علم عروض - اردو شاعری

تفسیر

محفلین
شاعری سیکھئے​

تخیل اور فطرت ِانسانی کو مؤثر ، دلکش انداز اور مناسب الفاظ میں پیش کرنے والا شاعر کہلاتا ہے۔ شاعری میں یہ بات تسلیم کرلی گی ہے کہ شاعری اکتساب سےحاصل نہیں ہوتی بلکہ جس میں شاعری کا مادہ پہلے سے موجود ہو وہی شاعر ہے۔ کہا گیا ہے کہ شاعر بنتا نہیں پیدا ہوتا ہے۔

ا س مبالغہ کی ابتدا پچھلے زمانے میں ہوئی اور آج جولوگ اپنےآپ کو کُہنا شاعر سمجھتے ہیں انہوں نےاس افواہ کوآج کےدور میں بھی پھیلایا۔ ہر فن میں اس کا فنکا ر چاہتا ہے کہ اس فن میں کم سے کم لوگ اس کے ہم مقابل ہوں اس لئے وہ نئے فنکاروں کے راستوں میں بلند دیواریں کھڑی کرتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ شاعری کے استاد صرف چُنے ہوئےشاگردوں کوعلم عروض تھوڑا تھوڑا کر کے سکھاتے ہیں اور باقی شاعری کو سیکھنے والوں سے یہ کہہ دیتے ہیں کہ " تمہارا کلام نا قابلِ اصلاح ہے"۔ علم عروض سے موزوں اور ناموزوں کلام میں تمیز کی جاتی ہے۔

عشق انسانیت کا سب سے بڑا جذ بہ ہے۔ غزل اس جذ بہ کا اظہار خوبصورتی سے کرتی ہے۔ شاعری میں غزل کے معنی " سخن با محبوب گفتاں" ہیں۔ زیادہ تر لوگ شاعری میں غزل کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ یعنی وہ اپنے محبوب سے باتیں کر نا چاہتے ہیں۔ یہ غزل کی بصیرت ہے جو پنہاں اشارے کنائے اور استعاری علامت کھنچتی ہے ۔ دلیل دینا دماغ کی زبان ہے جہاں استعارہ، الہام ربانی ہے۔ شاعر کی بصیرت باطنی ہے جب وہ معمولی سی چیزوں کو دیکھتا ہے تو وہ انکو ایک رنگ میں ڈھال لیتا ہے۔ غزل شعروں کا مجموعہ ہے ۔ شعرکی خوبی یہ ہے کہ وہ سادہ ہو اور جوش سے بھرا ہوا اورعقیدہ پر مبنی ہو ، مگرشعر کو بحور، اوزان ، ردیف اور قافیہ کی ضرورت نہیں ہوتی۔ نظم میں یہ چیزیں معتبر ہیں۔غزل کی دنیا کے اپنے اصول ہوتے ہیں۔ جسطرح ایک زبان کواسکی گرامر جانے بغیرسمجھنے میں مشکل ہوتی ہے اسی طرح غزل سے لطف انداز ہونےکے لئے اسکی باریکیاں جانا ضروری ہیں۔ یہ باریکیاں بحر، وزن، قافیہ اور ردیف کہلاتی ہیں۔اگر آپ دلی میں رہنا چاہتے ہیں تو آپ کودلی کے طریقہ کار سیکھنے ہونگے اگر لکھنو میں لکھنو کے۔ لہذا پیدائشی شاعروں کی دنیا میں ایک شاعر بنّے کے لے آپ کو ان کی شاعری کے اصولوں کو سیکھنا ہوگا ۔ یہ آپ مجھ اکتسابی شاعر سے سیکھئے۔اگر آپ نے مجھکو ہم سفر بنانے کی جرات کی تو میں آپ کو ر اہ مستقیم پرلگا دوں گا اس کے بعد راہ پر قائم رہنا اور سفر کو مکمل کرنا آپ کا کام ہے ۔

تفسیر
لاس انجیلس، کیلیفورنیا
پروفیسر سید تفسیر احمد
مور پارک کالج ۔ مور پارک

 

