ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ~~~ 12
طا"۔۔۔۔ دال" ۔۔۔ تا" ۔۔۔ کا ہے ۔

زبان کی نوک جب ثنایا علیا ( اوپر والے دو دانت ) کی جڑ کو لگے تو یہ حروف ادا ہوتے ہیں

" آطْ ۔۔۔ آَدْ ۔۔۔ آَتْ
ان تینوں حروف کو " نطعیہ " کہتے ہیں
اس لئے کہ یہ نطع ( کُھردری جگہ ) کے پاس سے اداہوتے ہیں۔
نطع " تالو کی غار ( چھت ) اور مسوڑھوں کے درمیان وہ کھردری جگہ اور کھال ہے جس میں چٹائی جیسی لکیریں ہیں ۔اور یہ جگہ انگلی سے محسوس ہو سکتی ہے ۔
0-EE15679-122-F-49-C7-A026-6-D9901-F37-C0-A.jpg
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر~~~13

ظا ۔۔۔ ذال ۔۔۔ ثا ۔۔۔ کا ہے

زبان کی نوک جب ثنایا علیا ( اوپر والے دو دانت ) کی نوک سے لگے تو یہ حروف ادا ہوتے ہیں ۔

آظْ ۔۔۔ آَ ذْ ۔۔۔ آَثْ

ان تینوں حروف کو " لِثویہ " کہتے ہیں ۔

"لِثہ " کےمعنی مسوڑھے کے ہیں ۔

چنانچہ " لِثویہ" مسوڑھوں کے پاس والے اندرونی کنارے سے نکلنے والے حروف ہیں ۔ نہ کہ اس نیچے والی نوک سے جو مسوڑھوں سے دور ہے
4-C548-A27-A0-F5-4268-BCD2-DEE94-C9-B6-A1-A.jpg
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ۔ 14


صاد ۔۔۔ زا ۔۔۔ سین ۔۔۔ کا ہے

زبان کا سرا ثنایا سفلی ( نیچے والے دو دانت ) کا کنارہ مع کچھ اتصال ثنایا علیا ( اوپر والے دو دانت ) کے ہے
ان کو حروف " صفیر " کہتے ہیں

یاد رکھو یہاں اتصال سےمراد ثنایا علیا کا زبان کے سرے سے تعلق و اتصال مراد نہیں ہے ۔ بلکہ ثنایا علیا کا ثنایا سفلی سے قُرب و اتصال مراد ہے ۔
پس ان حروف کو ادا کرتے وقت زبان کی نوک کو صرف نیچے کے اگلے دو دانتوں کے کنارے سے لگانا چاہئیے اس طرح کہ اوپر کے دو دانتوں سے جدا رہے ۔ کیونکہ اگر زبان کی نوک اوپر کے دو دانتوں سے لگ جائے گی تو حروف اپنی اصلی صفت کے ساتھ ادا نہ ہو سکیں گے ۔

صفیرمرغ یعنی چڑیا کی آواز کو کہتے ہیں ۔ چونکہ ان حروف کی آواز مشابہ اس آواز کے ہوتی ہے ۔ اس لئے ان کو حروف صفیر " کہتے ہیں
47-B06-A2-C-D526-4-D65-9232-4-F32-F185-AB8-E.jpg
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ~~~ 15


فا" کا ہے ۔

ثنایا علیا کے کنارے جب نیچے کے ہونٹ کا شکم سے لگیں تو فا" ادا ہوتا ہے ۔

اور یاد رکھو فا" کے ادا کرتے وقت نیچے کے ہونٹ کے اندرونی نرم و باطنی حصہ کو ثنایا علیا کی نچلی نوکوں سے نہایت سہولت اور نرمی سے لگاؤ ۔ نہ کہ اس قدر سختی اور زور کے ساتھ کہ فا" کی آواز کے ساتھ ایک۔ پھوکار سی نکلے جس سے گال بھی ہل جائیں ۔
16043-BC2-0291-41-B9-A41-B-B31-D2-F9-C9-D9-B.jpg
 

ام اویس

محفلین
مخرج نمبر ~~~ 16

دونوں ہونٹ ہیں ۔ اور ان سے یہ حروف ادا ہوتے ہیں ۔

با" ۔۔۔ میم " ۔۔۔ اور واؤ " جبکہ مدہ نہ ہو ۔

یعنی واؤ متحرک" اور واؤ لین " ۔

ان تینوں میں فرق یہ ہے کہ ۔۔۔ با" دونوں ہونٹوں کے اندرونی تر حصہ کو قوت سے اور پوری طرح ملانے اور بند کرنے سے نکلتی ہے ۔ اس لئے اس کو بحری " کہتے ہیں یعنی تری " والی

اور میم " دونوں لبوں کے بیرونی تر حصے کو جو خشکی والے حصہ سے ملا ہوا ہے کسی قدر نرمی سے پوری طرح بند کرنے سے ادا ہوتی ہے ۔ اسی لئے اس کو برّی " کہتے ہیں ۔

