حسان خان
لائبریرین
علی اے ہمائے رحمت تو چہ آیتی خدا را
کہ بہ ماسوا فکندی ہمہ سایۂ ہما را
(اے علی، اے ہمائے رحمت، تو خدا کی کیسی نشانی ہے کہ تیرے ہما کے سائے نے پوری کائنات کو ڈھکا ہوا ہے۔)
دل اگر خدا شناسی ہمہ در رخِ علی بیں
بہ علی شناختم من بہ خدا قسم خدا را
(اے دل! اگر تو خدا شناس ہے تو ہر چیز کا رخِ علی میں مشاہدہ کر، کیونکہ خدا کی قسم میں نے خدا کو بھی علی سے ہی پہچانا ہے۔)
بہ خدا کہ در دو عالم اثر از فنا نمانَد
چو علی گرفتہ باشد سرچشمۂ بقا را
(خدا کی قسم! اگر علی سرچشمۂ بقا کو ہاتھوں میں تھام لے تو دونوں جہانوں میں فنا کا ذرہ بھی باقی نہ رہے۔)
مگر اے سحابِ رحمت تو بباری ارنہ دوزخ
بہ شرارِ قہر سوزد ہمہ جانِ ماسوا را
(اے سحاب رحمت! امید ہے کہ تو اپنی رحمت کو ہم پر برساتا رہے گا کیونکہ اگر تو نے ایسا نہ کیا تو دوزخ اپنے قہر کی چنگاری سے ماسوا کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔)
برو اے گدائے مسکیں درِ خانۂ علی زن
کہ نگینِ پادشاہی دہد از کرم گدا را
(اے گدائے مسکیں! جاؤ اور علی کا گھر کا دروازہ کھٹکٹاؤ، کیونکہ وہ اپنے کرم سے گدا کو بادشاہی انگوٹھی سونپ دیتا ہے۔ یہاں شاید اس روایت کی طرف تلمیح ہے جس میں حضرت علی نے رکوع کے بیچ اپنی انگوٹھی اتار کر سائل کو سونپ دی تھی۔)
بجز از علی کہ گوید بہ پسر کہ قاتلِ من
چو اسیرِ تست اکنوں، بہ اسیر کن مدارا
(اس عالم میں علی کے سوا ایسا کون گزرا ہے کہ جو اپنے بیٹے کو یہ کہے کہ چونکہ میرا قاتل اب تمہارا اسیر ہے، اُس سے نیک برتاؤ کرو۔ حضرت علی نے امام حسن کو اپنے آخری وقت وصیت کی تھی کہ ابنِ ملجم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جائے۔)
بجز از علی کہ آرد پسرے ابوالعجائب
کہ عَلَم کند بہ عالم شہدائے کربلا را
(علی کے علاوہ کس نے ایسا عجیب بیٹا جنا ہے کہ جو دنیا کے سامنے شہدائے کربلا جیسوں کا نام درخشاں کرے؟)
چو بہ دوست عہد بندد زِ میانِ پاکبازاں
چو علی کہ می تواند کہ بسر بُرَد وفا را
(جملہ پاکبازوں میں ایسا کون علی کی طرح ہے کہ جب اپنے دوست سے وہ عہد باندھے تو اُس کو انتہا تک لے جا کر وفا کرے؟ یہ شبِ ہجرت کی طرف تلمیح ہے جب رسول اللہ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر سونے کا حکم دیا تھا۔ بہ سر بُردن کا محاورتاً مطلب تو وعدہ پورا کرنا، انتہا تک لے جانا ہے، لیکن اس کے لفظی مطلب یعنی سر تک لے جانا سے بھی ایک لطیف اشارہ ملتا ہے، کیونکہ حضرت علی کو ابنِ ملجم نے پیشانی پر ضرب ماری تھی۔)
نہ خدا توانمش خواند، نہ بشر توانمش گفت
متحیرم چہ نامم شہِ ملکِ لافتیٰ را
(نہ انہیں خدا پکار سکتا ہوں، نہ ہی بشر کہہ سکتا ہوں؛ میں حیراں ہوں کہ پھر میں ملکِ لافتیٰ کے بادشاہ (حضرت علی) کو کیا نام دوں؟
بدو چشمِ خوں فشانم، ہلہ اے نسیمِ رحمت
کہ زِ کوئے او غبارے بہ من آر توتیا را
(ہاں اے نسیم رحمت! میری دو خوں فشاں آنکھوں کی جانب توجہ کرو، اور اُس کی گلی کی خاک سے میری اِن آنکھوں کے لیے بھی سرما لے آؤ۔)
بہ امیدِ آں کہ شاید برسد بہ خاکِ پایت
چہ پیامہا سپردم ہمہ سوزِ دل صبا را
(میں نے کتنے ہی اپنے جلتے دل سے کہے پیغامات صرف اس امید پر صبا کے سپرد کر دیے ہیں کہ شاید وہ کسی روز آپ کے قدموں کی خاک پر پہنچ کر پذیرائی کا شرف پا جائیں۔)
چو توئی قضاے گرداں، بہ دعائے مستمنداں
کہ زِ جانِ ما بگرداں رہِ آفتِ قضا را
(اے علی! چونکہ تو ہی قضا کو پلٹانے والا ہے اس لیے تجھے دردمندوں کی دعا کا واسطہ دیتا ہوں کہ ٖ میری جان پر سے بھی قضا کی آفت کو پلٹا دے۔)
چہ زنم چو نائے ہر دم زِ نوائے شوقِ او دم
کہ لسانِ غیب خوشتر بنوازد ایں نوا را
(میں ہر وقت بجنے والی بانسری کی طرح کیسے اُس کے اشتیاق میں حرف زنی کروں؟ کہ لسان الغیب حافظ شیرازی اس نغمہ سرائی میں مجھے سے بڑھ کر قادر ہے۔ یعنی اس طرح کے مطالب کی حافظ شیرازی زیادہ بہتر ادائیگی کر سکتے ہیں۔)
"ہمہ شب در ایں امیدم کہ نسیمِ صبحگاہی
بہ پیامِ آشناے بنوازد آشنا را"
(میں پوری رات اسی امید میں گزارتا ہوں کہ شاید صبح کی ہوا مجھ آشنا (شاعر) کو محبوب (حضرت علی) کے پیام سے نواز دے۔ یہ شعر حافظ شیرازی کا ہے۔)
زِ نوائے مرغِ یا حق بشنو کہ در دلِ شب
غمِ دل بہ دوست گفتن چہ خوشست شہریارا
(اے شہریار! خدا کا ذکر کرنے والے مرغ کی نوا سنو اور توجہ کرو کہ محبوبِ ازلی کو رات کی تاریکی میں غمِ دل سنانا کتنا مسرور کن ہوتا ہے۔)
(محمد حسین شہریار)
× محمد حسین شہریار (وفات: ۱۹۸۸ء) پچھلی صدی کے معروف ترین ایرانی شعراء میں سے ایک ہیں۔ ان کا وطن تبریز تھا اور یہ نسلاً آذربائجانی ترک تھے۔ انہوں نے فارسی اور ترکی دونوں میں شاعری کی ہے، اور دونوں زبانوں کا کلام ہی مرغوبِ خاص و عام ہے۔ شہریار تبریز کے مقبرۃ الشعراء میں مدفون ہیں۔
"محو گشتم در علی، دیگر سخن کوتاہ باد!"
(مرزا غالب)