تفسیر

محفلین
تعارف


تعارف​

پروفیسرسیدتفسیراحمد، پاکستان کے شہر کراچی میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے سی.ایم.ایس سیکنڈری اسکول لارنس روڈ سے فرسٹ ڈیویزن میں میٹرک پاس کیا اورآپ نے کراچی سیکنڈری بورڈ آف ایجوکیشن میں اس سال دسویں پوزیشن حاصل کی۔ ڈی جے سائینس کالج سے بی ایس سی کر کے امریکہ چلے گئے۔ لاس انجیلس میں ویسٹ کوسٹ یونی ورسٹی سے الیکٹریکل انجینرینگ میں بی۔ایس کیا ا ور پھر یونیورسٹی آف کیلیفورنیا ایٹ لاس انجیلس(ucla) سےکمپوٹر سائنس میں ایم۔ اس کی ڈگری حاصل کی۔

تفسیر مور پار ک کا لج ، مور پارک ، کیلفورنیا کے فیکلٹی ممبر ہیں۔اور نشنل سائینس فاونڈیشن NSF - ایک فیڈرل ایجینسی جو کہ امریکہ میں سائنس اور تعلیم کو فروغ دیتی ہے کے یونائٹد اسٹیٹ انٹارکٹیک پروگرام ( USAP) میں انفارمییشن منیجمنٹ کی ٹیم کے ممبر ہیں۔

تفسیرکا پہلا ناول " پختون کی بیٹی" 2004 ء میں شائع ہوا ۔ پختون کی بیٹی کی کامیابی کے بعد 2005ء اُن کی نظموں اور غزلوں کا مجموع " یادوں کے چنار" بھی خود ہی شائع کیا ۔اسکے علاوہ ان کے افسانے، ٹھنڈے لب۔ پرندے کیوں اُڑتے ہیں؟ (پرواز) ۔مدوجزر ۔ ا با جان کے ہاں وغیرہ مختلف جریدو ں اور انٹرنیٹ پر کئی ویب سائٹس پر شائع ہوچکے ہیں۔

پروفیسرتفسیرکے افسانےحقیقت پر مبنی ہوتے ہیں اور نہ صرف معاشری برائیوں کو انکشاف کرتے ہیں بلکہ ان کاحل بھی پیش کرتے ہیں۔پروفیسر تفسیر کی رہائش لاس انجیلس کے ایک نواحی علا قہ اگورا ہلز ہیں ہے-

 

تفسیر

محفلین
علمِ عروض - سبق نمبر1​

اُردو شاعری​
سید تفسیر احمد​

کلاس طالب علموں سے بھری تھی۔ جیسے کوئی خیرات بٹے والی ہو۔ میں نے چاروں طرف نظر دوڑائی۔ بیٹھنے کے لئے کوئی جگہ دیکھائ نہ دی۔ میں پہلی قطارکے سامنے زمین پر بیٹھ گیا۔ مجھے شاعری کا شوق ہے اس لئے میں نے یہ کلاس لی لیکن میں یہ سوچنے لگا کہ اگردوسرے سیشن میں بھی بھیڑ کا یہی حال رہا تو میں اس کلاس کو ڈراپ کردوں گا۔

پروفسیر عابد عزم عزمی کلاس میں داخل ہوئے۔انہوں نے کلاس کا جائزہ لیا اور مسکرائے۔ اپنی داڑھی کو کچھ سوچتے ہوے کھجایا اور مڑ کر سلائیڈ پروجیکٹر آن کردیا۔

