علم حاصل کرنے کا مقصد غرور نہیں بلکہ عاجزی و انکساری ہونا چاہیئے۔

ہمارے ارد گرد اکثر لوگوں میں علم کے حصول کے بعد یکثر تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ تبدیلی سب سے پہلے ان کے مزاج سے معلوم ہوتی ہے۔
جبکہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔
آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو ۔
اگر ہم اس حدیث کو اپنا لیں تو اپنا دین و دنیا سنوار سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔
 

سیما علی

لائبریرین
بہت خوب بے شک ایسا ہی ہے ۔رسول اللّہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات اقدس کو باری تعالیٰ نے تمام انسانوں کے حق میں خلق عظیم اور اسوہ جلیل اور بے مثل سیرت اور سب کے لئے قابل تقلید نمونہ، انسان سازی اور شخصیت و کردار کی تشکیل کے لئے ایک ماڈل آف لائف بنایا ہے۔
 

جاسمن

لائبریرین
بہت سے پڑھے لکھے لوگوں میں واقعی علم کا غرور بہت دیکھا ہے۔
اللہ ہمیں اپنی نگاہوں میں چھوٹا اور دوسروں کی نگاہوں میں بڑا بنا دے۔ آمین!
 
مجھے لگتا ہے غرور علم سے نہیں آتا،علم تو عاجزی اور انکسار ہی سکھاتا ہے،جو لوگ صحیح معنوں میں علم والے ہیں انہیں مل کر احساس ہوتا ہے کہ وہ واقعی عاجزی رکھتے ہیں اپنے رویے میں،اپنے معمول اور اخلاق میں۔
غرور اور تکبر سکھانے والی چیز کاغذ کی ڈگری ہے جس کے حصول کیلیئے انسان دن رات محنت بھی کرتا ہے اور روپیہ بھی بہت لگانا پڑتا ہے اور اسی ڈگری کی بنا پر ہی روزگار ملنے کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔جو کامیاب ہوگیا وہ مغرور ہو گیا ۔وہ نہ صرف مغرور ہو جاتاہے بلکہ اپنا لگایا ہوا روپیہ بھی دوسروں سے وصول کرنے کی کوشش کرتا ہے۔کیونکہ اس کے ذہن کو معلومات کا خزانہ تو بنا دیا گیا مگر اسے علم نہیں سکھایا گیا۔
مگر ایسا سو فیصد نہیں ہوتا،کچھ لوگ علم اور ڈگری دونوں کے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں اور یقیناً ایسے لوگ معاشرے میں ہمیشہ عاجزاور مؤدب ہی نظر آتے ہیں۔
ہر انسان کی رائے الگ الگ ہوسکتی ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
مگر ایسا سو فیصد نہیں ہوتا،کچھ لوگ علم اور ڈگری دونوں کے حصول میں کامیاب ہوتے ہیں اور یقیناً ایسے لوگ معاشرے میں ہمیشہ عاجزاور مؤدب ہی نظر آتے ہیں۔
ہر انسان کی رائے الگ الگ ہوسکتی ہے۔

تیری نظر میں ہیں تمام میرے گزشتہ روز و شب
مجھ کو خبر نہ تھی کہ ہے علم نخیلِ بے رُطَب
تازہ مرے ضمیر میں معرکۂ کُہَن ہُوا
عشق تمام مصطفیٰؐ، عقل تمام بُولَہب
 
عاجزی اور انکساری اللہ کے وہ تحفہ ہیں جو سب کو میسر نہی ہوتے ۔ اپنی ہر دعا کے وقت ان کی تمنا کرنی چاہئے۔اور کوشش کرنی چاہئے کہ اپنی گفتار میں ، حلیہ میں اور خصوصا اپنے انداز میں عاجزی و انکساری اپنائیں۔ کوشش صرف یہ ہونی چاہئے کہ اللہ کو راضی کرنا ہے نہ کہ کسی مخلوق کی رضا کے لئے بناوٹی انداز کو اپنایا جائے۔ بندے کے غرور میں ریاکاری کیا بھی بہت بڑا کردار ہے۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بہت پیاری حدیث اسی بارے میں۔

