الف نظامی
لائبریرین
علم النغمات یا قرآن کریم کے لہجات کا فن
(مولانا عزیز احمد یوسف زئی)پوری دنیا میں قرآن کریم کی تلاوت کرنے والے قاری کی قراء ت سات لہجات میں سے کسی بھی لہجے سے باہر نہیں ہوتی، یعنی اس کی قراء ت سات لہجوں میں سے کسی ایک لہجے کے موافق ضرور ہوگی۔ وہ سات لہجات اہل فن نے اس جملے میں جمع کئے ہیں :’’صنع بسحر‘‘ ،’’ص ‘‘سے صباء ’’ن‘‘ سے نہاوند ’’ع ‘‘سے عجم (چہارگاہ) ’’ب‘‘ سے بیات’’ س‘‘ سے سیگاہ ’’ح‘‘ سے حجاز اور’’ ر‘‘ سے رست۔ اس فن کو علم النغمات بھی کہتے ہیں، علم المقامات بھی کہتے ہیں، ترانیم قرآنی بھی کہتے ہیں اور اس کو لہجات کا علم بھی کہا جاتا ہے۔
بلادِ عرب یعنی مصر، امارات، سعودیہ، شام، عراق اور دیگر ممالک جیسے: ایران، انڈونیشیا وغیرہ میں اس علم کو سیکھنے کا کافی اہتمام کیا جاتا ہے اور بعض ممالک میں تو اس کا اس قدر اہتمام ہے کہ قراء کے علاوہ بعض عام لوگ بھی اس فن کو جانتے ہیں، لیکن برصغیر یعنی پاکستان، ہندوستان اور افغانستان اور دیگر وہ ممالک جہاں کی اکثریت عجمیوں پر مشتمل ہے، وہ اس فن سے ناواقف ہیں۔ بلکہ افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان ممالک کے اکثر خواص ،مشہور قراء اور علماء کوبھی اس فن سے مناسبت نہیں ۔ راقم الحروف بذات خود اس فن کا طالب علم ہے، اس لیے دل میں یہ داعیہ پیدا ہوا کہ اس علم اور اس فن کے متعلق کچھ بنیادی باتیں لکھ لی جائیں، تاکہ اس فن کو بھی سیکھنے کا اہتمام کیا جائے۔
علم النغمات اور قرآن کریم کے لہجات کو سیکھنے سے پہلے جو چیز سب سے اہم اور ضروری ہے، وہ ہے قرآن مجید کو اچھی طرح تجوید سے پڑھنا اور اس کی تلاوت کے دوران تجوید کے تمام قواعد کا مکمل خیال رکھنا۔ اگر کوئی شخص قرآن مجید کی تجوید سے ادائیگی میں کمزور ہے تو وہ پہلے تجوید سیکھے، قرآن کے حروف کے ادائیگی میں درستگی اور پختگی پیدا کرے، اس کے بعد نغمات اور لہجات سیکھے۔
علم النغمات کا تعلق قرآن مجید کے جمالیاتی پہلو سے ہے۔ خوبصورت اور اچھی آواز میں قرآن مجید کی تلاوت کا شریعت مطہرہ بھی حکم دیتی ہے۔
حدیث شریف میں آتا ہے، حضور اکرم ا کا ارشاد ہے :
’’لیس منا من لم یتغنّ بالقرأٰن‘‘
’’ وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو قرآن مجید کو اچھی آواز اور خوبصورت انداز میں نہ پڑھے‘‘ ۔
حضور اکرم نے فرمایا:
’’ ونعم النعمۃ الصوت الحسن‘‘
’’ بہترین نعمت اچھی آواز کا ہونا ہے‘‘
اور حضور ا کا ارشاد گرمی ہے:
’’زینوا القرأٰن بأصواتکم ، فإن الصوت الحسن یزید القرأٰن حسناً‘‘
’’ قرآن مجید کو اپنی آوازوں سے زینت دو، مزین کرو، اس لیے کہ اچھی آواز قرآن کے حسن اور خوبصورتی کو بڑھاتی ہے‘‘۔
اسی طرح آپ علیہ السلام کا ارشاد ہے:
’’إقرؤا القرآن بألحان العرب وأصواتہا‘‘