آپ میں سے کتنے لوگ شاعر ہیں؟"
کئی ہاتھ بلند ہوے۔
پروفیسر عابد نےان بلند ہاتھوں میں سے ایک طالب علم کو چننا اوراس سے سوال کیا " تمہارا نام کیا ہے ؟
" سر، میرا نام شکیل ہے ۔"
" شکیل' شاعری' کیا ہوتی ہے؟"
" سر، شاعری ' شعرگوئی' کو کہتے ہیں" شکیل نے جواب دیا۔
" شاعری ' مبالغہ آرائی' کا دوسرا نام کیا ہے؟ " ایک لڑکی نے ہنس کر کہا۔
" تم کون ہو؟ "
" شبنم، سر"
" ' شعر' کیا ہوتا ہے؟
" دو سطروں کی نظم "۔
پروفیسر عابدنےایک لڑکی سےسوال کیاجسں نے اپنا ہاتھ اوپراٹھایا تھا۔" تمہارا کیانام ہے؟
" سر، میرا نام سادیہ ہے" ۔
" کیا شبنم کا جواب صحیح ہے ؟ "
سادیہ نےمانا کہ شبنم کا جواب صحیح ہے۔
پروفیسر عابد نے کہا ۔" کیا یہ مکمل جواب ہے ؟"
پچھلی قطارسے کیسی نے کہا۔
" ہرشعرمیں ایک مکمل خیال ہوتا ہے ۔"
" یہ کس نے کہا۔" پروفیسر عابد نے اپنے چشمہ کو ٹھیک کرتے ہوے کہا۔
لڑکی نے کھڑے ہو کر کہا۔"سر ، یہ میں نے کہا تھا۔
میرا نام بتول ہے۔"
" سطر ' کیا ہوتی ہے۔" پروفسیر نےسادیہ سے پوچھا۔
سادیہ نے کہا ۔ " 'سطر کے مانع ' لکیر، قطار ، صف یا سلسلہ ' "
پروفیسر عابد نے بتول سے سوال کیا۔" شاعر کیا کرتا ہے؟"
" ' بَیت ' مارتا ہے"۔ بتول نے کہا۔ ساری کلاس ہنسنے لگی۔
" بَیت کے کیا مانع ہیں؟"
" شعر۔ ایک وزن کے دو مصرعے"۔ میں نے تبادلہِ خیال میں حصہ کیا۔
" اور آپ کون ہیں؟"
" سر، میرا نام تفسیر ہے۔"
" تو آپ کے مطابق یہ بَیت کی تفسیر ہے۔" پروفیسر عابدنے کہا۔ ساری کلاس ہنسنے لگی۔
پروفیسر عابدنےمجھ سے سوال کیا۔ "عروض کیا ہوتا ہے؟"
" عروض نظم کے قواعد کا علم ہے" ۔ میں نے کہا۔
پروفیسر عابد نے ایک لڑکے کی طرف اشارا کرکے پوچھا ۔ ۔" تم کون ہو۔ ' غزل ' کیا ہوتی ہے؟"
سر، میرا نام ندیم ہے۔ ' شعروں کے مجموعے ' کو غزل کہتے ہیں۔"
" سر" میں نے پچھے سے ایک دھیمی آواز سننی۔پروفیسر عابد نے کہا۔ " اور آپ کون ہیں؟"
" میں اظہار ہوں۔" آواز نے کہا۔
" تو اظہار کیجیئے۔"
غزل ' عربی ' کا لفظ ہے۔ اس کا مطلب ' عورتوں سے بات کرنااور انکےحسن و جمال کی تعریف کرناہے' ا س لئے غزل محبت کی زبان ہے۔
لڑکیوں نے کلاس میں شور مچانا شروع کردیا۔
پروفیسر عابدنے اپنا سیدھا ہاتھ اوپر اٹھایا۔ کلاس خاموش ہوگئی۔
ندیم غزل کے ' اجزا ئے ترکیبی ' کیا ہیں؟
" سر ، مَطلع ۔ مَقطعَ ۔ قافِیَہ ۔ رَدِیف ۔ اور بحر"۔
" پروفیسر عابد نے غالب کی غزل تختہِ سیاہ پرلکھی۔

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی
آگے آتی تھی حالِ دل پہ ہنسی
اب کیسی بات پر نہیں آتی
ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی
کچھ ہماری خبر نہیں آتی
کبعہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر آتی نہیں

" اس غزل کی ' ردیف ' کیا ہے؟ " پروفیسر عابد نے شکیل کی طرف دیکھا۔
" نہیں آتی "۔ شکیل نے جواب دیا۔
" کیوں؟ "
" اسلئے کی ہر شعر کی دوسری سطر ' نہیں آتی ' پر ختم ہوتی ہے"۔ شکیل نے کہا۔
" اس غزل کے ' قافیے' کیا ہیں؟ " پروفیسر عابدنے بتول کی طرف دیکھا۔
" ' بر'، نظر، پر، خبر، مگر"۔ بتول نے جواب دیا۔
" بر بھی وہ کیوں۔؟"
غزل کے ہر شعر میں ' ردیف سے پہلے قافیہ ' ہونا لازمی ہے اور کیوں کے غزل کا پہلا مصرعے میں ردیف ہوتی ہے اسلئے پہلی سطر میں ' نہیں آتی ' سے پہلے قافیہ کاہونا ضروری ہے۔ شاعر نے اس لئے بر کا استعمال کیا ہے۔
" قافیہ کی کیا خصوصیت ہوتی ہے ؟ "
" لفظوں کا مقفیٰ یا ہم آہنگی"
پروفیسر عابد میری طرف دیکھا اور سوال کیا۔ " تفسیر، اس غزل کا مطلع کیا ہے؟۔

