کلاس آدھی سے زیادہ خالی تھی۔ وہ طالب علم جو صرف کلاس کو آڈیٹ کرنے آے تھے واپس نہیں آے۔ میں نے نظر دوڑای پہلی دو سیٹوں کی قطاریں بھری تھیں۔ تیسری قطار آدھی خالی تھی اور اُس کے بعدکی ساری قطاریں خالی تھیں۔ میں آدھی خالی قطار میں بیٹھ گیا۔
" میرا نام بتول ہے"۔ میرے الٹے ہاتھ پر بیٹھی ہوئی لڑکی نے کہا۔
"بتول۔ تو آپ کنواری ہیں!" میں نے مذاقاً کہا۔
" آپ۔ میرے نام کی تفسیر نہ کی جیئے آپ اطلاع کے لئے بتول حضرت فاطمہ کا لقب بھی تھا"۔ اس نے طنزیہ لہجے میں کہا۔
"آپ کو کیسے پتہ کے میرا نام تفسیر ہے؟"
"آپ کو یاد نہیں کہ پچھلی کلاس میں آپ ہی ایک شحص تھے جو پروفیسر عابد کی پیروں میں خادم کی طرح بیٹھےتھے"۔
"میں تو یہ سمجھا کہ آپ غیب کی باتیں جانتی ہیں"۔
"اچھا اب باتیں نہ بنائیں پروفیسر عابد آگئے ہیں"۔
پروفیسر عابد نے میز کے پاس پہونچ کر کلاس پر نگاہ ڈالی اور مسکرائے۔ اپنی داڑھی کو کچھ سوچتے ہوے کھجایااور کہا ۔
آج لکچر کا عنوان "صفات غزل اور غزل کی تعریف " ہے ۔ لکچر کے بعد ہم ان صفات پر تبادلہ خیال کریں گے۔ اور پروفیسرعابد نے لکچر شروع کیا۔
غزلاصنافِ سخن سےان تین خصوصیات ظاہری شکل،اندازِ بیاں، مضامین کی بنا پرامتیاز رکھتی ہے۔ غزل کا ہر شعر اپنی ذات میں مکمل اور مختصر ہوتا ہے۔ اس کو وضاحت کے لئے دوسرے شعروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ایک شعرحسن و عشق پر دوسرا فلسفہ پر تیسرا سیاست اور چوتھا دنیا کی بے ثباتی پر ہوسکتا ہے ۔
غزل میں تمام شعروں میں خیال اور یکسانیت کی ضرورت نہیں ہے۔ غزل میں داخلیت اور اعجازِ اختیار ہوتا ہے۔ خیا لات اورمحسوسات کا شاعر کی ذات سے پیدا ہونا کو داخلیت کہتے ہیں۔ شاعر نہ صرف اپنے خیا لات اورمحسوسات بلکہ بیرونی خیا لات اورمحسوسات کا اپنی فکرِذات کاحصہ بنا کر غزل لکھتا ہے۔
بڑے سے بڑے مضمون کو دلکش انداز میں ادا کرنے کی صلاحت کی خصوصیت کو اعجازِ اختیار کہتے ہیں۔ اسلئے شاعر اپنی غزل میں علامت، اشارے، تشبیہات، استرا کثرت سے استمعال کرتے ہیں۔
اگرچہ غزل میں تمام شعروں میں خیال اور یکسانیت کی ضرورت نہیں ہے۔ لیکن ایسی بھی غزلیں لکھی جاتی ہیں جن میں تسلسل ہو تا ہے۔ غزلِ مسلسل میں ایک بنیادی خیال یا جذبہ اور انکی وجہ کومختلف الفاظ و انداز میں بیان کیا جاتا ہے۔
ایسی دو غزلوں کا مجموع جوکہ ایک ہی بحر اور زمین میں مطلع اور مقطع کی پابندی کےساتھ کہی گئی ہوں دوغزلہ کہتے ہیں۔
غزل ایسے اشعار کا مجموعہ ہے جو دو مصروں سے بناتے ہیں اور جو ردیف، قافیے، مطلع اور مقطع کے پابند ہوتے ہیں۔
غزل کا ہر شعر لازماً ایک ہی بحر میں ہوتا ہے اور عموماً اپنی تشریح کے لئے دوسرے اشعار پر محتاج نہیں ہوتا ہے۔
ویسے غزل میں ایک ہی خیال کے مختلف پہلو بیاں کرنے کی بھی اجازت ہے۔
