خرم شہزاد خرم
لائبریرین
ایک روز میں کسی کام سے لاہور گیا ہوا تھا۔ وہاں پر ایک جگہ خواجہ عبدالرحیم صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ باتوں باتوں میں انہوں ن بتایا کہ علامہ قبال کے دیرینہ اور وفادار ملازم علی بخش کو حکومت نے اس کی خدما کے سلسلے میں لائیپور میں ایک مربعہ زمین عطا کی ہے۔ وہ بچارا کئی چکر لگا چکا ہے لیکن اسے قبضہ نہیں ملتا، کیونکہ کچھ شریر لوگ اس پر ناجائز طور پر قابض ہیں۔ خواجہ صاحب نے فرمایا۔" جھنگ لائلپور کے بالکل قریب ہے۔ کیا تم علی بخش کی کچھ مدد نہیں کرسکتے؟"
میں نے فوراََ جواب دیا، " میں آج ہی اسے اپنی موٹر کار میں جھنگ لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔"
خواجہ صاحب مجھ "جاوید منزل" لے گئے اور علی بخش سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ " یہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔تم فوراََ تیار ہو کر ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ یہ بہت جلدتمہاری زمی کا قبضہ دلوادئیں گے۔"
علی بخش کسی قدر ہچکچایا، اور بولا، " سوچئے تو سہی میں زمین کا قبضہ لینے کے لئے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ قبضہ نہیں متا تو کھائے کڑھی۔لاہور سے جاتا ہوں تو جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔ جاوید بھی کیا کہے گا کہ بابا کن جھگڑوں میں پڑگیا"؟
لیکن خواجہ صاحب کے اصرار پر وہ میرے ساتھ ایک آدھ روز کے لئے جھنگ چلنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جب وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ جاتا ہے تو غالباََ اس کے دل میں سب سے بڑا وہم یہ ہے کہ شاہد اب میں بھی بہت سے دوسرے لوگں کی طرح علامہ اقبال کی باتین پوچھ پوچھ کر اس ک سر کھپاؤں گا۔ لیکن میں نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ میں خود علی بخش سے حضرت علامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزوہیں، تو یہ جو ہر خود بخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہوکے رہے گا۔
میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشانی کُن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاح کی کوئی بات نہیں کرتا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک سینما کے سامنے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر وہ بڑبڑانے لگا۔ " مسجدوں کے سامنے تو کبھی ایسا رش نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے۔"
ایک جگہ میں پان خریدنے کے لئے رکتا ہوں، تو علی بخش بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو پان پسند نہیں تھے۔"
پھر شاید میری دلجوئی کے لئے وہ مسکرا کر کہتا ہے۔" ہاں حقہ خوب پیتے تھے۔ اپنا اپنا شوق ہے پان کا ہو یا حقہ کا"!
شیخوپورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے ھے۔ یہاں پر ایک مسلمان تحصیلدار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکے مرید تھے۔ انہوں نے دعوت دیتھی۔ ڈاکٹر صاحب کو پلاؤ اور سیخی کباب بہت پسند تھے۔ آموں کا بھی بڑا شوق تھا۔ وفات سے کوئی چھ برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا تو کھانا پینا بہت کم ہوگیا۔"