’’قرآن مجید کو عربوں کے طرز اور لہجوں میں اور عربوں کی آواز میں پڑھو‘‘
یعنی ان کی آوازوں کی نقل اتارتے ہوئے ان کی تقلید کرو۔ ان احادیث سے پتہ چلتا ہے کہ اچھی آواز اور اچھے انداز سے تلاوت کرنا نہ صرف مستحسن اور بہترین عمل ہے، بلکہ شریعت مطہرہ کا حکم بھی ہے اور قرآن مجید میں بھی ٹھہر ٹھہر کر تلاوت کا حکم دیا گیا ہے:
’’وَرَتِّلِ الْقُرْأٰنَ تَرْتِیْلاً ‘‘
اور علم النغمات بھی اچھے انداز سے قرآن کی تلاوت کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔معلوم ہوا کہ یہ بھی علم شرعی ہے اور شریعت میں بھی اس کی حیثیت اور مقام ہے۔ البتہ اس فن کے اپنے قواعد اور ضوابط ہیں، جن کے دائرے میں رہتے ہوئے اس فن کو استعمال کیا جاسکتا ہے، مثلاً مقصود اصلی صرف اور صرف لہجات اور نغمات نہ ہوں اور نہ ہی سارا دھیان ایک لہجے سے دوسرے لہجے کی طرف منتقل ہونے میں ہو، یہ بھی نہ ہو کہ لہجات کا اس قدر خیال رکھا جائے کہ تجوید کے قواعد کی خلاف ورزی کرنی پڑے اور قرآن مجید کے معانی اور مفاہیم میں جو غور کرنا ہو، وہ بھی چھوٹ کر ساری کی ساری توجہ لہجات پر لگ جائے۔
سب سے اہم اور بنیادی سوال یہ ہے کہ اس فن کو ہم کیوں سیکھیں؟ اس فن کا مقصد کیا ہے؟
اس فن کے سیکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم قرآن مجید کی آیات کے معانی ومفاہیم کی گہرائی میں اتر کر ان کو اس انداز سے پڑھیں کہ گویا ہمارا رب ہم سے مخاطب ہے، یعنی ہم ان آیات کو مجسم انداز میں پیش کردیں
مثلاً:
قرآن مجید میں کئی طرح کی آیات‘ عذاب اور کفاروفساق کے لیے سزاؤوں پر مشتمل ہیں تو ان آیات کو ہم انتہائی حزن اور غم کے انداز میں پڑھیں یا قرآن مجید میں جنتیوں کے لیے بشارتوں کا ذکر ہے تو ان کو ہم خوشی کے طرز اور لہجے میں پڑھیں، یہی اس فن کا مقصد ہے۔
کل سات لہجات ہیں، جو ہم نے ابتدا میں ذکر کردیئے اور یہی سات لہجات اصلی ہیں، باقی ان لہجات کی فروعات اور شاخیں ہیں جو انہی اصلی لہجات کو ملا کر بنائی جاتی ہیں، جن کو ہر لہجہ کے ساتھ ضمناً ذکر کیا جائے گا۔ ان لہجات کی مشق کسی ایسے مشاق قاری سے کی جائے جو اس فن کو جانتاہو اور اس فن میں ماہر ہو، ورنہ مضمون پڑھنے سے آپ صرف لہجات کے نام جانیں گے یا زیادہ سے زیادہ لہجات کے موارد کا پتہ چلے گا کہ کن آیتوں میں کونسا لہجہ استعمال ہوتا ہے۔
قرآن کریم کی آیات میں استعمال کے وقت ان لہجات کی ترتیب مختلف ہے، بلکہ ہر قاری کے لہجات کے پڑھنے کی ترتیب دوسرے سے اکثر مختلف ہوتی ہے، لیکن اکثر قراء ابتدا میں بیات ہی کو استعمال کرتے ہیں۔ ’’صنع بسحر‘‘ کی عبارت کی ترتیب پر ہر لہجے کا تعارف میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں
۱:صباء
