محمد خلیل الرحمٰن
محفلین
قوا عدِ عربی، ایک مبتدی کی نظر سے﴿۱﴾
علم النحو
محمد خلیل الر حمٰن
﴿بسم اللہ الر حمٰن الر حیم﴾ الحمد لللہ وکفیٰ والصلوٰۃ السلام علیٰ عبادہِ الذین اصطفیٰ والذی انزل فی کتابہ ﴿الٰر وقف تلک اٰیٰتُ الکتابِِ المبین۔انا انزلنٰہ قراٰناً عربیاً لعلکم تعقلون﴾۔اما بعد
یہ آیتیں ہیں واضح کتاب کی ۔ ہم نے اس کو اتارا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم سمجھ لو۔ ﴿ تر جمہ حضرت مولٰنا محمود حسین صاحب﴾
’’ آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد لوگوں کی ہدایت و راہنمائی ہے۔ اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ سکیں، اس لیے ہر آسمانی کتاب اسی قومی زبان میں نازل ہوئی ، جس قوم کی ہدایت کے لیے وہ اتاری گئی تھی۔ قرآن کریم کے مخاطب اول چونکہ عرب تھے ، اس لیے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا۔ علاوہ ازیں عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور اعجاز اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زبان ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس اشرف الکتب ﴿ قرآن مجید ﴾ کو اشرف اللغات ﴿عربی﴾ میں اشرف الرسل ﴿ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اشرف الملائکہ ﴿ حضرت جبرئیل ﴾ کے ذریعے سے نازل فرمایا۔‘‘
﴿ از تفسیراحسن البیان ، حافظ صلاح الدین یوسف ﴾
اللہ جل شانہ کی یہ سنت رہی ہے کہ اس نے جتنے بھی پیغمبر اور رسول اس دنیا میںاہل دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمائے، انھیں اپنی قوم کے طبعی میلان اور فطری اجحان کے مطابق اس دائرہ کار میں معجزات عطا فرمائے جس میں انکی قوم اور وہ زمانہ ید طولیٰ رکھتے تھے ، اور اسی دائرہ کار میں فن کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ مقصدِ اعلیٰ اس امرِ ربی کا یہ تھا کہ، ان کی قوم اپنے اسی فن میں ، جس میں وہ درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہوتی تھی، اپنے کام اور امرِ ربی میں فرق کر سکے اور پیغمبرِ زماں کو حق پر جان لے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کے زمانے میں ساحری اور جادوگری اپنے عروج پر تھی، یہاں تک کہ فرعون بادشاہ کے دربار میں قسم قسم کے جادوگر اپنے کمالات دکھانے کے لیے ہر وقت منتظر رہتے تھے۔ ان کے سامنے جب حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے بحکمِ خدا وندیاپنا عصا پھینکا تو اس نے معجزانہ طور پر اژدھا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل ڈالا ، تبھی تمام جادوگر جو اس میں ماہر تھے ، جان گئے کہ یہ کام قادرِ مطلق کا ہی ہو سکتا ہے اور وہ پکار اٹھے ﴿ اٰ منا برب العالمین، ربِ موسیٰ و ہارون﴾
یہی صورتِ حال ان معجروں کی ہے جو حضرتِ عیسیٰ علیہِ السلام ، حضرتِ دائود علیہِ السلام، حضرت سلیمان علیہِ السلام وغیرھم اجمعین کو عطائ فرمائے گئے تھے۔ان تمام معجزات کا مقصد ِ اعلیٰ بھی وہی تھا، یعنی یہ کہ اتمامِ حجت کے لیے طبقہ اعلیٰ کے فرد جو اپنی استعداد فنی کے اعتبار سے ماہرین فن شمار ہوتے تھے، اور اپنی فنی طاقت و کمالیت کو اس مظہرِ اعلیٰ کے سامنے بے بس پاکر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانے یا جانتے بوجھتے ہوئے اس پیغامِ حق کے منکر ہونے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ طبقہ ارزل تو شروع ہی سے نبی وقت کو اپنا نجات دہندہ پاکر ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔
جب نبی آخر الزماں نبی امی ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جزیرہ نمائے عرب میں مبعوث فرمائے گئے تو ان کا اولین مخاطب قومِ عرب ٹھہری جن کی اپنی زبان عربی اس وقت اپنے عروج کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ فصاحت و بلاغت ان کے گھر کی لونڈی تھی اور وہ بجا طور پر اس پر فخر کرتے تھے۔ یہانتک کہ وہ اپنے کو فصیح اور غیر عرب قوموں کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے، اپنے بچوں کو بہترین زبان دانی میں مہارت بہم پہنچانے کے لیے انھیں مضافات میں بھیجا جاتا تھا۔
یہی وہ دور تھا جس میں ربِ کائنات نے نبی امی کو قرآن کا معجزہ عطا فرمایا جس کی زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت نے اہلِ عرب کو مسحور کر دیا ۔ کفارِ مکہ چھپ چھپ کر کان لگا لگا کر قرآن کو سنتے اور مبہوت ہوکر رہ جاتے۔ ایک دوسرے کو قرآن سننے سے منع کرتے، لیکن زبان دانی کا چٹخارہ انھیں خود ہی چھپ کر قرآن سننے پر مجبور کردیتا تھا۔ جن لوگوں پر انعامِ خدا وندی ہدایتِ حق کی شکل میں عطا ہوجاتا وہ فوراً دعوتِ حق کو قبول کرکے اللہ کے پسندیدہ بندے بن جاتے اور جن کے دلوں پر حق تعالیٰ نے مہر لگادی تھی وہ اس سے محروم رہتے تھے۔
قرآنِ معجز بیان کے اس معجزے کے کئی پہلو ہیں جن کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خود عربی زبان بھی قرآن کے معجزے کے احسان سے بدرجہ اتم بہرہ مند ہوئی۔ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی:۔
’’اللہ نے قرآنِ پاک کے متن کو بھی محفوظ رکھا اور اس کے معنی کو بھی محفوظ رکھا جو سنت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن پاک کی زبان کو بھی محفوظ رکھا۔ قرآنِ مجید کی ہم عصر سب زبانیں مٹ گئی ہیں، جن جن زبانوں کو نزولِ قرآن کے زمانے میں انسان بولتے تھے، آج ان میں سے کوئی زبان دنیا میں محفوظ نہیں ہے، سب مٹ چکی ہیں ۔ صرف ایک قرآنِ مجید کی زبان محفوظ ہے۔ یہ ایک ایسا عجیب و غریب استثنائ ہے، جس کی لسانیات کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ دنیا کی ہر زبان تین چار سو سال بعد بدل جاتی ہے، لیکن عربی زبان واحد زبان ہے جو رسول اللہ ö کی ولادتِ مبارکہ سے کم و بیش ساڑھے تین سو سال پہلے سے بولی جارہی تھی ﴿ جس کے نمونے ﴾ آج ہم تک پہنچے ہیں اور ان میں یہی اسلوب ، یہی الفاظ اور یہی لغت استعمال ہوئی ہے جو احادیث اور قرآنِ پاک میں ہمیں ملتی ہے۔
﴿محاضراتِ حدیث از ڈاکٹر محمود احمد غازی﴾
قرآنِ معجز بیان کے اس احسان ہی کا نتیجہ ہے کہ زمانہ، جاہلیت کے عربی ادب و شاعری بھی آج تک محفوظ ہیں۔ چنانچہ امراو،القیس ، اور لبید بن ربیعہ عامری جیسے زمانہ، جاہلیت کے نام آج بھی اہلِ علم و ادب میں جانے پہچانے ہیں بلکہ ان کی شاعری جو زمانہ، جاہلیت کی شاعری کے بہترین نمونوں کے طور پر خانہ، کعبہ میں لٹکائی جاتی تھی، ﴿ جسے سبعہ معلقات کہا جاتا ہے ﴾ آج بھی ہمارے دینی مدرسوں میں شامل، نصاب ہیں۔
یوں تو عربی زبان قرآنِ کریم و سنتِ نبوی ﷺ کی تعلیم و ترویج کے لحاظ سے مسلمانانِ عالم کی پسندیدہ ترین زبان ہے، لیکن اعجاز ِ قرآن نے آج چودہ سو سال بعد بھی اسے نہ صرف زندہ، جاوید رکھا ہوا ہے، علمی و ادبی و لسانی اعتبار سے بھی اس زبان کی لذت و حلاوت ، فصاحت و بلاغت بھی نہ صرف زمانہ، جدید کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں بدرجہ، اتم موجود ہے بلکہ یہ آج بھی اتنی ہی جدید ہے جتنی زمانہ، بعثت میں تھی اور آج بھی اس میں وہ چاشنی موجود ہے جو زمانہ، رسالت ماٰب ﷺ میں تھی۔