اب علی بخش کا ذہن بڑی تیزیر سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا اتا ہے۔ ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے۔ جب تاک علی بخش کا یہ نشہ پورا نہیں ہوتا، غالباََ اسے زہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی "صاحب، جب ڈاکٹر صاحب نے دم دیا ہے، میں ان کے بالکل قریب تھا صبح سویرے میں نے انہیں فروٹ سالٹ پلایا اور کہا کہ اب آپ کی طبیعت بحال ہوجائے گی لیکن عین پانچ بج کر دس منٹ پر ان کی آنکھوں میں ایک تیز تیز نیلی نیلی سی چمک آئی، اور زبان سے اللہ ہی اللہ نکلا۔ میں نے لدی سے ان کا سراٹھاکر اپنے سین پر رکھ لیا اور انہیں جھنجھوڑنے لگا۔ لیکن وہ رخصت ہوگئے تھے۔"
کچھ عرصہ خاموشی طاری رہتی ہے۔
پھر علی بخش کا موڈ بدلنے کے لئےمیں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں۔" حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں"؟
علی بخش ہنس کر ٹالتا ہے۔ " میں تو ان پڑھ جاہل ہوں۔ مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل۔"
"میں نہیں مانتا۔ " میں نے اصرار کیا" آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگا۔"
" کبھی اے حکیکتِ منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت گنگنایا کرتے تھے۔"
" ڈاکٹر صاحب عام طور پر مجھے اپنے کمرے کے بالکل نزدیک سُلایا کرتے تھے۔ رات کو دو ڈھائی بجے دبے پاؤں اٹھتے تھے اور وضو کر کے جانماز پر جا بیٹھتے تھے۔ نماز پڑھ کر وہ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ فارغ ہو کر بستر پر آلیٹتے تھے۔ میں حقہ تازہ کر کے لا رکھتا تھا۔ کبھی ایک کھبی دوکش لگاتے تھے۔ کبھی آنکھ لگ جاتی تھی۔ بس صبح تک اسی طرح کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔"
میرا ڈرائیور احتراماََ علی بخش کو سگریٹ پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ غالباََ حجاب میں آکر اسے قبول نہیں کرتا۔
" ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی۔ کبھی کبھی رات کو سوتے سوتے انہیں ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور وہ مجھے آواز دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ ایسے موقعہ پر میں فوراََ ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ کہتے تھے بس اور میں دبانا چھوڑ دیتا تھا۔ اسی وجی سے وہ مجھے اپنے نزدیک سلایا کرتے تھے۔"
ہر چند میرا دل چاہتا ہے کہ میں علی بخش سے اس واردات کے متعلق کچھ مزید استفسار کروں لیکن میں اس کے ذہنی ربط کو توڑنے سے ڈتا ہوں۔
"ڈاکٹر صاحب بڑے دریش آدمی تھے۔ ھر کے خرچ کا حسب کتاب میرے پاس رہتا تھا۔ میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا۔ ان کا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہوجاتے تھے۔ کہا کرتے تھے، علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہے۔ خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے ہ رہا کرو۔ اب اسی مربعہ کے ٹنٹنے کو دیکھ لیجئے لائپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب، مال افسر صاحب اور سارا عملہ میری بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بڑے اخلاق سے مجھے اپنے برابر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔ ایک روز بازار میں ایک پولیس انسپکٹر نے مھے پہچھان لیا اور مجھے گلے لگا کر دیر تک روتا رہا۔ یہ ساری عزت ڈاکٹر صاحب کی برکت سے ہے۔ مربعہ کی بھاگ دوڑ میں میرے ر کچھ قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔ لیکن میں اس کام کے لئے بار بار لاہور کیسے چھوڑوں۔ جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔"