میں نے کہا۔

کوئی امید بر نہیں آتی
کوئی صورت نظر نہیں آتی

" وہ کیسے؟"
" اصول عروض کے مطابق غزل کے پہلا شعر کے مصرعوں میں ردیف کا ہونا لازمی ہے۔
" غزل میں کتنے مطلع ہو سکتے ہیں؟۔" پروفیسرعابد نے سوال کیا۔
غزل میں مطلعے کی تعداد پر پابندی نہیں ہے۔"
پروفیسرعابد نے یہ شعر پڑھا۔
کَعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالب
شرم تم کو مگر آتی نہیں
" ندیم، اس شعر کی اس غزل میں کیا اہمیت ہے؟"
" غزل کا ' ' آخری شعر ' ہے اور اس میں غالب کا ' تخلص ' بھی موجود ہے ۔یہ شعر مقطع کہلاتا ہے۔"
" تخلص کیا ہوتا ہے؟
" بعض شعرا اپنی شاعری میں ایک ' فرضی نام ' استعمال کرتے ہیں اسکو تخلص کہتے ہیں۔ اس فرضی نام کو ' عرف ' بھی کہتے ہیں
" کیا مقطع میں تخلص کا ہونا لازمی ہے؟۔"
" نہیں ۔"
پروفیسر عابد نے کہا۔ " ہم اس سیشن کو اس جگہ ختم کرتے ہیں۔ اگلے سیشن میں ہم ' غزل کی صفات کا جائزہ لیں گے' ۔

پروفیسر عابدنےاپنی کتاب کھولی اور اس میں سے لےد ار انداز میں پڑھا۔

دنیا بنی تو، حمدو ثنا بن گئی غزل
اترا جو نور، نورِخدا بن گئی غزل
گونجا جو نادِبرہم، بنی رقصِ مہر و ماہ
ذرّے جو تھرتھرائے، سدا بن گی غزل
چمکی کہیں جو برق تو احساس بن گئی
چھائی کہیں گھٹا، تو ادا بن گئی غزل
آندھی چلی تو قہر کا سانچے میں ڈھل گئی
بادِصبا چلی، تو نشہ بن گئی غزل
حیوان بنے تو بھوک بنی بے بسی بنی
انسان بنے تو جذبِ وفا بن گئی غزل
آٹھا جو درد و عشق تو اشکوں میں ڈھل گئی
بے چینیاں بڑی تو دُعا بن گئی غزل
زاہد نے پی تو جامِ پناہ بن کے رہ گئی
رندوں نے پی تو جامِ بقا بن گئی غزل
ارزِِِدکن میں جاں تو دلی میں دل بنی
اور شہر لکھنو میں حنا بن گئی غزل
دو ہے ، رباعی ، نظمیں صبا ہی " ترز " تھی مگر
اصنافِ شاعری کا خدا بن گئی غزل

پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجی سب نے اسائنمینٹ کا ایک ایک پرچہ اٹھایا اور ہم سب دوسری کلاسوں کیطرف بھاگے۔

 
بھائی محمد مسلم
شکریہ آپ کا کہ آپ نے یہ خوبصورت بیانیہ ڈھونڈ نکالا، لیکن ہم مبتدیوں کی بدنصیبی کہ صاحبِ مضمون إس مضمون کو مکمل نہ کرسکے اور عرصہ تین سال سے مفقود الخبر ہیں۔ اندر ایں حالات ہم نے مبتدیوں کے لیے عروض کا علم سیکھے بغیر شاعری کرنے کا طریقہ دریافت کرلیا ہے، ملاحظہ ہو۔
 

عائشہ مشعل

محفلین
تما م لیکچر بہت اعلیٰ ہے۔ مگر اس میں مجھے جس چیز کی کمی محسوس ہوئی وہ یہ ہے کہ سر تفسر احمداصول سہ گانہ کو نظر انداز کر گئے ہیں۔ اس کو سمجھنے کے لیے اس مضمون کا مطالعہ طالب علموں کے لیے سود مند ثابت ہو گا۔
 
Top