عاطف بٹ
محفلین
ایک اور بڑا مسئلہ جس پر حکومتِ وقت خصوصی توجہ دینے کے عزم کا اظہار کرچکی ہے، تعلیم کا مسئلہ ہے۔ تعلیم کی سطح اور پھیلاؤ دونوں اس قدر توجہ طلب ہوچکے ہیں کہ ان میں مزید تاخیر کی گنجائش بہت کم ہے۔ دسیوں ایجوکیشن کمیشنوں نے پاکستان کی تخلیق سے پہلے بھی اور اس کے مابعد بھی تمام متعلقہ مسائل کے جواب دیئے ہوئے ہیں، (سوائے ایک کے) اور ان پر اصلاح کی چنداں گنجائش نظر نہیں آتی۔ دقت صرف ایک ہے اور اس کا نام سرمایہ ہے۔ تعلیم کو نتیجہ خیز اور عام کرنے کے لئے جتنے وسائل کی ضرورت ہے وہ سرے سے میسر ہی نہیں۔ نئے سکول بناؤ، انہیں تخلیقی و فنّی رجحان دو، یونیورسٹی کی تعلیم اور بالخصوص آرٹس کی تعلیم بےانتہا قابلیت کے طلباء کے لئے مختص کرو، لیبارٹریاں بناؤ، کھیل کے میدان بناؤ، پرائمری مدارس کی تعداد میں تین گنا اضافہ کرو، ایک یا دو استادوں والے پرائمری سکول صحیح تعلیمی بنیاد فراہم کرنے سے قاصر رہتے ہیں، ان میں استادوں کی تعداد بڑھاؤ۔ اب اگر ہزاروں نئے سکول کھولے جائیں اور ہزاروں سکولوں میں اساتذہ کی کمی پوری کی جائے اور اس پر مستزاد یہ اصرار کہ اساتذہ کی تنخواہوں میں اتنا اضافہ کرو کہ ملک کے بہترین نوجوان اس پیشہ کی طرف راغب ہوجائیں۔ جس تجویز کو بھی دیکھو ٹنوں سونا مانگتی ہے۔ ایک بات جو کسی ایجوکیشن کمیشن نے نہیں بتائی وہ یہ ہے کہ ٹنوں سونا کہاں سے آئے گا؟ حکومت کی آمدنی تو وہی ہے جو ٹیکسوں سے وہ حاصل کرتی ہے۔ ان ٹیکسوں کو قومی پیداوار کے ایک مناسب جز سے آگے لے جانا ترقیِ معکوس کا پیش خیمہ بن جاتا ہے، لہٰذا بنیادی حل اس تمام مسئلے کا قومی پیداوار میں انقلاب آفریں اضافہ ہے۔ اس سطح کا اضافہ اسی سطح کی سرمایہ کاری کے بغیر ممکن نہیں، اور سرمایہ کاری کی سطح میں انقلاب آفریں اضافہ سود اور بنکنگ ریزرو ختم کرنے کے بغیر ناممکن ہے۔
ایک چھوٹی سی مثال سے شاید بات واضح ہوجائے، آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ملک کے تمام بیمار کارخانے صحت مند ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا بیلنس شیٹ اٹھا کر دیکھیے تو ایک قدرِ مشترک جو ہر بیمار کارخانے میں نظر آئے گی، یہ ہے کہ کارخانے پر سود کا بوجھ اس کی مجموعی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ اب نقصان اٹھا کر کارخانہ چلانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، لہٰذا کارخانہ بند ہوجاتا ہے اور بیمار کارخانہ کہلاتا ہے۔ ان بیمار کارخانوں میں ملک کی مجموعی صنعتی سرمایہ کاری کا ایک چوتھائی لگا ہوا ہے۔ آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ان میں سے ہر کارخانہ صحت مند کارخانہ بن جاتا ہے اور ہزار ہا لوگوں کی روزی اور حکومت کی آمدنی میں بیش بہا اضافے کی صورت نکل آتی ہے۔ صحیح پالیسی بنانے میں سوائے قوتِ فیصلہ کے کچھ خرچ نہیں ہوتا، الٹا حکومت کا خزانہ بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔
پھر شرح سود صفر تک گرنے سے محض بیمار کارخانے ہی صحت مند نہیں ہوں گے، صحت مند کارخانے چھلانگیں لگانے لگیں گے اور پیداوار بڑھانے کی بھرپور کوششیں کریں گے، مسابقت کے تقاضے نت نئے کارخانے وجود میں لائیں گے اور پھر محض نئی صنعتیں اور نئی ٹیکنالوجی ہی میسر نہیں آئے گی، زراعت پیشہ لوگ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل لگائیں گے کیونکہ سرمایہ بغیر سود کے میسر ہے۔ متوسط لوگ پاور لوم قسم کے چھوٹے چھوٹے کارخانے لگائیں گے، غریب لوگ چھوٹے چھوٹے مرغی خانے یا ایک دو بھینس خرید کر اپنی روزی پیدا کرلیں گے اور جو اس قابل بھی نہیں، وہ ان ملازمتوں کی طرح رجوع کرسکیں گے جو سرمایہ کاری میں اضافہ کی وجہ سے پیدا ہوجائیں گی۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک طرف بےروزگاری صفر کی سطح تک اتر جائے گی، دوسری طرف ہر سمت سے قومی دولت میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا اور اس مسلسل اضافے کا ایک حصہ حکومت کے خزانے تک پہنچ کر اسے بھرنا شروع کردے گا۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے وہ ٹنوں سونا میسر آسکتا ہے جس سے تعلیم (اور بہت سی چیزوں) کی نتیجہ خیز اصلاح اور توسیع دونوں کا راستہ کھل جاتا ہے۔