"سنُا ہے اپریل میں جاوید چند مہینوں کے لئے ولایت سے لاہور آئے گا۔ جب وہ چھوٹا سا تھا، ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اللہ کے کرم سے اب بڑا ہو شیار ہو گیا ہے۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اور منیرہ بی بی بہت کم عمر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نرس کے لئے اشتہار دیا۔ بے شمار جواب آئے۔ ایک بی بی نے تو یہ لکھ دیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ادی کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی قدر پرشان ہوئے اور کہنے لگے علی بخش دیکھو تو سہی اس خاتوں نے کیا لکھا ہے۔ میں بڈھا آدمی ہوں۔ اب شادی کیا کروں گا۔ لیکن پھر علی گڑھ سے ایک جرمن لیڈی آگئی۔"
علی بخش کا تخیل ڑی تیز رفتاری سے ماضی کے دھنلکوں میں پرواز کر رہا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے اپنے ڈاکٹر صاحب یا جاوید ما منیرہ بی بی کی کوئی نہ کوئی خوشگوار یاد آتی رہتی ہے۔ جھنگ پہنچ کر میں اسے ایک رات اپنے ہاں رکھتا ہوں۔ دوسری صبح اپنے ایک نہات قابل اور فرض شناس مجسٹر یٹ کپتان مہابت خان کے سپردکرتا ہوں۔
کپتان مہابت خان علی بخش کو ایک نہایت مقدس تابوت کی طرح عیعت سے چھوکر اپنے سینے سے لگالیتا ہے اور اعلا کرتا ہے کہ وہ علی بخش کو آج ہی اپنے ساتھ لائلپور لے جائے گا اور اس کی زمیں کا قبضہ دلا کر ہی واپس لوٹے گا۔ " حد ہوگئی۔ اگر ہم یہ معمولی سا کام ھی نہین کرسکتے تو ہم پر لعنت ہے۔"
شہاب نامہ ، ڈپٹی کمشنر کی ڈائیڑی، علی بخش " اقتباس
میں نے فوراََ جواب دیا، " میں آج ہی اسے اپنی موٹر کار میں جھنگ لے جاؤں گا اور کسی نہ کسی طرح اس کو زمین کا قبضہ دلوا کے چھوڑوں گا۔"
خواجہ صاحب مجھ "جاوید منزل" لے گئے اور علی بخش سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہا۔ " یہ جھنگ کے ڈپٹی کمشنر ہیں۔تم فوراََ تیار ہو کر ان کے ساتھ گاڑی میں بیٹھ جاؤ۔ یہ بہت جلدتمہاری زمی کا قبضہ دلوادئیں گے۔"
علی بخش کسی قدر ہچکچایا، اور بولا، " سوچئے تو سہی میں زمین کا قبضہ لینے کے لئے کب تک مارا مارا پھروں گا؟ قبضہ نہیں متا تو کھائے کڑھی۔لاہور سے جاتا ہوں تو جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔ جاوید بھی کیا کہے گا کہ بابا کن جھگڑوں میں پڑگیا"؟
لیکن خواجہ صاحب کے اصرار پر وہ میرے ساتھ ایک آدھ روز کے لئے جھنگ چلنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ جب وہ میرے ساتھ کار میں بیٹھ جاتا ہے تو غالباََ اس کے دل میں سب سے بڑا وہم یہ ہے کہ شاہد اب میں بھی بہت سے دوسرے لوگں کی طرح علامہ اقبال کی باتین پوچھ پوچھ کر اس ک سر کھپاؤں گا۔ لیکن میں نے بھی عزم کر رکھا ہے کہ میں خود علی بخش سے حضرت علامہ کے بارے میں کوئی سوال نہیں کروں گا۔ اگر واقعی وہ علی بخش کی زندگی کا ایک جزوہیں، تو یہ جو ہر خود بخود عشق اور مشک کی طرح ظاہر ہوکے رہے گا۔
میری توقع پوری ہوتی ہے اور تھوڑی سی پریشانی کُن خاموشی کے بعد علی بخش مجھے یوں گھورنے لگتا ہے کہ یہ عجیب شخص ہے جو ڈاکٹر صاح کی کوئی بات نہیں کرتا۔ آخر اس سے رہا نہ گیا اور ایک سینما کے سامنے بھیڑ بھاڑ دیکھ کر وہ بڑبڑانے لگا۔ " مسجدوں کے سامنے تو کبھی ایسا رش نظر نہیں آتا۔ ڈاکٹر صاحب بھی یہی کہا کرتے تھے۔"
ایک جگہ میں پان خریدنے کے لئے رکتا ہوں، تو علی بخش بے ساختہ کہہ اٹھتا ہے، ڈاکٹر صاحب کو پان پسند نہیں تھے۔"
پھر شاید میری دلجوئی کے لئے وہ مسکرا کر کہتا ہے۔" ہاں حقہ خوب پیتے تھے۔ اپنا اپنا شوق ہے پان کا ہو یا حقہ کا"!
