علمی و ادبی بات چیت

جاسمن

لائبریرین
ایسا دھاگہ تلاش کرنے کی کوشش کی جہاں علمی و ادبی قسم کی بات چیت ہو سکے لیکن نہیں ملا ۔اس لئے سوچا کہ ایک ایسا دھاگہ کھولا جائے جہاں عمومی اور سنجیدہ قسم کی علمی وا ادبی بات چیت کی جا سکے۔
اپنی درسی کتابوں میں میر تقی میر کا شعر پڑھا تھا ۔
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
اب نیٹ پہ کہیں یہ شعر یوں ہے۔
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
https://www.facebook.com/AINSEHHNQAF/posts/458156484285208
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/اشعار-حروف-تہجی-کے-لحاظ-سے.7336/page-56
http://www.oururdu.com/forums/index.php?threads/لفظ-“شام-“-پر-شعر-لکھیں.2199/


https://www.facebook.com/AINSEHHNQAF/posts/458156484285208


https://plus.google.com/101732115231177536961/posts/7HBF6BcAgJM


https://ur.wikipedia.org/wiki/مير_تقی_میر
















اور کہیں یہ لکھا ہے
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا

http://www.urduinc.com/english-dictionary/مفلس-meaning-in-urdu

https://www.facebook.com/AINSEHHNQAF/posts/600956643338524

http://www.nawaiwaqt.com.pk/mazamine/20-Sep-2014/329779









اور کہیں یہ لکھا ہے۔
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
https://rekhta.org/couplets/shaam-se-kuchh-bujhaa-saa-rahtaa-huun-mir-taqi-mir-couplets?lang=Ur





اور اب سنگِ میل پبلشرز کی میر کی کلیات میرے سامنےہے۔
شام سے کچھ ُبجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
صفحہ نمبر6


لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔مجھے ابھی بھی یہی گمان غالب ہے کہ
شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہے گویا چراغ مفلس کا
میری ایک ساتھی جنہوں نے اردو میں ایم اے کیا ہے۔ ان کی بھی یہی رائے ہے۔
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
کلیاتِ میر مطبع منشی نول کشور 1874 کے نسخے میں یہ شعر یوں ہے:
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

سنگ میل والوں نے سپرنٹنڈنٹ سیٹھ کیسری داس کی 1921 یا 1941 کی چھپی ہوئی کلیات میر کو ہی دوبارہ چھاپا جس کا مقدمہ اور فرہنگ مولانا عبد الباری آسی نے لکھے۔ اور کیسری داس کی طباعت میں یہ مصرع "شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں" چھپا ہوا ہے (جو کتابت کی غلطی بھی ہو سکتی ہے
 
آخری تدوین:

فاتح

لائبریرین
علمی ادبی بات چیت کے لیے "ادبیات و لسانیات" اور اس کے علاوہ "بزم سخن" کے زمرے موجود ہیں جہاں موضوع کو مخصوص کر کے لڑی شروع کیا جا سکتی ہے مثلاً ۔۔۔ "شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے۔۔۔ میر کے مصرع کی بات سوال" تا کہ محفل گردی اور تلاش کے دوران کنفیوژن نہ ہو۔
اگر اس ایک لڑی میں ادب سے متعلق تمام سوالات بھر دیے جائیں گے تو تلاش کرنا کارِ دشوار ہو گا۔
 

قیصر خلیل

محفلین
نیٹ پر شعرو ادب کی مستند ویب سائٹ ریختہ پر یہ شعر اسی طرح ہے جیسے نیچے لکھا ہی اور کیسری داس کی شائع کردہ کلیاتِ میر میں ہے۔ اس مشہور شعر کی اتنی شکلیں اور دستاویزات میں اتنا تضاد دیکھ کر ہر استاد کے دیوان مشکوک نہیں ہو گئے؟

ریختہ میں شعر یوں ہے

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
 

فاتح

لائبریرین
نیٹ پر شعرو ادب کی مستند ویب سائٹ ریختہ پر یہ شعر اسی طرح ہے جیسے نیچے لکھا ہی اور کیسری داس کی شائع کردہ کلیاتِ میر میں ہے۔ اس مشہور شعر کی اتنی شکلیں اور دستاویزات میں اتنا تضاد دیکھ کر ہر استاد کے دیوان مشکوک نہیں ہو گئے؟