عربی زبان دانی کی اس چاشنی کے مزے لوٹنے اور علم النحو کے قواعد کا مختصر جائزہ لینے سے پہلے ملاحظہ فرمایئے علم النحو کا ایک مختصر مگر دلچسپ فارمولہ
جائ زیدُُُُْ ُُ ، را،یت زیداً ، مررت بزیدٍٍٍ۔
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اس جملے میں زید بیچارہ وہی زید و بکر والا ہمارا زید ہے، لیکن مختلف اوقات و صورتوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ اس پر لگائے جانے والے اعراب مختلف ہیں۔ یہ صورت لسانیاتِ عربی میں کلمہ کی اعرابی حالتیں کہلاتی ہے، اور ان کا مطالعہ علم النحو کہلاتا ہے۔
کلمہ کیا ہے اور اس کی اعرابی حالتوں سے کیا مراد ہے، یہ سب ذرا دیر میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہم عصر، علاقے کی زبانوں کا اس بارے میں کیا رویہ ہے۔
سب سے پہلے ملاحظہ کیجیے ، ڈپٹی نذیر احمد کا کیا ہوا سورہ، بقرہ کی آخری آیتوں کا خوبصورت با محاورہ ترجمہ۔
’’ اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہم کو ﴿ اس کے وبال میں﴾ نہ پکڑ اور اے ہمار ے پروردگار! جو لوگ ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں، جس طرح ان پر تونے ﴿ ان کے گنا ہوں کی پاداش میں احکامِ سخت کا ﴾ بار ڈالا تھا، ویسا بار ہم پر نہ ڈال۔ اور اے ہمارے پرور دگار! اتنا بوجھ جس ﴿ کے اٹھانے﴾ کی ہم کو طاقت نہیں، ہم سے نہ اٹھوا، اورہمارے قصوروں سے در گزر اور ہمارے گناہوں کو معاف کر۔ اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا ﴿ حامی و﴾ مدد گار ہے۔ تو ان لوگوں کے مقابلے میں ، جو کافر ہیں، ہماری مدد فرما۔
اردو کا نثری دینی ادب اور قرآنی تراجم و تفا سیر
ازپروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خان، ماہنامہ مسیحائی کراچی، قرآن نمبر﴾
مندرجہ بالا پیراگراف کا بغور مطالعہ ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ اس میں ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہے۔ اور یہی اردو زبان کا انداز ہے جو اردو کی دریافت سے لے کر آج تک زبان کی تبدیلی کے باوجود برقرار ہے۔ اسی طرح انگریزی کو لے لیجے۔
مبنی آ ں باشد کہ ماند بر قرار
معرب آں باشد کہ گردد با ر بار
اسی طرح پنجابی زبان سے حضرت سلطان باھو کے اشعاردرج ذیل ہیں
الف۔ اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من مرے وچہ لائی ھو
نفی اثبات دا پانی ملیاھر رگِ ھرجائی ھو
اندر بو ٹی شور مچایا جان پھلن پر آئی ھو
جیوے مرشد کامل حضرت با ھو جیئں ایہہ بوٹی لائی ھو
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا عامل ہے جو ان تمام زبانوں کے بر عکس عربی کو وہ خاص کیفیت وکمیت عطائ کر رہا ہے اور جس کے نتیجے میں ہم ہر کلمے کے آخری حرف کی حرکت کو سمجھ سکیں ۔ اس عامل کو سمجھنے کے لیے جس علم کا سہارہ لیا جا تا ہے اسے علم النحو کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ علم النحو کو حضرت علی (رضی اللہ عنہ ) نے ایجاد کیا تھا۔ وللہ اعلم بالصواب۔
علم النحو کی تعریف عربی میں کچھ یوں کی جاتی ہے۔
النحو علم با صول یعرف بھا احوال اواخر الثلاث من حیث الاعراب والبنائ و کیفیت ترکیب بعضھا مع بعض۔
یعنی علم نحو ایسے قوانین کے جاننے کا نام ہے جن سے دو چیزوں کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔
۱۔ تینوں کلموں یعنی اسم، فعل ، حرف کی آخری حالت معلوم ہوتی ہے اس لحاظ سے کہ وہ معرب ہے یا مبنی۔
۲۔ کلموں کو آپس میں جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب معلوم ہوتی ہے۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ معرب اور مبنی کی کیا تعریف ہے۔