شیخوپورہ سے گزرتے ہوئے علی بخش کو یاد آتا ہے کہ ڈاکٹر صاحب ایک بار یہاں بھی آئے ھے۔ یہاں پر ایک مسلمان تحصیلدار تھے جو ڈاکٹر صاحب کے پکے مرید تھے۔ انہوں نے دعوت دیتھی۔ ڈاکٹر صاحب کو پلاؤ اور سیخی کباب بہت پسند تھے۔ آموں کا بھی بڑا شوق تھا۔ وفات سے کوئی چھ برس پہلے جب ان کا گلا پہلی بار بیٹھا تو کھانا پینا بہت کم ہوگیا۔"
اب علی بخش کا ذہن بڑی تیزیر سے اپنے مرکز کے گرد گھوم رہا ہے۔ اور وہ بڑی سادگی سے ڈاکٹر صاحب کی باتیں سناتا اتا ہے۔ ان باتوں میں قصوں اور کہانیوں کا رنگ نہیں بلکہ ایک نشے کی سی کیفیت ہے۔ جب تاک علی بخش کا یہ نشہ پورا نہیں ہوتا، غالباََ اسے زہنی اور روحانی تسکین نہیں ملتی "صاحب، جب ڈاکٹر صاحب نے دم دیا ہے، میں ان کے بالکل قریب تھا صبح سویرے میں نے انہیں فروٹ سالٹ پلایا اور کہا کہ اب آپ کی طبیعت بحال ہوجائے گی لیکن عین پانچ بج کر دس منٹ پر ان کی آنکھوں میں ایک تیز تیز نیلی نیلی سی چمک آئی، اور زبان سے اللہ ہی اللہ نکلا۔ میں نے لدی سے ان کا سراٹھاکر اپنے سین پر رکھ لیا اور انہیں جھنجھوڑنے لگا۔ لیکن وہ رخصت ہوگئے تھے۔"
کچھ عرصہ خاموشی طاری رہتی ہے۔
پھر علی بخش کا موڈ بدلنے کے لئےمیں بھی اس سے ایک سوال کر ہی بیٹھتا ہوں۔" حاجی صاحب کیا آپ کو ڈاکٹر صاحب کے کچھ شعر یاد ہیں"؟
علی بخش ہنس کر ٹالتا ہے۔ " میں تو ان پڑھ جاہل ہوں۔ مجھے ان باتوں کی بھلا کیا عقل۔"
"میں نہیں مانتا۔ " میں نے اصرار کیا" آپ کو ضرور کچھ یاد ہوگا۔"
" کبھی اے حکیکتِ منتجر والا کچھ کچھ یاد ہے۔ ڈاکٹر صاحب اس کو خود بھی بہت گنگنایا کرتے تھے۔"
" ڈاکٹر صاحب عام طور پر مجھے اپنے کمرے کے بالکل نزدیک سُلایا کرتے تھے۔ رات کو دو ڈھائی بجے دبے پاؤں اٹھتے تھے اور وضو کر کے جانماز پر جا بیٹھتے تھے۔ نماز پڑھ کر وہ دیر تک سجدے میں پڑے رہتے تھے۔ فارغ ہو کر بستر پر آلیٹتے تھے۔ میں حقہ تازہ کر کے لا رکھتا تھا۔ کبھی ایک کھبی دوکش لگاتے تھے۔ کبھی آنکھ لگ جاتی تھی۔ بس صبح تک اسی طرح کروٹیں بدلتے رہتے تھے۔"
میرا ڈرائیور احتراماََ علی بخش کو سگریٹ پیش کرتا ہے۔ لیکن وہ غالباََ حجاب میں آکر اسے قبول نہیں کرتا۔
" ڈاکٹر صاحب میں ایک عجیب بات تھی۔ کبھی کبھی رات کو سوتے سوتے انہیں ایک جھٹکا سا لگتا تھا اور وہ مجھے آواز دیتے تھے۔ انہوں نے مجھے ہدایت کر رکھی تھی کہ ایسے موقعہ پر میں فوراََ ان کی گردن کی پچھلی رگوں اور پٹھوں کو زور زور سے دبایا کروں۔ تھوڑی دیر کے بعد وہ کہتے تھے بس اور میں دبانا چھوڑ دیتا تھا۔ اسی وجی سے وہ مجھے اپنے نزدیک سلایا کرتے تھے۔"