لغت میں صباء مطلع شمس یعنی مشرق سے چلنے والی ہوا کو کہتے ہیں۔ یہ غم اور حزن کا لہجہ ہے اور جب انسان اس لہجے کو سنتا ہے تو اس کی طبیعت میں غم ، حسرت اور خوف کی کیفیت کو یہ لہجہ اجاگر کرتا ہے۔ یہ انتہائی خوبصورت لہجہ ہے کہ اس میں بیک وقت حزن اور جمال دونوں کیفیتیں پائی جاتی ہیں۔ قرآن کریم کی وہ آیات جوحزن، غم، حسرت اور الم پر مشتمل ہیں، وہ اس لہجے میں پڑھی جاتی ہیں۔ وہ آیات جو جنت اور اس کی نعمتوں کے ذکر پر مشتمل ہوں، وہ اس لہجہ میں نہیں پڑھی جائیںگی، وہ آیات جن میں جہنمیوں کا ذکر ہو یافساق وفجار پر عذاب کا ذکر ہو یا وہ آیات جو حسرت اور ندامت کے مضمون کو بیان کرتی ہوں، ان کو صباء لہجہ میں پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔
جاننا چاہیے کہ ہر لہجہ میں قراء ت کے تین درجات ہوتے ہیں:
قرار، جواب، جواب الجواب۔ قرار: ابتدائی درجہ ہوتا ہے، جس میں آواز ذرا پست اور نچلے درجے کی ہوتی ہے۔ جو اب: دوسرا درجہ ہوتا ہے، جس میں آواز کا درجہ پہلے کی بنسبت ذرا بلند ہوتا ہے اور جواب الجواب: تیسرا اور آخری درجہ ہوتا ہے، جس میں آواز کو بہت زیادہ اٹھا یا جاتا ہے اور لہجات کے ان تینوں درجوں کی رعایت قراء کے ہاں متداول ہے۔
صباء کی کئی شاخیں ہیں، جن میں مقام منصوری ہے، مقام الحدیدی ہے اور بعض قراء کے نزدیک رمل بھی صباء کی شاخ ہے۔ اس مختصر مضمون میں فروعی مقامات پر بحث مقصود نہیں ہے۔
البتہ مختصراً یوں سمجھیں کہ مقام منصوری کو حزن الرجال بھی کہتے ہیں، یعنی اس کو ادا کرتے ہوئے گویا قاری روتا ہے یا رونے والے کا انداز اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح صباء کی اور بھی شاخیں ہیں: صباء زمزم، صباء عشاق ۔مقام حدیدی کو مدِّ عوض پر پڑھا جاتا ہے، یعنی جہاں تنوین منصوب ہو۔ شام ، عراق، مصروغیرہ ممالک میں صباء کو پڑھنے کے الگ طریقے ہیں۔ اصل لہجہ میں سب متفق ہیں، صرف ناموں کی حد تک کچھ اختلاف پایا جاتا ہے ۔
صباء کے بعد عموماً عجم لہجہ پڑھا جاتا ہے۔ صباء غم کی آیتوں میں پڑھاجاتا ہے اور جب غم کی آیتیں ختم ہوجائیں اور غم اور عذاب سے چھٹکارے کا ذکرشروع ہو تو ان کو عجم میں پڑھا جاتاہے، اسی طرح قرآن کی وہ آیتیں جو تذکیر اور تنبیہ پر مشتمل ہوں، وہ بھی اسی صباء کے لہجے میں پڑھی جاتی ہیں۔ عجم کی دوشاخیں ہیں: عجم عشیران، عجم خِلْوَتی۔
۲:نہاوند
یہ نہاوند علاقے کی طرف منسوب ہے ۔یہ لہجہ اصل میں خوشی کا ہے ، لیکن کچھ درجہ اس میں غم کی آمیزش بھی ہے، اس لیے اس لہجہ کو صرف خوشی میں منحصر کرنا درست نہیں ہے۔ یہ لطیف مقامات میں سے ہے اور نرمی، شفقت اور محبت کا عنصر اس لہجہ میں زیادہ پایا جاتا ہے۔ علم النغمات کے اساتذہ کہتے ہیں کہ نہاوند لہجہ گلاب کے خوش رنگ اور صاف پھول کی طرح ہے، جس کی پتیاں پانی سے ترہوں، یہ لہجہ انسان کی طبیعت میں محبت، فرحت، خوشی اور تروتازگی کی کیفیت کو اجاگر کرتا ہے اور جوش وجذبہ والے اشعار اکثر اس لہجے میں پڑھے جاتے ہیں۔ کبھی اس لہجہ میں اذان بھی دی جاتی ہے، لیکن اس لہجہ میں اذان غیر معروف ہے۔ قرآن مجید کی وہ آیات جو جنت اور جنتیوں کے ذکر پر مشتمل ہوں، جن آیات میں نعمتوں کا ذکر ہو، خوشی اور فرحت کے مضمون پر مشتمل ہوں، یا وہ آیتیں جن میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی انسانوں یا بشریت پر احسانوں اور مہربانیوں کا ذکر ہو یا جنت اور اس کے بالاخانوں، حور وغلمان کا تذکرہ ہو، ان آیات کواس لہجہ میں پڑھنا زیادہ مناسب اور زیادہ افضل ہے ۔ کچھ درجہ اس میں ذرا سا غم کا پہلو بھی پایاجاتا ہے، اس لیے وہ آیات جو قیامت کے دن اور اس کے احوال کے ذکر پر مشتمل ہوں، وہ بھی اس لہجہ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس فن کے بعض علماء کے نزدیک وہ آیات جن میںاللہ تعالیٰ کے اوصاف کا ذکر ہو یا اخلاق واحکام اور عبادات اور دعا کا ذکر ہو، وہ بھی اس لہجہ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ یہ ٹھہراؤ اور سکون والا لہجہ ہے، اسی لیے بعض قراء اس کو فجر کے اوقات میں زیادہ پڑھتے ہیں۔ قصص قرآنی بھی اس لہجے میں پڑھے جاسکتے ہیں۔ نہاوند لہجہ سے پہلے اور بعد میں حجاز، صباء، جہارکاہ (چہارگاہ) پڑھے جاسکتے ہیں اور اکثر نہاوند کے بعد’’ رست‘‘ لہجہ پڑھا جاتا ہے اور ’’بیات‘‘ بھی اس سے پہلے اور بعد میں پڑھ سکتے ہیں۔ اس لہجہ کو صدیق منشاویؒ،مصطفی اسماعیلؒ اور شحات انورؒ بہت اچھے انداز میں پڑھتے تھے۔ مقامِ نہاوند کی بہت سی شاخیں ہیں، جیسے:’’نوا‘‘ ہے،’’ خَنَبَات‘‘ ہے،’’ صُبّی‘‘ ہے۔ یہ سب اہل عراق کے نزدیک ہیں ۔ بعض اہل فن کے ہاں نکریز (نگریز) بھی نہاوند کی شاخ ہے اور نہاوند کے جواب الجواب میں جو آواز انتہائی درجہ تک اٹھائی جاتی ہے، یہی نکریز ہے اور بعض اہل فن نکریز کو جہارکاہ اور صباء کا مجموعہ سمجھتے ہیں اور یہی ’’نکریز‘‘ (جو جہارکاہ اور صباء سے بنے) اس کی ادائیگی مشکل بھی ہے اور یہ قلیل الاستعمال بھی ہے۔
۳:عجم یا چہار گاہ یا جہارکاہ
لغت میں عجم‘ عرب کے علاوہ لوگوں کو کہا جاتا ہے، لیکن ایسا نہیں ہے کہ یہ لہجہ کسی اور زبان والوں کا ہے، یہ عرب ہی کا لہجہ ہے اور اصلی مقام ہے۔ قراء مصر کے ہاں عجم صباء کی شاخ ہے اور چہارگاہ اس کی شاخ ہے، صحیح یہی ہے کہ چہارگاہ ہی اصلی لہجہ ہے، لہٰذا ہم یہاں چہارگاہ پر بحث کریں گے اور اسی کے متعلق بتائیںگے۔ عجم جو صباء کی شاخ ہے، اس پر بحث ہوچکی ہے۔ عجم اور چہارگاہ میں اختلاف صرف لفظوں کی حد تک ہے، ایک ہی لہجہ پڑھاجاتاہے، نام اس کے دو رکھ دیئے گئے ہیں، کوئی اُسے عجم کہتا ہے ، کوئی چہارگاہ، البتہ میری ناقص معلومات کے مطابق اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ بعض قراء چہارگاہ کے ابتدائی دو درجوں یعنی قرار اور جواب کے بعد جواب الجواب میں عجم پڑھتے ہیں، جو صباء کی شاخ ہے اور اس عجم کی وجہ سے قرار اور جواب دونوں درجوں کو بھی عجم کہہ دیتے ہیں، جو درحقیقت چہارگاہ ہی کے لہجے میں پڑھے جاتے ہیں۔