جب حنین کی جنگ میں شکست ہوئی تو صحابہ بھاگنے لگے، ایک صحابی کا پاؤں بھاگتے ہوئے آپ ﷺ کے پاؤں پر آ گیا۔ صحابی کے پاؤں میں جنگ میں پہننے والا سخت جوتا تھا جو آپ ﷺ کے پاؤں پر پڑاتو آپ ﷺ نے صحابی کو ’چھڑی‘ مار دی اور صحابی سے کہا ’ارے! تم نے تو میرا پاؤں ہی مسل دیا‘ ۔ صحابہ اس وقت جان بچا کر بھاگ رہے تھے جب اس صحابی کے کان میں آواز پڑی تو وہ کہنے لگے کہ بس اب میری خیر نہیں، اب کوئی نہ کوئی وحی میرے بارے میں آئے گی کہ میں نے اللہ کے نبی ﷺ کو دکھ پہنچایا اور ان کے پاؤں پر پاؤں مار دیا، صحابی ساری رات نہ سو سکے اور سوچتے رہے کہ صبح میرے بارے میں وحی آئے گی ۔ صحابی بیان کرتے ہیں کہ صبح فجر کی نماز کے وقت اعلان ہو ا کہ جس کا پاؤں نبی ﷺ کے پاؤں پر پڑا تھا وہ دربار رسالت میں حاضر ہو ‘ صحابی نے کہا کہ میری ہائے نکلی اور کہنے لگا وہی کام ہوا جس کا مجھے ڈر تھا ، ضرور نبی ﷺ کے پاس میرے بارے میں کوئی بڑا حکم آیا ہوا ہوگا۔ صحابی جب دربار رسالت ﷺ میں حاضر ہوئے تو آپ ﷺ نے صحابی کو دیکھ کر مسکرائے اورفرمایا کہ ’’میرے بھائی! کل میں نے آپ کو چھڑی ماری تھی‘ اس پر معافی مانگنے کیلئے آپ کو بلایا ہے۔ یہ 60 ساٹھ اونٹنیاں میری طرف سے تحفے میں قبول کریں ، امید ہے اب آپ مجھے معاف فرما دیں گے‘‘۔ مولانا طارق جمیل نے کہا کہ آپ ﷺ کی چھڑی صحابی کو اس جگہ لوہے کی ذرہ پر لگی جہاں تلوار اثر نہیں کرتی لیکن آپ ﷺ نے 60 اونٹیناں دیں اور معافی علیحدہ مانگی ‘ یہ آپ ﷺ کا حسن اخلاق، برداشت اور درگزر ہے
سبحان اللہ۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہمارے ارد گرد اکثر لوگوں میں علم کے حصول کے بعد یکثر تبدیلی آجاتی ہے۔ یہ تبدیلی سب سے پہلے ان کے مزاج سے معلوم ہوتی ہے۔
جبکہ ہمارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ۔
آپس میں سلام کو عام کرو، یعنی ہر مسلمان کے لیے خواہ اس سے جان پہچان ہو یا نہ ہو سلام کرو ۔
اگر ہم اس حدیث کو اپنا لیں تو اپنا دین و دنیا سنوار سکتے ہیں۔ ان شاء اللہ۔
یہ معاشرتی طرز رہن سہن بھی ہے۔

یہاں سعودی عرب میں یہ عام رواج پایا جاتا ہے کہ لوگ ایک دوسرے کو نہ جانتے ہوئے بھی سلام کرتے ہیں۔گلی میں سے گزرتے ہوئے اگر دو انجان گزر رہے ہیں تو ان میں سے ایک سلام ضرور کرتا ہے۔ مزید یہ کہ سلام سننے والا جواب بھی ضرور دیتا ہے۔ کہ سلام کرنا سنت ہے جبکہ جواب دینا واجب ہے۔

یہ طریقہ کار ہمارے معاشرے میں نہیں ہے۔ بالفرض اگر آپ راستے میں کسی پاس سے گزرتے ہوئے بندے کو سلام کر لیں، تو وہ مڑ مڑ کر آپ کو دیکھے گا کہ اس نے مجھے سلام کیوں کیا؟ یہ تو میرا جاننے والا نہیں ہے۔

تو یہ معاشرے کے رہن سہن پر منحصر ہے۔
 
Top