ہر چند میرا دل چاہتا ہے کہ میں علی بخش سے اس واردات کے متعلق کچھ مزید استفسار کروں لیکن میں اس کے ذہنی ربط کو توڑنے سے ڈتا ہوں۔
"ڈاکٹر صاحب بڑے دریش آدمی تھے۔ ھر کے خرچ کا حسب کتاب میرے پاس رہتا تھا۔ میں بھی بڑی کفایت سے کام لیتا تھا۔ ان کا پیسہ ضائع کرنے سے مجھے بڑی تکلیف ہوتی تھی۔ لیکن ڈاکٹر صاحب ناراض ہوجاتے تھے۔ کہا کرتے تھے، علی بخش انسان کو ہمیشہ وقت کی ضرورت کے مطابق چلنا چاہے۔ خواہ مخواہ ایسے ہی بھوکے ہ رہا کرو۔ اب اسی مربعہ کے ٹنٹنے کو دیکھ لیجئے لائپور کے ڈپٹی کمشنر صاحب، مال افسر صاحب اور سارا عملہ میری بڑی آؤ بھگت کرتے ہیں۔ بڑے اخلاق سے مجھے اپنے برابر کرسی پر بٹھاتے ہیں۔ ایک روز بازار میں ایک پولیس انسپکٹر نے مھے پہچھان لیا اور مجھے گلے لگا کر دیر تک روتا رہا۔ یہ ساری عزت ڈاکٹر صاحب کی برکت سے ہے۔ مربعہ کی بھاگ دوڑ میں میرے ر کچھ قرضہ بھی چڑھ گیا ہے۔ لیکن میں اس کام کے لئے بار بار لاہور کیسے چھوڑوں۔ جاوید کا نقصان ہوتا ہے۔"
"سنُا ہے اپریل میں جاوید چند مہینوں کے لئے ولایت سے لاہور آئے گا۔ جب وہ چھوٹا سا تھا، ہر وقت میرے ساتھ ساتھ رہتا تھا۔ اللہ کے کرم سے اب بڑا ہو شیار ہو گیا ہے۔ جب اس کی والدہ کا انتقال ہوا تو وہ اور منیرہ بی بی بہت کم عمر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نرس کے لئے اشتہار دیا۔ بے شمار جواب آئے۔ ایک بی بی نے تو یہ لکھ دیا کہ وہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ ادی کرنے کے لئے بھی تیار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کسی قدر پرشان ہوئے اور کہنے لگے علی بخش دیکھو تو سہی اس خاتوں نے کیا لکھا ہے۔ میں بڈھا آدمی ہوں۔ اب شادی کیا کروں گا۔ لیکن پھر علی گڑھ سے ایک جرمن لیڈی آگئی۔"
علی بخش کا تخیل ڑی تیز رفتاری سے ماضی کے دھنلکوں میں پرواز کر رہا ہے۔ زندگی کے ہر موڑ پر اسے اپنے ڈاکٹر صاحب یا جاوید ما منیرہ بی بی کی کوئی نہ کوئی خوشگوار یاد آتی رہتی ہے۔ جھنگ پہنچ کر میں اسے ایک رات اپنے ہاں رکھتا ہوں۔ دوسری صبح اپنے ایک نہات قابل اور فرض شناس مجسٹر یٹ کپتان مہابت خان کے سپردکرتا ہوں۔
کپتان مہابت خان علی بخش کو ایک نہایت مقدس تابوت کی طرح عیعت سے چھوکر اپنے سینے سے لگالیتا ہے اور اعلا کرتا ہے کہ وہ علی بخش کو آج ہی اپنے ساتھ لائلپور لے جائے گا اور اس کی زمیں کا قبضہ دلا کر ہی واپس لوٹے گا۔ " حد ہوگئی۔ اگر ہم یہ معمولی سا کام ھی نہین کرسکتے تو ہم پر لعنت ہے۔"
شہاب نامہ ، ڈپٹی کمشنر کی ڈائیڑی، علی بخش " اقتباس