مہدی نقوی حجاز
محفلین
از جائے کہ ہمیں کسی علم میں مہارت حاصل نہیں اس مرتبہ بھی ہم ایک نئی وحشت میں گرفتار ہوئے جاتے ہیں۔۔ علم قافیہ۔۔ براہ کرم ہمارے علم میں اضافہ فرماتے یہاں ہمیں اس علم سے بھی آگاہ کریں۔۔
قافیہ پیمائی کا محض شوق ہے یا پھر محفلین کا قافیہ تنگ کرنے کا ارادہ ہے
ابن مریم ہوا کرے کوئیمیرے دکھ کی دوا کرے کوئیاس شعر میں ہوا اور دوا ہم قافیہ الفاظ ہیں۔ قافیہ کا ”ہم وزن“ ہونا ضروری ہے۔ قافیہ کے بعد آنے والے مکرر الفاظ )( کرے کوئی ) کو ردیف کہتے ہیں۔ اب یہ قافیہ و ردیف کیوں اور کیسے بنتے ہیں۔ ان کے وزن کو کیسے ”تولا“ جاتا ہے ؟؟ وغیرہ وغیرہ یہ سب جاننے کے لئے ماہرین کا انتطار کیجئے۔
تو ساتھ ہی کچھ وضاحت بھی فرمادیجے محترم محمد وارث۔
ماشاءاللہ سبحان اللہنقوی صاحب آپ کسی کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے، ایک ربط تو اوپر آ ہی گیا۔
مختصراً یوں سمجھیے کہ قافیہ کلام میں آنے والے وہ الفاظ ہیں جن میں کچھ حروف یا آواز اور انکی حرکت مشترک ہوتی ہے اور یہ الفاظ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ غالب کی اوپر والی غزل کو دیکھیے جو الفاظ بدل بدل کر آ رہے ہیں لیکن ایک جیسے ہیں ان میں ایک آواز مشترک ہے اور وہ ہے آ کی آواز۔ یعنی الف اور اس سے پہلے زبر کی آواز، مثلاً ہوا، دوا، جا، کیا، رہنما میں کلمہ آ مشترک ہے اور یہی قافیہ ہے۔
اسی طرح غالب کی ایک اور غزل
عرضِ نیاز عشق کے قابل نہیں رہا
جس دل پہ ناز تھا مجھے وہ دل نہیں رہا
اس غزل میں قافیہ اِل ہے یعنی لام اور اس سے پہلے زیر کی آواز، قابِل کا بِل اور دل یعنی اِل، اس کے دیگر قوافی میں محفِل، قاتِل، بسمِل وغیرہ ہیں۔ غور فرمائیے کہ ان الفاظ کے ساتھ بادَل، آنچل، جنگل قافیہ نہیں آ سکتے کیونکہ آخری تینوں الفاظ میں قافیہ اَل ہے یعنی لام اور اس سے پہلے زبر کی آواز۔ سو حرکت بدل گئی تو قافیہ بھی بدل گیا، بادل آنچل جنگل آپس میں قوافی ہیں لیکن قابل دل محفل کے ساتھ نہیں۔
بس یہ فرق ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔
ایک بات ابھی تک ہمارے سمجھ میں نہیں آتی اعجاز صاحب نے نشاندہی کی تھی پر سمجھ نہ آسکی وضاحت فرمادیں تو متشکر رہوں گا۔نقوی صاحب آپ کسی کتاب کا مطالعہ ضرور کیجیے، ایک ربط تو اوپر آ ہی گیا۔
قوافی اس لئے غلط کہہ رہا ہوں کہ ان میں ’نے‘ جو مشترک ہے، اسے نکال دیں تو دیکھ، اکھیڑ، بکھیر، لوٹ قوافی نہیں ہیں۔ بشیر بدر کی مشہور غزل، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے‘ میں بھی یہی سقم ہے۔
تصحیح کا بہت بہت شکریہ برادر۔قافیہ کا ہم وزن ہونا ضروری نہیں ہے، اسی غزل کے قوافی کیا، جا، رہنما، مطلع کے قوافی سے ہم وزن نہیں ہیں
ابنِ مریم ہُوا کرے کوئی
میرے دکھ کی دوا کرے کوئی
شرع و آئین پر مدار سہی
ایسے قاتل کا کیا کرے کوئی
چال جیسے کڑی کمان کا تیر
دل میں ایسے کے جا کرے کوئی
بات پر واں زبان کٹتی ہے
وہ کہیں اور سنا کرے کوئی
بک رہا ہوں جنوں میں کیا کیا کچھ
کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی
نہ سنو گر برا کہے کوئی
نہ کہو گر برا کرے کوئی
روک لو گر غلط چلے کوئی
بخش دو گر خطا کرے کوئی
کون ہے جو نہیں ہے حاجت مند
کس کی حاجت روا کرے کوئی
کیا کیا خضر نے سکندر سے
اب کسے رہنما کرے کوئی
جب توقع ہی اٹھ گئی غالبؔ
کیوں کسی کا گلہ کرے کوئی
ایک بات ابھی تک ہمارے سمجھ میں نہیں آتی اعجاز صاحب نے نشاندہی کی تھی پر سمجھ نہ آسکی وضاحت فرمادیں تو متشکر رہوں گا۔
اجالے صبح کے خشیاں سمیٹنے آئے
مرے محبوب تجھے مجھ سے لوٹنے آئے
ابھی تو شہر محبت مرا بسا ہی نہ تھا
کہ قہر و یاس یہ بستی اجاڑنے آئے
اسی کہ گال پہ مہر رقیب دیکھی ہے
بچھائے نظریں جسے آپ دیکھنے آئے
کہ جن کا مان تھا دل میں وہ کچھ خطوں کے جواب
مری امید کے موتی بکھیرنے آئے
حجاز سخت تو تھا پر میں وہ درخت نہ تھا
کہ جس درخت کو طوفاں اکھیڑنے آئے
قوافی اس لئے غلط کہہ رہا ہوں کہ ان میں ’نے‘ جو مشترک ہے، اسے نکال دیں تو دیکھ، اکھیڑ، بکھیر، لوٹ قوافی نہیں ہیں۔ بشیر بدر کی مشہور غزل، بچ گئے آج ہم ڈوبتے ڈوبتے‘ میں بھی یہی سقم ہے۔
شاید دکھ اور سکھ کے ساتھ ایک شعر ہو گیا ہو، اور اب غزل مکمل کرنا چاہ رہے ہوں۔ان دونوں کے علاوہ شاید ’’مُکھ‘‘ ہی ممکن ہو
مگر قافیہ ڈھونڈ کر اس پہ شعر کیوں فٹ کرنا چاہ رہے ہیں؟