فارسی شاعری علی اے ہمائے رحمت تو چہ آیتی خدا را - محمد حسین شہریار

حسان خان

لائبریرین
علی اے ہمائے رحمت تو چہ آیتی خدا را
کہ بہ ماسوا فکندی ہمہ سایۂ ہما را
(اے علی، اے ہمائے رحمت، تو خدا کی کیسی نشانی ہے کہ تیرے ہما کے سائے نے پوری کائنات کو ڈھکا ہوا ہے۔)
دل اگر خدا شناسی ہمہ در رخِ علی بیں
بہ علی شناختم من بہ خدا قسم خدا را
(اے دل! اگر تو خدا شناس ہے تو ہر چیز کا رخِ علی میں مشاہدہ کر، کیونکہ خدا کی قسم میں نے خدا کو بھی علی سے ہی پہچانا ہے۔)
بہ خدا کہ در دو عالم اثر از فنا نمانَد
چو علی گرفتہ باشد سرچشمۂ بقا را
(خدا کی قسم! اگر علی سرچشمۂ بقا کو ہاتھوں میں تھام لے تو دونوں جہانوں میں فنا کا ذرہ بھی باقی نہ رہے۔)
مگر اے سحابِ رحمت تو بباری ارنہ دوزخ
بہ شرارِ قہر سوزد ہمہ جانِ ماسوا را
(اے سحاب رحمت! امید ہے کہ تو اپنی رحمت کو ہم پر برساتا رہے گا کیونکہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو دوزخ اپنے قہر کی چنگاری سے ماسوا کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔)
برو اے گدائے مسکیں درِ خانۂ علی زن
کہ نگینِ پادشاہی دہد از کرم گدا را
(اے گدائے مسکیں! جاؤ اور علی کا گھر کا دروازہ کھٹکٹاؤ، کیونکہ وہ اپنے کرم سے گدا کو بادشاہی انگوٹھی سونپ دیتا ہے۔ یہاں شاید اس روایت کی طرف تلمیح ہے جس میں حضرت علی نے رکوع کے بیچ اپنی انگوٹھی اتار کر سائل کو سونپ دی تھی۔)
بجز از علی کہ گوید بہ پسر کہ قاتلِ من
چو اسیرِ تست اکنوں، بہ اسیر کن مدارا
(اس عالم میں علی کے سوا ایسا کون گزرا ہے کہ جو اپنے بیٹے کو یہ کہے کہ چونکہ میرا قاتل اب تمہارا اسیر ہے، اُس سے نیک برتاؤ کرو۔ حضرت علی نے امام حسن کو اپنے آخری وقت وصیت کی تھی کہ ابنِ ملجم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔)
بجز از علی کہ آرد پسرے ابوالعجائب
کہ عَلَم کند بہ عالم شہدائے کربلا را
(علی کے علاوہ کس نے ایسا عجیب بیٹا جنا ہے کہ جو دنیا کے سامنے شہدائے کربلا جیسوں کا نام درخشاں کرے؟)
چو بہ دوست عہد بندد زِ میانِ پاکبازاں
چو علی کہ می تواند کہ بسر بُرَد وفا را
(جملہ پاکبازوں میں ایسا کون علی کی طرح ہے کہ جب اپنے دوست سے وہ عہد باندھے تو اُس کو انتہا تک لے جا کر وفا کرے؟ یہ شبِ ہجرت کی طرف تلمیح ہے جب رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا تھا۔ بہ سر بُردن کا محاورتاً مطلب تو وعدہ پورا کرنا، انتہا تک لے جانا ہے، لیکن اس کے لفظی مطلب یعنی سر تک لے جانا سے بھی ایک لطیف اشارہ ملتا ہے، کیونکہ حضرت علی کو ابنِ ملجم نے پیشانی پر ضرب ماری تھی۔)
