خطبے کے تیسرے حصے کا متن
(علما کی ذمے داریوں کا بیان)
امام نے فرمایا:
ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ، اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ
اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْنَ وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ
وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْنَ وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعیدَ فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔
اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ
اہم الفاظ کی تشریح
جیسا کہ ہم پہلے بھی ذکر کر چکے ہیں کہ اس خطبے کے اس حصے کے بعض جملات کچھ فرق کے ساتھ امیر المومنین کے خطبوں میں بھی ملتے ہیں۔(۱)
۱ ۔ دیکھئے نہج البلاغہ خطبہ نمبر۱۰۴ اور ۱۲۹۔
فاستخففتم بحق الائمہ : کتاب ((تحف العقول ))اور(( وافی)) کے موجودہ نسخوں میں بحق الائمہ درج ہے۔ اس صورت میں امیر المومنین، امام حسن اور امام حسین کے حقوق کا غصب ہونا مرادہے۔ لیکن ممکن ہے کہ دراصل بحق الامہ ہو اور کتابت میں اضافہ ہو گیا ہو اور بعد میں آنے والا جملہ فاما حق الضعفاء بھی اس امکان کی تائید کرتا ہے۔ ( امام خمینی نے اس جملے کا ترجمہ بحق الامہ کے تحت کیا ہے)
ومن یعرف بالله لا تکرمون وانتم بالله فی عبادہ تکرمون :جملے کی ابتداء میں آنے والا یعرف اور آخر میں آنے والا تکرمون دونوں مجہول کے صیغے ہیں جبکہ درمیان میں آنے والا لاتکرمون معلوم کا صیغہ ہے۔ یعنی بندگان خدا ، الله والا ہونے کی بنا پر تمہارا احترام کرتے ہیں لیکن تم ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو الله کی معرفت کے لئے مشہور ہیں۔
العمی و البکم والزمنی : تینوں الفاظ بالترتیب أعمی، ابکم اور زمن کی جمع ہیں۔
لاترحمون اور غلبتم بہ : مجہول کے صیغے ہیں۔
مجاری الا مور والا حکام علی ایدی العلماء بالله الا مناء علی حلا لہ و حرامہ : مجاری، مجری کی جمع مصدر میمی یا پھر اسم مکان ہے۔ یعنی مسلمانوں اور مملکت اسلامی کے مختلف امور و معاملات میں مرکزی مقام علما کو حاصل ہونا چاہئے اور مسلمانوں کے مابین پھوٹ پڑنے والے تنازعات کا حل و فصل ان ربانی علما کے احکام کے مطابق ہونا چاہئے ،جو حلال و حرام الہی کے امین اور آسمانی قوانین کو تحریف و تبدیلی سے محفوظ رکھنے والے ہوں۔
یہ جملہ ولایت فقیہ کوثابت کرنے والے ان بے شمار دلائل میں سے ایک دلیل ہے جنہیں بزرگ شیعہ علما اور فقہا نے ذکر کیا ہے۔
والارض لھم شاغرہ : عرب کہتے ہیں شغرت الارض یعنی اس سرزمین کا کوئی محافظ و نگہبان نہیں ہے۔