معرب۔
معرب کے لغوی معنی ہیں ، اظہار کی جگہ اور اصطلاح میں معرب وہ کلمہ ہے جس کا آخری حرف ہمیشہ بدلتا رہتا ہو۔ پس جس کے سبب سے یہ تبدیلی رونما ہوتی ہے اس کو عامل کہتے ہیں اور جو چیز آخری حرف سے بدلتی ہے اس کو اعراب کہتے ہیں۔ جیسے کہ زیدُ ہماری گذشتہ مثال میں معرب ہے ، جائ وغیرہ عامل ہیں ۔ دو پیش ، دو زبر اور دو زیر وغیرہ اعرا ب ہیں۔ اور دال محل اعراب ہے یعنی وہ جگہ جہاں اعراب واقع ہو رہے ہیں اور یہ کلمہ کا آخری حرف ہوتا ہے۔
مبنی۔
مبنی کے لغوی معنی ہیں بنائ کیا ہوا۔ اور اصطلا ح میں مبنی وہ کلمہ ہے جو ہمیشہ ایک حال پر رہتا ہے۔ یعنی عامل کے بدلنے سے اس کی آخری حرکت میں کچھ تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسے ’’جائ ھٰذا، را،ٰیت ھٰذا، اور مررت بھٰذا ‘‘ ان مثالوں میں ھٰذا مبنی ہے اور ہر حالت میں ِ یکساں ہے۔
اب آخر میں ایک دلچسپ نکتہ پیش خدمت ہے۔ ان اعراب کو بالترتیب رفع﴿ پیش﴾ نصب ﴿ زبر﴾ اور جر ﴿ زیر﴾ کہتے ہیں۔ بعض اوقات اعراب کی یہ حالت ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات ظاہر نہیں ہوتی۔ہر دو صورتوں میں ان حالتوں کو حالتِ رفعی ﴿ پیش کے ساتھ﴾ حالتِ نصبی ﴿ زبر کے ساتھ﴾ اور حالتِ جری ﴿ زیر کے ساتھ﴾ کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اسمِ تثنیہ کا صیغہ ہو تو حالتِ رفعی میں اس کے آخر میں َ ن ِ اور حالتِ نصبی و جری میں ِ ینِ لگا تے ہیں جیسے کتب الرجلانِ مکتوبینِ الیٰ المرٰتینِ ﴿ دو مردوں نے دو خط دو عورتوں کی طرف لکھے﴾ ۔ گویا رجلانِ ، مکتوبانِ ، مراٰتانِ آ خری حرکت یعنی زیر کے باوجود حالتِ رفعی میں کہلاتے ہیں ۔ اور رجلینِِِ ، مکتوبینِ ، مرا،تین ِ آخری حرکت یعنی زیر کے با وجود حالتِ نصبی و حالتِ جری میں کہلاتے ہیں۔
دراصل اعراب کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ ایک اعرابِ بالحرکۃ جو زیر زبر پیش سے ظاہر کیا جاتا ہے اور دوسرا اعرابِ بالحروف، جو بعض حروف کی زیادتی سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
یہ گو یا اس طویل بحث کا نکتہ، آغاز ہے جسے علم النحو کہا جاتا ہے۔ یعنی کلمہ کی تین حالتوں اسم فعل اور حرف میں سے کون کونسے اسم ، فعل معرب ہیں اور کون کون سے اسم و فعل مبنی ہیں ﴿ واضح رہے کہ سارے حروف مبنی ہیں ، یعنی ان کی حالت کسی بھی طرح کے استعمال میں یکساں رہتی ہے﴾۔ نیز اسم کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں، فعل کون کون سے ہوتے ہیں، اور حروف کتنے اور کتنی قسموں کے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ نحو کے عوامل کون کون سے ہوتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
امید ہے کہ میں قاری کے دل میں وہ آتشِ شوق بھڑکانے میں کامیاب ہوپایا ہوں، جو میرے اس مضمون کا مقصد و مدعا تھا۔ عربی زبان اس لیے تو محترم ہے ہی کہ یہ قرآن و سنت کی زبان ہے، بلکہ یہ اس لیے بھی قابلِ ستائش اور سیکھنے کے لائق ہے کہ یہ دنیا کی بہترین زبان ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘ تم میں سے بہتر وہ ہیں جنھوں نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لیے عربی ضروری تو ہے ہی، پھر اگراسے اسکے محاسن و خوبیوں کو پرکھتے ہوئے ، شوق سے سیکھا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔
تمت بالخیر
علم النحو
محمد خلیل الر حمٰن
