فر حان

محفلین
شکوہ

کيوں زياں کار بنوں سود فراموش رہوں؟
فکرِ فردا نہ کروں، محوِ غمِ دوش رہوں
نالے بلبل کے سنوں، اور ہمہ تن گوش رہوں
؟ہمنوا ! ميں بھي کوئي گل ہوں کہ خاموش رہوں

جرءات آموز مري تابِ سخن ہے مجھ کو
شکوہ اللہ سے ’خاکم بدہن’ ہے مجھ کو

ہے بجا شيوہء تسليم ميں مشہور ہيں ہم
قصہء درد سناتے ہيں کہ مجبور ہيں ہم
سازِ خاموش ہيں ، فرياد سے معمور ہيں ہم
نالہ آتا ہے اگر لب پہ، تو معذور ہيں ہم

اے خدا! شکوہء اربابِ وفا بھي سن لے
خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلا بھي سن لے

تھي تو موجود ازل سے ہي تِري ذاتِ قديم
پھول تھا زيبِ چمن، پر نہ پريشاں تھي شميم
شرط انصاف ہے اے صاحبِ الطافِ عميم
؟بوئے گل پھيلتي کس طرح جو ہوتي نہ نسيم

ہم کو جمعيتِ خاطر يہ پريشاني تھي
؟ورنہ اُمّت ترے محبوب کي ديواني تھي

ہم سے پہلے تھا عجب تيرے جہاں کا منظر
کہيں مسجود تھے پتھر ، کہيں معبود شجر
خوگرِ پيکرِ محسوس تھي انساں کي نظر
؟مانتا پھر کوئي اَن ديکھے خدا کو کيونکر

؟تجھ کو معلوم ہے ليتا تھا کوئي نام ترا
!قوتِ بازوئے مسلم نے کيا کام ترا

بس رہے تھے يہيں سلجوق بھي، توراني بھي
اہلِ چيں چين ميں ، ايران ميں ساساني بھي
اسي معمورے ميں آباد تھے يوناني بھي
اسي دنيا ميں يہودي بھي تھے ، نصراني بھي

؟پر ترے نام پہ تلوار اٹھائي کس نے
؟بات جو بگڑي ہوئي تھي ، وہ بنائي کس نے

!تھے ہميں ايک ترے معرکہ آراؤں ميں
خشکيوں ميں کبھي لڑتے ، کبھي درياؤں ميں
ديں اذانيں کبھي يورپ کے کليساؤں ميں
کبھي افريقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں ميں

شان آنکھوں ميں نہ جچتي تھي جہانداروں کي
کَلِمَہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں ميں تلواروں کي

ہم جو جيتے تھے، تو جنگوں کے مصيبت کے ليے
اور مرتے تھے ترے نام کي عظمت کے ليے
تھي نہ کچھ تيغ زني اپني حکومت کے ليے
؟سربکف پھرتے تھے کيا دہر ميں دولت کے ليے

قوم اپني جو زر و مالِ جہاں پر مرتي
!بت فروشي کے عوض بت شکني کيوں کرتي

ٹل نہ سکتے تھے، اگر جنگ ميں اڑ جاتے تھے
پاؤں شيروں کے بھي ميداں سے اکھڑ جاتے تھے
تجھ سے سرکش ہوا کوئي، تو بگڑ جاتے تھے
تيغ کيا چيز ہے؟ ہم توپ سے لڑ جاتے تھے

نقش توحيد کا ہر دل پہ بٹھايا ہم نے
زيرِ خنجر بھي يہ پيغام سنايا ہم نے

؟تو ہي کہہ دے کہ اکھاڑا درِ خيبر کس نے
؟شہر قيصر کا جو تھا اس کو کيا سَر کِس نے
؟توڑے مخلوق خداوندوں کے پيکر کس نے
؟کاٹ کر رکھ دیئے کفار کے لشکر کس نے

؟کس نے ٹھنڈا کيا آتشکدہء ايراں کو
؟کس نے پھر زندہ کيا تذکرہء يزداں کو

؟کون سي قوم فقط تيري طلب گار ہوئي
؟اور تيرے ليے زحمت کشِ پيکار ہوئي
؟کس کي شمشير جہانگير ، جہاندار ہوئي
؟کس کي تکبير سے دنيا تري بيدار ہوئي