مقام چہارگاہ قوتِ جلال اور عظمت کا لہجہ ہے، اسی لیے قرآن کی وہ آیات جو اللہ تعالیٰ کے جلال و کبریائی اور عظمت پر مشتمل ہوں، ان کو چہارگاہ میں پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔ اس لہجہ میں کچھ درجہ غم اور حزن بھی ہوتا ہے ، لیکن اس لہجہ میں مرکزی اور اساسی نکتہ قوت، عظمت، استقامت اور جلال کا ہے اور چہارگاہ کے جواب الجواب کو بعض قراء لحن الہندی کا نام دیتے ہیں اور چہارگاہ عموماً ’’رست‘‘ کے بعد پڑھاجاتا ہے اور صباء اور حجاز کے بعد بھی اس کو پڑھ سکتے ہیں۔
۴: بیات
یہ عراق کے ایک قبیلے کی طرف منسوب ہے، خلاصہ یہ ہے کہ اس لہجہ میں تین امتیازی صفات پائی جاتی ہیں:
۱…اس کی ادائیگی بہت آسانی اور سہولت سے ہوتی ہے اور اس کا سیکھنا بھی بہت آسان ہے کہ اکثر قراء اسی لہجہ سے اپنی تلاوت کی ابتدا کرتے ہیں۔
۲…یہ لہجہ ہر مقام کے قریب اور مناسب ہے، یعنی اس لہجہ کے بعد ہرایک لہجہ پڑھا جاسکتا ہے۔
۳…یہ ایسا لہجہ ہے جسے سن کر سامع اکتاہٹ کا شکار نہیں ہوتا ہے، اسی طرح حدر میں اس کو پڑھاجائے تو اس کی ادائیگی الگ انداز سے ہوتی ہے اور ترتیل میں الگ انداز سے اور ہرقاری اس کو الگ خوبصورتی سے پڑھتا ہے۔ یہ لہجہ عراق سے حجاز منتقل ہوا، اہل حجاز نے اس میں مزید اضافات کیے اور پھر ترکی، شام، اور دیگر ممالک میں پھیلا اور ہرعلاقے والوں نے اس میں مزید خوبصورتی کا اضافہ کیا۔اس لہجہ کو ’’ام المقامات‘‘ یعنی تمام لہجات کی اصل یا ماں کہا جاتاہے۔ یہ بہت وسیع لہجہ ہے، اس میں خوشی کی آمیزش بھی ہے اور غم کی بھی اور بہت عربی اسلامی نظمیں اور نعتیں اس لہجہ میں پڑھی جاتی ہیں اور اس لہجہ میں اذان بھی دی جاتی ہے۔ اس لہجہ کو عظمت اور جلال والی آیتوں میں پڑھا جاسکتا ہے اور نرمی اور رقت والی آیتوں میں بھی۔نیز قرآن مجیدکی وہ آیات جو مکالمات اور حوادث پر مشتمل ہیں، اسی طرح وہ آیتیں جو دعا پر مشتمل ہیں، اسی طرح وہ آیتیں جن میں مسلمانوں کو جہاد پر ابھارا گیا ہے یا وہ آیات جو خالق اور مخلوق کی عظمت پر مشتمل ہیں، اسی طرح قرآن مجید کی چھوٹی سورتیں اکثر اس لہجہ میں پڑھی جاتی ہیں۔ اس لہجہ سے پہلے اور بعد میں ہر لہجہ پڑھا جاسکتا ہے۔ بیات کی کئی فروعات اور شاخیں ہیں: ۱:…بیات اصلی، اس میں غم کا پہلو زیادہ ہوتا ہے اور بیات اصلی صباء کے بہت زیادہ مشابہ ہے۔ ۲:…بیات کُرد یا حجاز کا کُرد لہجہ بھی نرمی اور جمال میں ممتاز ہے اور اکثر اسی لہجہ میں قراء اپنی تلاتوں کو ختم کرتے ہیں، جس کو بعض اہل فن بیاتِ صدقہ کے نام سے بھی موسوم کرتے ہیں۔ ۳:…بیات شوریٰ، اس کی ابتداء حجاز سے ہوتی ہے اور اختتام بیات پر، یہ لہجہ قلیل الاستعمال بھی ہے اور مشکل بھی۔۴:… بیات حسینی۔ ۵:…بیات ابراہیمی۔ ۶:…بیات لامی۔ ۷:…بیاتِ اصفہان۔ ۸:…بیات دوگاہ۔ ۹:…بیات نوا۔یہ بھی بیات کی شاخیں ہیں۔
