عمر اثری

محفلین
علمی سرقہ
تحریر: عمر اثری ابن عاشق علی اثری

دوسروں کی پوسٹس اور تحاریر کو اپنے نام سے شیئر (شائع) کرنا آج کل فیشن کی صورت اختیار کر چکا ہے. اس بیماری میں خاص طور سے سوشل میڈیا کے نام نہاد مبلغین مبتلا ہیں. وہ تحریر لکھنے والے کا نام ہٹا کر اپنے نام سے شیئر کرتے ہیں اور لوگوں کو یہ تاثر دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ تحریر انہوں نے لکھی ہے. اور ان سب کے پیچھے انکا مقصد لوگوں کی واہ واہی اور تعریف حاصل کرنا ہوتا ہے.
حالانکہ اللہ تعالی نے ایسے لوگوں کی سخت مذمّت بیان کی ہے اور عذاب سے ڈرایا ہے جو یہ چاہتے ہیں کہ جس کام کو انہوں نے نہیں کیا اس پر انکی تعریف کی جائے. فرمان باری تعالی ہے:
لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ يَفْرَحُونَ بِمَا أَتَوا وَّيُحِبُّونَ أَن يُحْمَدُوا بِمَا لَمْ يَفْعَلُوا فَلَا تَحْسَبَنَّهُم بِمَفَازَةٍ مِّنَ الْعَذَابِ ۖ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ
ترجمہ: وہ لوگ جو اپنے کرتوتوں پر خوش ہیں اور چاہتے ہیں کہ جو انہوں نے نہیں کیا اس پر بھی ان کی تعریفیں کی جائیں آپ انہیں عذاب سے چھٹکارے میں نہ سمجھئے ان کے لئے تو دردناک عذاب ہے.
(سوره آل عمران: 188)

اسکے علاوہ نبی ﷺ کا فرمان ہے جسے اسی آیت کی تفسیر میں حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ نے نقل کیا ہے:
الْمُتَشَبِّعُ بِمَا لَمْ يُعْطَ كَلَابِسِ ثَوْبَيْ زُورٍ
ترجمہ: جو چیز حاصل نہ ہو اس پر فخر کرنے والا اس شخص جیسا ہے جو فریب کا جوڑا یعنی (دوسروں کے کپڑے) مانگ کر پہنے.
(صحیح بخاری: 5219، صحیح مسلم: 2130)

مزید نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان بھی ہے:
مَنِ ادَّعَى دَعْوَى كَاذِبَةً لِيَتَكَثَّرَ بِهَا لَمْ يَزِدْهُ اللَّهُ إِلَّا قِلَّةً
ترجمہ: اور جس نے (مال میں) اضافہ کے لئے جھوٹا دعوی کیا، اللہ تعالی اس (کے مال) کی قلت ہی میں اضافہ کرے گا.
(صحیح مسلم: 110)

قاضی عیاض رحمہ اللہ اس کی تشریح میں لکھتے ہیں:
یہ عام ہے ہر اس دعوے کے بارے میں جس کے ذریعہ کوئی شخص ایسی چیز کا حامل ہونے کا دعوی کرے جو اسے نہیں دی گی ہے چاہے وہ مال ہو جسے وہ بناوٹی زینت بنا کر تکبر کرتا پھرے، یا وہ کوئی نسب ہو جس کی طرف وہ منسوب ہو حالانکہ اس نسل سے اس کا تعلق ہی نہیں، یا علم کے ذریعہ جس سے وہ اپنے آپ کو آراستہ ظاہر کرے حالانکہ وہ اس کا حامل نہیں، یا دینداری ظاہر کرے حالانکہ وہ اس کے لائق ہی نہیں، ان کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ ان کے اس دعوے میں برکت نہیں دی جائے گی اور یہ اس کی کمائی کو پاک نہیں کرے گی. اور اسی جیسی ایک اور حدیث ہے:
الْيَمِينُ الْفَاجِرَةُ مَنْفَقَة لِلسِّلْعَةِ مَمْحَقَةٌ لِلْكَسْبِ
ترجمہ: جھوٹی قسم مال تو بکوا دیتی ہے لیکن کمائی کو ختم کر دیتی ہے.
(اکمال المعلم: 1/391)