کس کي ہيبت سے صنم سہمے ہوئے رہتے تھے
منہ کے بل گر کے 'ھُوَ اللہُ اَحَد' کہتے تھے

آ گيا عين لڑائي ميں اگر وقتِ نماز
قبلہ رو ہو کے زميں بوس ہوئي قومِ حجاز
ايک ہي صف ميں کھڑے ہو گئے محمود و اياز
نہ کوئي بندہ رہا اور نہ کوئي بندہ نواز

!بندہ و صاحب و محتاج و غني ايک ہوئے
!تيري سرکار ميں پہنچے تو سبھي ايک ہوئے

محفلِ کون و مکاں ميں سحر و شام پھرے
مئے توحيد کو لے کر صفت جام پھرے
کوہ ميں ، دشت ميں لے کر ترا پيغام پھرے
؟اور معلوم ہے تجھ کو کبھي ناکام پھرے

!دشت تو دشت ہيں ، دريا بھي نہ چھوڑے ہم نے
!بحرِ ظلمات ميں دوڑا ديئے گھوڑے ہم نے

صفحہء دہر سے باطل کو مٹايا ہم نے
نوعِ انساں کو غلامي سے چھڑايا ہم نے
تيرے کعبے کو جبينوں سے بسايا ہم نے
تيرے قرآن کو سينوں سے لگايا ہم نے

پھر بھي ہم سے يہ گِلا ہے کہ وفادار نہيں
!ہم وفادار نہيں ، تو بھي تو دلدار نہيں

امتيں اور بھي ہيں ، ان ميں گنہگار بھي ہيں
عجز والے بھي ہيں ، مستِ مئے پندار بھي ہيں
ان ميں کاہل بھي ہيں، غافل بھي ہيں، ہشيار بھي ہيں
سينکڑوں ہيں کہ ترے نام سے بيزار بھي ہيں

رحمتيں ہيں تري اغيار کے کاشانوں پر
!برق گرتي ہے تو بيچارے مسلمانوں پر

بت صنم خانوں ميں کہتے ہيں مسلمان گئے،
ہے خوشي ان کو کہ کعبے کے نگہبان گئے
منزلِ دہر سے اونٹوں کے حدي خوان گئے
اپني بغلوں ميں دبائے ہوئے قرآن گئے

؟خندہ زن کفر ہے ، احساس تجھے ہے کہ نہيں
؟اپني توحيد کا کچھ پاس تجھے ہے کہ نہيں

يہ شکايت نہيں ، ہيں ان کے خزانے معمور
نہيں محفل ميں جنھيں بات بھي کرنے کا شعور
قہر تو يہ ہے کہ کافر کو مليں حور و قصور
!اور بےچارے مسلماں کو فقط وعدہء حور

اب وہ الطاف نہيں ، ہم پہ عنايات نہيں
؟بات يہ کيا ہے کہ پہلي سي مدارات نہيں

کيوں مسلمانوں ميں ہے دولتِ دنيا ناياب
تيري قدرت تو ہے وہ جسکي نہ حد ہے نہ حساب
تو جو چاہے تو اٹھے سينہء صحرا سے حباب
رہروِ دشت ہو سيلي زدہء موجِ سراب

طعنِ اغيار ہے ، رسوائي ہے ، ناداري ہے
؟کيا ترے نام پہ مرنے کا عوض خواري ہے

بني اغيار کي اب چاہنے والي دنيا
! رہ گئي اپنے ليے ايک خيالي دنيا
ہم تو رخصت ہوئے اوروں نے سنبھالي دنيا
! پھر نہ کہنا ہوئي توحيد سے خالي دنيا

ہم تو جيتے ہيں کہ دنيا ميں ترا نام رہے
؟کہيں ممکن ہے کہ ساقي نہ رہے ، جام رہے

تيري محفل بھي گئي ، چاہنے والے بھي گئے
! شب کے آہيں بھي گئیں، صبح کے نالے بھي گئے
دل تجھے دے بھي گئے ، اپنا صلہ لے بھي گئے
آ کے بيٹھے بھي نہ تھے اور نکالے بھي گئے