۵: سیگاہ یا سیکاہ:
بعض لوگ اس لفظ کو فارسی زبان کا سمجھتے ہیں۔ یہ مرکب ہے سہ اور گاہ سے، سہ بمعنی تین اور گاہ بمعنی مقام کہ یہ مقام اور لہجہ تیسرے نمبر پر اکثر پڑھا جاتاہے۔ بیات اور رست پڑھنے کے بعد یہ لہجہ غم اور خوشی دونوں طرح کے مفہوم والی آیتوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے اکثر قراء اس کو اپنی تلاوت کا محور اور مرکز بنالیتے ہیں کہ دوسرے لہجات پڑھنے کے بعد دوبارہ سیگاہ پڑھتے یا ہر ہر لہجہ کے بعد سیگاہ پڑھتے ہیں۔یہ لہجہ نہاوند، جہارکاہ، رست اور حجاز کے بعد پڑھا جاسکتا ہے اور بیات، حجاز اور رست کو سیکاہ کے بعد بھی پڑھنا ممکن ہے۔ قرآن کریم کی وہ آیتیں جن میںکسی بات کی خبر دینا مقصود ہو یا کسی قصہ پر مشتمل ہوں یا قیامت کے دن کے احوال پر مشتمل ہوں یا وہ آیات جو سوال اور جواب پر مشتمل ہوں یا استفہام پر مشتمل ہوں یا وہ آیتیں جن میں ایک نوع کی ڈانٹ ڈپٹ اور زجر وتوبیخ ہو، ان کو اس لہجہ میں پڑھا جاسکتا ہے۔ سیکاہ کی ایک شاخ رمل ہے، جس کو سیکاہ کے وسط میں پڑھا جاتا ہے اور کسی خاص مفہوم کی تاکید بتلانے کے لیے رمل کا استعمال کیا جاتا ہے، مثلاً: پہلے سوال گزرا ہو، اب اس سوال کے جواب والی آیت آگئی تو اس کو سیکاہ میں پڑھیں گے۔
۶: حجاز
یہ لہجہ ارضِ حجاز کی طرف منسوب ہے۔ یہ مقام بھی بہت وسیع ہے، اس میں خشوع، حزن، غم، درد اور الم کی کیفیات پائی جاتی ہیں۔ بہت ہی مشہور اور خوبصورت لہجہ ہے۔ اس لہجہ کو شیخ القراء مصطفی اسماعیلؒ اور شیخ عبد الباسط عبد الصمدؒ اور امیر النغم شیخ شحات محمد انور رحمہم اللہ بہت ہی عمدگی سے پڑھتے تھے اور اس لہجہ میں اذان بھی بہت ہی مشہور ہے۔ قرآن کریم کی وہ آیتیں جو قیامت کے اوصاف پر مشتمل ہوں یا ان میں غم، حزن، درد کا مفہوم ہو تو ان کو حجاز میں پڑھ سکتے ہیں، جس طرح ان کو صباء میں بھی پڑھا جاتا ہے۔ حجاز کو صباء اور سیگاہ کے بعد پڑھا جاسکتا ہے اور اسی طرح حجاز کے بعد نہاوند، سیگاہ ،رست اور بیات پڑھے جاسکتے ہیں اور نہاوند اور صباء بہت ہی سہولت اور آسانی سے حجاز کے ساتھ پڑھے جاسکتے ہیں۔ حجاز کی کئی شاخیں ہیں: عراق والوں کے ہاں حجازِ دیوان اور حجازِ غریب اس کی شاخیں ہیں۔ اس کے علاوہ حجاز کی اور بھی شاخیں ہیں: حجاز ہمایوں، حجاز قطر، حجاز مثنوی، حجاز خویزاوی، حجاز مدمی ۔ حجاز مدمی حددرجہ غمگین لہجہ ہے اور کرد قبائل کے ہاں اس کی اور ایک شاخ ہے جس کو وہ لوگ آجغ کہتے ہیں، اسی طرح زنکران اور حجاز کار بھی حجاز کی شاخیں ہیں۔ حجاز کی ایک اور شاخ حجاز کائیکار بھی ہے، زنکران لہجہ قلیل الاستعمال ہے۔