نہ خدا توانمش خواند، نہ بشر توانمش گفت
متحیرم چہ نامم شہِ ملکِ لافتیٰ را
(نہ انہیں خدا پکار سکتا ہوں، نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں؛ میں حیراں ہوں کہ پھر میں ملکِ لافتیٰ کے بادشاہ (حضرت علی) کو کیا نام دوں؟
بدو چشمِ خوں فشانم، ہلہ اے نسیمِ رحمت
کہ زِ کوئے او غبارے بہ من آر توتیا را
(ہاں اے نسیم رحمت! میری دو خوں فشاں آنکھوں کی جانب توجہ کرو، اور اُس کی گلی کی خاک سے میری اِن آنکھوں کے لیے بھی سرما لے آؤ۔)
بہ امیدِ آں کہ شاید برسد بہ خاکِ پایت
چہ پیامہا سپردم ہمہ سوزِ دل صبا را
(میں نے کتنے ہی اپنے جلتے دل سے کہے پیغامات صرف اس امید پر صبا کے سپرد کر دیے ہیں کہ شاید وہ کسی روز آپ کے قدموں کی خاک پر پہنچ کر پذیرائی کا شرف پا جائیں۔)
چو توئی قضاے گرداں، بہ دعائے مستمنداں
کہ زِ جانِ ما بگرداں رہِ آفتِ قضا را
(اے علی! چونکہ تو ہی قضا کو پلٹانے والا ہے اس لیے تجھے دردمندوں کی دعا کا واسطہ دیتا ہوں کہ ٖ میری جان پر سے بھی قضا کی آفت کو پلٹا دے۔)
چہ زنم چو نائے ہر دم زِ نوائے شوقِ او دم
کہ لسانِ غیب خوشتر بنوازد ایں نوا را
(میں ہر وقت بجنے والی بانسری کی طرح کیسے اُس کے اشتیاق میں حرف زنی کروں؟ کہ لسان الغیب حافظ شیرازی اس نغمہ سرائی میں مجھے سے بڑھ کر قادر ہے۔ یعنی اس طرح کے مطالب کی حافظ شیرازی زیادہ بہتر ادائیگی کر سکتے ہیں۔)
"ہمہ شب در ایں امیدم کہ نسیمِ صبحگاہی
بہ پیامِ آشناے بنوازد آشنا را"
(میں پوری رات اسی امید میں گزارتا ہوں کہ شاید صبح کی ہوا مجھ آشنا (شاعر) کو محبوب (حضرت علی) کے پیام سے نواز دے۔ یہ شعر حافظ شیرازی کا ہے۔)
زِ نوائے مرغِ یا حق بشنو کہ در دلِ شب
غمِ دل بہ دوست گفتن چہ خوشست شہریارا
(اے شہریار! خدا کا ذکر کرنے والے مرغ کی نوا سنو اور توجہ کرو کہ محبوبِ ازلی کو رات کی تاریکی میں غمِ دل سنانا کتنا مسرور کن ہوتا ہے۔)
(محمد حسین شہریار)
× محمد حسین شہریار (وفات: ۱۹۸۸ء) پچھلی صدی کے معروف ترین ایرانی شعراء میں سے ایک ہیں۔ ان کا وطن تبریز تھا اور یہ نسلاً آذربائجانی ترک تھے۔ انہوں نے فارسی اور ترکی دونوں میں شاعری کی ہے، اور دونوں زبانوں کا کلام ہی مرغوبِ خاص و عام ہے۔ شہریار تبریز کے مقبرۃ الشعراء میں مدفون ہیں۔​