آئے عشاق ، گئے وعدہء فردا لے کر
!اب انھيں ڈھونڈ چراغ رخِ زيبا لے کر

دردِ ليلٰي بھي وہي ، قيس کا پہلو بھي وہي
نجد کے دشت و جبل ميں رمِ آہو بھي وہي
عشق کا دل بھي وہي ، حسن کا جادو بھي وہي
امتِ احمدِ مرسل بھي وہي ، تو بھي وہي

؟پھر يہ آزردگيء غيرِ سبب کيا معني
؟اپنے شيداؤں پہ يہ چشمِ غضب کيا معني

؟تجھ کو چھوڑا کہ رسولِ عربي کو چھوڑا
؟بت گري پيشیہ کيا ؟ بت شکني کو چھوڑا
؟عشق کو ، عشق کي آشفتہ سري کو چھوڑا
؟رسم سلمان و اويسِ قرني کو چھوڑا

!آگ تکبير کي سينوں ميں دبي رکھتے ہيں
زندگي مثلِ بلالِ حبشي رکھتے ہيں

عشق کي خير ،وہ پہلي سي ادا بھي نہ سہي
جادہ پيمائي تسليم و رضا بھي نہ سہي
مضطرب دل صفتِ قبلہ نما بھي نہ سہي
اور پابنديء آئينِ وفا بھي نہ سہي

کبھي ہم سے ، کبھي غيروں سے شناسائي ہے
!بات کہنے کي نہيں تو بھي تو ہرجائي ہے

سرِ فاراں پہ کيا دين کو کامل تو نے
اک اشارے ميں ہزاروں کے ليے دل تو نے
آتش اندوز کيا عشق کا حاصل تو نے
پھونک دي گرميء رخسار سے محفل تو نے

؟آج کيوں سينے ہمارے شرر آباد نہيں
؟ہم وہي سوختہ ساماں ہيں ، تجھے ياد نہيں

واديء نجد ميں وہ شور سلاسل نہ رہا
قيس ديوانہء نظّارہِ محمل نہ رہا
حوصلے وہ نہ رہے ، ہم نہ رہے ، دل نہ رہا
گھر يہ اجڑا ہے کہ تو رونقِ محفل نہ رہا

اے خوش آں روز کہ آئي و بصد ناز آئي
!بے حجابانہ سوئے محفلِ ما باز آئي

بادہ کش غير ہيں گلشن ميں لبِ جو بيٹھے
سنتے ہيں جام بکف نغمہء کو کو بيٹھے
دور ہنگامہء گلزار سے يک سو بيٹھے
!تيرے ديوانے بھي ہيں منتظرِ 'ھُو' بيٹھے

اپنے پروانوں کو پھر ذوقِ خود افروزي دے
برقِ ديرينہ کو فرمانِ جگر سوزي دے

قومِ آوارہ عناں تاب ہے پھر سوئے حجاز
لے اُڑا بلبلِ بے پر کو مذاقِ پرواز
مضطرب باغ کے ہر غنچے ميں ہے بوئے نياز
تو ذرا چھيڑ تو دے، تشنہء مضراب ہے ساز

!نغمے بیتاب ہيں تاروں سے نکلنے کے ليے
!طور مضطر ہے اسي آگ ميں جلنے کے ليے

مشکليں امتِ مرحوم کي آساں کر دے
مورِ بے مايہ کو ہمدوشِ سليماں کر دے
جنسِ نايابِ محبّت کو پھر ارزاں کر دے
ہند کے دير نشينوں کو مسلماں کر دے

جوئے خوں مي چکد از حسرتِ ديرينہء ما
!مي تپد نالہ بہ نشتر کدہء سينہء ما

بوئے گل لے گئي بيرونِ چمن، رازِ چمن
کيا قيامت ہے کہ خود پھول ہيں غمّازِ چمن
عہدِ گل ختم ہوا، ٹوٹ گيا سازِ چمن
اڑ گئے ڈاليوں سے زمزمہ پروازِ چمن

ايک بلبل ہے کہ ہے محوِ ترنّم اب تک
اس کے سينے ميں ہے نغموں کا تلاطم اب تک

قمرياں شاخِ صنوبر سے گريزاں بھي ہوئيں
پتیاں پھول کي جھڑ جھڑ کے پريشاں بھي ہوئيں
وہ پراني رَوِشيں باغ کي ويراں بھي ہوئيں
ڈالياں پيرہنِ برگ سے عرياں بھي ہوئيں