(شیخ محمود احمد کی ’سود کی متبادل اساس‘ سے اقتباس)
پسِ تحریر: نومبر 1977ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کی متبادل اساس کا فیصلہ کرنے کے لئے ماہرینِ معاشیات اور ممتاز بنک کاروں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا تھا۔ شیخ محمود احمد ایک ممتاز ماہرِ معاشیات کی حیثیت سے اس پینل کے رکن تھے اور آپ نے فروری 1980ء میں پینل کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر مارچ 1980ء میں ایک جامع اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا جو بعدازاں ’سود کی متبادل اساس‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس اختلافی نوٹ کو بالغ نظر اور سنجیدہ فکر حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی، تاہم اس میں پیش کردہ سفارشات کو پاکستان میں مروج سودی نظام کے خاتمے کے لئے سرکاری سطح پر استعمال کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی۔
ایک چھوٹی سی مثال سے شاید بات واضح ہوجائے، آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ملک کے تمام بیمار کارخانے صحت مند ہوجاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کا بیلنس شیٹ اٹھا کر دیکھیے تو ایک قدرِ مشترک جو ہر بیمار کارخانے میں نظر آئے گی، یہ ہے کہ کارخانے پر سود کا بوجھ اس کی مجموعی آمدنی سے کہیں زیادہ ہے۔ اب نقصان اٹھا کر کارخانہ چلانا کسی کے بس میں نہیں ہوتا، لہٰذا کارخانہ بند ہوجاتا ہے اور بیمار کارخانہ کہلاتا ہے۔ ان بیمار کارخانوں میں ملک کی مجموعی صنعتی سرمایہ کاری کا ایک چوتھائی لگا ہوا ہے۔ آج شرح سود صفر پر لے آئیے تو ان میں سے ہر کارخانہ صحت مند کارخانہ بن جاتا ہے اور ہزار ہا لوگوں کی روزی اور حکومت کی آمدنی میں بیش بہا اضافے کی صورت نکل آتی ہے۔ صحیح پالیسی بنانے میں سوائے قوتِ فیصلہ کے کچھ خرچ نہیں ہوتا، الٹا حکومت کا خزانہ بھرنا شروع ہوجاتا ہے۔
پھر شرح سود صفر تک گرنے سے محض بیمار کارخانے ہی صحت مند نہیں ہوں گے، صحت مند کارخانے چھلانگیں لگانے لگیں گے اور پیداوار بڑھانے کی بھرپور کوششیں کریں گے، مسابقت کے تقاضے نت نئے کارخانے وجود میں لائیں گے اور پھر محض نئی صنعتیں اور نئی ٹیکنالوجی ہی میسر نہیں آئے گی، زراعت پیشہ لوگ ٹریکٹر اور ٹیوب ویل لگائیں گے کیونکہ سرمایہ بغیر سود کے میسر ہے۔ متوسط لوگ پاور لوم قسم کے چھوٹے چھوٹے کارخانے لگائیں گے، غریب لوگ چھوٹے چھوٹے مرغی خانے یا ایک دو بھینس خرید کر اپنی روزی پیدا کرلیں گے اور جو اس قابل بھی نہیں، وہ ان ملازمتوں کی طرح رجوع کرسکیں گے جو سرمایہ کاری میں اضافہ کی وجہ سے پیدا ہوجائیں گی۔ ان سب کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ایک طرف بےروزگاری صفر کی سطح تک اتر جائے گی، دوسری طرف ہر سمت سے قومی دولت میں اضافہ ہونا شروع ہوجائے گا اور اس مسلسل اضافے کا ایک حصہ حکومت کے خزانے تک پہنچ کر اسے بھرنا شروع کردے گا۔ یہ واحد طریقہ ہے جس سے وہ ٹنوں سونا میسر آسکتا ہے جس سے تعلیم (اور بہت سی چیزوں) کی نتیجہ خیز اصلاح اور توسیع دونوں کا راستہ کھل جاتا ہے۔
(شیخ محمود احمد کی ’سود کی متبادل اساس‘ سے اقتباس)
پسِ تحریر: نومبر 1977ء میں اسلامی نظریاتی کونسل نے سود کی متبادل اساس کا فیصلہ کرنے کے لئے ماہرینِ معاشیات اور ممتاز بنک کاروں پر مشتمل ایک پینل تشکیل دیا تھا۔ شیخ محمود احمد ایک ممتاز ماہرِ معاشیات کی حیثیت سے اس پینل کے رکن تھے اور آپ نے فروری 1980ء میں پینل کی جانب سے پیش کردہ رپورٹ پر مارچ 1980ء میں ایک جامع اختلافی نوٹ تحریر کیا تھا جو بعدازاں ’سود کی متبادل اساس‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہوا۔ اس اختلافی نوٹ کو بالغ نظر اور سنجیدہ فکر حلقوں میں بہت پذیرائی حاصل ہوئی، تاہم اس میں پیش کردہ سفارشات کو پاکستان میں مروج سودی نظام کے خاتمے کے لئے سرکاری سطح پر استعمال کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کی گئی۔