﴿بسم اللہ الر حمٰن الر حیم﴾ الحمد لللہ وکفیٰ والصلوٰۃ السلام علیٰ عبادہِ الذین اصطفیٰ والذی انزل فی کتابہ ﴿الٰر وقف تلک اٰیٰتُ الکتابِِ المبین۔انا انزلنٰہ قراٰناً عربیاً لعلکم تعقلون﴾۔اما بعد
یہ آیتیں ہیں واضح کتاب کی ۔ ہم نے اس کو اتارا ہے قرآن عربی زبان کا تاکہ تم سمجھ لو۔ ﴿ تر جمہ حضرت مولٰنا محمود حسین صاحب﴾
’’ آسمانی کتابوں کے نزول کا مقصد لوگوں کی ہدایت و راہنمائی ہے۔ اور یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب وہ کتاب اس زبان میں ہو جس کو وہ سمجھ سکیں، اس لیے ہر آسمانی کتاب اسی قومی زبان میں نازل ہوئی ، جس قوم کی ہدایت کے لیے وہ اتاری گئی تھی۔ قرآن کریم کے مخاطب اول چونکہ عرب تھے ، اس لیے قرآن بھی عربی زبان میں نازل ہوا۔ علاوہ ازیں عربی زبان اپنی فصاحت و بلاغت اور اعجاز اور ادائے معانی کے لحاظ سے دنیا کی بہترین زبان ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس اشرف الکتب ﴿ قرآن مجید ﴾ کو اشرف اللغات ﴿عربی﴾ میں اشرف الرسل ﴿ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اشرف الملائکہ ﴿ حضرت جبرئیل ﴾ کے ذریعے سے نازل فرمایا۔‘‘
﴿ از تفسیراحسن البیان ، حافظ صلاح الدین یوسف ﴾
اللہ جل شانہ کی یہ سنت رہی ہے کہ اس نے جتنے بھی پیغمبر اور رسول اس دنیا میںاہل دنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمائے، انھیں اپنی قوم کے طبعی میلان اور فطری اجحان کے مطابق اس دائرہ کار میں معجزات عطا فرمائے جس میں انکی قوم اور وہ زمانہ ید طولیٰ رکھتے تھے ، اور اسی دائرہ کار میں فن کی بلندیوں پر پہنچے ہوئے تھے۔ مقصدِ اعلیٰ اس امرِ ربی کا یہ تھا کہ، ان کی قوم اپنے اسی فن میں ، جس میں وہ درجہ کمال کو پہنچی ہوئی ہوتی تھی، اپنے کام اور امرِ ربی میں فرق کر سکے اور پیغمبرِ زماں کو حق پر جان لے۔
حضرت موسیٰ (علیہ السلام ) کے زمانے میں ساحری اور جادوگری اپنے عروج پر تھی، یہاں تک کہ فرعون بادشاہ کے دربار میں قسم قسم کے جادوگر اپنے کمالات دکھانے کے لیے ہر وقت منتظر رہتے تھے۔ ان کے سامنے جب حضرتِ موسیٰ علیہ السلام نے بحکمِ خدا وندیاپنا عصا پھینکا تو اس نے معجزانہ طور پر اژدھا بن کر جادوگروں کے تمام سانپوں کو نگل ڈالا ، تبھی تمام جادوگر جو اس میں ماہر تھے ، جان گئے کہ یہ کام قادرِ مطلق کا ہی ہو سکتا ہے اور وہ پکار اٹھے ﴿ اٰ منا برب العالمین، ربِ موسیٰ و ہارون﴾
یہی صورتِ حال ان معجروں کی ہے جو حضرتِ عیسیٰ علیہِ السلام ، حضرتِ دائود علیہِ السلام، حضرت سلیمان علیہِ السلام وغیرھم اجمعین کو عطائ فرمائے گئے تھے۔ان تمام معجزات کا مقصد ِ اعلیٰ بھی وہی تھا، یعنی یہ کہ اتمامِ حجت کے لیے طبقہ اعلیٰ کے فرد جو اپنی استعداد فنی کے اعتبار سے ماہرین فن شمار ہوتے تھے، اور اپنی فنی طاقت و کمالیت کو اس مظہرِ اعلیٰ کے سامنے بے بس پاکر اللہ اور اسکے رسول پر ایمان لانے یا جانتے بوجھتے ہوئے اس پیغامِ حق کے منکر ہونے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ طبقہ ارزل تو شروع ہی سے نبی وقت کو اپنا نجات دہندہ پاکر ان کے گرد جمع ہوجاتے تھے۔
جب نبی آخر الزماں نبی امی ، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم جزیرہ نمائے عرب میں مبعوث فرمائے گئے تو ان کا اولین مخاطب قومِ عرب ٹھہری جن کی اپنی زبان عربی اس وقت اپنے عروج کمال کو پہنچی ہوئی تھی۔ فصاحت و بلاغت ان کے گھر کی لونڈی تھی اور وہ بجا طور پر اس پر فخر کرتے تھے۔ یہانتک کہ وہ اپنے کو فصیح اور غیر عرب قوموں کو عجم یعنی گونگا کہتے تھے، اپنے بچوں کو بہترین زبان دانی میں مہارت بہم پہنچانے کے لیے انھیں مضافات میں بھیجا جاتا تھا۔
یہی وہ دور تھا جس میں ربِ کائنات نے نبی امی کو قرآن کا معجزہ عطا فرمایا جس کی زبان و بیان اور فصاحت و بلاغت نے اہلِ عرب کو مسحور کر دیا ۔ کفارِ مکہ چھپ چھپ کر کان لگا لگا کر قرآن کو سنتے اور مبہوت ہوکر رہ جاتے۔ ایک دوسرے کو قرآن سننے سے منع کرتے، لیکن زبان دانی کا چٹخارہ انھیں خود ہی چھپ کر قرآن سننے پر مجبور کردیتا تھا۔ جن لوگوں پر انعامِ خدا وندی ہدایتِ حق کی شکل میں عطا ہوجاتا وہ فوراً دعوتِ حق کو قبول کرکے اللہ کے پسندیدہ بندے بن جاتے اور جن کے دلوں پر حق تعالیٰ نے مہر لگادی تھی وہ اس سے محروم رہتے تھے۔
قرآنِ معجز بیان کے اس معجزے کے کئی پہلو ہیں جن کا تفصیلی مطالعہ کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ خود عربی زبان بھی قرآن کے معجزے کے احسان سے بدرجہ اتم بہرہ مند ہوئی۔ بقول ڈاکٹر محمود احمد غازی:۔
’’اللہ نے قرآنِ پاک کے متن کو بھی محفوظ رکھا اور اس کے معنی کو بھی محفوظ رکھا جو سنت کی شکل میں ہمارے سامنے ہے۔
اللہ رب العزت نے قرآن پاک کی زبان کو بھی محفوظ رکھا۔ قرآنِ مجید کی ہم عصر سب زبانیں مٹ گئی ہیں، جن جن زبانوں کو نزولِ قرآن کے زمانے میں انسان بولتے تھے، آج ان میں سے کوئی زبان دنیا میں محفوظ نہیں ہے، سب مٹ چکی ہیں ۔ صرف ایک قرآنِ مجید کی زبان محفوظ ہے۔ یہ ایک ایسا عجیب و غریب استثنائ ہے، جس کی لسانیات کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ دنیا کی ہر زبان تین چار سو سال بعد بدل جاتی ہے، لیکن عربی زبان واحد زبان ہے جو رسول اللہ ö کی ولادتِ مبارکہ سے کم و بیش ساڑھے تین سو سال پہلے سے بولی جارہی تھی ﴿ جس کے نمونے ﴾ آج ہم تک پہنچے ہیں اور ان میں یہی اسلوب ، یہی الفاظ اور یہی لغت استعمال ہوئی ہے جو احادیث اور قرآنِ پاک میں ہمیں ملتی ہے۔
﴿محاضراتِ حدیث از ڈاکٹر محمود احمد غازی﴾
قرآنِ معجز بیان کے اس احسان ہی کا نتیجہ ہے کہ زمانہ، جاہلیت کے عربی ادب و شاعری بھی آج تک محفوظ ہیں۔ چنانچہ امراو،القیس ، اور لبید بن ربیعہ عامری جیسے زمانہ، جاہلیت کے نام آج بھی اہلِ علم و ادب میں جانے پہچانے ہیں بلکہ ان کی شاعری جو زمانہ، جاہلیت کی شاعری کے بہترین نمونوں کے طور پر خانہ، کعبہ میں لٹکائی جاتی تھی، ﴿ جسے سبعہ معلقات کہا جاتا ہے ﴾ آج بھی ہمارے دینی مدرسوں میں شامل، نصاب ہیں۔
یوں تو عربی زبان قرآنِ کریم و سنتِ نبوی ﷺ کی تعلیم و ترویج کے لحاظ سے مسلمانانِ عالم کی پسندیدہ ترین زبان ہے، لیکن اعجاز ِ قرآن نے آج چودہ سو سال بعد بھی اسے نہ صرف زندہ، جاوید رکھا ہوا ہے، علمی و ادبی و لسانی اعتبار سے بھی اس زبان کی لذت و حلاوت ، فصاحت و بلاغت بھی نہ صرف زمانہ، جدید کی دیگر زبانوں کے مقابلے میں بدرجہ، اتم موجود ہے بلکہ یہ آج بھی اتنی ہی جدید ہے جتنی زمانہ، بعثت میں تھی اور آج بھی اس میں وہ چاشنی موجود ہے جو زمانہ، رسالت ماٰب ﷺ میں تھی۔
عربی زبان دانی کی اس چاشنی کے مزے لوٹنے اور علم النحو کے قواعد کا مختصر جائزہ لینے سے پہلے ملاحظہ فرمایئے علم النحو کا ایک مختصر مگر دلچسپ فارمولہ
جائ زیدُُُُْ ُُ ، را،یت زیداً ، مررت بزیدٍٍٍ۔
غور طلب نکتہ یہ ہے کہ اس جملے میں زید بیچارہ وہی زید و بکر والا ہمارا زید ہے، لیکن مختلف اوقات و صورتوں میں مختلف الفاظ کے ساتھ اس پر لگائے جانے والے اعراب مختلف ہیں۔ یہ صورت لسانیاتِ عربی میں کلمہ کی اعرابی حالتیں کہلاتی ہے، اور ان کا مطالعہ علم النحو کہلاتا ہے۔