خطیب مصقع
میم پر زیر اور باقی حروف پر زبر)۔ بلند آواز والے خطیب کو کہتے ہیں۔ عصر حاضر میں دشمنوں کے ہاتھوں میں موجود ذرائع ابلاغ جیسے ریڈیو، ٹیلی ویژن وغیرہ اسکے نمایاں مصداق ہیں۔
اس حصے کے جملوں کا علیحدہ علیحدہ ترجمہ
ثُمَّ اَنْتُمْ أیَّتُھا الْعِصٰابَةُ عِصٰابَةٌ بِالْعِلْمِ مَشْھُوْرَةٌ وَ بِالْخَیْرِ مَذْکُوْرَةٌ وَ بِالنَّصِیْحَةِ مَعْرُوْفَةٌ وَ بِاللَّہِ فی اَنْفُسِ النّٰاسِ مَھٰابَةٌ یَھٰابُکُمُ الشَّرِیفُ وَ یُکْرِمُکُمُ الضَّعِیفُ وَ یُؤْثِرُکُمْ مَنْ لاٰ فَضْلَ لَکُمْ عَلَیْہِ وَ لاٰ یَدَ لَکُمْ عِنْدَہُ تُشَفِّعُوْنَ فی الْحَوٰائجِ اِذٰا امْتُنِعَتْ مِنْ طُلاّٰبِھٰا وَ تَمْشُوْنَ فی الطَّرِیْقِ بِھَیْبَةِ الْمُلُوْکِ وَ کَرٰامَةِ اْلاَ کٰابِرِ ،
اے وہ گروہ جو علم وفضل کے لئے مشہور ہے، جس کاذکر نیکی اور بھلائی کے ساتھ کیا جاتا ہے ، وعظ و نصیحت کے سلسلے میں آپ کی شہرت ہے اور الله والے ہونے کی بنا پر لوگوں کے دلوں پر آپ کی ہیبت و جلال ہے ،یہاں تک کہ طاقتور آپ سے خائف ہے اور ضعیف و ناتواں آپ کا احترام کرتا ہے، حتیٰ وہ شخص بھی خود پر آپ کو ترجیح دیتا ہے جس کے مقابلے میں آپ کو کوئی فضیلت حاصل نہیں اور نہ ہی آپ اس پر قدرت رکھتے ہیں ۔جب حاجت مندوں کے سوال رد ہو جاتے ہیں تو اس وقت آپ ہی کی سفارش کارآمد ہوتی ہے ( آپ کو وہ عزت و احترام حاصل ہے کہ) گلی کوچوں میں آپ کا گزر بادشاہوں کے سے جاہ و جلال اور اعیان و اشراف کی سی عظمت کے ساتھ ہوتا ہے۔
اَلَیْسَ کُلَّ ذٰلِکَ اِنَّمٰا نِلْتُمُوہُ بِمٰا یُرْجٰی عِنْدَکُمْ مِنَ الْقِیٰامِ بِحَقِّ اللّٰہِ وَ اِنْ کُنْتُمْ عَنْ اَکْثَرِ حَقِّہِ تُقَصِّرُوْنَ فَاسْتَخْفَفْتُمْ بِحَقِّ اْلاَئِمَّةِ فَاَمّٰا حَقَّ الضُّعَفٰاءِ فَضَیَّعْتُمْ وَ اَمّٰا حَقَّکُمْ بِزَعْمِکُمْ فَطَلَبْتُمْ فَلاٰ مٰالاً بَذَلْتُمُوْہُ وَ لاٰ نَفْساً خٰاطَرْتُمْ بِھٰا لِلَّذی خَلَقَھٰا وَ لاٰ عَشِیْرَةً عٰادَیْتُمُوْھٰا فی ذٰاتِ اللّٰہِ
یہ سب عزت و احترام صرف اس لئے ہے کہ آپ سے توقع کی جاتی ہے کہ آپ الہٰی احکام کا اجراء کریں گے ،اگرچہ اس سلسلے میں آپ کی کوتاہیاں بہت زیادہ ہیں۔ آپ نے امت کے حقوق کو نظر انداز کر دیا ہے، (معاشرے کے) کمزور اوربے بس افراد کے حق کو ضائع کردیا ہے اور جس چیز کو اپنے خیال خام میں اپنا حق سمجھتے تھے اسے حاصل کر کے بیٹھ گئے ہیں۔ نہ اس کے لئے کوئی مالی قربانی دی اور نہ اپنے خالق کی خاطر اپنی جان خطرے میں ڈالی اور نہ الله کی خاطر کسی قوم وقبیلے کا مقابلہ کیا۔
