یہ وجہ بھی شامل ہے کہ میں نے طالبان کے حامی چند جید افراد کو اپنے موقف پر یو ٹرن لیتے دیکھ لیا ہے۔ یہ احباب وہ ہیں جو وقت کو آنے سے پہلے بھانپ لیتے ہیں کہ اب انہیں کیا نکتہ نظر اپنانا چاہئےنوبت اب یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ شنید ہے کہ ریاستی سطح پر طالبان کے لئے محض موت لکھ دی گئی ہے اور اس میں سعودی حکومت کا پرزور اصرار بھی شامل ہے تاکہ گذرے کل کے اثاثے آئیندہ کل کے لئے سعودیوں کی ذمہ داری نہ بن جائیں
شاید آپ کی مراد مولانا فضلو جیسوں سے ہے، جو کہ اس وقت حیرت انگیز طور پر خاموش دکھائی دیتے ہیں، ورنہ آپریشن کے خلاف وہ ابھی تک وہ زمین آسمان ایک کر چکے ہوتے۔یہ وجہ بھی شامل ہے کہ میں نے طالبان کے حامی چند جید افراد کو اپنے موقف پر یو ٹرن لیتے دیکھ لیا ہے۔ یہ احباب وہ ہیں جو وقت کو آنے سے پہلے بھانپ لیتے ہیں کہ اب انہیں کیا نکتہ نظر اپنانا چاہئے
عین ممکن ہے کہ آپ بھی جلد ہی ایسے افراد دیکھ لیں
میری رائے یہ ہے کہ موجودہ تحریک طالبان پاکستان کی تحریک کی بنیاد قبائلیوں کا وہ انتقامی جذبہ تھا جو امریکی دباؤ پر قبائلی علاقے میں آپریشن اور فوجی کاروائی کی وجہ سے ابھرا اور بعد میں مفاد پرست عناصر نے اسکو طالبان کی تحریک کا نام دیا اور کہا کہ ہم تو پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔
حالانکہ پاکستان میں طالبان کی تحریک کی کوئی گنجائش نہیں۔ افغانستان میں اسکی گنجائش ہوسکتی ہے۔
پاکستانی طالبان کی نظریاتی کمر توڑنے کے یہ طریقے ہو سکتے ہیں۔
1- تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کی منافقت کو ایکسپوز کیا جائے جو انکی دہشت گردی کی وجہ سے کافی حد تک ہوچکی ہے۔ علماء دیوبند واہلحدیث بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔
2- امریکی دباؤ پر مشرف نے جو فوجی کاروائیاں کیں اور ان میں بے گناہ قبائیوں کا جو نٖقصان ہوا اس کا مداوا کیا جائے۔ تاکہ وہاں سے یہ انتقامی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔
3- جو عناصر شربسندی سے باز نہیں آتے ان کا موقع پر قلعہ کمہ کر دیا جائے۔
دیکھئے برادرم، آپ نے اس میں دو باتیں فرض کی ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ درست بھی ہوں۔ جبکہ میرا نکتہ نظر اس سے مختلف ہےمیری رائے یہ ہے کہ موجودہ تحریک طالبان پاکستان کی تحریک کی بنیاد قبائلیوں کا وہ انتقامی جذبہ تھا جو امریکی دباؤ پر قبائلی علاقے میں آپریشن اور فوجی کاروائی کی وجہ سے ابھرا اور بعد میں مفاد پرست عناصر نے اسکو طالبان کی تحریک کا نام دیا اور کہا کہ ہم تو پاکستان میں اسلام کا نفاذ چاہتے ہیں۔
حالانکہ پاکستان میں طالبان کی تحریک کی کوئی گنجائش نہیں۔ افغانستان میں اسکی گنجائش ہوسکتی ہے۔
پاکستانی طالبان کی نظریاتی کمر توڑنے کے یہ طریقے ہو سکتے ہیں۔
1- تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کی منافقت کو ایکسپوز کیا جائے جو انکی دہشت گردی کی وجہ سے کافی حد تک ہوچکی ہے۔ علماء دیوبند واہلحدیث بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔
2- امریکی دباؤ پر مشرف نے جو فوجی کاروائیاں کیں اور ان میں بے گناہ قبائیوں کا جو نٖقصان ہوا اس کا مداوا کیا جائے۔ تاکہ وہاں سے یہ انتقامی آگ ٹھنڈی ہو جائے۔
3- جو عناصر شربسندی سے باز نہیں آتے ان کا موقع پر قلعہ کمہ کر دیا جائے۔
لیکن آپ نے فوری جواب دے دیاسبحان اللہ
معذرت خواہ ہوں کہ بغیر نیچے والی پوسٹ پڑھے، آپ کو میری اوپر والی پوسٹ سے تکلیف پہنچی ہوگیالحمدللہ
دیکھئے برادرم، آپ نے اس میں دو باتیں فرض کی ہیں، عین ممکن ہے کہ وہ درست بھی ہوں۔ جبکہ میرا نکتہ نظر اس سے مختلف ہے
آپ کی فرض کردہ دو باتیں یہ ہیں:
1۔ موجودہ تحریک طالبان پاکستان کی تحریک کی بنیاد قبائلیوں کا وہ انتقامی جذبہ تھا جو امریکی دباؤ پر قبائلی علاقے میں آپریشن اور فوجی کاروائی کی وجہ سے ابھرا
اس بارے تو میں ظاہر ہے کہ میری اور آپ کی رائے میں بنیادی فرق ہے کہ میں یہ سمجھتا ہوں کہ قبائلی انفرادی طور پر تو بدلہ لیتا ہے اور قبائلی سطح پر بھی، لیکن قومی سطح پر کبھی اندھا دھند اور بلاتفریق قتل و غارت نہیں کرتا۔ یعنی اس کا ٹارگٹ فکس ہوتا ہے اور اسی کے پیچھے جاتا ہے
2۔ تحریک طالبان پاکستان کی قیادت کی منافقت کو ایکسپوز کیا جائے جو انکی دہشت گردی کی وجہ سے کافی حد تک ہوچکی ہے۔ علماء دیوبند واہلحدیث بھی یہ کام کر سکتے ہیں۔
علماء کا کردار یہاں انتہائی منافقانہ ہے۔ اگر حکومتِ وقت جائز نہیں تو اس کے خلاف فتویٰ دینے سے گریز کرتے ہیں۔ اگر طالبان حق پر ہیں تو ان کو بھی اعلانیہ حمایت نہیں دے پاتے۔ یعنی دونوں اطراف کو As it is قبول کرتے ہیں اور دونوں کو یقین دلاتے ہیں کہ وہ درست ہیں۔ اس سلسلے میں میں یہی کہوں گا کہ علماء دیو بند اور علمائے اہل حدیث اگر یہ کام کریں گے بھی تو سیاسی دباؤ پر کریں گے، نہ کہ اپنی ذمہ داری سمجھ کر
اللہ کرئے کہ محترم کالم نگار کی بات علمائے دیو بند کی سمجھ میں آجائے ۔
سن لیں تو بہتر ہے مشورہ انکے کام کا ہے۔آپ کے خیال میں علمائے دیوبند اس خورشید ندیم کے مشورے سننے بیٹھے ہیں؟
سن لیں تو بہتر ہے مشورہ انکے کام کا ہے۔
آپ بتا دیں انکو اگر وہ آپ کی بات سنتے ہیں تو۔
خورشید ندیم نے بہت عمدہ کالم لکھا ہے۔۔۔ حاصلِ گفتگو یہی ہے کہ جو علماء (علمائے ظاہر) خود کنفیوزڈ ہوں کسی مسئلے پر، وہ دوسرے کی کیا رہنمائی کریں گے۔۔جن لوگون کو زمینی حقائق کا ادراک ہی نہ ہو، اور انکی فکر انسانی تاریخ کے ایک خاص دور کے اندر ہی محصور ہوکر جمود کا شکار ہوچکی ہو، اور جو عصرِ حاضر کے چیلنجز اور ان سے عہدہ برآ ہونے کی حکمتِ عملی سے یکسر غافل ہوں، وہ آج کے مسلمان کو کیا رہنمائی دیں گے۔۔۔
علمائے دیوبند کے ہاتھ سے یہ معاملہ نکل چکا ہے اور اب یہ ایک کینسر کی صورت اختیار کر چکا ہے۔
علمائے دیوبند البتہ یہ کر سکتے ہیں کہ مزید لوگوں کو اس آگ میں جھونکنے سے بچائیں۔
پاکستان کو اس آگ میں فوج اور امریکہ نے جھونکا ہے
ٹول تو یہی علماء اور مدارس ہی بنے ہیں نا۔