کلمہ کیا ہے اور اس کی اعرابی حالتوں سے کیا مراد ہے، یہ سب ذرا دیر میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہم عصر، علاقے کی زبانوں کا اس بارے میں کیا رویہ ہے۔
سب سے پہلے ملاحظہ کیجیے ، ڈپٹی نذیر احمد کا کیا ہوا سورہ، بقرہ کی آخری آیتوں کا خوبصورت با محاورہ ترجمہ۔
’’ اے ہمارے پروردگار! اگر ہم بھول جائیں یا چوک جائیں تو ہم کو ﴿ اس کے وبال میں﴾ نہ پکڑ اور اے ہمار ے پروردگار! جو لوگ ہم سے پہلے ہو گزرے ہیں، جس طرح ان پر تونے ﴿ ان کے گنا ہوں کی پاداش میں احکامِ سخت کا ﴾ بار ڈالا تھا، ویسا بار ہم پر نہ ڈال۔ اور اے ہمارے پرور دگار! اتنا بوجھ جس ﴿ کے اٹھانے﴾ کی ہم کو طاقت نہیں، ہم سے نہ اٹھوا، اورہمارے قصوروں سے در گزر اور ہمارے گناہوں کو معاف کر۔ اور ہم پر رحم فرما، تو ہی ہمارا ﴿ حامی و﴾ مدد گار ہے۔ تو ان لوگوں کے مقابلے میں ، جو کافر ہیں، ہماری مدد فرما۔
اردو کا نثری دینی ادب اور قرآنی تراجم و تفا سیر
ازپروفیسر ڈاکٹر غلام مصطفےٰ خان، ماہنامہ مسیحائی کراچی، قرآن نمبر﴾
مندرجہ بالا پیراگراف کا بغور مطالعہ ہمیں یہ بتلاتا ہے کہ اس میں ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہے۔ اور یہی اردو زبان کا انداز ہے جو اردو کی دریافت سے لے کر آج تک زبان کی تبدیلی کے باوجود برقرار ہے۔ اسی طرح انگریزی کو لے لیجے۔
" 1. Alif Lam Meem.
2. This is the Book; in it is guidance sure, without doubt, to those who fear God۱
3. Who believe in the unseen, are steadfast in prayer, and spend out of what We have provided for them;
4. And who believe in the revelation sent to thee; and sent before thy time, and ( in their hearts) have the assurance of the Hereafter;
5. They are on ( true) guidance from their Lord, and it is those who will prosper.
(Al Baqarah 1-5, The Holy Quran
Translated by Abdullah Yusuf Ali
ملاحظہ کیجیے کہ انگریزی میں بھی ہر لفظ کا آخری حرف ساکن ہے۔ کم و بیش یہی صورتحال فارسی میں بھی ہے۔ ذ یل میں فارسی کا ایک شعر پیش ہے۔2. This is the Book; in it is guidance sure, without doubt, to those who fear God۱
3. Who believe in the unseen, are steadfast in prayer, and spend out of what We have provided for them;
4. And who believe in the revelation sent to thee; and sent before thy time, and ( in their hearts) have the assurance of the Hereafter;
5. They are on ( true) guidance from their Lord, and it is those who will prosper.
(Al Baqarah 1-5, The Holy Quran
Translated by Abdullah Yusuf Ali
مبنی آ ں باشد کہ ماند بر قرار
معرب آں باشد کہ گردد با ر بار
اسی طرح پنجابی زبان سے حضرت سلطان باھو کے اشعاردرج ذیل ہیں
الف۔ اللہ چنبے دی بوٹی مرشد من مرے وچہ لائی ھو
نفی اثبات دا پانی ملیاھر رگِ ھرجائی ھو
اندر بو ٹی شور مچایا جان پھلن پر آئی ھو
جیوے مرشد کامل حضرت با ھو جیئں ایہہ بوٹی لائی ھو
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سا عامل ہے جو ان تمام زبانوں کے بر عکس عربی کو وہ خاص کیفیت وکمیت عطائ کر رہا ہے اور جس کے نتیجے میں ہم ہر کلمے کے آخری حرف کی حرکت کو سمجھ سکیں ۔ اس عامل کو سمجھنے کے لیے جس علم کا سہارہ لیا جا تا ہے اسے علم النحو کہا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ علم النحو کو حضرت علی (رضی اللہ عنہ ) نے ایجاد کیا تھا۔ وللہ اعلم بالصواب۔
علم النحو کی تعریف عربی میں کچھ یوں کی جاتی ہے۔
النحو علم با صول یعرف بھا احوال اواخر الثلاث من حیث الاعراب والبنائ و کیفیت ترکیب بعضھا مع بعض۔