"محو گشتم در علی، دیگر سخن کوتاہ باد!"​
(مرزا غالب)​
 
سبحان اللہ ! کیا خوب صورت اعٰلی کلام ہے ۔
ترجمے میں بھی خوب سلیقہ اور روانی ہے ۔
بے حد لطف آیا بھئی حسان میاں ۔۔جیتے رہیئے ۔
 

nazar haffi

محفلین
انہی اشعار کے متعلق دلچسپ واقعہ مشہور ہے ۔ وہ کچھ اسطرح سے ہے کہ ایک دن لمبے قد والا ایک شخص حضرت آیت اللہ مرعشی نجفی رحمة اللہ علیہ کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اور بعد از سلام و دعا حضرت آیة اللہ مرعشی اپنے مطالعے میں مشغول ہوجاتے ہیں چند لمحات گزرجانے کے بعد اس شخص کی جانب نگاہ کرتے ہیں چند سکینڈ اسکی طرف دیکھتے رہتے ہیں اور تعجّب خیز نگاہوں سے دیکھنے کے بعد حضرت آیة اللہ مرعشی اپنے مقام سے اٹھتے ہیں اور بھر پور تبسّم کے ساتھ کھڑے ہوکر مہمان عزیز کو گلے لگاتے ہیں اور خوش آمدید کہتے ہیں اور فرماتے ہیں: پیارے شہریار ! خوش آمدیدخوش آمدید! تہہ دل سے میرا خلوص قبول ہو اور مبارک ہو ۔ آقا شہریار حیرت اور تعجب کی کیفیت میں دست بوسی کاارادہ کرتے ہیں لیکن آیة اللہ اپنے ہاتھ پیچھے کی طرف کھینچ لیتے ہیں اور بعد میں مہمان کو زبردستی اپنے گلے لگالیتے ہیں اور مہمان کی پیشانی کا بوسہ لینے شروع کردیتے ہیں پھر اپنی دائیں طرف بٹھا تے ہیں خود حضرت آیة اللہ مؤدبانہ دوزانو ہو کر بیٹھ جاتے ہیں نو وارد مہمان حضرت آیة اللہ سے گفتگو کا آغاز کرتے ہیں کہ حضرت عالی کی طرف سے پیغام ملتے ہی پہلی فرصت میں تبریز سے قم کی طرف روانہ ہوا ہوں ۔ لیکن راستے میں جو سوال میرے ذہن میں بار بار اٹھتا رہا ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عالی مجھے کیسے جانتے ہیں؟ہم دونوں نے کبھی ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں ہے اور ہمارے باہمی تعلقات بھی نہیں ہیں۔
حضرت آیة اللہ العظمیٰ مرعشی رحمة اللہ علیہ مہمان کی طرف چائے بڑھاتے ہوئے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس کوئی غزل ہے جسکا مطلع اسطرح سے ہے کہ