قيدِ موسم سے طبيعت رہي آزاد اس کي
!کاش گلشن ميں سمجھتا کوئي فرياد اس کي

لطف مرنے ميں ہے باقي ، نہ مزا جينے ميں
!کچھ مزا ہے تو يہي خونِ جگر پينے ميں
!کتنے بیتاب ہيں جوہر مرے آئينے ميں
!کس قدر جلوے تڑپتے ہيں مرے سينے ميں

اس گلستاں ميں مگر ديکھنے والے ہي نہيں
داغ جو سينے ميں رکھتے ہوں وہ لالے ہي نہيں

چاک اس بلبلِ تنہا کي نوا سے دل ہوں
جاگنے والے اسي بانگِ درا سے دل ہوں
يعني پھر زندہ نئے عہدِ وفا سے دل ہوں
پھر اسي بادہء ديرينہ کے پياسے دل ہوں

عجمي خُم ہے تو کيا ، مے تو حجازي ہے مري
نغمہ ہندي ہے تو کيا ، لے تو حجازي ہے مري​
 

فر حان

محفلین
جوابِ شکوہ

دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے
پر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے
قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے
خاک سے اٹھتی ہے، گردوں پہ گزر رکھتی ہے

عشق تھا فتنہ گروسرکش و چالاک مرا
آسماں چیر گیا نالہء بیباک مرا

! پیرِ گردوں نے کہا سن کے، کہیں ہے کوئی
! بولے سیّارے، سرِعرشِ بریں ہے کوئی
! چاند کہتا تھا، نہیں، اہلِ زمیں ہے کوئی
! کہکشاں کہتی تھی، پوشیدہ یہیں ہے کوئی

کچھ جوسمجھامرے شکوےکوتورضواں سمجھا
! مجھے جنّت سے نکالا ہوا انساں سمجھا

! تھی فرشتوں کو بھی حیرت کہ یہ آواز ہے کیا
! عرش والوں پہ بھی کھلتا نہیں یہ راز ہے کیا
؟ تاسرِعرش بھی انساں کی تگ و تاز ہے کیا
؟ آگئی خاک کی چٹکی کو بھی پرواز ہے کیا

! غافل آداب سے سُکّانِ زمیں کیسے ہیں
! شوخ و کستاخ یہ پستی کے مکیں کیسے ہیں

اس قدر شوخ کہ اللہ سے بھی برہم ہے
؟ تھا جو مسجودِ ملائک یہ وہی آدم ہے
عالمِ کیف ہے، دانائے رموز کم ہے
ہاں،مگرعجزکےاسرارسےنامحرم ہے

ناز ہے طاقتِ گفتار پہ انسانوں کو
! بات کرنے کا سلیقہ نہیں نادانوں کو

آئی آواز غم انگیز ہے افسانہ ترا
اشکِ بیتاب سے لبریز ہے پیمانہ ترا
آسماں گیر ہوا نعرہ مستانہ ترا
! کس قدر شوخ زباں ہے دلِ دیوانہ ترا

شکر شکوے کو کیا حسنِ ادا سے تو نے
ہم سخن کردیا بندوں کو خدا سے تو نے

ہم تو مائل بہ کرم ہیں، کوئی سائل ہی نہیں
راہ دکھلائیں کسے؟ رہروِ منزل ہی نہیں
تربیت عام تو ہے، جوہرِ قابل ہی نہیں
جس سے تعمیر ہو آدم کی یہ وہ گل ہی نہیں

کوئی قابل ہو تو شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دُنیا بھی نئی دیتے ہیں

ہاتھ بے زور ہیں، الحاد سے دل خوگرہیں
امتی باعثِ رسوائی پیغمبر ہیں
بت شکن اٹھ گئے، باقی جو رہے بت گر ہیں
تھا ابراہیم پدر، اور پِسر آزر ہیں

بادہ آشام نئے، بادہ نیا، خم بھی نئے
حرمِ کعبہ نیا، بت بھی نئے، تم بھی نئے

! وہ بھی تھے کہ یہی مایہء رعنائی تھا
! نازشِ موسمِ گل لالہء صحرائی تھا
جو مسلمان تھا االلہ کا سودائی تھا
کبھی محبوب تمھارا یہی ھرجائی تھا

