علی - جوش ملیح آبادی

حسان خان

لائبریرین
ہزاروں ماہ و سال کے مسلسل تجربوں کے بعد، یہ کلیہ قائم کیا گیا ہے کہ علم اور شجاعت، یہ دو ایسے اضداد ہیں، جو کبھی ایک ذات میں جمع نہیں ہو سکے۔ جس ہات میں تلوار ہوتی ہے، وہ قلم کو اپنی انگلیوں کی گرفت میں نہیں لا سکتا، اور جس ہات میں قلم ہوتا ہے، وہ تلوار نہیں اٹھا سکتا۔ لیکن، انسانی تاریخ میں، علی کا ہات، وہ تنہا جامعِ اضداد ہات تھا، جو تلوار اور قلم، دونوں کو، مساوی روانی کے ساتھ، چلا سکتا تھا۔

وہ ادیب، شاعر اور مفکر تھے، اور اسی کے دوش بدوش، عدیم النظیر سپاہی بھی۔۔ وہ صفحۂ قرطاس پر مجسم کلکِ گوہر بار اور میدانِ کارزار میں سراپا شمشیرِ آب دار تھے۔

وہ اس کی پروا نہیں کرتے تھے کہ موت ان پر گرے، یا وہ موت پر۔ ان دونوں کو وہ مساوی طور پر محبوب سمجھتے تھے۔ اس لیے کہ ان کی نگاہوں نے موت کی پیشانی پر حیاتِ ابدی کا جھومر دیکھ لیا تھا۔ اس کے علاوہ ان کو ایک ایسی جواں بختی و برکت بھی حاصل تھی، جس سے اس دور کا کوئی انسان بہرہ ور نہیں ہوا تھا، جس نے ان کو اپنے تمام معاصرین پر وہ فوقیت بخش دی تھی، جو آفتاب کو ذرات پر حاصل ہے۔ اور وہ فوقیت یہ تھی کہ انہوں نے جو چہرہ سب سے پہلے، دیکھنے کی طرح، دیکھا وہ محمد کا چہرا تھا، اور انہوں نے جو آواز، سب سے پہلے، سننے کی طرح، سنی وہ محمد کی آواز تھی۔

محمد نے ان کو گودوں میں پالا، اپنی شخصیت کے سانچے میں ڈھالا، اپنے سائے میں پروان چڑھایا، اور وہ ان کے وجود میں اس طرح جذب ہو گئے کہ علی کو، اپنے انفاس سے، بوئے محمد آنے لگی جس کا نتیجہ نکلا کہ علی، حق پر اس مضبوطی سے قائم ہو گئے کہ وہ حق کا جسم، حق کی جان، حق کا اعلان، اور حق کی آواز بن گئے اور یہاں تک کہ حق کو علی اور علی کو حق سے پہچانا جاتا تھا، اور چونکہ بہر آن و بہر نفس حق پر قائم رہنا ایک بہت بڑا خطرناک مرحلہ ہے، اس لیے ان کی زندگی کبھی پنپ نہیں سکی۔۔۔ دنیا والے ان کی شدت حق پرستی کو برداشت نہیں کر سکے۔


علی کی حق پرستی کی تاب نہ لا کر، مسلمانوں کی ایک جماعتِ کثیر نے ان سے منہ پھیر لیا تھا۔ اور یہاں تک کہ انہیں، آخرکار، یہ کہنا پڑا تھا کہ دنیا نے مجھ کو ذلیل کر دیا، ذلیل کر دیا، ذلیل کر دیا، اور اس قدر کہ میرا اور معاویہ کا تقابل کیا جانے لگا۔

علی کی زندگی، اس کرۂ ارض کے تمام عظیم انسانوں کے مانند، محرومی و ناکامی کے سوا، انہیں کوئی اور چیز نہیں دے سکی۔ لیکن جب انہیں قتل کر دیا گیا تو ان کی موت نے، ان کی قبر پر وہ چراغِ عظمت جلا دیا، جس سے ان کی زندگی کو محروم کر دیا گیا تھا۔

ان کے کام گار حریف، اپنے تمام کروفر کے ساتھ وقت کے سمندر میں ڈوب چکے ہیں، لیکن ان کی زندگی کی تمام ناکامیوں کے باوجود، ان کا نام، تاریخِ انسانیت کی پیشانی پر آج تک دمک رہا ہے۔ اور وہی لوگ، جنہوں نے ان کی طرف سے منہ موڑ لیے تھے، ان کی موت کے بعد، جب کسی بلا میں گرفتار ہو جاتے ہیں، تو 'یا علی' کے نعرے لگانے لگتے ہیں۔

اے علی، شرافتِ انسانی، تیرے ان دو اخلاقی معجزوں کو، قیامت تک فراموش نہیں کر سکے گی کہ جب تیرے حریف نے، تیرے منہ پر تھوک دیا تھا، تو نے اس کی جاں بخشی فرما دی تھی، اور موت کے وقت جب تیرے سامنے شربت کا پیالہ پیش کیا گیا تھا، تو نے یہ کہا تھا کہ جب تک میرے قاتل کو شربت نہیں پلایا جائے گا، میں نہیں پیوں گا۔

اے علی، اے میدانِ جنگ کے سورما رجز خواں، اے منبرِ امن کے شیریں سخن خطیب، اے ایوانِ عدل کے دیدہ ور قاضی، اے کشورِ سیف و قلم کے خدیوِ کج کلاہ، اے نانِ جویں کی بے پناہ طاقت کے مظہر، اے زندگی کے معتوب اے موت کے محبوب۔۔۔ اے، علت العل کے باب 'لاغفور' 'لارحمن' 'لاقہر' اور 'اِلّا ہو' کی سی معنی خیز و خیال انگیز بات کہہ کر، خاموش ہو جانے والے مفکر۔۔۔ سیف و قلم کا مجرا قبول کر!

(جوش ملیح آبادی)
 

غدیر زھرا

لائبریرین
محمد نے ان کو گودوں میں پالا، اپنی شخصیت کے سانچے میں ڈھالا، اپنے سائے میں پروان چڑھایا، اور وہ ان کے وجود میں اس طرح جذب ہو گئے کہ علی کو، اپنے انفاس سے، بوئے محمد آنے لگی جس کا نتیجہ نکلا کہ علی، حق پر اس مضبوطی سے قائم ہو گئے کہ وہ حق کا جسم، حق کی جان، حق کا اعلان، اور حق کی آواز بن گئے اور یہاں تک کہ حق کو علی اور علی کو حق سے پہچانا جاتا تھا، اور چونکہ بہر آن و بہر نفس حق پر قائم رہنا ایک بہت بڑا خطرناک مرحلہ ہے، اس لیے ان کی زندگی کبھی پنپ نہیں سکی۔۔۔ دنیا والے ان کی شدت حق پرستی کو برداشت نہیں کر سکے۔


علی کی حق پرستی کی تاب نہ لا کر، مسلمانوں کی ایک جماعتِ کثیر نے ان سے منہ پھیر لیا تھا۔ اور یہاں تک کہ انہیں، آخرکار، یہ کہنا پڑا تھا کہ دنیا نے مجھ کو ذلیل کر دیا، ذلیل کر دیا، ذلیل کر دیا، اور اس قدر کہ میرا اور معاویہ کا تقابل کیا جانے لگا۔

زبردست ۔۔ جیتے رہیئے حسان بھیا ۔۔ بہت عمدہ شیئرنگ ۔۔
 
Top