ریختہ میں شعر یوں ہے

شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا
تین سال قبل کا میرا مراسلہ دونوں طباعتوں ( نول کشور اور کیسری داس) کے اصل حوالوں کے ساتھ صرف دو مراسلے اوپر موجود ہے
کلیاتِ میر مطبع منشی نول کشور 1874 کے نسخے میں یہ شعر یوں ہے:
شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

سنگ میل والوں نے سپرنٹنڈنٹ سیٹھ کیسری داس کی 1921 یا 1941 کی چھپی ہوئی کلیات میر کو ہی دوبارہ چھاپا جس کا مقدمہ اور فرہنگ مولانا عبد الباری آسی نے لکھے۔ اور کیسری داس کی طباعت میں یہ مصرع "شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہوں" چھپا ہوا ہے (جو کتابت کی غلطی بھی ہو سکتی ہے
نول کشور کی کلیات 1874 میں چھپی اور کیسری دا س نے اس کے تقریباً 50 سال بعد کلیات میر چھاپی۔
نول کشور کی طبع کردہ کلیات میر میں یہ مصرع یوں درج ہے
"شام سے کچھ بجھا سا رہتا ہے"
 
آخری تدوین:

قیصر خلیل

محفلین
فاتح صاحب، دست بستہ آداب

اصولی طور پر جو نسخہ پہلے طبع ہوا اس کو زیادہ مستند سمجھا جانا چاہیئے لہذا نول کشور کی کلیات (1874) میں جو شعر ہے اسے ہی معتبر سمجھا جائے گا۔

شام ہی سے بجھا سا رہتا ہے
دل ہوا ہے چراغ مفلس کا

اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ پچاس سال بعد کیسری داس کی مطبع کلیات (1921) میں یہ شعر دوسرے انداز میں کیوں لکھا گیا۔ اگر کتابت کی غلطی ہی ہے تو سنگ میل (1987) والوں کو، بلکہ مولانا عبدالباری صاحب کو دونوں نسخوں کے فرق کا سبب بتانا چاہیئے تھا۔ یاد رہے کہ دونوں نسخوں میں پچاس سال کا فرق ہے۔ مگر کیسری داس کا نسخہ بھی آج تقریباً سوسال پہلے کا ہے۔
اس ساری بحث سے ایک سوال قدرتاً ذہن میں آتا ہے کہ گذشتہ سو سال تو چھوڑیئے، پچھلے پچاس سال میں بھی اس کتابت کی غلطی یا تحریف پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ اور کیا اس سے سارے کے سارے کلیاتِ میر کے نسخے مشکوک نہیں ہو جاتے؟
آداب۔
 

فاتح

لائبریرین
اس ساری بحث سے ایک سوال قدرتاً ذہن میں آتا ہے کہ گذشتہ سو سال تو چھوڑیئے، پچھلے پچاس سال میں بھی اس کتابت کی غلطی یا تحریف پر کوئی تحقیق نہیں ہوئی۔ اور کیا اس سے سارے کے سارے کلیاتِ میر کے نسخے مشکوک نہیں ہو جاتے؟
آداب۔
میر پر بہت کام ہوا ہے لیکن چونکہ یہ میری بنیادی فیلڈ نہیں تو میں اتنا زیادہ نہیں پڑھتا۔ میں محض شاعری ہی پڑھ کر خوش ہو جاتا ہوں، میر کی شاعری پر ہزاروں تنقیدی مقالے اور کتب پڑھنے کی نہ تو ہمت ہے نہ وقت۔
آپ لائبریریوں کا رخ کریں تو یقیناً آپ کو اس سوال کا جواب بھی مل جائے گا۔
میری نظر میں شعر کی دونوں صورتیں ہی مستند ہیں۔
 
آخری تدوین:

قیصر خلیل

محفلین
فاتح صاحب، آداب

میری خواہش فقط یہ تھی کہ آجکل اردو کے شعبۂ تحقیق میں جو صاحبان کام کر رہے ہیں، کیا یہ شعری تضاد ان کی دلچسپی کا سبب ہو سکتا ہے؟
میں نے اس سلسلے میں ایک مراسلہ صدر شعبۂ اردو، ڈاکٹریٹ۔ کراچی یونی ورسٹی کو ارسال کیا ہے۔

نوازش۔ قیصر خلیل
 
آخری تدوین:
Top