یعنی علم نحو ایسے قوانین کے جاننے کا نام ہے جن سے دو چیزوں کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔
۱۔ تینوں کلموں یعنی اسم، فعل ، حرف کی آخری حالت معلوم ہوتی ہے اس لحاظ سے کہ وہ معرب ہے یا مبنی۔
۲۔ کلموں کو آپس میں جوڑ کر جملہ بنانے کی ترکیب معلوم ہوتی ہے۔
آیئے اب دیکھتے ہیں کہ معرب اور مبنی کی کیا تعریف ہے۔
معرب۔
معرب کے لغوی معنی ہیں ، اظہار کی جگہ اور اصطلاح میں معرب وہ کلمہ ہے جس کا آخری حرف ہمیشہ بدلتا رہتا ہو۔ پس جس کے سبب سے یہ تبدیلی رونما ہوتی ہے اس کو عامل کہتے ہیں اور جو چیز آخری حرف سے بدلتی ہے اس کو اعراب کہتے ہیں۔ جیسے کہ زیدُ ہماری گذشتہ مثال میں معرب ہے ، جائ وغیرہ عامل ہیں ۔ دو پیش ، دو زبر اور دو زیر وغیرہ اعرا ب ہیں۔ اور دال محل اعراب ہے یعنی وہ جگہ جہاں اعراب واقع ہو رہے ہیں اور یہ کلمہ کا آخری حرف ہوتا ہے۔
مبنی۔
مبنی کے لغوی معنی ہیں بنائ کیا ہوا۔ اور اصطلا ح میں مبنی وہ کلمہ ہے جو ہمیشہ ایک حال پر رہتا ہے۔ یعنی عامل کے بدلنے سے اس کی آخری حرکت میں کچھ تبدیلی نہیں ہوتی۔ جیسے ’’جائ ھٰذا، را،ٰیت ھٰذا، اور مررت بھٰذا ‘‘ ان مثالوں میں ھٰذا مبنی ہے اور ہر حالت میں ِ یکساں ہے۔
اب آخر میں ایک دلچسپ نکتہ پیش خدمت ہے۔ ان اعراب کو بالترتیب رفع﴿ پیش﴾ نصب ﴿ زبر﴾ اور جر ﴿ زیر﴾ کہتے ہیں۔ بعض اوقات اعراب کی یہ حالت ظاہر ہوتی ہے اور بعض اوقات ظاہر نہیں ہوتی۔ہر دو صورتوں میں ان حالتوں کو حالتِ رفعی ﴿ پیش کے ساتھ﴾ حالتِ نصبی ﴿ زبر کے ساتھ﴾ اور حالتِ جری ﴿ زیر کے ساتھ﴾ کہا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر اسمِ تثنیہ کا صیغہ ہو تو حالتِ رفعی میں اس کے آخر میں َ ن ِ اور حالتِ نصبی و جری میں ِ ینِ لگا تے ہیں جیسے کتب الرجلانِ مکتوبینِ الیٰ المرٰتینِ ﴿ دو مردوں نے دو خط دو عورتوں کی طرف لکھے﴾ ۔ گویا رجلانِ ، مکتوبانِ ، مراٰتانِ آ خری حرکت یعنی زیر کے باوجود حالتِ رفعی میں کہلاتے ہیں ۔ اور رجلینِِِ ، مکتوبینِ ، مرا،تین ِ آخری حرکت یعنی زیر کے با وجود حالتِ نصبی و حالتِ جری میں کہلاتے ہیں۔
دراصل اعراب کی دو قسمیں ہوتی ہیں ۔ ایک اعرابِ بالحرکۃ جو زیر زبر پیش سے ظاہر کیا جاتا ہے اور دوسرا اعرابِ بالحروف، جو بعض حروف کی زیادتی سے ظاہر کیا جاتا ہے۔
یہ گو یا اس طویل بحث کا نکتہ، آغاز ہے جسے علم النحو کہا جاتا ہے۔ یعنی کلمہ کی تین حالتوں اسم فعل اور حرف میں سے کون کونسے اسم ، فعل معرب ہیں اور کون کون سے اسم و فعل مبنی ہیں ﴿ واضح رہے کہ سارے حروف مبنی ہیں ، یعنی ان کی حالت کسی بھی طرح کے استعمال میں یکساں رہتی ہے﴾۔ نیز اسم کی کتنی قسمیں ہوتی ہیں، فعل کون کون سے ہوتے ہیں، اور حروف کتنے اور کتنی قسموں کے ہوتے ہیں۔ مزید یہ کہ نحو کے عوامل کون کون سے ہوتے ہیں۔ وغیرہ وغیرہ۔
امید ہے کہ میں قاری کے دل میں وہ آتشِ شوق بھڑکانے میں کامیاب ہوپایا ہوں، جو میرے اس مضمون کا مقصد و مدعا تھا۔ عربی زبان اس لیے تو محترم ہے ہی کہ یہ قرآن و سنت کی زبان ہے، بلکہ یہ اس لیے بھی قابلِ ستائش اور سیکھنے کے لائق ہے کہ یہ دنیا کی بہترین زبان ہے۔ حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ’ خیرکم من تعلم القرآن و علمہ‘ تم میں سے بہتر وہ ہیں جنھوں نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔ قرآن کے سیکھنے اور سکھانے کے لیے عربی ضروری تو ہے ہی، پھر اگراسے اسکے محاسن و خوبیوں کو پرکھتے ہوئے ، شوق سے سیکھا جائے تو سونے پر سہاگہ ہے۔
تمت بالخیر