علم ایک سمندر

بزم خیال

محفلین
سمندر جتنا گہرا ہوتا ہیں اتنا تاریک اور پر سکون ہوتا ہے جوں جوں زمین کے برابر آتا ہے روشنی پا کر ساحلوں سے ٹکراتا ہے جہاں ذرے ذرے سے جڑی ریت حفاظتی حصار بن کر بپھری طلاطلمی موجوں کو مٹی تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے تو وہ بادل کی صورت زمین کو سیراب کرتا آبشاروں ندی نالوں اور دریاوں سے گزرتا مٹی کا لمس اپنے وجود میں سمو لیتا ہے۔
ویسے ہی علم ایک ایسا سمندر ہےجو جہالت کی زمین کو سیراب کرتا افکار و خیالات کا لمس اپنے اندر سمو لیتا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
سمندر جتنا گہرا ہوتا ہیں اتنا تاریک اور پر سکون ہوتا ہے جوں جوں زمین کے برابر آتا ہے روشنی پا کر ساحلوں سے ٹکراتا ہے جہاں ذرے ذرے سے جڑی ریت حفاظتی حصار بن کر بپھری طلاطلمی موجوں کو مٹی تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے تو وہ بادل کی صورت زمین کو سیراب کرتا آبشاروں ندی نالوں اور دریاوں سے گزرتا مٹی کا لمس اپنے وجود میں سمو لیتا ہے۔
ویسے ہی علم ایک ایسا سمندر ہےجو جہالت کی زمین کو سیراب کرتا افکار و خیالات کا لمس اپنے اندر سمو لیتا ہے۔
بہت خوب!!!!!
 

اسرار اظمی

محفلین
سمندر جتنا گہرا ہوتا ہیں اتنا تاریک اور پر سکون ہوتا ہے جوں جوں زمین کے برابر آتا ہے روشنی پا کر ساحلوں سے ٹکراتا ہے جہاں ذرے ذرے سے جڑی ریت حفاظتی حصار بن کر بپھری طلاطلمی موجوں کو مٹی تک پہنچنے کی راہ میں حائل ہوجاتی ہے تو وہ بادل کی صورت زمین کو سیراب کرتا آبشاروں ندی نالوں اور دریاوں سے گزرتا مٹی کا لمس اپنے وجود میں سمو لیتا ہے۔
ویسے ہی علم ایک ایسا سمندر ہےجو جہالت کی زمین کو سیراب کرتا افکار و خیالات کا لمس اپنے اندر سمو لیتا ہے۔

رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا
 

سیما علی

لائبریرین
علامہ جاراللہ زمخشری اربعین میں یہ روایت بیان کرتے ہیں کہ خوارج نے جب حدیث شریف ’’انا مدینۃ العلم وعلی بابھا‘‘ سنی تو ان میں سے دس لکھے پڑھے افراد حضرت سیدنا علی مرتضی کرم اللہ تعالیٰ وجہہ کے پاس آئے اور کہنے لگے کہ ’’اے علی! ہم سب آپ سے ایک سوال کریں گے، اگر آپ نے ہم سب کو علحدہ علحدہ جواب دے دیا تو ہم سمجھیں گے کہ آپ باب مدینۂ علم رسول ہیں‘‘۔ حضرت علی مرتضیٰ نے فرمایا: ’’پوچھو‘‘۔ ان لوگوں نے سوال کیا ’’علم بہتر ہے یا مال؟‘‘۔یہ سن کر سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے جواب دینا شروع کیا اور پہلے شخص سے فرمایا ’’علم بہتر ہے‘‘۔ ان لوگوں نے کہا ’’کیسے؟‘‘۔ فرمایا ’’علم اِس لئے بہتر ہے کہ وہ انبیاء کرام علیہم السلام کی میراث ہے، جب کہ مال قارون، فرعون اور ہامان کی میراث ہے‘‘۔ دوسرے شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ وہ تمہارا نگہبان ہے، جب کہ مال کی نگہبانی تم کو کرنی پڑتی ہے‘‘۔ تیسرے شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ مالدار شخص کے دشمن بہت ہوتے ہیں، جب کہ صاحب علم کو سب دوست رکھتے ہیں‘‘۔ چوتھے شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ مال خرچ کرنے سے کم ہوتا ہے اور تعلیم دینے سے علم زیادہ ہوتا ہے‘‘۔ پانچویں شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ صاحبِ مال اکثر بخیل ہوتے ہیں، جب کہ صاحب علم ہمیشہ کریم کہلاتے ہیں‘‘۔ چھٹے شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ مال کے لئے چور، ڈاکو اور ہزارہا آفتیں ہیں، جب کہ علم ان سب سے بے خوف (اورمحفوظ) ہے‘‘۔ ساتویں شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ مالدار سے کل قیامت کے روز حساب لیا جائے گا، جب کہ صاحب علم سے نہیں‘‘۔ آٹھویں شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ مال عرصہ تک رکھنے سے کہنہ و فرسودہ ہوجاتا ہے، جب کہ علم کو امتدادِ زمانہ سے کوئی نقصان نہیں ہوتا‘‘۔ نویں شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ اس سے قلب میں نور پیدا ہوتا ہے، جب کہ مال سے دل سیاہ ہوتا ہے‘‘۔ دسویں شخص سے فرمایا ’’علم اس لئے بہتر ہے کہ کثرتِ مال کی وجہ سے فرعون اور نمرود وغیرہ نے خدائی کا دعویٰ کیا، جب کہ ’’صاحب علم‘‘ یعنی حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہم نے تیری عبادت جیسی چاہئے تھی نہیں کی‘‘ اس طرح کا جملہ ادا فرمایا۔پھر حضرت سیدنا علی مرتضیٰ کرم اللہ تعالیٰ وجہہ نے خوارج سے فرمایا: ’’خدا کی قسم! اگر موت کے وقت تک تم مجھ سے یہی سوال کرتے جاؤ گے تو میں اسی طرح سے جواب دیتا رہوں گا اور ہرگز ایک بات مکرر نہ کہوں گا‘‘۔ یہ سن کر ان لوگوں نے توبہ کی اور آپ کی مخالفت سے باز آگئے۔ (بحر الدموع، علامہ ابن جوزی)

منقول
 
Top