کچھ لوگ ایسے ہیں جو تحریر لکھنے والے کی نیت پر شک کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیا آپ نے اپنے نام کے لئے تحریر لکھی ہے؟ آپ کا کام تھا لوگوں تک قرآن و حدیث کو پہنچانا اس لئے آپ کو نام سے مطلب نہیں ہونا چاہئے. مقصد بس شیئر کرنا ہے لہذا شیئر کیا جائے.
ایسے لوگ درحقیقت پوسٹس (تحاریر و مضامین) چوری کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں. ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وہ پوسٹس (تحاریر) چوری کرنے والوں کو سمجھاتے اور انہیں بتاتے کہ کسی کی امانت میں خیانت نہیں کی جاتی ہے لیکن وہ ایسا نہ کر کے الٹا تحریر لکھنے والوں کی نیت پر ہی شک کرنے لگتے ہیں. حالانکہ انہیں شک تو ان لوگوں کی نیت پر کرنا چاہئے جو کسی کی تحریر کو اپنے نام سے یا تحریر لکھنے والے کا نام ہٹا کر شیئر کرتے ہیں کیونکہ اگر مقصد لوگوں کو دین پہنچانا ہی ہے تو جس حالت میں تحریر ملے اسی حالت میں اسے شیئر کیا جانا چاہئے.
مجھے بہت افسوس ہوتا ہے جب اپنے سلفی اور اہلحدیث بھائیوں کو بھی اس بیماری میں مبتلا دیکھتا ہوں. وہ اپنے آپکو سلف صالحین کا متبع بتاتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ سلف کی تعلیمات سے دور نظر آتے ہیں. اگر وہ حقیقی سلفی ہیں اور سلف صالحین کی سچی اتباع کرنے والے ہیں تو انکو تحریر لکھنے والے کا نام نہیں ہٹانا چاہئے کیونکہ ہمارے اسلاف نے ہمیں یہی تعلیم دی ہے. چنانچہ علامہ ابن عبد البر رحمہ اللہ لکھتے ہیں (کہ ابو عمر نے کہا):
يقال: إن من بركة العلم أن تضيف الشيء إلى قائله
ترجمہ: کہا جاتا ہے کہ علم کی برکت میں سے ہے کہ چیز کو اسکے قائل کی طرف منسوب کیا جائے.
(جامع بیان العلم وفضلہ: 2/922)

امام قرطبی رحمہ اللہ اپنی تفسیر کے مقدمہ میں لکھتے ہیں:
وشرطي في هذا الكتاب: إضافة الأقوال الى قائليها، والأحاديث الى مصنفيها، فإنه يقال: من بركة العلم أن يضاف القول الى قائله
ترجمہ: اس کتاب میں میری شرط یہ ہے کہ (میں) اقوال کو انکے قائلین کی طرف منسوب کروں گا اور احادیث کی انکے مصنفین کی طرف. کیونکہ کہا جاتا ہے کہ قول کو اسکے قائل کی طرف منسوب کرنا علم کی برکت میں سے ہے.
(تفسیر قرطبی: 1/3)

علامہ نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
(دین نصیحت کا نام ہے) اور نصیحت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ نئے فائدے کو اسکے قائل کی طرف منسوب کیا جائے، جس نے بھی ایسا کیا اسکے علم اور حال میں برکت ہوگی، اور جس نے اس کو اور دوسرے کے کلام کو گڈمڈ کر کے پیش کیا تاکہ دوسرے کے کلام میں شبہ پیدا ہو اور دوسرے کا کلام بھی اسکا کلام معلوم ہو تو ایسے شخص کے علم و عمل میں برکت نہیں ہوگی. اور علماء کرام کا ہمیشہ سے یہ دستور رہا ہے کہ وہ فائدے کو اسکے قائل کی طرف ہی منسوب کرتے رہے ہیں.
(بستان العارفین للنووی: 1/15)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ومن أراد أن ينقل مقالةً عن طائفة فليُسمِّ القائل و الناقل وإلا فكل أحد يقدر على الكذب
ترجمہ: اور جو شخص کسی جماعت کے حوالے سے کوئی بات نقل کرنا چاہتا ہے تو اسے قائل اور ناقل کا نام لینا چاہئے ورنہ جھوٹ بولنے پر تو ہر ایک قادر رہتا ہے.
(منہاج السنہ النبویہ: 2/518)

امام سیوطی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ولهذا لا تراني أذكر في شيء من تصانيفي حرفا إلا معزوا إلى قائله من العلماء، مبينا كتابه الذي ذكر فيه
ترجمہ: اسی لئے تم مجھے دیکھو گے کہ میں اپنی کسی بھی تصنیف میں ایک حرف بھی لکھتا ہوں تو علماء میں سے جو اسکا قائل ہوتا ہے اسکی طرف منسوب کر دیتا ہوں، (ساتھ ساتھ) اس کتاب کی وضاحت بھی کر دیتا ہوں جس میں وہ قول مذکور ہوتا ہے.
(المزھر للسیوطی: 2/273)

مقریزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علماء کی مختلف علوم میں تصنیف کردہ کتب سے اگر میں کچھ نقل کرتا ہوں تو میں اس کتاب کا حوالہ دے دیتا ہوں جس سے میں نے نقل کیا ہے تاکہ میں بری الذمہ ہو جاؤں.
(المواعظ والاعتبار بذكر الخطط والآثار للمقریزی: 1/10)

اسکے علاوہ معاصرین علماء کا فہم بھی یہی ہے. چنانچہ ذہبی عصر علامہ معلمی الیمانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
کہا جاتا ہے کہ ہر وہ فائدہ جسے اسکے کہنے والے کی طرف منسوب نہ کیا جائے، گھٹیا ہے. اور یہ اس گرے ہوئے بچے کی طرح ہے جس کا باپ نا معلوم ہو.
(آثار الشیخ العلامہ عبد الرحمن بن یحی المعلمی الیمانی: 1/49)

علامہ البانی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ اگر کوئی علماء کے کلام کو انکی طرف منسوب کئے بغیر نقل کرتا ہے تو کیا یہ چوری ہے؟
علامہ رحمہ اللہ نے جواب دیا: ہاں یہ چوری ہے اور یہ شرعا جائز نہیں کیونکہ یہ ایسی بات پر فخر کرنا ہے جو اسکو نہیں ملی. اور اس میں تدلیس اور دھوکہ ہے. اور لوگوں کو یہ باور کرانا ہے کہ یہ اسکا علم ہے.
(محدث العصر الامام محمد ناصر الدین البانی کما عرفتہ لعصام موسی ھادی: 74)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اگر آپ کسی کاتب کو دیکھتے ہیں کہ وہ کسی دوسری کتاب سے کوئی عبارت مکمل نقل کرتا ہے اور وہ یہ ذکر نہیں کرتا کہ میں نے فلاں کی کتاب سے یہ عبارت نقل کی ہے تو یہ علمی سرقہ ہے اور ایسا کرنے والا شخص ہماری نظر میں چور ہے.
(شرح حلیۃ طالب علم: 297)

شیخ زید مدخلی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:
ایسے شخص کے متعلق کیا حکم ہے جو دوسروں کی بحوث و تحقیقات کو حاصل کر کے اس میں معمولی تصرف کے ساتھ اپنے نام سے نشر کرتا ہے اور یہ باور کراتا ہے کہ وہ اسکی ذاتی کاوش ہے ساتھ ساتھ یہ گمان کرتا ہے کہ یہ علمی سرقہ نہیں ہے؟ ہم اسکا رد کیسے کریں؟
شیخ رحمہ اللہ نے جواب دیا:
حقیقت یہ ہے کہ ایسا کرنا جائز نہیں ہے. یہ خیانت ہے. اگر وہ علم پھیلانا چاہتا ہے یا اس میں اسکو کوئی فائدہ نظر آتا ہے تو وہ اسکے لکھنے والے سے خط و کتابت کرے (یعنی اس سے بات چیت کرے) اور اس سے اس بحث اور تحقیق کو پھیلانے کی اجازت طلب کرے. اور اسکو اسکے لکھنے والے کے نام سے پھیلائے اپنے نام سے نہیں. (اگر اپنے نام سے پھیلاتا ہے) تو یہ جائز نہیں ہے.
(درس المنتقى بتاريخ: 26-3-1431ه۔)

شیخ محمد بن عمر بازمول حفظہ اللہ فرماتے ہیں:
کبر و غرور ایک طالب علم کو سیکھنے اور سکھانے میں مانع ہے. اور اس کی صورتوں میں سے یہ بھی ہے کہ علم کو اسکے ناقل کی طرف منسوب نہ کرنے سے ایک طالب علم علم کی برکت سے محروم ہو جاتا ہے اور یہ کبر و حسد کا باعث ہے.
(التاصيل في طلب العلم: 36)

شیخ عبد الرحمن محی الدین حفظہ اللہ سے ایسے شخص کے متعلق سوال کیا گیا جو اہل علم کی باتوں کو انکی طرف منسوب کئے بغیر بہت زیادہ نقل کرتا ہے؟
تو شیخ حفظہ اللہ نے جواب دیا کہ یہ غلطی ہے (آپ نے یہ لفظ تین بار کہا. اسکے بعد فرمایا کہ) یہ مناسب نہیں ہے. بلکہ یہ خیانت شمار ہوگی. اسکے لئے ہر کلام کو اسکے قائل کی طرف احالہ کرنا ضروری ہے.

مذکورہ بالا تفاصیل کی روشنی میں خلاصہ کلام یہ ہے کہ کسی کی تحریر، مضمون یا تحقیق سے اسکا نام ہٹا کر نشر کرنا یا اسے اپنے نام سے پھیلانا یا اسی طرح کسی کی تحریر میں بغیر اسکی اجازت کے کچھ بھی تبدیلی کرنا صحیح نہیں ہے. بلکہ یہ لوگوں کے حقوق کی پامالی، حقوق العباد کی حق تلفی، چوری، خیانت، جھوٹ اور دھوکہ ہے.
واللہ تعالی اعلم بالصواب
 
Top