علی ای ہمایٔ رحمت توچہ آیتی خدارا
استاد شہریار متعجب اور حیرت زدہ ہوکر اثبات میں جواب دیتے ہیں لیکن فرماتے ہیں: آج تک میں نے یہ غزل کسی کو نہیں سنائی اور نہ ہی ان اشعار کے بارے میں کسی سے تبادلۂ خیال ہواہے۔ میرے خیال میں یہ اشعار خدا اور میرے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ حضرت آیة اللہ مرعشی نے فرمایا: مجھے دقیقاً بتائیں کہ آپ نے ان اشعار کو کب اور کس وقت ضبط تحریر میں لائے ہیں ؟ استاد شہریار اپنے سر کونیچے کرتے ہیں اور خوب فکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں: آج سے ٹھیک ایک ہفتہ قبل آج ہی کی رات میں نے یہ اشعار کہے تھے اس رات پہلے میں نے وضو کیا اور شب کو تنہائی کے عالم میں شعر کہے اس رات میری حالت عجیب تھی میں مولائے کائنات امیر المؤ منین علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی محبت میں دیوانہ تھا اور عشق علی میں سرتا پا غرق تھا رات کو تقریباً ٣ بجے کے بعد میں نے اس غزل کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ۔ ان کلمات کو سننے کے بعد حضرت آیة اللہ مرعشی النجفی کی آنکھوں میں آنسو جاری ہوگئے اور سرمبارک کو ان کلمات کی تائید میں ہلاتے ہوئے فرمایا : ٹھیک ہے آپ بالکل سچ کہہ رہے ہیں یہ واقعہ اسی طرح ہے یہی وقت اور یہی رات تھی۔
استاد شہریارکی حیرت واستعجاب زیادہ ہوگیا اور مشتاقانہ پوچھنے لگے ۔ اس رات اور اس وقت کیا ہوا تھا؟واقعاً آپ کی بات نے مجھے پریشانی اور تعجب میں ڈال دیا ہے ۔
حضرت آیة اللہ مرعشی فرماتے ہیں: '' اس رات میں کافی دیر تک نہیں سویا اور بیدار تھا۔ نماز شب اور دعائے توسل کے بعد میں نے خداوند عالم سے عرض کیا ۔ بارالٰہا ! آج مجھے خواب میں اپنے عبد خاص سے ملا۔ میری آنکھ لگ گئی تو کیا دیکھتا
ہوں مسجد کوفہ کے کسی کونے میں بیٹھا ہوا ہوں ۔ حضرت علی علیہ السلام اپنی بلاغت اور عظمت کے ساتھ مسجد میں تشریف فرماہیں اور اصحاب کرام رضوان اللہ علیہم نے حلقہ کی صورت میں آنحضرت کو گھیرے میں لے رکھا ہے جیسے چاند کے ارد گرد ستاروں کا جھرمٹ ہوتا ہے ۔ ان اصحاب کو میں نہیں پہچانتا ۔ شاید سلمان ، ابوذر ، مقداد ، میثم تمار، مالک اشتر ، حجر بن عدی ، اور محمد ابن ابی بکر وغیرہ ہونگے۔ مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ کوئی جشن کا سماں ہے مولائے کائنات علی علیہ السلام دربان کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ: شعراء کو اندر بلایا جائے ۔ سب سے پہلے شعرائے عرب حاضر ہوتے ہیں مولائے متقیان علی علیہ السلام انکی طرف محبت بھرے انداز میں نظر کرم فرماتے ہیں۔ دوبارہ گویا ہوتے ہیں فارسی شعراء کو بلایا جائے ۔ فارسی شعراء حاضر ہوتے ہیں محتشم کاشانی اور دوسرے شعراء فارس کی طرف حضرت نگاہ فرماتے ہیں اور فرداً فرداً دیکھتے ہیں گویا کسی خاص فرد کی تلاش میں تھے لیکن وہاں موجود نہیں تھا تیسری بار مولائے کائنات دربان سے فرماتے ہیں میرے شہریار کو بلاؤ !اس وقت تم حاضر ہوتے ہوگئے۔
اس وقت تمہاری شکل وصورت کو میں نے پہلی بار دیکھا تھا اور آج رات جب میں نے تمہیں دیکھا تو فوراً پہچان لیا کہ تم وہی شہریار ہو۔ تم اپنی قدر وقیمت کو جان لو ! تم پر مولائے کائنات علی کی خاص نظر کرم ہے۔ اس واقعہ کو استاد شہریار نے سنا اور انکی آنکھوں سے آنسو ٹپکنا شروع ہوگئے۔ کافی دیر کے بعد فرط محبت سے رواں دواں آنسو تھم گئے تو پھر حضرت آیة اللہ مرعشی گویا ہوئے تم نہایت مؤدبانہ مولا امیر المؤ منین علیہ السلام کی خدمت میں موجود تھے مولائے کائنات نے تمہیں فرمایا: کہ شہریار! اپنے اشعار سناؤ ! تم نے اپنے اشعار کو پڑھنا شروع کیا جسکا مطلع یہ تھا
علی ای ھمایٔ رحمت تو چہ آیتی خدارا
ان جملات کو سنا تو شہریار کی آنکھیں ساون کی طرح برسنے لگیں ۔ حضرت آیة اللہ مرعشی نے خواہش کی کہ ان اشعار کو مجھے بھی سنائیں ۔ استاد شہریار نے اپنے اشعار کو پڑھنا شروع کیا

علی اے ھمایٔ رحمت توچہ آیتی خدارا
کہ بہ ماسوا فکندی ، ھمہ سایۂ ھمارا
 

حسان خان

لائبریرین
جی nazar haffi جناب، شہریار مرحوم کے اس قصیدے کے متعلق یہ روایت کافی مشہور ہے۔ خیر، اس روایت کی صحت کا فیصلہ تو قاری پر چھوڑتا ہوں، لیکن اتنا ضرور یقینی امر ہے کہ ایران میں اس قصیدے کو حضرت علی (ع) کی مدح میں کہا گیا مقبول ترین قصیدہ سمجھا جاتا ہے، اور ایرانی معاشرے میں لوگ اس قصیدے کو بہت عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ علاوہ بر ایں، شہریار کے سب سے مشہور اور جادداں ادبی فن پارے ہونے کا اعزاز بھی اسی قصیدے کو حاصل ہے اور اسی نے اُن کی شہرت کو دوام بخشا ہے۔

ویسے میرے لیے یہ بات بھی دلچسپی کی حامل ہے کہ فارسی زبان کا یہ نہایت خوبصورت قصیدہ ایک آذری کے ہنرمندانہ قلم کی تخلیق ہے۔
 
Top