یعنی خشکی کے پاس والے تر حصہ سے ادا ہونے والی نہ کہ میم " خود خشک حصہ سے ادا ہوتی ہے کیونکہ یہ خلاف ادا ہے ۔۔۔ خوب اچھی طرح سمجھ لو

اور واؤ" دونوں ہونٹوں کو گول کر کے ناتمام ملنے سے نکلتا ہے ۔

پس واؤ" انضمام شفتین سے اور با" اور میم " انطباق شفتین سے ادا ہوتے ہیں ۔

فا" ۔۔۔ با" ۔۔ میم" ۔۔۔ واؤ "

کو حروف شفویہ" کہتے ہیں کیونکہ یہ شف" ( ہونٹ ) سے ادا ہوتے ہیں ۔
2-ADB5-B3-E-64-EC-40-C2-9439-D62374-C1-A40-A.jpg
 

ام اویس

محفلین
5-ABC61-E5-7-E58-4-FFA-BC2-D-80-A00-DFAAC47.jpg
مخرج نمبر~~~ 17

خیشوم

یعنی ناک کا بانسہ ۔۔۔

اس سے غنّہ نکلتا ہے ۔

یعنی اخفا والا نون" ساکن اور نون" تنوین ۔۔۔
 

ام اویس

محفلین
*حروف کی صفات*

صفات صفت کی جمع ہے ۔ اور صفت کا مطلب ہے حرف کی وہ کیفیت اور حالت جو مخرج سے ادا ہوتے وقت اس میں موجود ہوتی ہے ۔ جیسے کہ آواز کا اونچا یا نیچا ہونا ، سخت یا نرم ہونا ، پُر یا باریک ہونا ، غنہ وغیرہ ہونا ۔

حروف میں صفات دو طرح کی ہوتی ہیں ۔

1. صفات لازمہ

2. صفاتِ عارضہ

*صفاتِ لازمہ*

حروف کی وہ صفات جو اگر ادا نہ ہوں تو حرف حرف ہی نہ رہے گا ۔ ان کو حروف کی ذاتی اور لازمی صفات کہتے ہیں ۔ اور یہ صفات لازمہ ، ممیزہ اور مقومہ کہلاتی ہیں ۔ یعنی ایک حرف کو دوسرے سے الگ کرنے والی اور اس کی ذات کو قائم کرنے والی ۔
یہ صفات ہر حرف کے ساتھ لازم ہیں ۔ خواہ وہ ساکن ہو یا متحرک ، موقوف ہو یا موصول کسی حال میں اس سے جُدا نہیں ہوتیں ۔

اگریہ صفات ادا نہ کی جائیں تو حرف بگڑ جائے گا ۔ یا تو وہ وہی حرف نہ رہے گا ۔ یا پھر اس میں کچھ کمی یا زیادتی ہو جائے گی ۔

صفاتِ لازمہ کُل سترہ ہیں اور دو قسم کی ہیں ۔

ایک وہ جن کے مقابل بھی ایک صفت ہے اور اس کا نام بھی ہے ۔ انہیں صفات لازمہ متضادہ کہتے ہیں ۔ یہ دس ہیں جس سے پانچ جوڑے بنتے ہیں ۔ جن میں سے ہر ایک دوسری صفت کی متضاد ہے ۔

اور دوسری قسم صفات لازمہ غیر متضادہ ہیں جو کہ سات ہیں ۔ اور ان کے متضاد صفات موجود نہیں ہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
صفات لازمہ متضادہ

پہلا جوڑا ۔

-1۔ ہمس -2 جہر

ہمس

ایسے حروف کی ادائیگی میں آواز کمزور ، پست اور کم ہوتی ہے اور سانس مخرج میں دیر تک ٹہرا رہتا ہے
ان حروف کو مہموسہ کہتے ہیں ۔ اور یہ دس حروف ہیں ۔ جن کا مجموعہ یہ ہے ۔

فَحَثَّه، شَخْصٌ سَكَتَ

جہر

ایسے حروف کی ادائیگی میں آواز بلند ، قوی اور زیادہ ہوتی ہے اور آواز میں ایک قسم کی بلندی کی وجہ سے سانس مخرج میں کم ٹہرتا ہے ۔
ان حروف کو مجہورہ کہتے ہیں ۔ اور مہموسہ حروف کے علاوہ باقی سب حروف مجہورہ ہیں ۔

مجموعہ ان حروف کا یہ ہے ۔

عَظُمَ وَزْنُ قَارٍئٍ ذِىْ غَضٍ جَدٍ طَلَبٍ

ہمس اور جہر ایک دوسرے کے مقابل ہیں ۔
 

ام اویس

محفلین
*دوسرا جوڑا ۔*

3- شدّت -4 رخوت - توسط

*شدّت*

ان حروف کو ادا کرتے وقت ان کا تعلق مخرج سے اس قدر مضبوط ، سخت اور قوی ہو کہ آواز مخرج میں پوری قوت کے ساتھ ٹہر جائے ۔ اور کوشش کے باوجود دوبارہ جاری نہ ہو سکے ۔ سانس آہستہ ہو یا بلند آواز مکمل طور پر بند ہو اور رُک جائے ۔
جن حروف میں یہ صفت پائی جائے ان کو حروفِ شدیدہ کہتے ہیں ۔ اور ان کا مجموعہ یہ ہے