اَنْتُمْ تَتَمَنَّوْنَ عَلیَ اللّٰہَ جَنَّتَہُ وَ مُجٰاوَرَةَ رُسُلِہِ وَ اَمٰاناً مَنْ عَذٰابِہِ لَقَدْ خَشِیْتُ عَلَیْکُمْ اَیُّھا الْمُتَمَنُّوْنَ عَلیَ اللّٰہِ اَنْ تَحِلَّ بِکُمْ نِقْمَةٌ مِنْ نَقِمٰاتِہِ لاَنَّکُمْ بَلَغْتُمْ مِنْ کَرٰامَةِ اللّٰہِ مَنْزِلَةً فُضِّلْتُمْ بِھٰا وَ مَنْ یُعْرَفُ بِاللّٰہِ لاٰ تُکْرِمُوْنَ وَ اَنْتُمْ بِاللّٰہِ فی عِبٰادِہِ تُکْرَمُوْن
(اسکے باوجود ) آپ جنت میں رسول الله کی ہم نشینی اور الله کے عذاب سے امان کے متمنی ہیں، حالانکہ مجھے تو یہ خوف ہے کہ کہیں الله کا عذاب آپ پر نازل نہ ہو،کیونکہ الله کی عزت و عظمت کے سائے میں آپ اس بلند مقام پر پہنچے ہیں، جبکہ آپ خود ان لوگوں کا احترام نہیں کرتے جو معرفت خدا کے لئے مشہور ہیں جبکہ آپ کو الله کے بندوں میں الله کی وجہ سے عزت و احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
وَ قَد تَرَوْنَ عُھودَ اللّٰہِ مَنْقُوْضَةً فَلاٰ تَفْزَعُوْنَ وَ اَنْتُمْ لِبَعْضِ ذِمَمِ آبٰائِکُمْ تَفْزَعُوْنَ وَ ذِمَةُ رَسُوْلِ اللّٰہِ مَخْفُوْرَةٌ مَحْقُوْرَةٌ وَ الْعُمْیُ وَ الْبُکْمُ وَ الزَّمْنیٰ فی الْمَدائِنِ مُھْمَلَةٌ لاٰ تُرْحَمُوْنَ وَ لاٰ فی مَنْزِلَتِکُمْ تَعْمَلُوْنَ وَ لاٰ مَنْ عَمِلَ فیھٰا تُعِیْنُوْنَ وَ بالاِدِّھٰانِ وَ الْمُصٰانَعَةِ عِنْدَ الظَّلَمَةِ تٰامَنُوْنَ کُلُّ ذٰلِکَ مِمّٰا اَمَرَکُمُ اللّٰہُ بِہِ مِنَ النَّھْیِ وَ التَّنٰاھی وَ اَنْتُمْ عَنْہُ غٰافِلُوْن
آپ دیکھتے رہتے ہیں کہ الله سے کئے ہوئے عہدو پیمان کو توڑاجا رہا ہے، اسکے باوجود آپ خوفزدہ نہیں ہوتے، اس کے برخلاف اپنے آباؤ اجداد کے بعض عہد و پیمان ٹوٹتے دیکھ کر آپ لرز اٹھتے ہیں ، جبکہ رسول الله کے عہد و پیمان(۱) نظر انداز ہو رہے ہیں اور کوئی پروا نہیں کی جا رہی ۔ اندھے ، گونگے اور اپاہج شہروں میں لاوارث پڑے ہیں اور کوئی ان پررحم نہیں کرتا۔ آپ لوگ نہ تو خود اپنا کردار ادا کر رہے ہیں اور نہ ان لوگوں کی مدد کرتے ہیں جو کچھ کر رہے ہیں۔ آپ لوگوں نے خوشامد اور چاپلوسی کے ذریعے اپنے آپ کو ظالموں کے ظلم سے بچایا ہوا ہے جبکہ خدا نے اس سے منع کیا ہے اور ایک دوسرے کو (بھی)منع کرنے کے لئے کہا ہے ۔اور آپ ان تمام احکام کو نظر انداز کئے ہوئے ہیں۔
وَ اَنْتُمْ اَعْظَمُ النّٰاسِ مُصِیْبَةً لِمٰا غُلِبْتُمْ عَلَیْہِ مِنْ مَنٰازِلِ الْعُلَمٰاءِ لَوْ کُنْتُمْ تَشْعُرُوْنَ ذٰلِکَ بِاَنَّ مَجٰارِیَ اْلاُمُوْرِ وَ اْلاَحْکٰامِ عَلیٰ اَیدي الْعُلَمٰاءِ بِاللّٰہِ اْلاُمَنٰاءِ عَلیٰ حَلاٰلِہِ وَ حَرٰامِہِ فَاَنْتُمُ الْمَسْلُوْبُوْنَ تِلْکَ الْمَنْزِلَةَ وَ مٰا سُلِبْتُمْ ذٰلِکَ اِلاّٰ بِتَفَرُّقِکُمْ عَنِ الْحَقِّ وَ اخْتِلاٰفِکُمْ فی السُّنَّةِ بَعْدَ الْبَیِّنَةِ الْوٰاضِحَةِ
آپ پر آنے والی مصیبت دوسرے لوگوں پر آنے والی مصیبت سے کہیں بڑی مصیبت
۱۔ اس سے مراد وہ عہد و پیمان ہیں جو بیعت کے وقت رسول گرامی, نے لئے تھے۔ اسی طرح ولایت اور جانشینی کے لئے غدیر خم کے موقع پر رسول الله سے جو عہد و پیمان کئے گئے تھے، وہ بھی مراد ہیں۔
ہے ، اس لئے کہ (اگر آپ سمجھیں تو) علما کے اعلیٰ مقام و منزلت سے آپ کومحروم کر دیا گیا ہے ،کیونکہ مملکت کے نظم و نسق کی ذمہ داری علمائے الہٰی کے سپرد ہونی چاہئے، جو الله کے حلال و حرام کے امانت دار ہیں۔ اور اس مقام و منزلت کے چھین لئے جانے کا سبب یہ ہے کہ آپ حق سے دور ہو گئے ہیں اور واضح دلائل کے باوجود سنت کے بارے میں اختلاف کا شکار ہیں۔
وَ لَوْ صَبَرْتُمْ عَلیٰ الاَذٰی وَ تَحَمَّلْتُمْ الْمَؤُوْنَةَ فی ذٰاتِ اللّٰہِ کٰانَتْ اُمُوْرُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ تَرِدُ وَ عَنْکُمْ تَصْدُرُ وَ اِلَیْکُمْ تَرْجِعُ وَ لَکِنَّکُمْ مَکَّنْتُمُ الظَّلَمَةَ مِنْ مَنْزِلَتِکُمْ وَ اسْتَسلَمتُم اُمُوْرَ اللّٰہِ فی اَیْدِیْھِمْ یَعْمَلُوْنَ بالشُّبَھٰاتِ وَ یَسِیْرُوْنَ فی الشَّھَوٰاتِ
اگر آپ اذیت و آزار جھیلنے اور الله کی راہ میں مشکلات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوتے تو احکام الہٰی (اجراء کے لئے) آپ کی خدمت میں پیش کئے جاتے، آپ ہی سے صادر ہوتے اور (معاملات میں) آپ ہی سے رجوع کیا جاتا لیکن آپ نے ظالموں اور جابروں کو یہ موقع دیا کہ وہ آپ سے یہ مقام و منزلت چھین لیں اور الله کے حکم سے چلنے والے امور ( وہ امور جن میں حکم الہٰی کی پابندی ضروری تھی) اپنے کنٹرول میں لے لیں تاکہ اپنے اندازوں اور وہم و خیال کے مطابق فیصلے کریں اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کریں۔
سَلَّطَھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ فِرٰارُکُمْ مِنَ الْمَوْتِ وَ اِعْجٰابُکُمْ بِالْحَیٰاتِ الَّتی ھِیَ مُفٰارِقَتُکُمْ فاَسْلَمْتُمْ الضُعَفٰاءَ فی اَیْدیھِمْ فَمِنْ بَیْنِ مُسْتَعْبَدٍ مَقْھُوْرٍ وَ بَیْنِ مُسْتَضْعَفٍ عَلیٰ مَعِیْشَتِہِ مَغْلُوْبٍ یَتَقَلَّبُوْنَ فی الْمُلْک بِآرٰائِھِمْ وَ یَسْتَشْعِرُوْنَ الْخِزْیَ بِاَھْوٰائِھِمْ اِقْتِدٰاءً بِاْلاَشْرٰارِ وَ جُرْأَةً عَلیٰ الْجَبّٰارِ