کسی یکجائی سے اب عہدِ غلامی کرلو،
! ملتِ احمدِ مرسل کو مقامی کرلو

! کس قدر تم پہ گراں صبح کی بیداری ہے
ہم سے کب پیار ہے؟ ہاں نیند تمہیں پیاری ہے
طبعِ آزاد پہ قیدِ رمضاں بھاری ہے
تمہیں کہدو یہی آئینِ وفاداری ہے

قوم مذہب سے ہے، مذہب جو نہیں، تم بھی نہیں
جذبِ باہم جونہیں، محفلِ انجم بھی نہیں

جن کو آتا نہیں دنیا میں کوئی فن، تم ہو
نہیں جس قوم کو پروائے نشیمن، تم ہو
بجلیاں جس میں ہوں آسودہ وہ خرمن، تم ہو
بیچ کھاتے ہیں جو اسلاف کے مدفن، تم ہو

ہونکو نام جو قبروں کی تجارت کر کے
؟ کیا نہ بیچوگے جو مل جائیں صنم پتھر کے

؟ صفحہء دہر سے باطل کو مٹایا کس نے
؟ نوعِ انساں کو غلامی سے چھڑایا کس نے
؟ میرے کعبے کو جبینوں سے بسایا کس نے
؟ میرے قرآن کو سینوں سے لگایا کس نے

؟ تھے تو آبا وہ تمہارے ہی، مگر تم کیا ہو
! ہاتھ پر ہاتھ دھرے منتظرِ فردا ہو

کیا کہا؟ بہرِ مسلماں ہے فقط وعدہء حور
! شکوہ بیجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور
عدل سے فاطرِ ہستی کا ازل سے دستور
مسلم آئیں ہوا کافر تو ملے حور و قصور

تم میں حوروں کا کوئی چاہنے والا ہی نہیں
جلوہء طور تو موجود ہے موسٰی ہی نہیں

منفعت ایک ہے اس قوم کی، نقصان بھی ایک
ایک ہی سب کانبی، دین بھی، ایمان بھی ایک
حرمِ پاک بھی، اللہ بھی، قرآن بھی ایک
کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ایک

! فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
؟ کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں

؟ کون ہے تارکِ آئینِ رسولِ مختار
؟ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معیار
؟ کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اغیار
؟ ہوگئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار

قلب میں سوز نہیں، روح میں احساس
! کچھ بھی پیغامِ مُحمّد کا تمہیں پاس نہیں

جاکے ہوتے ہیں مساجد میں صف آرا، تو غریب
زحمتِ روزہ جو کرتے ہیں گوارا، تو غریب
نام لیتا ہے اگر ہمارا، تو غریب
پردہ رکھتا ہے اگر کوئی تمہارا، تو غریب

امرا نشّہء دولت میں ہیں غافل ہم سے
زندہ ہے ملّتِ بیضا غربا کے دم سے

واعظِ قوم کی پختہ خیالی نہ رہی
برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسمِ اذاں، روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا، تلقینِ غزالی نہ رہی

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے
یعنی وہ صاحب اوصافِ حجازی نہ رہے

شور ہے ہوگئے دنیا میں مسلمان نابود
؟ ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود
وضع میں تم ہو نصاریٰ، تو تمدّن میں ہنود
! یہ مسلماں ہیں ! جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود

یوں تو سیّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو

دمِ تقریر تھی مسلم کی صداقت بیباک
عدل اس کا تھا قوی، لوثِ مراعات سے پاک
شجرِ فطرتِ مسلم تھا حیا سے نمناک
تھا شجاعت میں وہ اک ہستیء فوق الادراک

خودگدازی نمِ کیفیتِ صہبایش بود
خالی ازخویش شدن صورتِ منیاش بود

ہر مسلماں رگِ باطل کے کیے نشتر تھا
اس کے آئینہء ہستی میں عمل جوہر تھا
جو بھروسا تھا اسے قوتِ بازو پر تھا
ہے تمہیں موت کا ڈر، اس کو خدا کا ڈر تھا

باپ کا علم نہ بیٹے کو اگر ازبر ہو
! پھر پسر قابل میراثِ پدر کیونکر ہو

ہر کوئی مست مئے ذوقِ تن آسانی ہے
تم مسلماں ہو؟ یہ اندازِ مسلمانی ہے؟
حیدری فقر ہے، نے دولتِ عثمانی ہے
تم کو اسلاف سے کیا نسبت روحانی ہے

وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
اور تم خوار ہوئے تارکِ قرآں ہو کر

تم ہو آپس میں غضبناک، وہ آپس میں رحیم
تم خطاکار و خطابیں، وہ خطا پوش و کریم
چاہتے سب ہیں کہ ہوں اوجِ ثریّا پہ مقیم
! پہلے ویسا کوئی پیدا تو کرے قلبِ سلیم

تختِ فغفور بھی ان کا تھا، سریر کے بھی
یوں ہی باتیں ہیں، کہ تم میں وہ حمیت ہے بھی؟

خودکُشی شیوہ تمہارا، وہ غیور و خوددار
تم اخوّت سے گریزاں، وہ اخوّت پہ نثار
تم ہو گفتار سراپا، وہ سراپا کردار
تم ترستے ہو کلی کو، وہ گلستاں بکنار

اب تلک یاد ہے قوموں کہ حکایت ان کی
! نقش ہے صفحہء ہستی پہ صداقت ان کی

مثلِ انجم افق قوم پہ روشن بھی ہوئے
بت ہندی کی محبت میں برہمن بھی ہوئے
شوقِ پرواز میں مہجورِ نشیمن بھی ہوئے
بے عمل تھے ہی جواں دین سے بدظن بھی ہوئے

ان کو تہذیب سے ہر بند سے آزاد کیا
لا کے کعبے سے صنم خانے میں آباد کیا

قیس زحمت کشِ تنہائی صحرا نہ رہے
شہر کی کھائے ہوا؟ بادیہ پیما نہ رہے
وہ تو دیوانہ ہے، بستی میں رہے یا نہ رہے
یہ ضروری سے، حجابِ رخِ لَیلا نہ رہے

گِلہء جور نہ ہو، شکوہء بیداد نہ ہو
عشق آزاد ہے، کیوں حسن بھی آزاد نہ ہو

عہدِ نَو برق ہے، آتش زنِ ہر خرمن ہے
ایمن اس سے کوئی صحرا، نہ کوئی گلشن ہے
اس نئی آگ کا اقوامِ کہن ایندھن ہے
ملتِ ختمِ رُسل شعلہ پہ پیراہن ہے

آج بھی ہو جو ابراہیم کا ایماں پیدا
آگ کرسکتی ہے اندازِ گلستاں پیدا
دیکھ کر رنگِ چمن ہو نہ پریشاں مالی
کوکبِ غنچہ سے شاخیں ہیں چمکنے والی
خس و خاشاک سے ہوتا ہے گلستاں خالی
گل بر انداز ہے خونِ شہدا کی لالی

رنگ گردوں کا ذرا دیکھ تو عنّابی ہے
! یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے

امتیں گلشنِ ہستی میں ثمر چیدہ بھی ہیں
اور محرومِ ثمر بھی ہیں، خزاں دیدہ بھی ہیں
سینکڑوں نخل ہیں، کاہیدہ بھی، بالیدہ بھی ہیں
سینکڑوں بطنِ چمن میں ابھی پوشیدہ بھی ہیں

نخلِ اسلام نمونہ ہے برومندی کا
پھل ہے یہ سینکڑوں صدیوں کی چمن بندی کا

پاک ہے گردِ وطن سے سرِ داماں تیرا
تو وہ یوسف سے کہ ہر مصر ہے کنعاں تیرا
قافلہ ہو نہ سکے گا کبھی ویراں تیرا
غیریک بانگِ درا کچھ نہیں ساماں تیرا

نخلِ شمع استی ودشِعلہ دودریشہء تو
عاقبت سوز بود سایہء اندیشہء تو

تو نہ مٹ جائے گا ایران کے مٹ جانے سے
نشّہء مے کو تعلّق نہیں پیمانے سے
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبے کو صنم خانے سے

کشتیء حق کا زمانے میں سہارا تو ہے
عصرِ نورات ہے، دھندلا سا ستارا تو ہے

ہے جو ہنگامہ بپا یورشِ بلغاری کا
غافلوں کے لیے پیغام ہے بیداری کا
تو سمجھتا ہے، یہ ساماں ہے دل آزاری کا
امتحاں ہے ترے ایثار کا، خودداری کا