۷: رست
اس کو رصد بھی کہتے ہیں۔ یہ فارسی لفظ راست (سیدھا، سچا) کا مخفف ہے۔ یہ بھی بہت وسیع اور جمیل مقام ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس میں قوت، صلابت اور رخامت پائی جاتی ہے اور اس میں وقار بھی پایاجاتا ہے، اسی وجہ سے اس کو ملک المقامات (مقامات میں سب کا سردار) اور ابو النغم کہاجاتا ہے۔ بیات کے بعد سب سے زیادہ استعمال ہونے والا لہجہ رست ہے۔ اس لہجہ میں اذان بہت ہی مشہور ہے۔ شیخ عبد الباسطؒ اکثر اوقات اذان حجاز میں دیتے تھے اور راغب مصطفی غلوش اکثر اوقات رست میں اذان دیتے ہیں۔ اس لہجہ کو بھی تلاوت کے لیے محور اور مرکز بنایاجاسکتا ہے کہ تمام تلاوت اسی لہجہ میں ہی کی جائے اور تبعاً دوسرے لہجے پڑھے جائیں۔ اس میں حزن بھی ہے اور جمال بھی۔ اس میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت بہت مزین انداز سے ہوتی ہے اور اس لہجہ میں امتیازی پہلو یہ بھی ہے کہ اس کو ہرایک پڑھتا ہے، چاہے وہ اسے جانتا ہو یا نہ جانتا ہو۔ ائمہ حرمین کی تلاوتیں اسی لہجہ میں ہیں۔ یہ ان آیات میں استعمال ہوتا ہے جو اکثر اللہ سے سوال اور دعاپر مشتمل ہوں، اسی طرح جن آیتوں میں اللہ کی حمد ہو، اسی طرح وہ آیتیں جن میں اللہ تعالیٰ کے ناموں اسماء حسنیٰ کا ذکر ہو، اسی طرح قرآنی واقعات اور قصص اور فقہی احکام کی آیتیں، اسی طرح بعض قرآنی دعائیں اس لہجہ میں پڑھی جاسکتی ہیں۔ اس لہجہ کو بیات اور نہاوند کے بعد عموماً پڑھا جاتا ہے اور رست کے بعد صباء، سیگاہ، چہارگاہ اور بیات پڑھے جاسکتے ہیں۔ شیخ سید متولی عبد العالؒ ، راغب مصطفی غلوش، سید سعید اطہر بدوی اوربعض اوقات شیخ طبلاوی اس لہجہ میں اپنی پوری تلاوت کرتے ہیں اور اس کو محور بناتے ہوئے دوسرے لہجات پڑھنے کے بعد دوبارہ رست پڑھتے ہیں۔ بعض قراء کہتے ہیں کہ ماہور جہارکاہ کی شاخ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ماہور رست کا جواب الجواب میں انتہائی درجہ ہے۔
اب سب سے اہم سوال یہ رہ گیا کہ جو لوگ لہجات نہیں جانتے تو وہ اس فن کو کیسے سیکھیں؟
جواب یہ ہے کہ ان کبار قراء کی تلاوتیں سنیں جو اپنی تلاوت میں اکثر اوقات تمام لہجات پڑھتے ہیں، جیسے: شیخ القراء مصطفی اسماعیلؒ ہیں، امیر النغم شیخ شحات محمد انورؒ ہیں، ان کی تلاوتیں بکثرت سننے کا التزام کریں، طرز آپ کے ذہن میں محفوظ ہو جائے گا اور ہرہر لہجہ کا الگ طرز ہوتا ہے۔ یہی طرز محفوظ ہوگیا تو سمجھ لیں کہ آپ لہجات بھی سیکھ چکے ہیں۔ رہایہ مسئلہ کہ اب طرزکی پہچان کون کرائے گا کہ یہ فلاں لہجہ کا طرز ہے تو اس کے لیے کسی ماہر اور لہجات کو سمجھنے والے قاری کی راہنمائی آپ کو لینی پڑے گی، جن کی تعداد ہمارے ملک پاکستان میں بہت کم ہے۔
آخری تدوین: