا ہے جسے اہلِ مغرب نے نہ صرف قبول کیا بلکہ اس کی اشاعت و تشہیر میں پوری صلاحیتیں صرف کردیں یہ تصورِ قومیت،وطن،نسل،رنگ، زبان کے اجزائے ترکیبی سے نشوونماپاتا ہے ۔حالانکہ اسلام انھیٖں امتیازات کو مٹانے آیا ہے ۔ بدقسمتی سے دارالعلوم دیوبند کے صدر معلم مولوی حسین احمد ٹانڈوی نے جب اسلامی قومیت کا ناطہ وطن سے جوڑا تو اقبالؔسراپا احتجاج بن کر یوں گویا ہوئے کہ ؎​
عجم ہنوز نداند رموزِ دیں ورنہ​
ز دیوبند حسین احمد ایں چہ بولعجبی ست​
سروٗد بر سرِ منبر کہ ملّت از وطن است​
چہ بے خبر زمقامِ محمدِ عربی ست​
بمصطفیٰ برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست​
اگر باو نرسیدی تمام بولہبی ست​
اقبالؔتحقیق و جستجو کے متلاشی ہیں ان کے نزدیک تحقیق سے قوموں کا وجود ہے مگر مغربی محققین جنہیں ہم مستشرقین کہتے ہیں ،ان کی تحقیق سے ناراض ہیں وہ یہ سمجھتے ہیں کہ مستشرقین تحقیق کے پردے میں اپنے سیاسی ،سماجی، تعلیمی اور تبلیغی مقاصد کو بروئے کار لانا چاہتے ہیں ،اقبالؔل کھتے ہیں :​
’’میں یورپین مستشرقین کا قائل نہیں ،کیوں کہ ان کی تصانیف سیاسی پروپیگنڈہ یا تبلیغی مقاصد کی تخلیق ہوتی ہیں۔‘‘(اقبالؔ نامہ،حصہ اوّل،مرتبہ:شیخ عطاء اللہ)​
اقبالؔکی نظر میں تعلیمِ نسواں کی بھی اہمیت ہے ۔مگر وہ اس میں بھی اعتدال کے قائل ہیں ۔ان کے نزدیک عورتوں کی تعلیم اس طرز کی ہونی چاہیے جو انھیں اپنے فرایضِ منصبی سے آگاہ کردے ،چراغِ محفل کی بجائے چراغِ خانہ بنادے،عورتوں کی تعلیم میں دین کی تعلیم بنیادی اور ابتدا سے ہی ہونی چاہیے،ضربِ کلیم کا قطعہ خاطر نشین ہوجس کا عنوان ہے ’’عورت اور تعلیم‘‘ ؎​
تہذیبِ فرنگی ہے اگر مرگِ امومت​
ہے حضرتِ انساں کے لیے اس کا ثمر موت​
جس کی علم کی تاثیر سے زن ہوتی ہے نازن​
کہتے ہیں اسی علم کو اربابِ نظر موت​
بے گانہ رہے دیں سے اگر مدرسۂ زن​
ہے عشق و محبت کے لیے علم و ہنر موت​
تعلیمِ نسواں کے متعلق اقبالؔ نے جوکچھ اشعار کی صورت میں پیش کیا ہے اس کا خلاصہ ان ہی کی نثر میں نشانِ خاطر فرمائیں :​
’’ایک قوم کی حیثیت سے ہمارے استحکام کاانحصار مذہبی اصولوں کو مضبوطی کے ساتھ پکڑے رہنے پر ہے جس لمحہ یہ گرفت ڈھیلی پڑجائے گی۔ ہم کہیں کے نہیں رہیں گے شاید ہمارا حشر یہودیوں جیسا ہوجائے؛ تو پھر ہم اس گرفت کو مضبوط اور مستحکم کرنے کے لیے کیا کرسکتے​
ہیں؟ کسی قوم میں مذہب کا ’محافظِ خاص کون ہوتا ہے؟عورت اور صرف عورت‘اس لیے مسلمان عورت کو عمدہ،معتبردینی تعلیم ملنی چاہیے کیوں کہ وہی فی الواقع قوم کی معمار ہے۔میں مطلقاًآزاد طریقۂ تعلیم کا قائل نہیں دیگر تمام امور کی طرح طریقۂ تعلیم کا تعین بھی ایک قوم کی ضروریات کے ماتحت ہونا چاہیے ۔ہمارے مقاصد کے لیے لڑکیوں کی دینی تعلیم کافی ہے۔‘‘(اقبالؔ نامہ،حصہ اوّل)​
ڈاکٹر اقبالؔک ی نثر و نظم کے حوالے سے اقبالؔ کے تعلیمی نظریات کا یہ مختصر سا جائزہ اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ اقبالؔ کے تعلیمی افکار و نظریات کی بنیاد اسلامی افکار و نظریات اور امتِ مسلمہ کے استحکام و بقا پر مبنی ہے۔ان کے نزدیک تعلیم و تربیت کے ذریعہ اسلامی اصولوں اور اسلامی قومیت کی نشوونما اور تبلیغ و تحفظ ہے۔ اقبالؔ نے مغربی طریقۂ تعلیم کو ملّتِ اسلامیہ کے لیے مضر قرار دیاہے ۔اسی طرح ان کے نزدیک عورتوں کو تعلیم دینابھی ضروری ہے اور وہ چاہتے ہیں کہ اسلامی قومیت اور اصولوں کے استحکام اور تبلیغ و اشاعت کے لیے عورتوں کو دینی تعلیم دینا ہمارے مقاصد کی تکمیل کے لیے از بس ضروری ہے۔​

(روزنامہ اردوٹائمز،ممبئی،ج ۶،شمارہ۱۳۱،جمعہ ۱۳؍مئی۲۰۰۵ئ/۴؍ربیع الآخر۱۴۲۶ھ)​
 
اقبال جیسی کثیرالجہات شخصیت کے بارے میں میرے جیسا فقیر کیا عرض کرے گا۔ فوری تأثر کے طور پر عرض کروں کہ اقبال (رحمہ اللہ) جیسی شخصیات کا ماتم نہیں کِیا کرتے۔ اُن کے نقوشِ فکر کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کِیا کرتے ہیں۔

اللہ توفیق دے۔ آمین!
 
اقبال جیسی کثیرالجہات شخصیت کے بارے میں میرے جیسا فقیر کیا عرض کرے گا۔ فوری تأثر کے طور پر عرض کروں کہ اقبال (رحمہ اللہ) جیسی شخصیات کا ماتم نہیں کِیا کرتے۔ اُن کے نقوشِ فکر کو زندہ رکھنے میں اپنا کردار ادا کِیا کرتے ہیں۔

اللہ توفیق دے۔ آمین!
گڈری کے لعل فقیر کی جھولی میں ہی ملتے ہیں :)
 

عبدالحسیب

محفلین
Top