کیوں ہراساں ہے صَہِیلِ فرسِ اعدا سے
نورِ حق بجھ نہ سکے گا نفسِ اعدا سے

چشمِ اقوام سے مخفی ہے حقیقت تیری
ہے ابھی محفلِ ہستی کو ضرورت تیری
زندہ رکھتی ہے زمانے کو حرارت تیری
کوکبِ قسمتِ امکاں ہے خلافت تیری

وقتِ فرصت ہی کہاں کام ابھی باقی ہے
نورِ توحید کا اتمام ابھی باقی ہے

مثلِ بُوقید ہے غنچے میں، پریشاں ہوجا
زحمت بردوش ہوائے چمنستاں ہوجا
ہے تنک مایہ، تو ذرّے سے بیاباں ہوجا
نغمہء موج سے ہنگامہء طوفاں ہوجا

قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کردے
دہر میں اسمِ محمد سے اجالا کردے

ہو نہ یہ پھول، تو بلبل کا ترنم بھی نہ ہو
چمنِ دہر میں کلیوں کا تبسّم بھی نہ ہو
یہ نہ ساقی ہو تو پھر مے بھی نہ ہو، خم بھی نہ ہو
بزمِ توحید بھی دنیا میں نہ ہو، تم بھی نہ ہو

خیمہ افلاک کا استادہ اسی نام سے ہے
نبضِ ہستی تپش آمادہ اسی نام سے ہے

دشت میں، دامنِ کہسار میں، میدان میں ہے
بحر میں، موج کی آغوش میں، طوفان میں ہے
چین کے شہر، مراقش کے بیابان میں ہے
اور پوشیدہ مسلمان کے ایمان میں ہے

چشمِ اقوام یہ نظّارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ رَفَعنَا لَکََ ذِکرَک دیکھے

مردمِ چشمِ زمیں، یعنی وہ کالی دنیا
وہ تمہارے شہدا پالنے والی دنیا
گرمیء مہر کی پروردہ، ہلالی دنیا
عشق والے جسے کہتے ہیں بلالی دنیا

تپش اندوز ہے اس نام سے پارے کی طرح
غوطہ زن نور میں ہے آنکھ کے تارے کی طرح

عقل ہے تیری سپر عشق ہے شمشیر تری
مرے درویش! خلافت ہے جہانگیر تری
ما سوا اللہ کے لیے آگ ہے تکبیر تری
تو مسلماں ہو تو تقدیر ہے تدبیر تری

کی محمد سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم ترے ہی​
 

فر حان

محفلین
کیا عشقِ ایک زندگی مستعار کا

کیا عشقِ ایک زندگی مستعار کا
کیا عشق پائدار سے ناپائدار کا

وہ عشق جس کی شمع بجھا دے اجل کی پھونک
اس میں مزا نہیں تپش و انتظا کا

میر بساط کیا ، تب و تاب یک نفس
شعلے سے بے محل ہے اُلجھنا شرار کا

کر پہلے مجھ کو زندگی جاوداں عطا
پھر ذوق و شوق دیکھ دلِ بے قرار کا

کانٹا وہ سے کہ جس کی کھٹک لازوال ہو
یارب وہ درد ، جس کی کسک لازوال ہو​
 

فر حان

محفلین
گیسوائے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر

گیسوائے تاب دار کو اور بھی تاب دار کر
ہوش و خرد شکار کر ، قلب و نظرشکار کر

عشق بھی ہو ہجاب میں ، حسن بھی ہو حجاب میں
یا تو خود آشکار ہو یا مجھے آشکار کر

تو ہے محیطِ بے کراں ، میں ہوں ذرا سی آبجو
یا مجھے ہمکنار کر یا مجھے بے کنار کر

میں ہوں صدف تو تیرے ہاتھ میرے کہر کی آبرو
میں ہوں خزف تو ، تو مجھے گوہرِ شاہوار کر

نغمہ نو بہار اگر میرے نصیب میں نہ ہو
اس دم نیم سوز کو طائرک بہار کر

باغِ بہشت سے مجھے حکمِ سفر دیا تھا کیوں
کارِ جہاں دراز ہے اب میرا انتظار کر

روزِ حساب جب مرا پیش ہو دفترِ عمل
آپ بھی شرمسار ہو ، مجھ کو بھی شرم سار کر​
 

فر حان

محفلین
اگر کج رو ہیں انجم


اگر کج رو ہیں انجم ، آسماں تیرا ہے یا میرا
مجھے فکرِ جہاں کیوں ہو ، جہاں تیرا ہے یہ میرا

