بقول بی بی سی کے :
بریگیڈیئر علی نے باقاعدگی سے اپنے ان سینئر افسران کے ساتھ خط و کتابت شروع کر دی جو فوج میں کلیدی عہدوں پر فائز تھے۔ مضمون میں تو فرق ہوتا تھا لیکن ان خطوط تک رسائی رکھنے والے ایک سے زیادہ افسران نے بی بی سی کو بتایا کہ بریگیڈیئر علی کی ان تحریروں کا موضوع ایک ہی تھا ’خود انحصاری اور امریکی امداد سے نجات‘۔
ریگیڈیئر علی خان نے ان تحقیقی مقالات کے ذریعے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ پاکستانی فوج کا امریکی پر بڑھتا ہوا انحصار اس ادارے کی کمزوری اور درمیانی اور نچلے سطح کے افسران میں بے چینی اور بددلی کا باعث بن رہا ہے۔
بریگیڈیئر علی کی ماتحتی میں کام کرنے والے پاکستانی فوج کے ایک سینئر افسر نے جو اس وقت ایک کلیدی عہدے پر کام کر رہے ہیں، نے بی بی سی کو بتایا کہ انہوں نے جب دیکھا کہ اب کے دوست اور سابق افسر کے خطوط کا سلسلہ طول پکڑتا جا رہا ہے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اس سلسلے کے ختم ہونے کے خواہشمند ہیں، تو انہوں نے دبے لفظوں میں علی خان کو باور کروانے کی کوشش کی کہ وہ یہ کام نہ کریں۔
’لیکن علی نے ہماری باتوں کو زیادہ وزن نہیں دیا۔ ان کا خیال تھا کہ یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ساتھیوں کو صحیح مشورہ دیں اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔ جب ہم نے زیادہ اصرار کیا تو ان کی کہنا تھا کہ ان سے رائے مانگی جاتی ہے اس لیے وہ دیتے ہیں‘۔
اس افسر نے تاہم کہا کہ انہیں اور ان کے ساتھیوں کو معلوم تھا کہ بریگیڈیئر علی کی رائے نہ طلب کی جاتی ہے اور نہ ہی زیر غور لائی جاتی ہے۔
بات بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ علی خان نے صدر پاکستان آصف علی زرداری کو بھی انہی موضوعات پر ایک طویل مراسلہ لکھ دیا۔ اس میں بریگیڈیئر نے پانچ اقدامات تجویز کیے جن پر عمل کر کے، ان کے بقول پاکستان کو ایک خود انحصار مملکت بنایا جا سکتا تھا اور امریکی’غلامی‘ سے نجات حاصل کی جا سکتی تھی۔
اس میں اعلیٰ حکام کی مراعات میں کمی، جس میں ارکان پارلیمنٹ، سیاسی حکمران، بیورکریسی اور فوجی افسران کو دی جانے والی مراعات بھی شامل تھیں۔ مختلف مراحل سے ہوتا ہوا یہ خط بھی فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کی میز تک پہنچا۔