ایک طالب علم نےاپنا ہاتھ اٹھایا۔"سر، اصناف سخن کیا ہیں؟ "
پروفیسر نے کلاس سے کہا۔" کون اسکا کا جواب دینا چاہتا ہے؟"
اظہر نے کہا۔" نظم، رُباعی، حمد، مرثیہ، قطع، بند مُخمّس، مسدس منکبت وغیرہ کو اصناف سخن کہتے ہیں"۔
" غزل اور دوسرے اصناف سخن میں کیا بنیادی فرق ہے؟ " پروفیسر عابد نے سوال کیا۔
" ظاہری شکل، اندازِ بیاں، اور مضامین" شبنم نےجواب دیا۔
" غزل کی ظاہری شکل سے آپکی کیا مرادہے" ۔ ایک طا لب علم نےشبنم سوال کیا۔
" غزل کی ظاہری شکل قافیہ، ردیف اور بحر کی پابندی ۔مطلع اور مقطع کے اصولوں کی پابندی اور عموماً سات سے سولا اشعار" ۔ شبنم نے غزل کی ظاہری شکل کی تشریح کی۔
" سر کیا آپ داخلیت کوسمجھائیں گے"۔
" تم نے کبھی پیار کو پا کر کھویا ہے؟"
" سرمیں نے پیار ہی نہیں پایا تو اسکو کھودوں گا کیسے۔ " ساری کلاس ہنسنے لگی۔
"کبھی تمہارے کسی عزیز و احباب میں کی کسی کی موت ہوئی ہے؟"
" جی، سر" ۔
"اس واقعہ نے تم کو افسردہ کیا"۔ طالب علم نے اثبات سےسر ہلایا۔
"یہ افسردگی کی محسوسیت تمہاری ذاتِ فکر ہے۔"
" وہ خیا لات اورمحسوسات جوشاعر کی ذات فکرسے پیدا ہوتے اندرونی داخلیت کہلاتے ہیں۔ شاعر اپنے خیا لات اورمحسوسات سے متعلق غزل لکھتا ہے۔ اسکے علاوہ شاعر دوسری دنیاوی چیزیں جو اس کی ذات پراثر کرتی ہیں انکو بھی وہ اپنی ذاتِ فکر بنالیتا ہے اور ان کو اسی کرمحسوس کرتا ہے جیسےوہ اس کے جذبا ت کا حصہ ہوں اور ان پرغزل کہتا ہے۔
"سر، آپ ایک غزل مسلسل کی مثال دیں۔
پروفیسر عابد نے کہا غالب کی غزل
وہ فراق اور وہ وصال کہاں
وہ شب و روز و ماہ و سال کہاں
فرصتِ کاروبارِ شوق کسے
ذوقِ نظارۂ جمال کہاں
دل تو دل وہ دماغ بھی نہ رہا
شورِ سودائے خطّ و خال کہاں
تھی وہ اک شخص کے تصّور سے
اب وہ رعنائیِ خیال کہاں
ایسا آساں نہیں لہو رونا
دل میںطاقت، جگر میں حال کہاں
ہم سے چھوٹا "قمار خانۂ عشق"
واں جو جاویں، گرہ میں مال کہاں
فکر دنیا میں سر کھپاتا ہوں
میں کہاں اور یہ وبال کہاں
مضمحل ہو گئے قویٰ غالب
وہ عناصر میں اعتدال کہاں
پروفیسر عابد نے کہا۔ " ہم اس سیشن کواس جگہ ختم کرتے ہیں۔ اگلےسیشن میں ہم تخئیل اور تَغزُّل " کا جائزہ لیں گے"۔
پیریڈ ختم ہونے کی گھنٹی بجی سب نے اسانمیٹ کا ایک ایک پرچہ اٹھایا اور ہم سب دوسری کلاسوں کی طرف بھاگے۔
(I) ۔آج کے تبادلہ ِخیال کی مشق کیلے حسرت موہانی کی اس غزل مسلسل کو پڑھیں۔
چپ کے چپ کے رات دن آنسو بہانا یاد ہے۔
ہم کو اب تک عاشقی کا وہ زمانہ یاد ہے
دوپہر کی دھوپ میں میرے بلانے کیلئے
وہ تیرا کوتھے پہ ننھے پاؤں آنا یاد ہے
کھینچ لینا وہ میرا پردے کا کونہ دفعاً
اور ڈوپٹہ سے تیرا منہ چھپانا یاد ہے
تجھ سے ملتے ہی کچھ بیتاب ہو جانا میرا