اگر ہنگامہ ہائے شوق سے ہے الامکان خالی
خطا کسی کی ہے یارب الامکاں تیرا ہے یہ میرا

اسے صبح ازل انکار کی جرات ہوئی کیونکر
مجھے معلوم کیا ، وہ رازداں تیرا ہے یہ میرا

محمد بھی تیرا جبریل بھی ، قران بھی تیرا
مگر یہ حرفِ شریں ترجماں تیرا ہے یہ میرا

اسی کوکب کی تابانی سے ہے تیرا جہاں روشن
زوالِ آدم خاکی زیاں تیرا ہے یا میرا​
 

فر حان

محفلین
ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں



ترے عشق کي انتہا چاہتا ہوں
مري سادگي ديکھ کيا چاہتا ہوں

ستم ہو کہ ہو وعدہء بے حجابی
کوئي بات صبر آزما چاہتا ہوں

يہ جنّت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ ميں آپ کا سامنا چاہتا ہوں

ذرا سا تو دل ہوں ، مگر شوخ اتنا
وہي لن تراني سُنا چاہتا ہوں

کوئي دم کا مہماں ہوں اے اہلِ محفل
چراغِ سحر ہوں ، بجھا چاہتا ہوں

بھري بزم ميں راز کي بات کہہ دي
بڑا بے ادب ہوں ، سزا چاہتا ہو​
 

فر حان

محفلین
میں سوئی جواک شب تودیکھا یہ خواب

میں سوئی جواک شب تودیکھا یہ خواب
بڑھا اور جس سے مرا اضطراب

یہ دیکھا کہ میں جا رہی ہوں کہیں
اندھیرا ہے اور راہ ملتی نہیں

لرزتا تھا ڈر سے مرا بال بال
قدم کا تھا دہشت سے اٹھنا محال

جو کچھ حوصلہ پا کے آگے بڑھی
تو دیکھا قطار ایک لڑکوں کی تھی

زمّرد سی پوشاک پہنے ہو ئے
دیئے سب کے ہاتھوں میں جلتے ہوئے

وہ چپ چاپ تھے آگے پیچھے رواں
خدا جانے جانا تھا ان کو کہاں

اِسی سوچ میں تھی کہ میرا پسر
مجھے اس جماعت میں آیا نظر

وہ پیچھے تھا اور تیز چلتا نہ تھا
دِیا اُس کے ہاتھوں مین جلتا نہ تھا

! کہا میں نے پہچان کر میری جاں
؟ مجھے چھوڑ کر آگئے تم کہاں

جُدائی میں رہتی ہوں مَیں بےقرار
پروتی ہوں ہر راز اشکوں کے ہار

نہ پرواہ ہماری ذرا تم نے کی
گئے چھوڑ،اچھی وفا تم نے کی

جو بچّے نے دیکھا مرا پیچ وتاب
دیا اس نے منہ پھیر کریوں جواب

رلاتی ہے تجھ کو جدائی مری
نہیں اس میں کچھ بھی بھلائی مری

یہ کہکر وہ کچھ دیر چُپ رہا
دِیا پھر دکھا کر یہ کہنے لگا

؟ سمجھتی ہے تُو ہوگیا کیا اسے
! ترے آنسوئوں نے بجھایا اسے​
 

فر حان

محفلین
قطعہ

کل ایک شوریدہ خواب گاہ نبی پہ رو رو کے کہہ رہا تھا
!کہ مصر و ہندوستان کے مسلم بنائے ملّت مٹا رہے ہیں
یہ زائرانِ حریمِ مغرب ہزار رہبر بنیں ہمارے
!ہمیں بھلا ان سے واسطہ کیا جو تجھ سے نا آشنا رہے ہیں
!غضب ہیں یہ”مرشدانِ خودبیں” خدا تری قوم کو بچائے
بگاڑ کر تیرے مسلموں کو یہ اپنی عزّت بنارہے ہیں
سُنے گا اقبال کون ان کو یہ انجمن ہی بدل کئی ہے
نئے زمانے میں آپ ہم کو پُرانی باتیں سنا رہے ہیں



 
Top