وہ حکومت پر قبضہ کرنے میں ا س لئے کامیاب ہو گئے کیونکہ آپ موت سے ڈرکر بھاگنے والے تھے اور اس فانی اور عارضی دنیا کی محبت میں گرفتار تھے۔ پھر ( آپ کی یہ کمزوریاں سبب بنیں کہ) ضعیف اور کمزور لوگ ان کے چنگل میں پھنس گئے اور (نتیجہ یہ ہے کہ) کچھ تو غلاموں کی طرح کچل دیئے گئے اور کچھ مصیبت کے ماروں کی مانند اپنی معیشت کے ہاتھوں بے بس ہو گئے۔ حکام اپنی حکومتوں میں خودسری، آمریت اور استبداد کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اپنی نفسانی خواہشات کی پیروی میں ذلت وخواری کا سبب بنتے ہیں، بدقماش افراد کی پیروی کرتے ہیں اور پروردگار کے مقابلے میں گستاخی دکھاتے ہیں۔
فی کُلِّ بَلَدٍ مِنْھُمْ عَلیٰ مِنْبَرِہِ خَطِیْبٌ مِصْقَعٌ فَاْلاَرْضُ لَھُمْ شٰاغِرَةٌ وَ اَیدیھِمْ فیھٰا مَبْسُوْطَةٌ وَ النّٰاسُ لَھُمْ خَوَلٌ لاٰیَدْفَعُوْنَ یَدَ لاٰمِسٍ فَمِنْ بَیْنِ جَبّٰارٍ عَنِیْدٍ وَ ذی سَطْوَةٍ عَلیٰ الضَّعْفَةِ شَدِیدٍ مُطٰاعٍ لاٰ یَعْرِفُ الْمُبْدِءُ المُعید
ہر شہر میں ان کا یک ماہر خطیب منبر پر بیٹھا ہے ۔ زمین میں ان کے لئے کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں (یعنی جو چاہتے ہیں کر گزرتے ہیں) عوام ان کے غلام بن گئے ہیں اور اپنے دفاع سے عاجز ہیں۔ حکام میں سے کوئی حاکم تو ظالم، جابر اور دشمنی اور عناد رکھنے والا ہے اور کوئی کمزوروں کو سختی سے کچل دینے والا ،ان ہی کا حکم چلتا ہے جبکہ یہ نہ خدا کو مانتے ہیں اور نہ روز جزا کو ۔
فَیٰا عَجَباً وَمٰالی لاأعْجَبُ وَاْلأرضُ مِنْ غٰاشٍّ غَشُومٍ وَِمُتَصِدّقٍ ظلومٍ وعامِلٍ عَلی المُؤمِنینَ بِھِمْ غَیْرُ رَحیمٍ، فَاللهُ الْحٰاکِمُ فیما فیہِ تَنٰازَعْنٰا وَالقٰاضی بِحُکْمِہِ فیما شجَرَ بَیْنَنا۔
تعجب ہے اور کیوں تعجب نہ ہو! ملک ایک دھوکے باز ستم کار کے ہاتھ میں ہے۔ اس کے مالیاتی عہدیدار ظالم ہیں اور صوبوں میں اسکے (مقرر کردہ) گورنر مومنوں کے لئے سنگ دل اور بے رحم۔ (آخر کار) الله ہی ان امور کے بارے میں فیصلہ کرے گا جن کے بارے میں ہمارے اور ان کے درمیان نزاع ہے اور وہی ہمارے اور ان کے درمیان پیش آنے والے اختلاف پر اپنا حکم صادر کرے گا۔
اَللَّھُمَّ اِنَّکَ تَعْلَمُ اَنَّہُ لَمْ یَکُنْ مٰا کٰانَ مِنّٰا تَنٰافُساً فی سُلْطٰانٍ وَ لاٰالْتِمٰاساً مِنْ فُضُولِ الْحُطٰامِ و لَکِنْ لِنُرِیَ الْمَعٰالِِمَ مِنْ دِیْنِکَ وَنُظْھِرَ اْلاصْلاٰحَ فی بِِلاٰدِکَ وَ یَأْمَنَ الْمَظْلُوْمُوْنَ مِنْ عِبٰادِکَ وَ یُعْمَلَ بِفَرٰائِضِکَ وَ سُنَنِکَ وَ اَحْکٰامِکَ فَاِنَّکُمْ اِنْ لاتَنْصُرُوْنٰا وَ تَنْصِفُوْنٰا قَوِيَ الْظَّلَمَةُ عَلَیْکُمْ وَ عَمِلُوْا فی اِطْفٰاءِ نُوْرِ نَبِیِّکُم وَ حَسْبُنٰا اللَّہُ وَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْنٰا وَ اِلَیْہِ اَنَبْنٰا وَ اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ
(امام نے اپنے خطاب کا اختتام ان الفاظ پر فرمایا)
بارالہا! تو جانتا ہے کہ جوکچھ ہماری جانب سے ہوا (بنی امیہ اور معاویہ کی حکومت کی مخالفت میں) وہ نہ تو حصول اقتدار کے سلسلے میں رسہ کشی ہے اورنہ ہی یہ مال دنیا کی افزوں طلبی کے لئے ہے بلکہ صرف اس لئے ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ تیرے دین کی نشانیوں کو آشکار کر دیں اور تیری مملکت میں اصلاح کریں ، تیرے مظلوم بندوں کو امان میسر ہو اور جو فرائض ، قوانین اور احکام تو نے معین کئے ہیں ان پر عمل ہو۔ اب اگر آپ حضرات (حاضرین سے خطاب) نے ہماری مدد نہ کی اور ہمارے ساتھ انصاف نہ کیا تو ظالم آپ پر (اور زیادہ) چھا جائیں گے اور(( نور نبوت)) کو بجھانے میں اور زیادہ فعال ہو جائیں گے۔ ہمارے لئے تو بس خدا ہی کافی ہے، اسی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور اسی کی طرف ہماری توجہ ہے اور اسی کی جانب پلٹنا ہے۔
یہ وہ خطبہ تھا جو امام حسین علیہ السلام نے منیٰ میں ارشاد فرمایا اور تمام حاضرین کو تاکید ی حکم دیا کہ یہ پیغام دوسروں تک پہنچانے کی حتیٰ الامکان کوشش کریں تاکہ رفتہ رفتہ تمام مسلمان، پیکر اسلام کو پہنچنے والے ان نقصانات سے آگاہ ہو جائیں جن کے نتیجے میں اسلام کی اساس کو خطرہ لاحق ہے۔
اس خطبے میں موجود اہم نکات اور نتائج
امام حسین علیہ السلام نے اس خطبے میں امیر المومنین علیہ السلام کی شہادت کے بعد مختلف معاشرتی اور مذہبی پہلوؤں نیز اسلامی معاشرے پر معاویہ ابن ابی سفیان کے اقتدار کے اسباب اور ان وجوہات کا ذکر کیا ہے جن کے سبب مسلمانوں کے معاملات معاویہ کے ہاتھوں میں آ گئے۔ اس کے بعدآپ نے اسلام کے مستقبل کے لئے نقصان دہ خطرات کی جانب اشارہ کیا ، اور مسلمانوں کو خبردار کیا کہ اگر اب بھی وہ خاموش اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہے اور عمائدین قوم، اور ملت کے باشعور افراد نے ہوش کے ناخن نہ لئے اور اپنی ذمے داریوں کو ادا نہ کیا تو نہ صرف یہ کہ نور نبوت ماند پڑ جائے گا بلکہ خطرہ یہ ہے کہ کہیں یہ مشعل فروزاں، اسلام دشمنوں کے ہاتھوں ہمیشہ کے لئے بجھ ہی نہ جائے۔