*اَجِدُکَ کَتَبْتُ*

*رخوت*

رخوت کا لغوی معنیٰ ہے نرم و ملائم ہونا ۔
جن حروف میں یہ صفت پائی جاتی ہے ان میں آواز اپنے مخرج میں ایسی نرمی اور ملائمیت کے ساتھ ٹہرے کہ پورے مخرج میں پھیل جائے ، خوب جاری رہے ، بند نہ ہو اور اگر اس کو کھینچنا چاہیں تو لمبا بھی کر سکیں ۔

ایسے حروف کو مجہورہ کہتے ہیں ۔

مجہورہ حروف کا مجموعہ ہے ۔

*خُذْ غَثَّ حَظٍ فُضَّ شَوْصٍ زِیَّ سَاہٍ*

ہمس اور جہر کی طرح شدّت اور رخوت بھی ایک دوسرے کے مقابل ہیں ۔ لیکن ان دونوں کے درمیان ایک اور صفت بھی ہے جسے توسط کہتے ہیں ۔

*توسط*

جن حروف میں یہ صفت پائی جاتی ہے ان میں آواز اپنے مخرج میں نہ تو پوری طرح بند ہوتی ہے اور نہ پوری طرح جاری رہتی ہے ۔ یعنی آواز اپنے مخرج میں قدرے سخت اور قدرے نرم ہو کر اس طرح ٹہرے کہ کچھ جاری رہے اور کچھ بند ہو جائے ۔
جن حروف میں یہ صفت پائی جاتی ہیں ان کو متوسطہ کہتے ہیں ۔

حروف متوسطہ کا مجموعہ ہے ۔

*لِنْ عُمَر*

توسط الگ صفت شمار نہیں کی جاتی ۔ کیونکہ اس میں کچھ شدّت ہے اور کچھ رخوت

ایک شبہ ۔

حروف "تا " اور " کاف " میں صفت ہمس پائی جاتی ہے ۔ اور ان میں صفت شدّت بھی پائی جاتی ہے ۔ لیکن ان دونوں حروف میں شدّت قوی ہے اور ہمس ضعیف
اسی لئے شدّت کی وجہ سے آواز بند ہوجائے گی اور ہمس ہونے کی وجہ سے سانس جاری رہے گا ۔ لیکن سانس کے جاری رہنے میں یہ احتیاط کرنی چاہئیے کہ اس دوران آواز جاری نہ ہو ۔ اگر آواز جاری ہو گی تو ان حروف میں صفت رخوت آجائے گی ۔ جبکہ ان کی صفت لازمہ ہمس ہے ۔
چنانچہ "کاف اور "تا کی صفت یہ ہے کہ پہلے اس میں صفت شدّت ادا ہوتی ہے ۔ جس کی وجہ سے آواز مخرج میں ٹہر جاتی ہے ۔
پھر صفت ہمس کی ادائیگی کی وجہ سے سانس سمیت آواز میں نرمی اور پستی پیدا ہونے سے ہی دونوں حروف اپنی مکمل صفات سے ادا ہوتے ہیں ۔
کچھ لوگ ان دونوں حروف کی صفت ہمس میں اس قدر زیادتی کرتے ہیں کہ سانس کے ساتھ آواز جاری ہونے سے " ہا " سے متشابہ ہو جاتی ہے ۔
اور ک" کی بجائے " کھ " اور ت" کی بجائے " تھ " کی آواز بن جاتی ہے ۔ اور قرآن مجید میں ان حروف کی گنجائش نہیں ۔ اس غلطی سے بچنے کے لئے دونوں حرف کی ادائیگی میں احتیاط سے کام لینا چاہئیے ۔
مثلا ۔۔۔ کَان ۔۔۔۔ کھان اَنْعَمْتَ ۔۔۔۔۔ اَنْعَمْتَھ

ایّاکَ ۔۔۔۔ اِیّاکھَ اَلْمَوْتْ ۔۔۔۔ اَلْمَوتھ
 

ام اویس

محفلین
دراصل یہ سب میری محنت ہے ۔ جی پلس پر کلیکشن بنائی تھی ۔ اور جی پلس ختم ہو رہا ہے بہت سی کلیکشنز بنائی ہوئی ہیں ۔
ابھی میں ملک سے باہر ہوں سمجھ نہیں آرہی موبائل سے سب کچھ کہاں محفوظ کروں ۔
فی الحال جتنا میرا اپنا کام ہے وہ یہاں شئیر کر رہی ہوں ۔
ویسے تو جو دوسروں کی جو تحریریں شئیر کی تھیں وہ بھی زبردست تھیں ۔ لیکن خیر
 
Top