حالِ دل بتاؤں ہی بتاؤں میں جتانا یاد ہے
بے رخی کے ساتھ سننا دردِدل کی داستاں
اور کلائی میں تیرا کنگن گمانا یاد ہے
II - صحیح جوڑ ملایئے
1۔اصنافِ سخن 2۔ داخلیت 3۔غزلِ مسلسل 4۔ دو غزلہ 5۔ اصنافِ سخن اور غزل میں بنیادی فرق کی بنا 6۔اعجازِ اختیار
الف۔ ظاہری شکل، اندازِ بیاں ، اور مضامین
ب۔ بڑے سے بڑے مضمون کو دلکش انداز میں ادا کرنے کی صلاحت کی خصوصیت۔
پ۔ ایسی دو غزلوں کا مجموع جا کہ ایک ہی بحر اور زمین میں مطلع اور مقطع کی پابندی کے ساتھ کہی گئی ہوں۔
ت۔ بنیادی خیال یا جذبہ اور انکی وجہ کو مختلف الفاظ و انداز میں بیان کیا جاتا ہے
ٹ۔ لظم ، رُباعی، حمد، مرثیہ، قطع، بند، مُخمّس، مسدس، منکبت
وہ خیا لات اورمحسوسات جوشاعر کی ذات فکرسے پیدا ہوتے۔
<III> ان 9 غزل کی تعریفوں میں کونسی ایک غزل کی تعریف صحیح نہیں ہے
1۔ عورتوں سے بات کرنااور انکے حسن و جمال کی تعریف کرناہے۔شعروں کا مجموعے
2۔ غزل ایسے اشعار کا مجموعہ ہے جو دو مصروں سے بناتے ہیں
3۔ یہ ا شعار ردیف اور قافیے ، مطلع اور مقطع کے پابند ہوتے ہیں۔
4۔ غزل کا ہر شعر لازماً ایک ہی بحر میں ہوتا ہے
5۔ عموماً غزل کا شعراپنی تشریح کے لئے دوسرے اشعار پر محتاج نہیں ہوتا ہے۔
6۔ غزل میں ایک ہی خیال کے مختلف پہلو کے بیاں کرنے کی بھی اجازت ہے
7۔ غزل اصنافِ سخن سے تین چیزوں ظاہری شکل، اندازِ بیاں ، مضامین میں امتیاز رکھتی ہے.
8۔ غزل میں داخلیت اور اعجازِ اختیار ہوتا ہے.
9۔ نظم ، رُباعی، حمد، مرثیہ، قطع، بند، مُخمّس ، مسدس ، منکبت۔ یہ سب غزل کی ایک قسم ہیں۔
امیر خسرو شاعری کو ہندوستان میں لائے۔ شاعری فارسی اور عربی میں پہلے سےموجود تھی۔ نہ صرف وہ صوفی تھے بلکہ قوالی کے موجد بھی ہیں۔ امیر خسرو یکےبعد دیگرے دہلی کے سات سلطانیت کے شاعر تھے۔ ان کے نام سے ١٣ کتابیں وابستہ ہیں۔ تحفاتُس سغر ، غراتول کمال اور وستولِ حیات (دیوان) ہیں
خسرو کےدوہے
خسرو رین سہاگ کی جاگی پی کے سنگ
تن میرو من پیو کو دوؤ بھئے اک رنگ
۔۔۔
خسرو دریا پریم کا الٹی وا کی دہار
واترا سو ڈوب گیا جو دوبا سو پار
خسرو کے دو سخنے
راجہ پیاسا کیوں ؟ گدھا اداسا کیوں؟
لوٹا نہ تھا
دہوار کیوں ٹوٹیَ راہ کیوں لٹی؟
راج نہ تھا
۔۔۔
انار کیوں نہ چکھا؟ وزیر کیوں نہ رکھا؟
دانا نہ تھا
دہی کیوں نہ جما؟ نوکر کیوں نہ رکھا؟
ضامن نہ تھا
خسرو کے پہلیاں
ایک پرکھ ہے سندر مورت جو دیکھے وہ اسی کی صورت
فکر پہیلی پائی نا بوجھن لاگا آئی نا
( جواب دوسری سطر کے آخیر میں ہے )
۔۔۔
بسیوں کا سر کاٹ لیا
نہ مارا نہ خون کیا
( دوسری سطر میں دو لفظ ہیں جن کو ملانے سے جواب بن جاتا ہے
۔۔۔
بلا تھا جب سب کو بھایا
بڑا ہوا کچھ کام نہ آیا
خسرو کہہ دیا اسکا ناؤں
ارتھ کہو نہیں چھاڑوگاؤں
( جواب تیسری سطر میں چُھپا ہے )