فرزند رسول نے اس خطبے کے ذریعے حاضرین کے سامنے قرآن اور عترت کی مظلومیت کوبیان کیا اور یہ ذمے داری ان کے سپرد کی کہ جہاں تک ممکن ہے وہ اس پیغام کو مملکت اسلامی کے تمام باشعور اور دیندار افراد تک پہنچائیں اور انہیں اس خطرے سے آگاہ کریں۔
اگرچہ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس خطبے کی مفصل تشریح کی جائے کیونکہ اس کا ایک ایک جملہ علمی اور تاریخی لحاظ سے تشریح طلب ہے(۱) لیکن فی الحال یہاں نتیجہ گیری کی صورت میں ہم اپنے خیال اور سطح فکر کی حد تک صرف چند نکات قارئین کی خدمت میں پیش کریں گے۔
زمانی اور مکانی حالات
اس خطبے کے مضامین کی تشریح سے پہلے خطبہ ارشاد فرمانے کے زمان و مکان اور خطبے کے طرز بیان پر توجہ دینا ضروری ہے۔ اس خطبے کے لئے خاص مقام (منیٰ) اور خاص وقت (ایامِ حج) کا انتخاب کیا گیا۔ مملکت اسلامی کی اہم ترین شخصیات بشمول خواتین کو دعوت دی گئی ، بنی ہاشم کے عمائدین اور مہاجر و انصار صحابہء کرام بھی مدعو تھے۔ خاص کر اس اجتماع میں ۲۰۰ ایسے افرادشریک تھے جنہیں رسول گرامی کی صحابیت اور ان سے براہ راست مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی ۔ان ۲۰۰ کے علاوہ ۸۰۰ سے زائد افراد اصحاب رسولکی اولاد (تابعین) تھے۔
جلسہ گاہ : یہ جلسہ منیٰ میں تشکیل پایا ،جو بیت الله سے نزدیک ، توحید اور وحدانیت کے علمبردار حضرت ابراہیم سے منسوب اور قربانی و ایثار کی مثال حضرت اسماعیل کی قربانگاہ ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہر قسم کے امتیازات سے دستبردار ہو کر خدا کے سوا ہر چیز کو بھلاد یا جاتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جہاں انسان شیطان اور طاغوتوں پر کنکر برسا کے ندائے حق پر لبیک کہتا ہے اور راہ خدا میں قربانی اور ایمان اور اسلام کے راستے میں تن، من، دھن کی بازی لگانےکے لئے حضرت اسماعیل کے یاابت افعل ماتومر (۱) سے درس لیتا ہے اور ستجدنی انشاء الله من الصابرین(۲) کو نمونہء عمل قرار دے کر الله کی راہ میں سختیوں، مشکلات اور حتیٰ ٹکڑے ٹکڑے ہو جانے کے عزم کا اعلان کرتا ہے۔
۱۔ جیسا کہ علما اور فقہا نے اس خطبے کے صرف ایک جملے ذلک بان مجاری الامور والا حکام علی ایدی العلماء پر فقہ کی استدلالی کتب میں تفصیلی بحث کی ہے۔
زمانہ : یہ جلسہ ایام تشریق میں منعقد ہوا۔ یہ وہ وقت ہے جب یہاں پہنچنے والے الله تعالیٰ کی عبادت و ریاضت، خداسے ارتباط اور عمرے کے اعمال انجام دے کر، منزل عرفات سے گزر کر، مشعر کے بیابان میں رات بسر کر کے، اور قربانی انجام دینے کے بعد فرزند رسول کا حیات آفرین پیغام قبول کرنے کے لئے معنویت اور روحانیت کی ایک منزل پر پہنچ چکے ہیں۔